پانی عظیم قوت کا سرچشمہ

دریاؤں کے کنارے رنگا رنگ تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں۔ پانی میں زندگی کا ردھم رقص کرتا ہے...


Shabnam Gul May 22, 2013
[email protected]

دریاؤں کے کنارے رنگا رنگ تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں۔ پانی میں زندگی کا ردھم رقص کرتا ہے۔ یہی آہنگ انسان کے دل و شریانوں میں بہتے خون میں دھڑکتا ہے۔ جو سمندر کی لہروں کی طغیانی میں مضمر ہے۔ پانی کبھی سیدھا نہیں بہتا، قطرے کا تخلیقی طریقہ کار بھی مرغولے دار قوت میں پنہاں ہے۔ پانی کا spiral rhythem چکردار آہنگ کی صورت راستہ بناتے ہوئے زندگی کو توانائی بخشتا رہتا ہے۔ قدیم زمانے کے روحانی مفکر یہ کہتے آ رہے ہیں کہ فطرت میں ایک گول گھومتا ہوا چرخا ہے، جسے ہندو یوگی چکرا کا نام دیتے ہیں۔ جس کا مطلب پہیہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ Vortex بھنور یا چکر انسان کے جسم میں بھی گردش کرتا ہے اور اسی محور کے گرد پوری کائنات گھومتی ہے۔

قدیم زمانے سے لوگ مظاہر فطرت کی پوجا کرتے تھے۔ ایک اسرار یا معمہ انھیں بے چین رکھتا تھا۔ وہ زندگی کی حقیقت کا راز جاننے کے لیے خالق کائنات کی کھوج میں سورج، چاند، ستاروں، پہاڑ، دریا و زمین کی پوجا کرنے لگے۔ وہ اپنے وجود کے ہونے کا جواز ڈھونڈتے، آسمان کی وحشتوں و زمین کی خوفناکی میں مذہبی عقیدت کو پرو دیتے۔ زندگی کے راز سے پردہ اٹھانے کی دھن میں بار بار فطرت کے دروازے پر دستک دیتے، اسی میں دل کا سکون تلاش کرتے اور اسے اپنا رہبر سمجھتے۔ بہت سے دیو مالائی قصے دریاؤں سے منسوب کیے جاتے رہے ہیں کیونکہ پانی ہر تہذیب کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ ایک قصے کے مطابق چار دریا کیلانس پہاڑ سے بہتے ہیں۔ دریائے سندھ شمال سے شیر کے منہ سے بہتا ہے۔ مغرب سے ہاتھی کے منہ سے ستلج دریا راستہ بناتے آگے کی سمت نکلتا ہے، جنوب سے کرنالی دریا مور کی چونچ سے نمودار ہوتا ہے اور مشرق سے برہمپترا گھوڑے کے منہ سے بہتا گنگا سے مل جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہندو دیومالائی قصوں میں یہ تمام جانور مقدس کہلاتے ہیں۔

دریائے سندھ صدیوں سے پیاسی زمین کو سیراب کرتا رہا ہے۔ جسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہے، جو شمالی علاقوں کی خوبصورتی سے، کسی شیر کی مانند دھاڑتا ہوا نکلتا ہے اور سندھ کی سرزمین کو سبزے سے ڈھک دیتا ہے۔ سندھ کی خوشحالی دریائے سندھ کی مرہون منت ہے۔ رگ وید میں دریائے سندھ کا ذکر کچھ اس طرح سے ملتا ہے۔

''اے سندھو! جب تم میدانوں سے بہتی ہو تو اپنے ساتھ بہت سی خوراک بھی لاتی ہو، تمہارا پانی اتم ہے، تمہارا حسن دلہن جیسا ہے، تم سدا جوان اور خوبصورت ہو، تم شہد دینے والے پھولوں سے ڈھکی رہتی ہو۔''

موئن جو دڑو کی تہذیب میں بھی پانی کی پوجا کے آثار ملتے ہیں۔ دریائے نیل بھی قدیم مصری تہذیب میں مذہبی روایتوں کا امین رہا ہے۔ گنگا بھی ہزاروں سال سے عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کے گناہوں کے بوجھ دھو ڈالتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ایشیا کے بہت سے ملک ایسے ہیں جہاں لوگ پانی سے روحانی تحرک حاصل کرتے ہیں۔ جیسے جہاں کے لوگ آباؤ اجداد کی روایتوں کے مطابق پانی سے خود کو قریب رکھتے ہیں۔ شنٹو مذہب کے پیروکار مقدس پانی سے ذہن و روح کو جلا بخشتے ہیں۔ علی الصبح چشمے کے پانی سے نہانا عبادت سمجھا جاتا ہے۔ اوس کے قطروں کے درمیان کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہو کر چشمے کے بہتے دھارے کی قوت ان کے جسموں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ بہتا پانی اپنے اندر زندگی کی حرارت لیے ہوتا ہے۔ اس کی خاصیتوں میں فطرت کا بنیادی قانون سانس لیتا ہے۔ جیسے وجود رکھنا، بڑھنا، عمل کرنا اور دوبارہ پیدا ہونا شامل ہے۔

توانائی کا روپ بدلتے رہنا بھی زندگی کی اہم ضرورت ہے۔ پانی کی قربت سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ پانی کی محرکات میں مضبوط قوت ارادی اور ہلچل شامل ہے۔ ایک ترغیب جو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے اکساتی ہے۔ پانی، ذہنی تخلیق کی ترویج کرتا ہے اور ذہن بھی پانی کی خوبیوں کو مستعار لیتا ہے۔ جو ساکن، پوشیدہ، منتظر اور دوبارہ جنم لیتی اور روپ بدلتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی تناؤ میں مبتلا لوگوں کا ہائیڈرو تھیراپی سے علاج کیا جانے لگا اور یورپ میں ہربل باتھ کو صحت افزا عمل قرار دیا گیا۔

پانی کی آوازوں سے ذہنی طور پر منتشر مریضوں کا علاج ایشیا یورپ میں مروج ہے، جس میں سمندر کی لہروں و آبشاروں کا ترنم وغیرہ ریکارڈ کر کے انھیں سنوایا جاتا ہے۔ جنھیں Healing Sounds شفا دینے والی آوازیں کہا جاتا ہے۔ تبت اور چائنا کے طبعی فلاسفر کہتے ہیں کہ کائنات میں مظاہر فطرت کی تمام آوازیں انسانی دکھ، خوشی و بیماری کے جذبات کی عکاسی کرتی ہیں۔ تیراکی کو بھی جسم و ذہن کی فعال کارکردگی کا موثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ جس سے تنفس کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور ذہنی دباؤ کا خاتمہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایشیا و یورپ میں پانی میں گھرے جزیرے ہمیشہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔

اٹلی کے سائنسدانوں نے یورپ کے کئی شفا دینے والے مقدس پانیوں کے قریب مہینوں ریسرچ کی جس میں Lourades بھی شامل ہے جس کا پانی شفا کے اجزا سے بھرپور سما جاتا ہے۔ سائنسدان اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچے کہ مقدس پانیوں کے یہ کنوئیں یا چشمے عام پانی کے مقابلے میں زیادہ صحت بخش واقع ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان پانیوں میں شفا دینے والے منرلز بھی پائے جاتے ہیں۔ جیسے جرمینیم وغیرہ کا ہونا جس سے پانی میں بڑھی ہوئی آکسیجن لیول بحال رہتی ہے اور پانی میں شفاتی اجزا بڑھ جاتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق شفا کی اصلی وجہ ربط باہمی ہے جو پانی اور علاج کے خواہشمند لوگوں کے درمیان پیدا ہو جاتا ہے کہ آپ جس پانی سے محبت کرتے ہیں اس سے شفا پانے کا یقین رکھتے ہیں، تو وہ پانی بھی انسانوں کو مایوس نہیں کرتا۔

سندھ میں بھی جابجا شفا دینے والے پانی کے ذخیرے ملتے ہیں۔ پانی کا ایسا چشمہ سیہون کے قریب لکی شاہ کے پہاڑوں کے بیچ بہتا ہے۔ دور دراز سے لوگ شفا پانے کی غرض سے اس چشمے پر آتے ہیں۔ پانی کے دیوتاؤں کے قصے ہر تہذیب میں پائے جاتے ہیں۔ سندھ میں جیسے اڈیرولال یا خواجہ خضر کی درگاہ عقیدت مندوں کے ہجوم کا مرکز بنی رہتی ہے۔ اڈیرو لال حیدر آباد سے 56 کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ مزار ہندو و مسلمانوں میں یکساں مقبول ہے۔ ہندو انھیں جھولے لال، دریا شاہ، اڈیرو لال اور زندہ پیر کے نام سے جانتے ہیں اور مسلمانوں میں خواجہ خضر کے نام پہچانے جاتے ہیں۔

اڈیرو لال کے پیروکار مہینے میں ایک مرتبہ چاند کی آخری رات دریا کے کنارے پر جمع ہو کے دیا جلا کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ جمعے کے دن تمام مرید مچھلی کو پانی کے پھل کے طور پر کھاتے ہیں۔ ہر شام عورتیں دریا میں چاول و چینی نذر کرتی ہیں۔ یونانی دیو مالائی قصوں میں سمندر کے دیوتا پوسائیڈن کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ جو بھٹکی ہوئی کشتیوں کی رہنمائی کرتا ہے سمندر کی مخلوق جس کے قریب رقص کرتی ہے۔ مسافر اس دیوتا کا تصور کر کے محفوظ سفر کی دعائیں مانگتے ہیں، گھوڑا، ڈولفن اور صنوبر کا درخت پوسائیڈن کی نشانیاں ہیں۔ یہ یونانی دیومالائی قصے جو پوسائیڈن سے منسوب ہیں، خواجہ خضر یا اڈیرولال کے حوالے سے بھی ان میں مماثلت پائی جاتی ہے۔

تھانو بولا خان کے قریب مول شریف کے مندر پر بھی ہر سال اڈیرولال کے ماننے والے درشن کے لیے آتے ہیں۔ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں پر واقع ہنگلاج ماتا کے مندر پر اسری دنیا سے ہزارہا یاتری اپنی عقیدت کا اظہار کرنے جمع ہوتے ہیں۔ اس مقام پر مقدس پہاڑی چشمے بہتے ہیں، جن میں انیل کن بہت مشہور ہے۔ یاتری انیل کن میں نہانے میں اور تبرک طور پر پانی ساتھ لے کر جاتے ہیں۔

اڈیرولال کے مزار پر بھی مقدس کنواں موجود ہے۔ اس کے علاوہ لکڑی کے جوتے، نقارہ اور درخت زائرین کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ درخت پر رنگین کپڑے کی گرہیں منت کے طور پر لوگ باندھ کر چلے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان رنگوں میں لوگ اپنی منتظر آنکھوں کے خواب بھی باندھ کر چلے گئے ہوں۔ مزاروں کی بھی الگ پراسراریت ہے۔ یہاں آنے والے لوگ اکثر اپنے دل کا کھویا ہوا سکون ڈھونڈنے آتے ہیں اور مقدس پانیوں کی ٹھنڈی میٹھی تاثیر سے دکھوں کے بوجھ سے جھلستی روح کو سیراب کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔