کراچی دنیا کے پسماندہ ترین شہروں میں شامل
اس فہرست میں بنیادی سہولتوں کے حوالے سے اول نمبر پر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا نام شامل کیا گیا ہے۔
کراچی کی 7سالہ بچی پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ میں جاں بحق ہوگئی، اس واقعے سے شہر میں امن وامان کی صورتحال آشکار ہوگئی۔ ایک سال کے دوران پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے کے نام پر یہ چوتھا فرد جاں بحق ہوا۔ پویس کے مبینہ مقابلوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔
بین الاقوامی تنظیم اکنامسٹ انٹلی جنس یونٹ (EIU - Economist Intelligence Unit) نے کراچی کے شہریوں کو بنیادی سہولتوں کے تناظر میں 137ویں نمبر پر رکھا ہے ۔ ای آئی یو نے دنیا بھرکے 140 شہروں کی سیاسی ، سماجی، جرائم، تعلیم اور صحت کے تناظر میں رینکنگ جاری کی ہے۔کراچی کے بعد نائیجیریا کے شہر لاگوس بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا اور شام کے دارالحکومت دمشق کے نام درج کیے گئے ہیں۔
اس فہرست میں بنیادی سہولتوں کے حوالے سے اول نمبر پر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا نام شامل کیا گیا ہے۔ آسٹریلیا کے شہر میلبورن، جاپان کے شہر اوساکا اور کینیڈا کے شہر کیل گیری کے نام شامل ہیں۔ کراچی کے بعد جو تین شہر ہیں ان میں سب سے آخر پر دمشق ہے۔ شام گزشتہ ایک عشرے سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ دمشق صدر اسد اور باغی فوجوں کے درمیان لڑائی کا براہِ راست نشانہ بنتا ہے۔ دمشق میں بنیادی سہولتوں کی نایابی واضح ہے۔ یہی صورتحال نائیجریا کے شہر لاگوس کی ہے جہاں خانہ جنگی کی سی کیفیت رہی ہے۔قانون کی عمل داری بھی نہیں ہے۔ مگر ڈھاکا اور کراچی کا اس فہرست کے آخری حصہ میں آنا بدترین طرز حکومت کی نشاندہی کرتا ہے۔
کراچی میں بنیادی سہولتیں ناپید ہیں۔ گزشتہ 10برسوں کے دوران کوڑے کے ٹیلوں کے درمیان زندگی گزارنے سے شہری ایک نئے مرض چکن گونیا سے واقف ہوچکے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری کو بہت عرصے بعد یہ محسوس ہوا کہ واقعی کوڑے کا ٹیلہ بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کا سنجیدہ موضوع بنا ہوا ہے۔ انھوں نے انتہائی بصیرت سے کام لیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ چین کی ایک کمپنی کو کوڑے کے ٹیلے ختم کرنے کا کام سپرد کیا جائے، یوں کراچی کے ضلع میں رنگ برنگے ڈبے نظر آنے لگے۔ کوڑا اٹھانے کی ہیوی ڈیوٹی مشین مختلف علاقوں میں نظر آنے لگی۔
پہلی دفعہ مرکزی سڑکوں کی صفائی اور ان کے دھونے کا کام مشین کے سپرد ہوا ۔ ہیوی ڈیوٹی ٹرک ڈبوں سے کوڑے منتقل کرتے ہوئے نظر آنے لگے۔ شہریوں نے یہ سوچنا شروع کیا تھا کہ اب کراچی بھی لاہور اور اسلام آباد کی طرح صاف ستھرا شہر بن جائے گا مگر شاید کراچی میں کوڑا اٹھانے والے چینی بھی پاکستانیوں کی طرح کے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد صفائی کا کام رک گا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں دوبارہ کوڑے کے ٹیلے بننے لگے۔
سپریم کورٹ نے پانی کے مسئلے پر ایک سابق جج جسٹس مسلم ہانی پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا ہوا ہے۔ اس کمیشن نے جب صفائی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا نوٹس لیا تو متعلقہ حکام نے کمیشن کو بتایا کہ چینی کمپنی کو رقم کی ادائیگی کی گئی ہے مگر چینی کمپنی نے کام چھوڑ دیا ہے۔ چینی کمپنی کے نمایندے نے کمیشن کے سامنے پیش ہوکر شکایت کی کہ انھیں معاہدے کے مطابق رقم ادا نہیں کی گئی تو متعلقہ افسر نے کہا کہ جب کام نہیں کریں گے تو ادائیگی کیسے ہوگی؟ بہرحال کراچی میں پھر کوڑے اٹھانے اور صفائی کا مسئلہ شدید ہوا۔ اب کراچی پانی کے شدید بحران کا شکار ہے۔
پانی کی قلت امراء کی سوسائٹیوں میں بھی ہے اور غریبوں کی بستیاں بھی پانی سے محروم ہیں ۔کراچی کے آدھے کے قریب ایسے علاقے ہیں جہاں لائنوں میں مہینوں سے پانی نہیں آیا۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور سوسائٹیز کے مکین تو ٹینکر والوں کو منہ مانگے دام دے کر پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں مگر لیاری، اورنگی، فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد، شاہ فیصل کالونی، بلدیہ، لیاقت آباد ، ملیر اور دیگر علاقوں کے مکینوں کے لیے روزانہ پانی خریدنا ممکن نہیں ہے۔ ان علاقوں میں بورنگ کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔
کراچی میں کبھی زمین سے میٹھا پانی نکلتا تھا مگر اب زیرِ زمین میٹھا پانی ناپید ہے۔ بورنگ کے ذریعے کھارا پانی آتا ہے۔ شہر بھر میں سیوریج کا نظام زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہرگلی اور سڑک پر گندا پانی جمع رہتا ہے۔ شہر کی مرکزی شاہراہیں ہفتے میں کئی دفعہ گندے پانی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بورنگ کے پانی میں سیوریج کا پانی مل جاتا ہے جس کی بناء پر مختلف نوعیت کی بیماریاں عام ہیں۔ چند ماہ قبل ایک انگریزی کے سب سے بڑے اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کورنگی کے بعض علاقوں میں کینسر کے امراض کی بڑھتی ہوئی شرح پینے کا پانی میں زہر آلود مواد سے ہے ۔
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام گزشتہ صدی کے آخری عشرے تک موجود تھا مگر اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ختم ہوگیا ۔ بسیں ناپید ہوگئیں اور منی بسیں ختم ہوگئیں اور شہریوں کا گزارا چنگ چی رکشہ جیسی سواری پر ہونے لگا۔ شاہراہ فیصل کے علاوہ ہر طرف چنگ چی رکشہ نظر آنے لگے، یوں حادثات کی شرح بڑھ گئی۔ پولیس والوں کا کہنا تھا کہ شہر میں موٹر سائیکل چوری ہونے کی وارداتیں بھی اس لیے بڑھیں کہ یہ چوری کی موٹرسائیکل چنگ چی رکشہ میں استعمال ہوتی ہے۔ ا
نتظامیہ نے چنگ چی رکشے پر پابندی لگادی مگر شہریوں کے سفر کے لیے کوئی متبادل انتظام نہ ہوا۔ سپریم کورٹ نے اس پابندی کو جائز قرار دیا۔ میاں نواز شریف نے لاہور میٹروکی طرح سرجانی سے گرومندر تک میٹرو بس چلانے کا فیصلہ کیا۔ حکومت سندھ نے اس منصوبے میں اورنگی تک توسیع کی۔ پھر اس منصوبے کو ٹاور تک توسیع دینے کا فیصلہ ہوا مگر مزار قائد کے انتظامی بورڈ کے اعتراض پر قائد اعظم کے مزار سے بلند بس ٹریک کی تعمیر کا خیال ختم ہوا اور زیر زمین راستے کی تجویز آئی ۔ اس بناء پر منصوبہ التواء کا شکار ہوا ۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی حکومت نے وفاقی حکومت سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اس بس ٹریک کے لیے بسیں کون فراہم کرے گا۔ اگرچہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ پیشکش کی تھی کہ وفاقی حکومت بسیں فراہم کرے گی مگر بسوں کے چلانے کا نظام صوبائی حکومت کے فرائض میں شامل ہوگا ۔ سندھ کی حکومت نے اس بارے میں سوچا ہی نہ تھا، یوں ٹریک کی تعمیر کے ساتھ ہی بسوں کی فراہمی کے نظام کا قیام بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
سابق وزیر ٹرانسپورٹ نے اپنی حکومت کے خاتمے سے ذرا پہلے شاہرہ فیصل پر 10 بسیں چلانے کا فخریہ اعلان کیا ۔ پورے شہر کے لیے 10 بسوں کے اعلان پر خود ہی شرمندہ ہوگئے۔ سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی حکومت نے کراچی میں میٹرو بس کے کئی ٹریک تعمیرکرنے کا اعلان کیا تھا مگر یہ سب کچھ ان کی میز پر جمع فائلوں کے درمیان کھوگیا ۔
کراچی والے ہر موسم میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شکار رہے ہیں ۔ بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک نے شہرکو طبقاتی طور پر تقسیم کیا ہے۔ کچھ علاقے لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں اور غریبوں کے علاقوں میں ہر موسم میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ کبھی 6 گھنٹے سے شروع ہوکر12 سے 14گھنٹوں تک پہنچ جاتی ہے۔
غریب بستیوں کے مکین شکایت کرتے ہیں کہ کے الیکٹرک والے کسی خرابی کو دورکرنے میں کئی دن لگادیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی اس صورتحال کا نوٹس لیا تھا ، مگر حالات بہتر نہ ہوسکے۔کراچی میں پھر اسٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں۔ بینکوں کو لوٹنے سے لے کر موبائل ، پرس اور خواتین سے زیورات چھیننے کے واقعات بڑھ گئے ہیں ۔ پولیس والے جب بھی ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بے گناہ شہری فائرنگ کی زد میں آجاتا ہے۔ 7سالہ بچی کی موت ایک ایسا ہی المیہ ہے۔
شہر میں سرکاری اسپتالوں کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ اچھے علاج کے لیے پرائیوٹ اسپتال جانا لازمی ہے۔ یہی صورتحال سرکاری تعلیمی اداروں کی ہے۔
آج عید قرباں ہے۔ ہر طرف جانور قربان ہونگے مگر سڑکوں پر جانورں کا خون اور ان کے اعضاء اٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اگر بارش ہوئی تو بجلی غائب ہوگی اور گند گی اور بد بو عیدکی خوشیوں کو غارت کرے گی ۔ شہرکی اس صورتحال کی بناء پر اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی درجہ بندی بالکل درست ہے۔
بین الاقوامی تنظیم اکنامسٹ انٹلی جنس یونٹ (EIU - Economist Intelligence Unit) نے کراچی کے شہریوں کو بنیادی سہولتوں کے تناظر میں 137ویں نمبر پر رکھا ہے ۔ ای آئی یو نے دنیا بھرکے 140 شہروں کی سیاسی ، سماجی، جرائم، تعلیم اور صحت کے تناظر میں رینکنگ جاری کی ہے۔کراچی کے بعد نائیجیریا کے شہر لاگوس بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا اور شام کے دارالحکومت دمشق کے نام درج کیے گئے ہیں۔
اس فہرست میں بنیادی سہولتوں کے حوالے سے اول نمبر پر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا نام شامل کیا گیا ہے۔ آسٹریلیا کے شہر میلبورن، جاپان کے شہر اوساکا اور کینیڈا کے شہر کیل گیری کے نام شامل ہیں۔ کراچی کے بعد جو تین شہر ہیں ان میں سب سے آخر پر دمشق ہے۔ شام گزشتہ ایک عشرے سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ دمشق صدر اسد اور باغی فوجوں کے درمیان لڑائی کا براہِ راست نشانہ بنتا ہے۔ دمشق میں بنیادی سہولتوں کی نایابی واضح ہے۔ یہی صورتحال نائیجریا کے شہر لاگوس کی ہے جہاں خانہ جنگی کی سی کیفیت رہی ہے۔قانون کی عمل داری بھی نہیں ہے۔ مگر ڈھاکا اور کراچی کا اس فہرست کے آخری حصہ میں آنا بدترین طرز حکومت کی نشاندہی کرتا ہے۔
کراچی میں بنیادی سہولتیں ناپید ہیں۔ گزشتہ 10برسوں کے دوران کوڑے کے ٹیلوں کے درمیان زندگی گزارنے سے شہری ایک نئے مرض چکن گونیا سے واقف ہوچکے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری کو بہت عرصے بعد یہ محسوس ہوا کہ واقعی کوڑے کا ٹیلہ بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کا سنجیدہ موضوع بنا ہوا ہے۔ انھوں نے انتہائی بصیرت سے کام لیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ چین کی ایک کمپنی کو کوڑے کے ٹیلے ختم کرنے کا کام سپرد کیا جائے، یوں کراچی کے ضلع میں رنگ برنگے ڈبے نظر آنے لگے۔ کوڑا اٹھانے کی ہیوی ڈیوٹی مشین مختلف علاقوں میں نظر آنے لگی۔
پہلی دفعہ مرکزی سڑکوں کی صفائی اور ان کے دھونے کا کام مشین کے سپرد ہوا ۔ ہیوی ڈیوٹی ٹرک ڈبوں سے کوڑے منتقل کرتے ہوئے نظر آنے لگے۔ شہریوں نے یہ سوچنا شروع کیا تھا کہ اب کراچی بھی لاہور اور اسلام آباد کی طرح صاف ستھرا شہر بن جائے گا مگر شاید کراچی میں کوڑا اٹھانے والے چینی بھی پاکستانیوں کی طرح کے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد صفائی کا کام رک گا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں دوبارہ کوڑے کے ٹیلے بننے لگے۔
سپریم کورٹ نے پانی کے مسئلے پر ایک سابق جج جسٹس مسلم ہانی پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا ہوا ہے۔ اس کمیشن نے جب صفائی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا نوٹس لیا تو متعلقہ حکام نے کمیشن کو بتایا کہ چینی کمپنی کو رقم کی ادائیگی کی گئی ہے مگر چینی کمپنی نے کام چھوڑ دیا ہے۔ چینی کمپنی کے نمایندے نے کمیشن کے سامنے پیش ہوکر شکایت کی کہ انھیں معاہدے کے مطابق رقم ادا نہیں کی گئی تو متعلقہ افسر نے کہا کہ جب کام نہیں کریں گے تو ادائیگی کیسے ہوگی؟ بہرحال کراچی میں پھر کوڑے اٹھانے اور صفائی کا مسئلہ شدید ہوا۔ اب کراچی پانی کے شدید بحران کا شکار ہے۔
پانی کی قلت امراء کی سوسائٹیوں میں بھی ہے اور غریبوں کی بستیاں بھی پانی سے محروم ہیں ۔کراچی کے آدھے کے قریب ایسے علاقے ہیں جہاں لائنوں میں مہینوں سے پانی نہیں آیا۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور سوسائٹیز کے مکین تو ٹینکر والوں کو منہ مانگے دام دے کر پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں مگر لیاری، اورنگی، فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد، شاہ فیصل کالونی، بلدیہ، لیاقت آباد ، ملیر اور دیگر علاقوں کے مکینوں کے لیے روزانہ پانی خریدنا ممکن نہیں ہے۔ ان علاقوں میں بورنگ کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔
کراچی میں کبھی زمین سے میٹھا پانی نکلتا تھا مگر اب زیرِ زمین میٹھا پانی ناپید ہے۔ بورنگ کے ذریعے کھارا پانی آتا ہے۔ شہر بھر میں سیوریج کا نظام زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہرگلی اور سڑک پر گندا پانی جمع رہتا ہے۔ شہر کی مرکزی شاہراہیں ہفتے میں کئی دفعہ گندے پانی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بورنگ کے پانی میں سیوریج کا پانی مل جاتا ہے جس کی بناء پر مختلف نوعیت کی بیماریاں عام ہیں۔ چند ماہ قبل ایک انگریزی کے سب سے بڑے اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کورنگی کے بعض علاقوں میں کینسر کے امراض کی بڑھتی ہوئی شرح پینے کا پانی میں زہر آلود مواد سے ہے ۔
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام گزشتہ صدی کے آخری عشرے تک موجود تھا مگر اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ختم ہوگیا ۔ بسیں ناپید ہوگئیں اور منی بسیں ختم ہوگئیں اور شہریوں کا گزارا چنگ چی رکشہ جیسی سواری پر ہونے لگا۔ شاہراہ فیصل کے علاوہ ہر طرف چنگ چی رکشہ نظر آنے لگے، یوں حادثات کی شرح بڑھ گئی۔ پولیس والوں کا کہنا تھا کہ شہر میں موٹر سائیکل چوری ہونے کی وارداتیں بھی اس لیے بڑھیں کہ یہ چوری کی موٹرسائیکل چنگ چی رکشہ میں استعمال ہوتی ہے۔ ا
نتظامیہ نے چنگ چی رکشے پر پابندی لگادی مگر شہریوں کے سفر کے لیے کوئی متبادل انتظام نہ ہوا۔ سپریم کورٹ نے اس پابندی کو جائز قرار دیا۔ میاں نواز شریف نے لاہور میٹروکی طرح سرجانی سے گرومندر تک میٹرو بس چلانے کا فیصلہ کیا۔ حکومت سندھ نے اس منصوبے میں اورنگی تک توسیع کی۔ پھر اس منصوبے کو ٹاور تک توسیع دینے کا فیصلہ ہوا مگر مزار قائد کے انتظامی بورڈ کے اعتراض پر قائد اعظم کے مزار سے بلند بس ٹریک کی تعمیر کا خیال ختم ہوا اور زیر زمین راستے کی تجویز آئی ۔ اس بناء پر منصوبہ التواء کا شکار ہوا ۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی حکومت نے وفاقی حکومت سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اس بس ٹریک کے لیے بسیں کون فراہم کرے گا۔ اگرچہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ پیشکش کی تھی کہ وفاقی حکومت بسیں فراہم کرے گی مگر بسوں کے چلانے کا نظام صوبائی حکومت کے فرائض میں شامل ہوگا ۔ سندھ کی حکومت نے اس بارے میں سوچا ہی نہ تھا، یوں ٹریک کی تعمیر کے ساتھ ہی بسوں کی فراہمی کے نظام کا قیام بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
سابق وزیر ٹرانسپورٹ نے اپنی حکومت کے خاتمے سے ذرا پہلے شاہرہ فیصل پر 10 بسیں چلانے کا فخریہ اعلان کیا ۔ پورے شہر کے لیے 10 بسوں کے اعلان پر خود ہی شرمندہ ہوگئے۔ سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی حکومت نے کراچی میں میٹرو بس کے کئی ٹریک تعمیرکرنے کا اعلان کیا تھا مگر یہ سب کچھ ان کی میز پر جمع فائلوں کے درمیان کھوگیا ۔
کراچی والے ہر موسم میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شکار رہے ہیں ۔ بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک نے شہرکو طبقاتی طور پر تقسیم کیا ہے۔ کچھ علاقے لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں اور غریبوں کے علاقوں میں ہر موسم میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ کبھی 6 گھنٹے سے شروع ہوکر12 سے 14گھنٹوں تک پہنچ جاتی ہے۔
غریب بستیوں کے مکین شکایت کرتے ہیں کہ کے الیکٹرک والے کسی خرابی کو دورکرنے میں کئی دن لگادیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی اس صورتحال کا نوٹس لیا تھا ، مگر حالات بہتر نہ ہوسکے۔کراچی میں پھر اسٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں۔ بینکوں کو لوٹنے سے لے کر موبائل ، پرس اور خواتین سے زیورات چھیننے کے واقعات بڑھ گئے ہیں ۔ پولیس والے جب بھی ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بے گناہ شہری فائرنگ کی زد میں آجاتا ہے۔ 7سالہ بچی کی موت ایک ایسا ہی المیہ ہے۔
شہر میں سرکاری اسپتالوں کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ اچھے علاج کے لیے پرائیوٹ اسپتال جانا لازمی ہے۔ یہی صورتحال سرکاری تعلیمی اداروں کی ہے۔
آج عید قرباں ہے۔ ہر طرف جانور قربان ہونگے مگر سڑکوں پر جانورں کا خون اور ان کے اعضاء اٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اگر بارش ہوئی تو بجلی غائب ہوگی اور گند گی اور بد بو عیدکی خوشیوں کو غارت کرے گی ۔ شہرکی اس صورتحال کی بناء پر اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی درجہ بندی بالکل درست ہے۔