جنرل ضیاالحق سچ تو یہ ہے

ہر سال اگست کے مہینے میں جنرل ضیاالحق کی ذات اور سیاست ضرور زیربحث آتی ہیں۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

GENEVA:
ہر سال اگست کے مہینے میں جنرل ضیاالحق کی ذات اور سیاست ضرور زیربحث آتی ہیں۔ ان کے حامی اور مخالف اپنے اپنے زاویہ ء نظر سے ان پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس مہینے میں وہ حادثہ پیش آیا، جس میں وہ اپنے دست راست جنرل اختر عبدالرحمن، امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور دیگر اسٹاف کے ہمراہ ایک ایسے فضائی حادثہ میں راہی ملک عدم ہوگئے، جو آج بھی پراسراریت کے دبیز پردوں میں لپٹا ہوا ہے۔

جن دنوں چوہدری شجاعت حسین اپنی یادداشتیں'' سچ تو یہ ہے'' قلمبند کرا رہے تھے، ان دنوں جنرل ضیاالحق کے بارے میں ان کے ساتھ کئی نشستیں ہوئیں۔ چوہدری صاحب نے جو چشم دید واقعات بیان کیے، وہ تاریخی اور واقعاتی دونوں اعتبار سے انکشاف انگیز ہیں اور جنرل ضیاالحق کی ذات سے جڑے بعض لگے بندھے تصورات کی نفی کرتے ہیں۔

چوہدری شجاعت حسین راوی ہیں کہ جنرل ضٰیاالحق کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات1981ء میںاپنے والد چوہدری ظہورالہٰی کے قتل کے بعددوسرے یا تیسرے روز ہوئی۔ جنرل ضیاالحق گجرات ان کے گھر آئے، اہل خانہ سے تعزیت کی اور کہاکہ ان کو ظہورالٰہی کی ناگہانی موت کا بہت رنج پہنچا ہے۔ وہ ان کے جنازے میں شرکت کرنا چاہتے تھے، مگر سیکیورٹی کی مجبوریاں آڑے آ گئیں۔ دو سال بعد 1983ء میں جنرل ضیاالحق نے وفاقی مجلس شوریٰ نامزد کی تو مجھے بھی اس کا رکن نامزد کیا۔ان کے بارے میں میرا پہلا تاثر یہی تھا کہ وہ ایک بہت ہی ملنسار آدمی ہیں اور اسلامی تعلیمات سے ان کو بے حد لگاؤ ہے۔الیکشن 1985ء میں شجاعت حسین پہلی بار منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔

ایک غیر جماعتی اسمبلی ہے۔ ایم آرڈی کی وجہ جنرل ضیاالحق کو سندھ میں کافی مشکلات ہیں۔ لہٰذا یہ اندازہ تو سب کو ہے کہ وزیراعظم سندھ سے ہوگا، مگر کون ہوگا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ وزیراعظم کے اعلان سے ایک روز پہلے جنرل ضیاالحق، شجاعت حسین کو ایوان صدر بلاتے ہیں۔ ان کے ہمراہ جنرل ضیاالحق کے برادر نسبتی ڈاکٹر بشارت الٰہی اورچوہدری پرویز الٰہی بھی ہیں۔ شجاعت حسین کہتے ہیں، ضیاالحق نے کہا، آپ لوگ ابھی جا کے الٰہی بخش سومرو کو بتا دیں کہ کل انھی کو وزیراعظم بنایا جا رہا ہے۔ ہم ایوان صدر سے نکل کر سیدھے سندھ ہاوس پہنچے۔

رات کا ایک بج رہا تھا۔ الٰہی بخش سومرو صوفے پر نیم دراز تھے۔ ہم نے انھیں یہ خو ش خبری سنائی تو وہ بہت مسرور ہوئے اور ہمیں مٹھائی بھی کھلائی۔ گزشتہ روز ایوان صدر میں کچھ لوگ دبے دبے انداز میں ان کو پیشگی مبارک باد بھی دے رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی صدر ضیاالحق نے اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ ملتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں، میں نے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہمارے سمیت وہاں موجود سب لوگ ششدر رہ گئے۔

1987ء میں جن دنوں وزیراعلیٰ نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ہوا چل رہی تھی، بقول شجاعت حسین کے، جنرل ضیاالحق کے ساتھ پرویز الٰہی کی ملاقات ہوئی، جس میں ڈاکٹر بشارت الٰہی بھی موجود تھے۔ جنرل ضیاالحق نے نوازشریف کے انداز حکومت سے سخت مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ صوبہ میں حالات انتہائی خراب ہیں۔

یہ بات بھی ان کے علم میں آئی ہے کہ نواز شریف اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ آپ ظہورالٰہی کی نسبت سے مجھے بہت عزیز ہیں۔ آپ بسم اللہ کریں اور نوازشریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں۔ اللہ آپ کو چیف منسٹر شپ مبارک کرے۔ قریب تھا کہ یہ تحریک عدم اعتماد پیش ہوتی اور کامیاب ہو جاتی، نوازشریف نے آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کو بیچ میں ڈالا۔ انھوں نے جنرل ضیاالحق سے کہا کہ پرویزالٰہی کے وزیراعلیٰ بننے سے جونیجو بطور وزیراعظم بہت طاقتور ہو جائیں گے اور آپ کے لیے مشکل پیدا کردیںگے۔اس پرجنرل ضیا الحق نے نوازشریف کے خلاف فیصلہ واپس لے لیا ۔

جونیجو، ضیاالحق کے اختلافات کی کہانی شجاعت حسین اس طرح بیان کرتے ہیں، 'باہمی اعتماد کی فضا میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی، جب جونیجو نے وزیراعظم بنتے ہی جنرل ضیاالحق کو اعتماد میں لیے بغیر مارشل لا کے خاتمہ کے لیے 31 دسمبر کی تاریخ دے دی۔ جونیجو یہ بھی چاہتے تھے کہ صدر ضیاالحق اب آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں۔پھر کچھ اور واقعات بھی رونما ہو گئے۔ مثلاً، جونیجو نے بطور وزیراعظم حکم صادر کیا کہ فوج کے سینئر افسران بھی 800 سی سی کی سوزوکی کار میں سفر کریں، جس سے سینئر افسروں نے سبکی محسوس کی۔ جنرل ضیاالحق کے محبوب سیکریٹری اطلاعات مجیب الرحمن کو تبدیل کر دیا گیا۔

ایک بار جنرل ضیاالحق نے مجھے ایوان صدر بلایا۔ میں وفاقی وزیرتھا۔ میں سمجھا، کسی معاملے میں ان کو میری رائے درکار ہے ۔لیکن جیسے ہی ان کے کمرے میں داخل ہوا، میں نے محسوس کیا کہ وہ سخت غصے میں ہیں۔کہنے لگے کہ آپ کے وزیراعظم عجیب آدمی ہے۔میرے گھر میں تیس سال سے ایک مالی کام کر رہا ہے۔ میں نے اس کی ملازمت میں توسیع کا کیس ان کو بھیجا، انھوں نے No لکھ کر واپس کر دیا۔ اب کیا میں بطور صدر ایک مالی بھی نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح ایک بار وہ چین کے دورے پر جا رہے تھے۔ ان کے ہمراہ دو سرکاری فوٹو گرافر تھے۔ جونیجو نے ایک فوٹو گرافر ساتھ لے جانے کی منظوری دی۔ مزید یہ کہ چینی صدر کو بطور تحفہ دینے کے لیے جو قالین وہ ساتھ لے جا رہے تھے، ان کی تعداد بھی کم کر دی۔جنرل ضیاالحق کو اس بارے میں پتا چلا تو وہ سخت برہم ہوئے اور کہا کہ جونیجو جان بوجھ کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔


جینوا سمجھوتہ پر گول میز کانفرنس میں بے نظیر بھٹو سمیت اپوزیشن کو دعوت دینے کے لیے جو حکومتی وفد تشکیل دیا گیا، اس میں شجاعت حسین بھی تھے۔ بقول ان کے، جنرل ضیاالحق کی خواہش تھی کہ جب تک افغانستان میں پائیدار عبوری حکومت پر اتفاق رائے نہیں ہو جاتا، پاکستان کو جینوا معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی رائے میں اس سے افغان جنگ کے ثمرات ضایع ہوجائیں گے۔ مگر جونیجو جینوامعاہدے پر دستخط کرکے اس قضیہ سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔

اس مقصد کے لیے ہی انھوں نے گول میز کانفرنس بلائی تھی۔ قبل ازیں وہ جنرل ضیاالحق کے بااعتماد وزیرخارجہ صاحب زادہ یعقوب علی خان، وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق اور آئی بی کے ڈائریکٹر میجر جنرل آغا نیک محمد کو گھر بھجوا چکے تھے۔ جنرل ضیاالحق نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جونیجو کے ساتھ ان کا چلنا بہت مشکل ہے۔ ایک روز مجھے فوری طور پر ایوان صدر پہنچنے کے لیے کہا گیا۔ وہاں پہنچا تو دیکھاکہ وزیراعظم جونیجو، وزیرخزانہ یاسین وٹو اور وزیرمملکت برائے امور خارجہ زین نورانی پہلے سے موجود ہیں۔ جنرل ضیاالحق غصے سے کھول رہے تھے۔ ایک مرحلے پر دوران گفتگو زین نورانی سے مخاطب ہوکر انھوں نے کہا، اگر حکومت نے عبوری حکومت پر اتفاق رائے کے بغیر جینوا سمجھوتہ پر دستخط کیے تو لوگ آپ کی بوٹیاں نوچ لیں گے۔ جنرل ضیااالحق اس وقت صوفے کے کنارے پر آگے ہو کر بیٹھے ہوئے تھے۔

شدید غصہ کی وجہ سے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور نیچے گر گئے۔مگر میٹنگ کا ماحول اتنا گمبھیر تھا کہ ان کے اس طرح مضحکہ خیز انداز میں گرنے کے باوجود سب کے چہروں پر تناؤ برقرار رہا اورکسی کے چہرے پر ذرا برابر بھی مسکراہٹ نمودار نہ ہوئی۔10 اپریل 1988ء کو راولپنڈی کے اسلحہ ڈپو اوجڑی کیمپ میں دھماکا ہوا۔ ایک ہزار لوگ لقمہ اجل بن گئے۔اوجڑی کیمپ کا سانحہ کیسے رونما ہوا، اس پر مختلف اور متضاد آرا ہیں۔ جونیجو نے اس کی انکوائری کے لیے کمیٹی قائم کی، لیکن ابھی اس کی رپورٹ نہیںآئی تھی کہ صدر ضیاالحق نے اپنے صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے جونیجو حکومت برخاست کر دی۔

سوویت یونین کے خلاف افغان گوریلا جنگ کے لیے امریکا سمیت ساری دنیا مالی اور اسلحی امداد دے رہی تھی۔ اس حوالہ سے جنرل ضیاالحق کے مخالف ان کے پر بہت الزامات عائد کرتے ہیں، مگر شجاعت حسین جو شہادت دیتے ہیں، وہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم بنتے ہی جنرل ضیاالحق کے اہل خانہ کو فی الفور آرمی ہاوس خالی کرنے کے لیے کہا۔ اس پر ان کی بیوہ اور بچے پریشان ہوگئے۔

انھوں نے نوازشریف سے بات کی۔ نوازشریف نے کہا، آپ لوگ اسلام آباد اپنے ذاتی گھر میں منتقل ہو جائیں۔بیگم ضیاالحق نے بتایا کہ ان کے شوہر کا کہیں بھی کوئی ذاتی گھر نہیں۔ ایک رہائشی پلاٹ ہے۔ جس پر بھی گھر کی تعمیر ابھی ہوناہے۔ نوازشریف نے یہ کہہ کے کہ آپ لوگ کرایے پرکوئی گھر لے لیں، ان کو ٹال دیا۔ بیگم ضیاالحق نے مجھ سے اور پرویزالٰہی سے بات کی۔ ان دنوں اسلام آباد میں ہمارا نیا گھر زیرتعمیر تھااور ہم ویسٹرج راولپنڈی والے گھر میں رہ رہے تھے۔

میں نے والدہ سے بات کی۔ انھوں نے اسی وقت بیگم ضیاالحق کو فون کیا اور کہا، آپ پریشان نہ ہوںاور ہمارے گھر میں شفٹ ہو جائیں۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے اور پرویزالٰہی کو حکم دیا کہ جب تک اسلام آباد والا گھر مکمل نہیں ہو جاتا، ہم کوئی گھر کرایہ پر لے لیں۔ ہم نے رانا مارکیٹ کے قریب ایک گھر کرایہ پر لیا اور وہاں شفٹ ہو گئے۔

بیگم ضیاالحق نے میری والدہ سے پوچھا کہ ہم کب تک یہاں رہ سکتے ہیں۔ میری والدہ نے کہا کہ جب تک آپ چاہیں۔ ہم کبھی آپ کو یہاں سے جانے کے لیے نہیں کہیں گے۔بیگم ضیاالحق نے میری والدہ کا شکریہ ادا کیا۔اس طرح جنرل ضیاالحق کی شہادت کے بعد ان کے بیوہ اور ان کے بچے اگلے ساڑھے تین سال اس وقت تک راولپنڈی ہمارے گھر قیام پذیر رہے، جب تک کہ ان کا اپنا گھر نہیں بن گیا۔ شاعر نے کہا تھا کہ

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
Load Next Story