کڑا امتحان تو اب شروع ہوا ہے
دیکھتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے ایسے کئی اور حملوں کی تاب کس طرح لاپاتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان سے قوم کی توقعات ماضی میں گزرے ہوئے دیگر وزرائے اعظم سے نسبتاًاِس قدر زیادہ ہیں کہ اُن کا پورا کرنا خود اُن کے لیے بہت مشکل ہے۔ خانصاحب نے خود ہی اپنی سیاسی مہم میں تبدیلی کے اتنے بلند بانگ دعوے کردیے ہیں کہ اب اُن سے مکرجانا ممکن ہی نہیں ہے۔
درست کہ ملک کے معاشی حالات اِس قدر سازگار نہیں ہیں کہ وہ سکون سے اپنے منشور پر عمل درآمدکر پائیں لیکن 2013ء میں جب میاں نواز شریف نے عنان حکومت سنبھالا تھا تو ملک کے معاشی حالات اِس سے بھی زیادہ دگر گوں تھے۔ ملک کے اندر دہشتگردوں کاراج تھا، دنیا کا کوئی ملک یہاںسرمایہ کاری پر رضامند نہیں تھا۔ کوئی کھلاڑی بھی یہاں کوئی ٹورنامنٹ کھیلنے پر راضی نہ تھا۔
دس دس اور بیس بیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی تھی۔ کارخانے بند ہوتے جا رہے تھے ۔ کراچی اپنے ہی لوگوں کی زیادتیوں کے وجہ سے تباہ ہوچکا تھا۔ آج حالات ایسے نہیں ہیں۔دہشتگردوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ بجلی کا بحران بھی حل ہوچکا ہے۔ کراچی کے لوگ امن کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ سی پیک کی مدد سے نئے اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھی جاچکی ہے۔ ضرور ت اب صرف پر عزم ارادوں اور منصوبوں پرسنجیدگی اور نیک نیتی سے کام کرنے کی ہے ۔ خانصاحب کو صرف اِسی ایک ایجنڈے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
وزیرا عظم کے انتخاب والے دن جوکچھ پارلیمنٹ میں ہواوہ کسی لحاظ بھی سے نئی حکومت کے لیے نیک شگون نہیں تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خانصاحب اپوزیشن کے احتجاج اور اشتعال انگیزی کو خیال خاطر میں نہ لاتے اور جواباً ایک جذباتی اور سیاسی تقریرکرنے کی بجائے بلاول زرداری کی طرح ایک سلجھی تقریرکرتے، لیکن انھوں نے پارلیمنٹ کو بھی ایک سیاسی میدان تصورکر لیا۔ قوم ایسے ردِ عمل کی توقع نہیں کر رہی تھی ۔
دیکھا جائے تو اُس دن بلاول زرداری جو پہلی بارکسی پارلیمنٹ کا حصہ بننے جا رہے تھے اور جنھیں اِس سے پہلے ایسے کسی فورم پر خطاب کرنے کا تجربہ بھی نہیں تھا انھوں نے نہایت شائستہ اور سلجھے ہوئے انداز میں اپنا نکتہ نظر سننے والوں کے گوش گزار کیا۔اُس دن اِس نوجوان سیاستداں نے بہت سے پرانے اور نسبتاً اپنے سے زیادہ عمرکے سیاستدانوں کو یقینا شرمندہ کیا ۔خان صاحب کو بھی اب پارلیمنٹ کے آداب ملحوظ خاطر رکھنا ہوں گے۔ لیکن اب انھیں اِیسے رویوں سے اجتناب کرنا ہوگا جس پارلیمنٹ کو عزت دینا وہ ضروری نہیں سمجھتے تھے اب اُس کی تعظیم کرنا نہ صرف اُن کے لیے بہت ضروری ہے بلکہ اُن کے فرائض منصبی میں شامل ہے، وہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو اُن کے اُس منصب کی قدرومنزلت پریقینا سوالات اُٹھیں گے۔
انھیں اب اِس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ جو کچھ وہ پانچ سال تک اِس ملک کی سڑکوں پر یا پارلیمنٹ میں کرتے آئے ہیں اپوزیشن بھی آج وہی کچھ بمع سود واپس لوٹانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ پر حملوں کو جس طرح وہ اپنا جمہوری حق قرار دیتے رہے ہیں آج وہی حق اگر اُن کی اپوزیشن استعمال کرے تو انھیں قطعاً معترض نہیں ہونا چاہیے۔ انھیں صرف اپنے منشور اور اپنے پانچ سالہ ایجنڈے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔ وہ اگر اِس مقصد کو بھول کراپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی یا پنجہ آزمائی میں لگ گئے تو پھر اُن کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ انھیںسیاست کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہوکر صرف اِس ملک کے تعمیرو ترقی میں اپنی توانائیاں صرف کرنا ہوں گی ۔
تبھی جاکر وہ کامیاب و سرخرو ہوسکتے ہیں ۔ ہر موقعے اور ہر مرحلے پر صرف اپوزیشن کو نیچا دکھانے کی کوشش یا جدوجہد کرنے سے انھیں کچھ حاصل نہ ہوگا ، انھیں صرف اپنے کام پر توجہ دینا ہوگی ۔ قوم اُن سے اُن کے تبدیلی کے خوش نما اور دلفریب نعروں اور وعدوں کی تکمیل چاہتی ہے۔ وہ اِس انتظار میں بیٹھی ہے کہ خان صاحب کب اور کس طرح انھیں اُن کی مشکلات سے باہر نکالیں گے۔کب اُن کے مسائل حل کریں گے۔
سو دن کا ایجنڈا بھی کسی اور نے نہیں خود انھوں نے ہی قوم کو دیا ہے۔ وہ اِس سود نوں میں اگر اُس پر مکمل عمل درآمد کر پائے تو یقینا کامران وسرخرو ہوپائیں گے۔ اگر سو دنوں ہی کا ایجنڈا ناکام ونامراد ہوگیا تو پھر آگے کا سفر انتہائی کٹھن اور مشکل ہوگا ۔اپوزیشن میں رہ کر تنقید کرنا بہت آسان ہوا کرتا ہے۔ خان صاحب کی خوبیوں اور صلاحیتوں کا امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔ ایک مستعد اور جارح اپوزیشن لیڈرکا کردار توانھوں نے بخوبی سرانجام دے لیا ہے۔اب ایک قابل اور باصلاحیت حکمراں کا کردار انھیں ادا کرنا ہے۔ وہ اِس امتحان میں کیسے اورکس طرح پورے اترتے ہیں قوم یہ دیکھنے کی یقینا منتظر ہے۔
ملک کی معاشی مشکلات سے نبردآزما ہونے کے لیے انھوں نے اسد عمر کو وزیرخزانہ مقرکردیا ہے۔یہ اب اسد عمرکی ذمے داری ہے کہ سابقہ دور میں ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر ملک کے معاشی بحران کے حل کے لیے وہ جو طلسماتی فارمولے پیش کیا کرتے تھے انھیں اب کس طرح خود اپنے دور میں اپناتے ہیں ۔ غیر ملکی قرضے لینے پر سابقہ حکمرانوں کو مطعون وملعون کرنے والے اب کس طرح خود کو اِس فعل قبیحہ سے بچاپاتے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملزگزشتہ کئی برسوں سے بند پڑی ہوئی ہے۔ وہاںکوئی پروڈکشن نہیں ہو رہی ہے، تمام کارکن اور مزدور بیکار بیٹھے ہوئے ہیں۔ ملکی خزانے سے اربوں روپے اُن کی ماہانہ تنخواہوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔
اُسے نجی تحویل میں دینے کی جب جب کسی حکومت نے کوشش کی اپوزیشن اُس کی راہوں میں حائل ہوتی رہی، نتیجتاً وہ نہ چل پائی اور نہ فروخت ہو پائی۔ یہی حال پاکستان ایئر لائن کا بھی ہے۔ اُس کا سالانہ خسارہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار جب کوئی صائب تجویز پیش کرتے اپوزیشن اُن کا راستہ روک لیتی ۔ یہ دونوں بڑے مسائل موجودہ حکومت کو بھی اب ورثے میں ملے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اب اِنہیں کس طرح حل کر پاتی ہے۔خان صاحب کی پارٹی اپوزیشن میں رہتے ہوئے اُن دونوں اداروں کی نج کاری کے خلاف رہی ہے۔ اُن کے خیال تھاکہ دیانت اور ذہانت اِن دونوں اداروں کو فعال کرکے منافع بخش بنا سکتی ہے۔اب اسی دیانت اور ذہانت کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔نجکاری کیے بناء وہ کس طرح اِن دونوں اداروں کو منافع بخش بنا پاتی ہے یہی معجزہ دیکھنے کے لیے قوم بے چینی سے منتظر ہے۔
سابقہ دور میں تحریک انصاف کی جانب سے قوموں کی برادری میں پاکستان کے تنہا رہ جانے کا بہت واویلا پیٹا گیا۔حالانکہ اول تو ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ وطن عزیز کے ساری دنیا سے تعلقات بہت اچھے اوردوستانہ رہے ہیں۔ایک امریکا ہی ہے جس سے ہمارے تعلقات میں کبھی بھرپور وارفتگی اورکبھی اچانک سرد مہری آجایا کرتی ہے۔ یہ سب خود امریکی پالیسیوں کا حصہ ہے، ہمارا اِس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ہم توخود کو صرف اُس کے عتاب سے بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ ستر سالوں سے ہمیں درپیش ہے۔ ہم جب تک اپنی خود مختاری اور آزادی پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرلیتے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔
خان صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بین الاقوامی طور پر تنہارہ جانے کا یہ گلہ اور رونا دراصل کسی بھی حکومت پر خواہ مخواہ تنقیدکرنے کاایک اچھا اورکامیاب حربہ ہے جسے ہر اپوزیشن بھر پور طریقے سے استعمال کرتی رہی ہے۔اب خود اُن کی اپنی باری ہے ایسے الزامات کو شائستگی اور برد باری سے برداشت کرنے کی۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے ایسے کئی اور حملوں کی تاب کس طرح لاپاتے ہیں۔اُن میں اور اُن کی پارٹی میں تحمل اور برداشت کا جو فقدان رہا ہے کہ اُس کو دیکھتے ہوئے اچھائی اور خیرکی توقع بہت کم ہی ہے۔