مگر کتا تو کنویں میں ہے
بے نظیر اسکیم پر تو ہم اعتراض اس لیے نہیں کر سکتے کہ یہ تو قائد اعظم کا پاکستان ہے ہی قائد عوام کا پاکستان ہے۔
آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ گاڈ فادر یا لکشمی بائی عرف آئی ایم ایف نے بجلی پٹرولیم اور گیس کے نرخ بڑھانے کے لیے کہا ہے، کچھ سرکاری ریلیف رعایت کو بھی بند کرنے کا کہا ہے لیکن یہ کبھی نہیں سنا ہو گا کہ اس نے بے نظیر انکم سپور ٹ کارڈ بھانت بھانپ کے دیگرکارڈ یا خیراتیں بند کرنے کے لیے کہا ہو یا یہ کہ پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں، مراعات یا فنڈز میں کمی کرو حالانکہ وہ سب یہ دعویٰ لے کر آتے ہیں کہ ہم ملک قوم اور عوام کی خدمت کے بغیر سو نہیں پا رہے تھے لیکن جب خدمت شروع کرتے ہیں تو دنیا بھر کے ڈاکو بھی شرما جاتے ہیں حالانکہ ان میں کوئی ارب کروڑ پتی سے کم یا بے پناہ جاگیروں اور کارخانوں اور کمپنیوں کے مالکوں کے بغیر نہیں ہوتا لیکن پھر بھی قوم کا خون پسینہ یوں ہڑپتے ہیں جیسے تبرک کھا رہے ہوں ۔
ان میں سے کچھ عہدیدار جن کا نام لینا کفر کے زمرے میں آتا ہے، ان کے ''ہاؤسوں'' کا خرچہ روزانہ کروڑوں کے حساب میں ہوتا ہے۔ ایک فرد دو ہاتھ، دو پیر ہوتے لیکن آخر یہ آسمان سے اترا ہوتا ہے کہ اس کی تنخواہ سو دو سو عام گھرانوں کے کل اخراجات سے زیادہ ہوتی ہے اور اس کے ہاؤس کا خرچہ ایک شہر کے خرچے کے برابر ہوتا ہے کیوں ؟ یہ تو خادم ہیں نا، خدمت کے لیے آئے ہیں لیکن آئی ایم ایف عرف لکشمی دیوی عرف گاڈ فادر اس پر کچھ نہیں کہتا۔ صرف عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے بجلی گیس اور پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھانے کے لیے کہتا ہے۔
اس کے پاس بڑے بڑے ماہرین ہوتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک بے نظیر کارڈ والی یہ اسکیم بند کر دی گئی تو ہر سال ایک نیا ڈیم بنایا جا سکتا ہے، ایک گیس یا تیل کا کنواں کھدوایا جا سکتا۔ ایک بڑا کارخانہ بنایا جا سکتا ہے جو روز گار اور آمدنی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ بجلی کی کمی کے باعث جو صنعتیں بند ہیں یا آدھی بھی نہیں رہی ہیں، ان کو چالو کیا جا سکتا ہے ، لیکن کیوں کہے، پھر وہ قرضہ کس کو دیں گے، سود میں پوری جی ڈی پی کیسے لیں گے اور این جی اوز بھیج کر لوگوں کو بھکاری اور کرپٹ کیسے بنائیں گے ۔
بے نظیر اسکیم پر تو ہم اعتراض اس لیے نہیں کر سکتے کہ یہ تو قائد اعظم کا پاکستان ہے ہی قائد عوام کا پاکستان ہے۔ اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کراچی ائیرپورٹ پر مژدہ سنایا تھاکہ شکر ہے پاکستان بچ گیا ۔ بلکہ اس نے تھوڑی سی کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے یہ نہیں کہا تھا کہ میں نے بچا لیا لیکن ہم تو انصاف دار بھی ہیں اور سخن فہم بھی، اس لیے اس نے بچایا تو اسی کا ہوگیا ۔ بلا شرکت غیرے اور بلا شرکت قائد اعظم ۔یہ اب اس کا اور اس کے بعد اس کے خاندان اور ملک کے دیگر جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور گدی نشینوں کا پاکستان ہے، اس لیے اس میں وہی کیا جائے گا جو اس طبقے کے وارث چاہیں گے۔
یہ لوگ کسی بھی مقام پر اپنا نام بھی رکھ سکتے ہیں، چاہے وہ مقام کسی نے دیکھا نہ ہو۔بہت بڑی جاگیر والوں کے لیے ضروری تو نہیں کہ انھیں اپنی جاگیر کا پورا پورا علم ہو ۔ پھر یہ سب حکمران بھی ہوں ۔ چاروں صوبوں کی زنجیر بھی ہوں اور اوپر سے قوم کے نجات دہندہ بھی کہلاتے ہوں۔ اس لیے ان کے نام پر تو جو کچھ بھی کیا جائے کم ہی ہو گا لیکن بات یہ نہیں ہے ، جو کچھ باقی ہے، وہ بلاول کے نام پر ہوجائے گا، اسفند ولی کے نام پر ہوجائے گا ، حیدر ہوتی کے نام پر ہوجائے گا یا مریم بی بی کے نام پر ہوجائے گا کہ شاہ کے بعد ولی عہد، کنگ کے بعدکراؤن پرنس اور راجہ کے بعد یورا ج کو وراثت منتقل ہو جاتی ہے ۔
بات تھوڑی سی لمبی ہو گئی، مطلب ہمارا کہنے کا یہ ہے کہ گاڈ فادر عرف لکشمی دیوی عرف آئی ایم ایف یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کا دیا ہوا قرضہ کسی کام آئے، ڈیم بنے کوئی صنعت پیدا ہو جائے یا زراعت کا بھلا ہو جائے ہاں فضولیات اور بندر بانٹ میں جتنا بھی اڑا سکیں گے کہ اس طرح بے روز گاری بڑھے گی بیروز گاری سے فرسٹریشن پیدا ہوں گے، اسلحے کی مارکیٹ چلے گی ۔ این جی اوز آئیں گے وہ مزید بھکاری اور کرپٹ بنائیں گے۔ اور ان کا ہمہ جہت کاروبار بھی چلتا رہے گا اور لگایا ہوا پیسہ بھی واپس اسی کے بینکوں میں جائے گا لیکن ابھی پاکستانیوں کو یہ احساس تک نہیں کہ کونسا عفریت ان کو نگلنے کے لیے منہ کھولے کھڑا ہے وہ تو صرف اس میں خوش ہیں کہ کون کیا بنا ۔
ویسے ان کو غم بھی کیا سب کا ''غار'' بھی باہر ہے، رہائش گاہیں بھی باہر ہیں، رشتے ناتے تعلقات بھی باہر ہیں جہاز ڈوبنے لگے گا تو سب سے پہلے چوہے نکل جائیں گے۔
فی الحال تو پاکستان کے کالا انعام خوش کہ وہ مارا لیکن پتہ اس وقت لگے گا جب نئے پنچھی اپنے پر پرزے کھول لیں گے ۔ نظام کے کنوئیں میں کتا تو وہیں پڑا ہوا ہے لیکن اکیلا چنا کنوئیں کا کتا کبھی نکال نہیں پائے گا کہ اس کی بغل میں بھی وہی کھڑے ہیں جو ہر بغل میں کھڑے ہوتے ہیں۔
ان میں سے کچھ عہدیدار جن کا نام لینا کفر کے زمرے میں آتا ہے، ان کے ''ہاؤسوں'' کا خرچہ روزانہ کروڑوں کے حساب میں ہوتا ہے۔ ایک فرد دو ہاتھ، دو پیر ہوتے لیکن آخر یہ آسمان سے اترا ہوتا ہے کہ اس کی تنخواہ سو دو سو عام گھرانوں کے کل اخراجات سے زیادہ ہوتی ہے اور اس کے ہاؤس کا خرچہ ایک شہر کے خرچے کے برابر ہوتا ہے کیوں ؟ یہ تو خادم ہیں نا، خدمت کے لیے آئے ہیں لیکن آئی ایم ایف عرف لکشمی دیوی عرف گاڈ فادر اس پر کچھ نہیں کہتا۔ صرف عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے بجلی گیس اور پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھانے کے لیے کہتا ہے۔
اس کے پاس بڑے بڑے ماہرین ہوتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اگر ایک بے نظیر کارڈ والی یہ اسکیم بند کر دی گئی تو ہر سال ایک نیا ڈیم بنایا جا سکتا ہے، ایک گیس یا تیل کا کنواں کھدوایا جا سکتا۔ ایک بڑا کارخانہ بنایا جا سکتا ہے جو روز گار اور آمدنی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ بجلی کی کمی کے باعث جو صنعتیں بند ہیں یا آدھی بھی نہیں رہی ہیں، ان کو چالو کیا جا سکتا ہے ، لیکن کیوں کہے، پھر وہ قرضہ کس کو دیں گے، سود میں پوری جی ڈی پی کیسے لیں گے اور این جی اوز بھیج کر لوگوں کو بھکاری اور کرپٹ کیسے بنائیں گے ۔
بے نظیر اسکیم پر تو ہم اعتراض اس لیے نہیں کر سکتے کہ یہ تو قائد اعظم کا پاکستان ہے ہی قائد عوام کا پاکستان ہے۔ اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد کراچی ائیرپورٹ پر مژدہ سنایا تھاکہ شکر ہے پاکستان بچ گیا ۔ بلکہ اس نے تھوڑی سی کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے یہ نہیں کہا تھا کہ میں نے بچا لیا لیکن ہم تو انصاف دار بھی ہیں اور سخن فہم بھی، اس لیے اس نے بچایا تو اسی کا ہوگیا ۔ بلا شرکت غیرے اور بلا شرکت قائد اعظم ۔یہ اب اس کا اور اس کے بعد اس کے خاندان اور ملک کے دیگر جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور گدی نشینوں کا پاکستان ہے، اس لیے اس میں وہی کیا جائے گا جو اس طبقے کے وارث چاہیں گے۔
یہ لوگ کسی بھی مقام پر اپنا نام بھی رکھ سکتے ہیں، چاہے وہ مقام کسی نے دیکھا نہ ہو۔بہت بڑی جاگیر والوں کے لیے ضروری تو نہیں کہ انھیں اپنی جاگیر کا پورا پورا علم ہو ۔ پھر یہ سب حکمران بھی ہوں ۔ چاروں صوبوں کی زنجیر بھی ہوں اور اوپر سے قوم کے نجات دہندہ بھی کہلاتے ہوں۔ اس لیے ان کے نام پر تو جو کچھ بھی کیا جائے کم ہی ہو گا لیکن بات یہ نہیں ہے ، جو کچھ باقی ہے، وہ بلاول کے نام پر ہوجائے گا، اسفند ولی کے نام پر ہوجائے گا ، حیدر ہوتی کے نام پر ہوجائے گا یا مریم بی بی کے نام پر ہوجائے گا کہ شاہ کے بعد ولی عہد، کنگ کے بعدکراؤن پرنس اور راجہ کے بعد یورا ج کو وراثت منتقل ہو جاتی ہے ۔
بات تھوڑی سی لمبی ہو گئی، مطلب ہمارا کہنے کا یہ ہے کہ گاڈ فادر عرف لکشمی دیوی عرف آئی ایم ایف یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کا دیا ہوا قرضہ کسی کام آئے، ڈیم بنے کوئی صنعت پیدا ہو جائے یا زراعت کا بھلا ہو جائے ہاں فضولیات اور بندر بانٹ میں جتنا بھی اڑا سکیں گے کہ اس طرح بے روز گاری بڑھے گی بیروز گاری سے فرسٹریشن پیدا ہوں گے، اسلحے کی مارکیٹ چلے گی ۔ این جی اوز آئیں گے وہ مزید بھکاری اور کرپٹ بنائیں گے۔ اور ان کا ہمہ جہت کاروبار بھی چلتا رہے گا اور لگایا ہوا پیسہ بھی واپس اسی کے بینکوں میں جائے گا لیکن ابھی پاکستانیوں کو یہ احساس تک نہیں کہ کونسا عفریت ان کو نگلنے کے لیے منہ کھولے کھڑا ہے وہ تو صرف اس میں خوش ہیں کہ کون کیا بنا ۔
ویسے ان کو غم بھی کیا سب کا ''غار'' بھی باہر ہے، رہائش گاہیں بھی باہر ہیں، رشتے ناتے تعلقات بھی باہر ہیں جہاز ڈوبنے لگے گا تو سب سے پہلے چوہے نکل جائیں گے۔
فی الحال تو پاکستان کے کالا انعام خوش کہ وہ مارا لیکن پتہ اس وقت لگے گا جب نئے پنچھی اپنے پر پرزے کھول لیں گے ۔ نظام کے کنوئیں میں کتا تو وہیں پڑا ہوا ہے لیکن اکیلا چنا کنوئیں کا کتا کبھی نکال نہیں پائے گا کہ اس کی بغل میں بھی وہی کھڑے ہیں جو ہر بغل میں کھڑے ہوتے ہیں۔