سرداروں کا بلوچستان
بلوچستان کے عوام ہمیشہ سرداروں کے ہاتھ میں کھیلتے رہے ہیں‘ یہ وہ معروف فقرہ ہے جو ملک کی مقتدر قوتوں کی...
بلوچستان کے عوام ہمیشہ سرداروں کے ہاتھ میں کھیلتے رہے ہیں' یہ وہ معروف فقرہ ہے جو ملک کی مقتدر قوتوں کی جانب سے اس قدر دہرایا اور رٹایا گیا ہے کہ اب بلوچستان سے باہر ایک عام آدمی کے ذہن میں بھی یہ اس قدر راسخ ہو چکا ہے کہ اگر بھری محفل میں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص بھی اپنا تعارف بلوچستان کے حوالے سے کروائے تو اسے یوں ترحم آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے گویا غاروں کے عہد کا کوئی انسان ہو۔ اپنی تمام تر سردار دشمنی اور روشن خیالی کے باوجود ایک عام بلوچ کے لیے، ایک عام غیر بلوچ کے ذہن سے یہ تاثر ہٹانا تو دور کی بات، خود اپنی صفائی پیش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
قبائلی رویوں کی مخصوص معنوں میں تشریح کی جائے تو ایک طرح سے پورا پاکستان قبائلی کہلانے کا سزاوار ہے۔ بالخصوص آج کی سوشل میڈیا والی نئی نسل میں تو موروثی قبائلیت کے تمام عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ اور پاکستان کی ریاستی اشرافیہ کا تو پورا نظام ہی کسی قبائلی نظام کا عکس لگتا ہے، جہاں فردِ واحد 'سردار صاحب' ہی عقلِ کل ہوتے ہیں، ان کے کسی فیصلے پر 'نہ' نہیں کہا جا سکتا۔ وہ جسے چاہیں اپنی 'وراثت' سونپ دیں، کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ شاید اسی لیے بلوچستان میں بھی انھیں یہی موروثی سردار زیادہ 'وارا کھاتے ہیں' کہ ایک عرصے سے انھوں نے تمام باگ ڈور انھی کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔
بلوچوں پر اگر سرداروں اور قبائلی نظام کی غلامی کا طعنہ گراں گزرتا ہے تو اس کے کچھ جائز اسباب بھی ہیں۔ ایک تو واضح ہے کہ غلامی، انسان کی فطرت میں ہے نہ بلوچ کی سرشت میں... کہ اسی پر تو وہ صدیوں سے جانیں دیتا رہا ہے، سروں کے دیے روشن کرتا رہا ہے۔ دوم کہ یہ قدیم روایتی قبائلی نظام کی شکل وہ نہیں رہی جو آج رائج ہے، بلکہ عین اس کے برعکس رہی ہے۔ یہ قدیم عہد میں سماجی قوانین کا ایک مربوط ضابطہ حیات رہا ہے۔ اس کے تحت قبائل کے معتبرین مل کر ایک امیر کا انتخاب کرتے تھے، جسے سردار کہا جاتا تھا۔
سردار کے انتخاب کے لیے چند شرائط لازم تھیں؛ جیسے سردار کے لیے لازم ہے کہ وہ باعزت ہو، سماج میں اسے مجموعی طور پر قابلِ احترام گردانا جاتا ہو، با صلاحیت ہو، 'صادق و امین 'ہو، مخلص ہو، وفادار ہو، قبیلے اور قوم کا خیر خواہ ہو، سب سے اہم یہ کہ اس کے پاس نجی ملکیت نہ ہو۔ جسے سردار منتخب کیا جاتا تھا، بالفرض اگر اس کے پاس ذاتی زمین ہو بھی ہو تو اسے قبائل کی مشترکہ ملکیت میں دے دیا جاتا تھا، جب کہ نو منتخب سردار کی کفالت کا ذمے قبائل کے سر ہوتا تھا۔ نیز یہ کہ کوئی بھی شخص از خود ، اپنے آپ کو سرداری کے لیے پیش نہیں کر سکتا بلکہ قبائلی معتبرین مل جل کر صلاح و مشورے سے اس کا انتخاب کرتے۔ اور ان معتبرین کو قبائل کی ذیلی شاخوں سے عوام براہِ راست، اُن کے تجربے اور کردار کے پیش نظر منتخب کرتے۔ سردار کی موت یا ہلاکت کی صورت میں نئے سربراہ کا انتخاب عین اسی عمل کی صورت میں کیا جاتا۔ سردار کے کسی عزیز اور رشتے دار کو تخت سنبھالنے کی اجازت نہ تھی۔
تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس خطے میں موروثی سرداری کی روایت انگریز بہادر نے ڈالی۔ عوامی دانش پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے خطے کے عوام کے اس جمہوری مزاج کو تبدیل کرنا ضروری تھا۔ جس طرح جمہوری حکومتوں کے بجائے، سامراجیوں کے لیے ایک آمر سے بات کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے کہ جمہوری حکومت کو ہر فیصلہ پارلیمنٹ کے ذریعے کرنا ہوتا ہے، نیز عوام کے سامنے پیش ہونے کا خدشہ موجود ہوتا ہے، جب کہ آمر ایک فردِ واحد ہوتا ہے جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنے نجی مفاد کے لیے سامراج کی ہر خواہش کو بلا چوں و چرا پورا کرنے پر فوراً آمادہ ہو جاتا ہے، بعینہ یہی معاملہ روایتی قبائلی نظام اور موروثی سرداری کے ضمن میں ہے۔ عوام دشمن مقتدر قوتوں کے لیے عوامی دانش پر قبضہ کرنا ضروری ہوتا ہے، اس لیے وہ سب سے پہلا وار عوامی قوتوں پر کرتی ہیں۔ اس میں ہر عوام دشمن قوت ان کا ساتھ دینے کو بے تا ب ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں عوام دشمنوں نے ہمیشہ یہی کیا ہے، بلوچستان کی تاریخ میں عوام دشمن قوتوں کے ہاتھوں یہی ہوتا آ رہا ہے۔
بلوچستان میں چونکہ وسائل کی دستیابی کے باعث علم تک اولین رسائی بالائی طبقے کو ہی حاصل ہوئی، اس لیے عوامی شعور کی بنیاد بھی اس خطے میں ایک نواب زادہ نے ہی رکھی۔ سردار پرستی کا مظاہرہ یہیں دیکھیے کہ آمروں کو یوں تو سبھی موروثی سردار، نواب گوارا تھے، لیکن جونہی کسی نے عوامی مفاد کی بات کی، اسے غدار قرار دے دیا گیا۔ انگریز کے عہد میں اس خطے میں عوامی شعور ی سیاست کی بنیاد ڈالنے والے یوسف عزیز سے لے کر، پاکستان کے وزیر دفاع رہنے والے اکبر بگٹی تک آپ کو یہی تسلسل نظر آئے گا۔ لوئر اور مڈل کلاس کی تعلیم یافتہ بلوچستان کے ابتدائی سیاست کاروں غوث بخش بزنجو، محمد حسین عنقا، گل خان نصیر، عبدالکریم شورش، عبدالرحمان کرد جیسے ورکرز کو جیلوں میں ڈالا گیا، اور خانوں اور سرداروں کو اقتدار کے سنگھاسن پہ بٹھا دیا گیا۔
بلوچوں کے عوامی جمہوری مزاج کا اندازہ اسی سے لگا لیں کہ پاکستان بننے سے بھی پہلے، ریاست قلات کے ایوانِ زیریں کی پچاس میں سے بیالیس نشستیں نوخیز قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نے حاصل کیں۔ یہ اس بات کی گواہی تھی کہ بلوچ عوام موروثی سرداریت کے نہیں بلکہ عوامی سیاست کے حق میں تھے۔ خان قلات اور اس کے حواریوں نے اس اولین بلوچ نمایندہ سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی۔ بعد ازاں پاکستان میں جب یہی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی صورت میں سامنے آئی، تو اسے بھٹو جیسے خود کو ترقی پسند اور سوشلسٹ کہلوانے والے جاگیردار کے ہاتھوں پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو نے بلوچستان کی پہلی نمایندہ عوامی حکومت کا خاتمہ کر کے ایک نواب کو بلوچستان کا مختارِ کل بنا دیا۔ بلوچستان میں سرداری کے خاتمے کا اعلان کر کے، سندھ میں وڈیروں کو مضبوط کرتا رہا۔
نیپ کے خاتمے کے بعد پھر بلوچستان میں کبھی بھی عوامی جمہوری سیاست کو ابھرنے نہ دیا گیا۔ یہاں کی ترقی پسند عوام دوست قوتیں اپنی جان و مال کو مشکل میں ڈال کر، برسوں ان روایتی سرداروں کے خلاف عوام میں کام کرتی ہیں، لیکن مقتدرہ کسی ایک اقدام کے نتیجے میں پھر انھیں ہیرو بنا کر مضبوط کر دیتی ہے، بلوچستان میں گزشتہ تیس، چالیس برس سے سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل جاری ہے۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاء کا 'ضیاع شدہ' دور غیر جمہوری قوتوں کے لیے ہی سازگار رہا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی اپنے قلیل ادوار میں انھی سرداروں کو مضبوط کرتے رہے۔ مشرف نے بھی انھی کے بل بوتے پر ببانگِ دہل کہا کہ بلوچستان کے 72 سردار میرے ساتھ ہیں، صرف تین سردار شورش پھیلا رہے ہیں۔
ان تین میں سے ایک اکبر بگٹی، جب تک سوئی سے نکلنے والے گیس کی رائلٹی لے کر اپنے بینک اکائونٹ میں ڈالتا رہا تب تک وہ 'اچھا' تھا، گورنر اور وزیر اعلیٰ تک بننے کا اہل تھا، جب اس نے اس رائلٹی سمیت بلوچستان کے تمام وسائل صوبے اور صوبے کے عوام کے حوالے کرنے کی بات کی، تو وہ غدار قرار پایا اور پیران سالی میں نہایت سفاکانہ انداز میں مار دیا گیا۔ دوسرا سردار مینگل، جب تک 'چپ' تھا، اس کا بیٹا اس صوبے کا وزیر اعلیٰ تھا ، اُس نے بھی جب زباں کھولی اور بلوچستان کے عوامی مسائل پہ بات کرنے لگا، عالمی اداروں کے سامنے دُہائی دینے لگا تو اس قدر ناپسندیدہ قرار پایا کہ موجودہ 'شفاف انتخابات' میں اسے اور اس کی پارٹی کو مکمل طور پر دیوار سے لگا دیا گیا۔ تیسرے کی کیا بات کریں، کہ وہ نہ کوئی بات کرتا ہے، نہ کسی بات سنتا ہے۔ اسی طرح عالی بگٹی اور طلال بگٹی تو قابلِ قبول ہیں، لیکن براہمدغ بگٹی قابلِ گردن زدنی ہے، کیونکہ اولذکر دونوں اپنے خاندان اور قبیلے کہ بات کرتے ہیں، موخرالذکر پورے بلوچستان کی اور بلوچ کی بات کرتا ہے۔
پاکستان کے عوام اور بالخصوص جمہوری قوتوں کو اب یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ موروثی سرداری نظام کے حامی، عوام نہیں بلکہ وہ طاقت ور قوتیں ہیں جو عوامی قوتوں کو طاقتور دیکھنا ہی نہیں چاہتیں۔ انھیں خوب اندازہ ہے کہ یہ قوتیں طاقتور ہوں گی تو عوامی مفاد کے مطالبات کریں گی اور عوامی مفاد تو ہمیشہ سے طاقتور کے مفاد کے برعکس رہا ہے۔ سو، بلوچستان میں بننے والی نئی اسمبلی کا نوے فیصد حصہ بھی اگر سرداروں پر مشتمل ہے تو اس میں قصور عوام کا نہیں کہ پوری دنیا نے گواہی دی کہ بلوچستان میں ووٹ کا ٹرن آئوٹ محض پانچ فیصد رہا، گویا پارلیمنٹ میں موجود یہ سردار محض پانچ فیصد عوام کے نمایندہ ہیں، پچانوے فیصد عوام نے تو ان کے لیے رائے دینا ہی پسند نہیں کیا۔ پاکستان کا کوئی ادارہ اگر اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کی پچانوے فیصد عوام کی رائے کو سامنے لا سکے تو بلوچستان میں ان سرداروں کا نام و نشان نہ رہے، جنھیں نمایندہ قیادت قرار دے کر بلوچستان کے عوام کی تقدیر ان کے ہاتھ میں سونپ دی گئی ہے۔
قبائلی رویوں کی مخصوص معنوں میں تشریح کی جائے تو ایک طرح سے پورا پاکستان قبائلی کہلانے کا سزاوار ہے۔ بالخصوص آج کی سوشل میڈیا والی نئی نسل میں تو موروثی قبائلیت کے تمام عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ اور پاکستان کی ریاستی اشرافیہ کا تو پورا نظام ہی کسی قبائلی نظام کا عکس لگتا ہے، جہاں فردِ واحد 'سردار صاحب' ہی عقلِ کل ہوتے ہیں، ان کے کسی فیصلے پر 'نہ' نہیں کہا جا سکتا۔ وہ جسے چاہیں اپنی 'وراثت' سونپ دیں، کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ شاید اسی لیے بلوچستان میں بھی انھیں یہی موروثی سردار زیادہ 'وارا کھاتے ہیں' کہ ایک عرصے سے انھوں نے تمام باگ ڈور انھی کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔
بلوچوں پر اگر سرداروں اور قبائلی نظام کی غلامی کا طعنہ گراں گزرتا ہے تو اس کے کچھ جائز اسباب بھی ہیں۔ ایک تو واضح ہے کہ غلامی، انسان کی فطرت میں ہے نہ بلوچ کی سرشت میں... کہ اسی پر تو وہ صدیوں سے جانیں دیتا رہا ہے، سروں کے دیے روشن کرتا رہا ہے۔ دوم کہ یہ قدیم روایتی قبائلی نظام کی شکل وہ نہیں رہی جو آج رائج ہے، بلکہ عین اس کے برعکس رہی ہے۔ یہ قدیم عہد میں سماجی قوانین کا ایک مربوط ضابطہ حیات رہا ہے۔ اس کے تحت قبائل کے معتبرین مل کر ایک امیر کا انتخاب کرتے تھے، جسے سردار کہا جاتا تھا۔
سردار کے انتخاب کے لیے چند شرائط لازم تھیں؛ جیسے سردار کے لیے لازم ہے کہ وہ باعزت ہو، سماج میں اسے مجموعی طور پر قابلِ احترام گردانا جاتا ہو، با صلاحیت ہو، 'صادق و امین 'ہو، مخلص ہو، وفادار ہو، قبیلے اور قوم کا خیر خواہ ہو، سب سے اہم یہ کہ اس کے پاس نجی ملکیت نہ ہو۔ جسے سردار منتخب کیا جاتا تھا، بالفرض اگر اس کے پاس ذاتی زمین ہو بھی ہو تو اسے قبائل کی مشترکہ ملکیت میں دے دیا جاتا تھا، جب کہ نو منتخب سردار کی کفالت کا ذمے قبائل کے سر ہوتا تھا۔ نیز یہ کہ کوئی بھی شخص از خود ، اپنے آپ کو سرداری کے لیے پیش نہیں کر سکتا بلکہ قبائلی معتبرین مل جل کر صلاح و مشورے سے اس کا انتخاب کرتے۔ اور ان معتبرین کو قبائل کی ذیلی شاخوں سے عوام براہِ راست، اُن کے تجربے اور کردار کے پیش نظر منتخب کرتے۔ سردار کی موت یا ہلاکت کی صورت میں نئے سربراہ کا انتخاب عین اسی عمل کی صورت میں کیا جاتا۔ سردار کے کسی عزیز اور رشتے دار کو تخت سنبھالنے کی اجازت نہ تھی۔
تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس خطے میں موروثی سرداری کی روایت انگریز بہادر نے ڈالی۔ عوامی دانش پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے خطے کے عوام کے اس جمہوری مزاج کو تبدیل کرنا ضروری تھا۔ جس طرح جمہوری حکومتوں کے بجائے، سامراجیوں کے لیے ایک آمر سے بات کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے کہ جمہوری حکومت کو ہر فیصلہ پارلیمنٹ کے ذریعے کرنا ہوتا ہے، نیز عوام کے سامنے پیش ہونے کا خدشہ موجود ہوتا ہے، جب کہ آمر ایک فردِ واحد ہوتا ہے جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ اپنے نجی مفاد کے لیے سامراج کی ہر خواہش کو بلا چوں و چرا پورا کرنے پر فوراً آمادہ ہو جاتا ہے، بعینہ یہی معاملہ روایتی قبائلی نظام اور موروثی سرداری کے ضمن میں ہے۔ عوام دشمن مقتدر قوتوں کے لیے عوامی دانش پر قبضہ کرنا ضروری ہوتا ہے، اس لیے وہ سب سے پہلا وار عوامی قوتوں پر کرتی ہیں۔ اس میں ہر عوام دشمن قوت ان کا ساتھ دینے کو بے تا ب ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں عوام دشمنوں نے ہمیشہ یہی کیا ہے، بلوچستان کی تاریخ میں عوام دشمن قوتوں کے ہاتھوں یہی ہوتا آ رہا ہے۔
بلوچستان میں چونکہ وسائل کی دستیابی کے باعث علم تک اولین رسائی بالائی طبقے کو ہی حاصل ہوئی، اس لیے عوامی شعور کی بنیاد بھی اس خطے میں ایک نواب زادہ نے ہی رکھی۔ سردار پرستی کا مظاہرہ یہیں دیکھیے کہ آمروں کو یوں تو سبھی موروثی سردار، نواب گوارا تھے، لیکن جونہی کسی نے عوامی مفاد کی بات کی، اسے غدار قرار دے دیا گیا۔ انگریز کے عہد میں اس خطے میں عوامی شعور ی سیاست کی بنیاد ڈالنے والے یوسف عزیز سے لے کر، پاکستان کے وزیر دفاع رہنے والے اکبر بگٹی تک آپ کو یہی تسلسل نظر آئے گا۔ لوئر اور مڈل کلاس کی تعلیم یافتہ بلوچستان کے ابتدائی سیاست کاروں غوث بخش بزنجو، محمد حسین عنقا، گل خان نصیر، عبدالکریم شورش، عبدالرحمان کرد جیسے ورکرز کو جیلوں میں ڈالا گیا، اور خانوں اور سرداروں کو اقتدار کے سنگھاسن پہ بٹھا دیا گیا۔
بلوچوں کے عوامی جمہوری مزاج کا اندازہ اسی سے لگا لیں کہ پاکستان بننے سے بھی پہلے، ریاست قلات کے ایوانِ زیریں کی پچاس میں سے بیالیس نشستیں نوخیز قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نے حاصل کیں۔ یہ اس بات کی گواہی تھی کہ بلوچ عوام موروثی سرداریت کے نہیں بلکہ عوامی سیاست کے حق میں تھے۔ خان قلات اور اس کے حواریوں نے اس اولین بلوچ نمایندہ سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی۔ بعد ازاں پاکستان میں جب یہی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی صورت میں سامنے آئی، تو اسے بھٹو جیسے خود کو ترقی پسند اور سوشلسٹ کہلوانے والے جاگیردار کے ہاتھوں پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو نے بلوچستان کی پہلی نمایندہ عوامی حکومت کا خاتمہ کر کے ایک نواب کو بلوچستان کا مختارِ کل بنا دیا۔ بلوچستان میں سرداری کے خاتمے کا اعلان کر کے، سندھ میں وڈیروں کو مضبوط کرتا رہا۔
نیپ کے خاتمے کے بعد پھر بلوچستان میں کبھی بھی عوامی جمہوری سیاست کو ابھرنے نہ دیا گیا۔ یہاں کی ترقی پسند عوام دوست قوتیں اپنی جان و مال کو مشکل میں ڈال کر، برسوں ان روایتی سرداروں کے خلاف عوام میں کام کرتی ہیں، لیکن مقتدرہ کسی ایک اقدام کے نتیجے میں پھر انھیں ہیرو بنا کر مضبوط کر دیتی ہے، بلوچستان میں گزشتہ تیس، چالیس برس سے سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل جاری ہے۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاء کا 'ضیاع شدہ' دور غیر جمہوری قوتوں کے لیے ہی سازگار رہا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی اپنے قلیل ادوار میں انھی سرداروں کو مضبوط کرتے رہے۔ مشرف نے بھی انھی کے بل بوتے پر ببانگِ دہل کہا کہ بلوچستان کے 72 سردار میرے ساتھ ہیں، صرف تین سردار شورش پھیلا رہے ہیں۔
ان تین میں سے ایک اکبر بگٹی، جب تک سوئی سے نکلنے والے گیس کی رائلٹی لے کر اپنے بینک اکائونٹ میں ڈالتا رہا تب تک وہ 'اچھا' تھا، گورنر اور وزیر اعلیٰ تک بننے کا اہل تھا، جب اس نے اس رائلٹی سمیت بلوچستان کے تمام وسائل صوبے اور صوبے کے عوام کے حوالے کرنے کی بات کی، تو وہ غدار قرار پایا اور پیران سالی میں نہایت سفاکانہ انداز میں مار دیا گیا۔ دوسرا سردار مینگل، جب تک 'چپ' تھا، اس کا بیٹا اس صوبے کا وزیر اعلیٰ تھا ، اُس نے بھی جب زباں کھولی اور بلوچستان کے عوامی مسائل پہ بات کرنے لگا، عالمی اداروں کے سامنے دُہائی دینے لگا تو اس قدر ناپسندیدہ قرار پایا کہ موجودہ 'شفاف انتخابات' میں اسے اور اس کی پارٹی کو مکمل طور پر دیوار سے لگا دیا گیا۔ تیسرے کی کیا بات کریں، کہ وہ نہ کوئی بات کرتا ہے، نہ کسی بات سنتا ہے۔ اسی طرح عالی بگٹی اور طلال بگٹی تو قابلِ قبول ہیں، لیکن براہمدغ بگٹی قابلِ گردن زدنی ہے، کیونکہ اولذکر دونوں اپنے خاندان اور قبیلے کہ بات کرتے ہیں، موخرالذکر پورے بلوچستان کی اور بلوچ کی بات کرتا ہے۔
پاکستان کے عوام اور بالخصوص جمہوری قوتوں کو اب یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ موروثی سرداری نظام کے حامی، عوام نہیں بلکہ وہ طاقت ور قوتیں ہیں جو عوامی قوتوں کو طاقتور دیکھنا ہی نہیں چاہتیں۔ انھیں خوب اندازہ ہے کہ یہ قوتیں طاقتور ہوں گی تو عوامی مفاد کے مطالبات کریں گی اور عوامی مفاد تو ہمیشہ سے طاقتور کے مفاد کے برعکس رہا ہے۔ سو، بلوچستان میں بننے والی نئی اسمبلی کا نوے فیصد حصہ بھی اگر سرداروں پر مشتمل ہے تو اس میں قصور عوام کا نہیں کہ پوری دنیا نے گواہی دی کہ بلوچستان میں ووٹ کا ٹرن آئوٹ محض پانچ فیصد رہا، گویا پارلیمنٹ میں موجود یہ سردار محض پانچ فیصد عوام کے نمایندہ ہیں، پچانوے فیصد عوام نے تو ان کے لیے رائے دینا ہی پسند نہیں کیا۔ پاکستان کا کوئی ادارہ اگر اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کی پچانوے فیصد عوام کی رائے کو سامنے لا سکے تو بلوچستان میں ان سرداروں کا نام و نشان نہ رہے، جنھیں نمایندہ قیادت قرار دے کر بلوچستان کے عوام کی تقدیر ان کے ہاتھ میں سونپ دی گئی ہے۔