پاکستانیوں کا رہبر
عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے باقاعدہ خطاب میں فلاحی ریاست اور ملکی معاشی ترقی پر زیادہ زور دیا ہے۔
ISLAMABAD:
ہمارے نئے منتخب وزیر اعظم کی فی البدیہہ تقریر قوم نے پورے انہماک سے سنی ۔ ایک مدت کے پہلا موقع ہے کہ کسی حکمران نے عوام کو مخاطب کیا ہے اور عوام کے لیے اپنی ترجیحات کا اعلان کیا ہے ۔ عمران خان عوام کی طاقت سے حکمران منتخب ہوئے ہیں، یہ قدرتی امر ہے کہ وہ اپنے اقتدار میں زیادہ اہمیت عوام کو ہی دیں گے جنہوں نے ان کو اس مسند پر بٹھایا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر عوام کی بات کی جائے تو کسی حکمران نے عوام کو حکمران بننے کے بعد لفٹ نہیں کرائی بلکہ حکمرانی کے نشے میں وہ اقتدار کی بھول بھلیوں میں ہی گم ہو گئے۔
عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے باقاعدہ خطاب میں فلاحی ریاست اور ملکی معاشی ترقی پر زیادہ زور دیا ہے۔ انھوں نے قوم کو بتایا کہ ان کا ملک کتنے اربوں کا مقروض ہو چکا ہے اور یہ قرض کس نے حاصل کیے ہیں، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قرض کا حساب کتاب بھی ہو گا کہ یہ قرضہ حاصل کر کے کہاں خرچ کیا گیا۔
انھوں نے اپنی بات ایک مسلمان حکمران کے طور پر شروع کی اور سب سے پہلے احتساب اور کفایت شعاری اپنی ذات سے شروع کرنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر خلفائے راشدین کی مثالوں سے شروع کی اور ان کی مثالوںپر ہی ختم کی۔ ان کی تقریر ان کے صاف ذہن اوراس کے الفاظ ان کے دل سے نکلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ۔ ریاست مدینہ جیسا پاکستان ایک سچے حکمران کی طرح ان کا خواب ہے، وہ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں جس میں ہر طرف انصاف ہو اور کوئی شخص بھوکا نہ سوئے بلکہ انھوں نے اپنی تقریر میں جانوروں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ریاست میں موجود جانوروں کی ذمے داری بھی حکمران پر عائد ہوتی ہے۔
وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا معاشرہ انسانوں کا معاشرہ بناناہے، ہم بے حس ہو چکے ہیں ،ہمارے دلوں سے رحم ختم ہو چکا ہے، رحم دلی پیدا کر کے ہی ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے سیاست ایک مشن کے طور پر شروع کی ان کا سیاست کو بطور سیاست کرنے کا کوئی ارادہ نہیں وہ سیاست ایک مشن کے طور پر کررہے ہیں، ان کی دو دہائیوں کی محنت اور صبر کا پھل انھیں اب آکر ملا ہے۔
ان کی پہلی تقریر ان کے مستقبل کے ارادوں کا پتہ دیتی ہے، وہ ملک سے عیاشی کا کلچر ختم کرنا چاہتے ہیں، عوام کے پیسے سے اور ملکی وسائل پر عیاشیاں کرنے والوں کو انھوں نے ایک پیغام دے دیا ہے اور اس کی ابتدا وہ خود سے کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم ہاؤس کی پرتعیش رہائش گاہ سے وہ پہلے ہی دستبردار ہو چکے ہیں، اب وہ وزیر اعظم ہاؤس کے خدمت گاروں اور گاڑیوں سے بھی دستبردار ہو گئے ہیں اور صرف اپنی ضرورت کی دو گاڑیاں اور دو ملازم ہی ان کی خدمت پر مامور ہوں گے، اس کی وجہ بھی انھوں نے بتائی ہے کہ چونکہ سیکیورٹی خدشات ہیں، ا س لیے یہ ضروری ہے کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس کی حدود میں ہی رہیں جس کے لیے انھوں نے اپنے سیکریٹری کا بنگلہ پسند کیا ہے جس میں صرف تین بیڈ روم ہیں جو ان کی ضرورت سے بھی زیادہ ہیں ۔
وزیر اعظم ہاؤس کی جدید ترین گاڑیوں کا نیلام عام ہو گا اور اس کے لیے ملک کے کاروباری طبقے کو درخواست کی جا ئے گی کہ وہ ان پر تعیش گاڑیوں کے خریدار بنیں جس کی وجہ ان گاڑیوں کی قیمت ہے جو کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں اور اربوں روپے کی یہ گاڑیاں بیچ کر رقم قومی خزانے میں جمع ہو جائے گی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس سے پہلے جناب محمد خان جونیجو مرحوم نے سرکار کی بڑی گاڑیوں کو بڑے لوگوں سے واپس لے کرسرکاری محکموں کوبانٹ دیا تھا اور ان کی جگہ چھوٹی پاکستانی گاڑیاں فراہم کی گئیں تھیں لیکن اب اس کام کی ابتداء وزیر اعظم ہاؤس سے ہو رہی ہے اور انتہاء نہ جانے کہاں ہو گی ۔
عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ گزشتہ پانچ برس میں اپنی مقبولیت کی انتہا کو چھو گیا اور الیکشن میں عوام نے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیے۔ عمران خان کی بائیس سال پہلے شروع ہونے والی تحریک انصاف کے نام پر شروع کی گئی تھی ۔ حضرت علی مرتضیٰ ؓ فرماتے ہیںکہ'' معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی پر قائم نہیں رہ سکتا۔''کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہماری نئی حکومت کو بھی ہے، اگر وہ معاشرے میں انصاف فراہم کرنے کا معقول بندو بست کردیں اور ہر غریب آدمی کو انصاف کی فراہمی کا یقین ہو تو جس ریاست مدینہ کا خواب عمران خان دیکھ رہے ہیں، یہ اس ریاست کے قیام کی جانب ابتدا ہو گی۔
انھوں نے اپنی تقریر کے دوران نبی پاک ﷺ کے انصاف کی مثال بھی دی کہ اگر ان کی بیٹی بھی چوری کرتی ہے تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دئے جائیں گے ۔ وہ حضرت عمر ؓکے لمبے کرتے کے حساب کاذکر کرنا بھی نہ بھولے، جب ایک ساتھی نے ان سے نے پوچھ لیا تھا کہ امیر المومنین جو کپڑا ہم سب کو مال غنیمت سے ملا ہے، اس سے آپ کا کرتا تیار نہیں ہو سکتا تو انھوں نے جواب دیا کہ ان کے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا بھی انھیں دیا ہے۔ اسی طرح وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے کاروبار ختم کرنے کے متعلق بھی قوم کو یاددہانی کرا گئے کہ خلیفہ مقرر ہونے کے بعد انھوں نے اپنی کپڑے کی دکان بند کر دی کہ خلیفہ کی دکان کے ہوتے ہوئے دوسرے دکانداروں سے خریداری کون کرے گا، اس سے ان کی حق تلفی ہو گی۔
عمران خان نے ریاست مدینہ کی مثالیں تو دے دی ہیں لیکن ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں، اس کا دور دور تک بھی ریاست مدینہ سے کوئی واسطہ نہیں۔ کتابوںمیں ریاست مدینہ کی خوبصورت باتیں تحریر ہیں جنھیںجب بھی ہم پڑھتے ہیں، دل بوجھل اور آنکھوں سے بے اختیارآنسو جاری ہو جاتے ہیں کہ کیسے عظیم المرتبت لوگ تھے جو اپنی زندگیاں نظریات اوراسلام کے لیے وقف کر گئے اور ہم ان کے پیرو کار ان کی خاک برابر بھی نہیں ہیں ۔ ہم جانتے بوجھتے بھی ایک اچھے شہری ہونے کی کوشش نہیں کرتے ۔
عمران نے ازخود یہ بھاری پتھر اپنے کندھوں پر اٹھانے کی کوشش کی ہے، وہ ٹھاٹھ باٹھ اور مزے سے حکومت کر سکتے ہیں لیکن انھوں نے حکومت ایک مشن سمجھ کر قبول کی ہے، وہ مسلمانوں کے روایتی حکمرانوں سے ہٹ کر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں، ان سے پہلے بھی کئی پاکستانی حکمرانوں سے نے اسلام کے نام کو استعمال کیااور امیر المومنین بننے کی کوششیں کیں لیکن عمران خان ان میں سے مختلف شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ امیر المومنین تو نہیں البتہ ایک رہبر کی طرح قوم کی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس نیک کام میں ان کا حامی و ناصر ہواور پاکستان پر اس کی برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہو۔