ٹرائل…
مایوسی کو امید میں بدل کر قوم نے جس طرح سے گیارہ مئی کو ووٹ ڈالے اس کے بعد کا سیاسی منظر نامہ قوم کے سامنے ہے...
مایوسی کو امید میں بدل کر قوم نے جس طرح سے گیارہ مئی کو ووٹ ڈالے اس کے بعد کا سیاسی منظر نامہ قوم کے سامنے ہے، مرکز میں ن لیگ بغیر کسی سیاسی بلیک میلنگ کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی۔ تحریک انصاف کو عوام نے اپنا ووٹ دے کر ایک بڑی سیاسی قوت کے درجے پر فائز کر دیا ہے۔ گیارہ مئی کا دن عوام کا امتحان تھا۔ اب ن لیگ اور تحریک انصاف کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔ مرکز میں ن لیگ کیا کرتی ہے؟ ن لیگ کو اب ملک اور قوم سے کیے وعدوں کو بغیر کسی ''اگر مگر'' کے پورا کرنا ہو گا۔ لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات اس قوم کی آرزو ہے اور اپنی آرزو کو پورا کرنے کے لیے ہی قوم نے ن لیگ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
ایک بہترین ٹیم کے ساتھ میاں صاحب کو عوام کے مسائل کے حل کے لیے کمربستہ ہونا پڑے گا۔ گزشتہ حکومت جس طرح سے قانون سے کھیلتی رہی، عہد گزشتہ میں جس طرح سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو ''گول'' کیا جاتا رہا، قانون پسندی کی دعویدار ن لیگ کو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانا ہو گا، عوام کو تشہیری منصوبے نہیں بلکہ ایسا ریلیف دینا ہو گا کہ جس سے کراچی سے خیبر پختونخوا کے آخری کونے میں رہنے والا شخص مستفید ہو سکے، جہاں ن لیگ کو بھاری اکثریت ملی وہیں ن لیگ سے اب عوام بھاری توقعات بھی وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ پی پی، اے این پی اور ق لیگ کے حشر خرابی کو دیکھتے ہوئے ن لیگ کو عوامی توقعات پر ہر صورت اور بڑی سرعت کے ساتھ پورا اترنا ہو گا۔
دوسری جانب عمران خان کو جس طرح سے عوام نے سیاسی قوت سے نوازا ہے، عمران خان کو اسی بالغ نظری سے حکومتی ایوانوں میں سیاست کرنی ہو گی۔ ایشوز کی سیاست نے تحریک انصاف کو عوام میں مقبو لیت کی سند عطا کی ہے۔ عمران کو مصلحتوں سے پاک ہو کر قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی اور کے پی کے میں سیاست اور اگر حکومت ملی تو حکومت کرنی ہو گی۔ ایک عمومی تاثر یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں موجودگی سے اچھی طرز سیاست اور اچھی طرز حکومت عوام کو دیکھنے کو ملے گی۔ حزب اختلاف کی بنچوں سے ن لیگ کی حکومت پر تنقید برائے تنقید کی آ وازیں کسنے کے بجائے اس بار ایشوز پر ٹف ٹائم دیا جائے گا، اگر ن لیگ کی حکومت بہتر اور عوامی امنگوں کی طرز سیاست پر کاربند رہتی ہے اور قومی اسمبلی میں تحریک انصاف ملکی مفاد اور عوامی مفاد کے نباض کے طور پر حزب اختلاف کا رول سرگرمی سے ادا کرتی ہے تو ملک میں جمہوریت اور عوامی مفادات کا حصول نظر آئے گا۔
عوام کی نظریں اب ن لیگ اور تحریک انصاف پر مرکوز ہیں کہ ن لیگ ہر ''سیاسی غم'' سے آزاد ہو کر کتنی جلدی عوامی فلا ح و بہبود کے لیے ''تیز رو'' قسم کے اقدامات کا سلسلہ شروع کرتی ہے؟ کس طرح سے عام آدمی کی معاشی بحالی کے لیے ن لیگ مثبت اور عوام میں سند قبولیت کا درجہ پانے والے اعمال صادر کرتی ہے، دوسری جانب تحریک انصاف کی طرز سیاست پر سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقے برابر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
عمومی تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف جہاں کہیں عوامی حقوق پامال ہوتے دیکھے گی، وہاں حکومت کے سامنے عوامی حقوق کی نگہبان کے طور پر کھڑی ہوگی جہاں تک خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی تشکیل ہے، مولانا صاحب کے عنصر کے علاوہ ایک ''مخلوط'' پارٹی عنصر ہے، دیگر سیاسی بیساکھیوں کو ساتھ ملانے سے شاید تحریک انصاف اپنے سیاسی ایجنڈے پر اس طرح سے عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے جو تحریک انصاف کا منشور اور خواہش ہے۔ اگر خیبر پختونخوا میں عمران خان کی جماعت مثالی طرز حکومت کا مظاہرہ نہ کر سکی تو عمران کی قومی سیاست اور پارٹی سیاست پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ان منفی اثرات کا جواب ان کے پاس نہیں ہو گا۔
دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف تینوں اسمبلیوں میں بیٹھ کر کیا سیاسی حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ وعدوں کے دن گزر چکے، اب ایفائے عہد کے دنوں کی ابتدا ہے اور عوام کی پسندیدہ دونوں جماعتوں میں سے جو عوام کے اعتماد کا عملی طور پر احترام کر ے گی، مستقبل کی سیاست میں اسی کا نام زندہ رہے گا۔ عوام نے سیاسی انتقام کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اگلے الیکشن میں یہ مزید توانا درخت کا روپ دھارے گا، سو اقتدار کے ایوانوں میں جا کر ن لیگ اور تحریک انصاف کو ہرگز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کل عوام کے پاس بھی جانا ہے اور کھلے میدانوں میں عوام کو جواب بھی دینا ہے۔
ن لیگ اور تحریک انصاف بلاشبہ مبارک باد کی مستحق ہیں کہ عوام نے اپنے حقوق کی نگہداشت اور ملک کی تیز تر تعمیر و ترقی کے لیے انھیں اپنا رہبر چنا۔ لیکن، عوام نے جتنی عزت سے ن لیگ اور تحریک انصاف کو نوازا ہے اس سے کہیں زیادہ عوام نے ان دو سیاسی جماعتوں سے توقعات بھی وابستہ کر رکھی ہیں۔ کرنا کیا ہے؟ صرف دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے ''مدار'' میں رہ کر عوام کی خدمت کے لیے دن رات ایک کرنا ہے۔ گویا عوام کی من پسند دونوں جماعتوں کا عوامی عدالت میں سیاسی ٹرائل ہے، جس سے ن لیگ اور تحریک انصاف کو گزرنا ہے اور اپنے آپ کو عوام کی نظروں میں کامران ثابت کرنا ہے۔
ایک بہترین ٹیم کے ساتھ میاں صاحب کو عوام کے مسائل کے حل کے لیے کمربستہ ہونا پڑے گا۔ گزشتہ حکومت جس طرح سے قانون سے کھیلتی رہی، عہد گزشتہ میں جس طرح سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو ''گول'' کیا جاتا رہا، قانون پسندی کی دعویدار ن لیگ کو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانا ہو گا، عوام کو تشہیری منصوبے نہیں بلکہ ایسا ریلیف دینا ہو گا کہ جس سے کراچی سے خیبر پختونخوا کے آخری کونے میں رہنے والا شخص مستفید ہو سکے، جہاں ن لیگ کو بھاری اکثریت ملی وہیں ن لیگ سے اب عوام بھاری توقعات بھی وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ پی پی، اے این پی اور ق لیگ کے حشر خرابی کو دیکھتے ہوئے ن لیگ کو عوامی توقعات پر ہر صورت اور بڑی سرعت کے ساتھ پورا اترنا ہو گا۔
دوسری جانب عمران خان کو جس طرح سے عوام نے سیاسی قوت سے نوازا ہے، عمران خان کو اسی بالغ نظری سے حکومتی ایوانوں میں سیاست کرنی ہو گی۔ ایشوز کی سیاست نے تحریک انصاف کو عوام میں مقبو لیت کی سند عطا کی ہے۔ عمران کو مصلحتوں سے پاک ہو کر قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی اور کے پی کے میں سیاست اور اگر حکومت ملی تو حکومت کرنی ہو گی۔ ایک عمومی تاثر یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں موجودگی سے اچھی طرز سیاست اور اچھی طرز حکومت عوام کو دیکھنے کو ملے گی۔ حزب اختلاف کی بنچوں سے ن لیگ کی حکومت پر تنقید برائے تنقید کی آ وازیں کسنے کے بجائے اس بار ایشوز پر ٹف ٹائم دیا جائے گا، اگر ن لیگ کی حکومت بہتر اور عوامی امنگوں کی طرز سیاست پر کاربند رہتی ہے اور قومی اسمبلی میں تحریک انصاف ملکی مفاد اور عوامی مفاد کے نباض کے طور پر حزب اختلاف کا رول سرگرمی سے ادا کرتی ہے تو ملک میں جمہوریت اور عوامی مفادات کا حصول نظر آئے گا۔
عوام کی نظریں اب ن لیگ اور تحریک انصاف پر مرکوز ہیں کہ ن لیگ ہر ''سیاسی غم'' سے آزاد ہو کر کتنی جلدی عوامی فلا ح و بہبود کے لیے ''تیز رو'' قسم کے اقدامات کا سلسلہ شروع کرتی ہے؟ کس طرح سے عام آدمی کی معاشی بحالی کے لیے ن لیگ مثبت اور عوام میں سند قبولیت کا درجہ پانے والے اعمال صادر کرتی ہے، دوسری جانب تحریک انصاف کی طرز سیاست پر سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقے برابر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
عمومی تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف جہاں کہیں عوامی حقوق پامال ہوتے دیکھے گی، وہاں حکومت کے سامنے عوامی حقوق کی نگہبان کے طور پر کھڑی ہوگی جہاں تک خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی تشکیل ہے، مولانا صاحب کے عنصر کے علاوہ ایک ''مخلوط'' پارٹی عنصر ہے، دیگر سیاسی بیساکھیوں کو ساتھ ملانے سے شاید تحریک انصاف اپنے سیاسی ایجنڈے پر اس طرح سے عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے جو تحریک انصاف کا منشور اور خواہش ہے۔ اگر خیبر پختونخوا میں عمران خان کی جماعت مثالی طرز حکومت کا مظاہرہ نہ کر سکی تو عمران کی قومی سیاست اور پارٹی سیاست پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ان منفی اثرات کا جواب ان کے پاس نہیں ہو گا۔
دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف تینوں اسمبلیوں میں بیٹھ کر کیا سیاسی حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ وعدوں کے دن گزر چکے، اب ایفائے عہد کے دنوں کی ابتدا ہے اور عوام کی پسندیدہ دونوں جماعتوں میں سے جو عوام کے اعتماد کا عملی طور پر احترام کر ے گی، مستقبل کی سیاست میں اسی کا نام زندہ رہے گا۔ عوام نے سیاسی انتقام کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اگلے الیکشن میں یہ مزید توانا درخت کا روپ دھارے گا، سو اقتدار کے ایوانوں میں جا کر ن لیگ اور تحریک انصاف کو ہرگز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کل عوام کے پاس بھی جانا ہے اور کھلے میدانوں میں عوام کو جواب بھی دینا ہے۔
ن لیگ اور تحریک انصاف بلاشبہ مبارک باد کی مستحق ہیں کہ عوام نے اپنے حقوق کی نگہداشت اور ملک کی تیز تر تعمیر و ترقی کے لیے انھیں اپنا رہبر چنا۔ لیکن، عوام نے جتنی عزت سے ن لیگ اور تحریک انصاف کو نوازا ہے اس سے کہیں زیادہ عوام نے ان دو سیاسی جماعتوں سے توقعات بھی وابستہ کر رکھی ہیں۔ کرنا کیا ہے؟ صرف دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے ''مدار'' میں رہ کر عوام کی خدمت کے لیے دن رات ایک کرنا ہے۔ گویا عوام کی من پسند دونوں جماعتوں کا عوامی عدالت میں سیاسی ٹرائل ہے، جس سے ن لیگ اور تحریک انصاف کو گزرنا ہے اور اپنے آپ کو عوام کی نظروں میں کامران ثابت کرنا ہے۔