جس نے کھائی ہیں گاجریں

سیاست کے سینما ہال میں فلم ختم ہوئی۔ محبت بھی ختم، پھینٹی بھی ختم اور آئٹم سانگ بھی تمام ہوا۔ لیکن...


Tariq Mahmood Mian May 22, 2013
[email protected]

سیاست کے سینما ہال میں فلم ختم ہوئی۔ محبت بھی ختم، پھینٹی بھی ختم اور آئٹم سانگ بھی تمام ہوا۔ لیکن میں ابھی تک وہیں بیٹھا ہوں۔ اپنی سیٹ پر چپکا ہوا۔ انجام میری مرضی کا نہیں تھا اس لیے اٹھنے کو تیار نہیں۔ میرا مطالبہ ہے کہ کہانی بدلی جائے، ہیروئن بھی اور ڈائریکٹر بھی۔ پھر اٹھوں گا۔ ورنہ کر لو جو کرنا ہے۔

ویسے میں نے باہر نکل کے کرنا بھی کیا ہے؟ میرا ایجنڈا کیا ہے مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں۔ شاید اسے میرے پروں کے ساتھ ہی کتر دیا گیا تھا۔ اب میں دوسروں کی جیبیں کترنے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔ شاہین کو گرہ کٹ بننے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگا۔ بس ضمیر کی تھوڑی سی پھینٹی لگی اور کام ہو گیا۔ تبدیلی بھی ہمارے ہاں اسی طرح روتی بسورتی پھر رہی ہے اور نیا پاکستان بھی کچھ کچھ شرمندہ سا ہے۔ شاید اسی لیے سر پہ شٹل کاک والا برقعہ ہے۔ ہلکے نیلے رنگ کا، جسے پڑوسی ملک کی عفیفائیں پہنتی ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ عقل کا گھوڑا بس یہیں تک دوڑتا ہے اور سہما سہما سا اپنے سم زمین پر مارتا ہے۔ اس سے آگے بارود کی بو ہے۔

کہیں آبگینہ خیال کا

جو کرب و ضبط سے چور تھا

کہیں آئینہ کسی یاد کا

جو عکس یار سے دور تھا

اپنا ہاتھ مصافحے کو بڑھتا دکھائی دیتا ہے تو اس میں کشکول ہے۔ بھکاری اب بھیک بڑے رعب داب سے مانگتے ہیں۔ بڑا نوٹ نکالو اور تیزی سے نکالو۔ وقت ضایع مت کرو۔ ورنہ اٹھا کے واپس منہ پہ مارتے ہیں۔ ایسا ہی کشکول اٹھا کے ہمارے عالی مرتبت نئے وزیر اعظم نے نئے بھیک مشن پر نکلنا ہے اور جھولیاں بھر بھر کے آنا ہے۔ ''بھاگ لگے رہن سرکار'' بہت پرانے تعلقات ہیں اور رعب داب یہ کہ ہماری اسٹرٹیجک پوزیشن دیکھو، ہم بہت کارآمد ہیں۔ ہمارے روشن مستقبل اور پھلتی پھولتی اکانومی کی بنیاد فی الحال یہی ہے۔ اس پہ رویا جائے ہے اور نہ ہنسا جائے ہے۔ مسل بھی دکھاتے ہیں اور شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔

زمین پر حقیقت یہ ہے کہ نگران حکومت کی نگرانی کرنے کو ایک اور ادارہ چاہیے۔ یہ راز شاید کبھی نہ کھل سکے کہ آخر کسی انسان کو کتنی دولت، کتنی عمر اور پھر کتنی زمین درکار ہوتی ہے۔ ہاں البتہ یہ بات طے ہے کہ وقت کم ہو تو ''منزل بٹورنے'' کے لیے کنکورڈ جیٹ کی رفتار سے کارروائیاں ڈالنا پڑتی ہیں۔ سنا ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بزرگ اور متروک کنکورڈ کی اسپیڈ دیکھ کے بڑے بڑے دنگ رہ گئے ہیں۔ کل پرزے ڈھیلے ہونے کی بات غلط نکلی۔ وہ تو فراٹے بھرتا ہے۔ گنیز ورلڈ ریکارڈ والے ہشیار رہیں۔ بہت جلد ہمارے ہاں کم سے کم مدت میں امیر سے امیر تر بننے کے کچھ ریکارڈ قائم ہونے والے ہیں۔

اب اس بات میں کیا شک ہے کہ جس ملک میں گورننس اچھی ہو وہاں غربت کی موجودگی قابل شرم ہے اور جہاں گورننس خراب ہو وہاں امارت شرم کا باعث ہوتی ہے۔ ہمارا باوا آدم چونکہ نرالا ہے اس لیے شاید اس کا الٹ درست سمجھا جائے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں بینکوں کے دروازے تو کھلے ہوتے ہیں لیکن بال پین کو زنجیر سے باندھ کے رکھتے ہیں۔ ترجیحات بھی نرالی اور فیصلے بھی انوکھے۔

ادھر ایک اور مصیبت سر پہ سوار ہے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ الیکشن کا وقت گزر گیا تو یوں سمجھو کہ بلا ٹل گئی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ رزلٹ شاید پتھر کا بنا ہوا ہے کہ بہت سوں کو ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ یہاں مجھے پھر سے پنجابی کی ایک امرتی یاد آ رہی ہے جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ جنہوں نے گاجریں کھائی ہیں، انھی کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔

کام دھندے سے فارغ لوگ کیا عقل سے بھی فارغ ہو جاتے ہیں؟ ارے بابا۔ دیکھو ہاتھ باندھ کے عرض گزار ہوں۔ اٹھو اور اٹھ کے اپنے اپنے گھروں کو جاؤ۔ اپنے لیڈر تم سے سنبھالے نہیں جاتے اور ملک سنبھالنے چلے ہیں۔ گھر جاؤ۔ بیمار کی ایمبولینس اور غریب کی ریڑھی کو جگہ دو۔ عوام کی رائے پسند نہیں آئی یا کوئی شک ہے تو جو صحیح فورم ہے وہاں جاؤ۔ ایسے دھرنوں سے کسی قسم کی چوں چاں برآمد نہیں ہو گی۔ انڈے ہوتے تو بچے نکلتے۔ ویسے بھی گاجریں کھانے سے جو درد شروع ہوا ہے وہ ابھی جاری رہے گا، یہ درد لادوا ہے ۔ اور پانچ برس کے بعد ہونے والے انتخابات میں گاجریں نہ کھانے سے دور ہو گا۔ اس دوران بے چہرہ شہر میں دودھ کی ندیاں اسی طرح بہتی رہیں گی اور ترقی کا عمل اسی طوفانی رفتار سے جاری رہے گا جس سے ربع صدی قبل آغاز ہوا تھا۔

گویا اس نئے پاکستان میں کلوننگ کا نام تبدیلی رکھ دیا گیا ہے۔ جیسا پہلے تھا ویسا ہی ایک نیا لے لو۔ ملک نہ ہوا ''کلون'' کی ہوئی بھیڑ ''ڈولی'' ہو گئی۔ وہی ناک، وہی کان، وہی تھوتھنی اور وہی دم۔ آنے والی حکومت کی متوقع کابینہ کے اراکین کے نام ملاحظہ فرمائیں تو آپ میری اس کلوننگ تھیوری پر ایمان لے آئیں گے۔ ہاں تھوڑا بہت فرق بھی ہو گا مثلاً حبیب جالب کی بجائے اختر شیرانی کی نظموں کا الاپ سیکھا جائے گا اور وسیع و عریض حویلی کے ایک گیراج میں کئی کروڑ روپے مالیت کی ایک ہائی ٹیک کار کھڑی ہو گی جسے کسی یورپی ملک میں خصوصی طور پر بنوایا گیا ہو گا۔ وہ خصوصی طیارے پر آئی ہو گی۔ اس کا مالک مارننگ واک کے بعد اس کے پاس جا کے دیر تک اسے پیار سے دیکھے گا اور جب کسی الوہی محبت سے سرشار ہو کے اس پر ہاتھ پھیرے گا تو اس کے گالوں کا رنگ کشمیری گاجر جیسا سرخ ہو جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔