اور شاہ جی کوچ کر گئے
اخباری دنیا میں ازل سے ایک سرد جنگ ایڈیٹنگ اور رپورٹنگ اسٹاف میں چلی آ رہی ہے یہ جنگ کبھی سرد سے گرم...
اخباری دنیا میں ازل سے ایک سرد جنگ ایڈیٹنگ اور رپورٹنگ اسٹاف میں چلی آ رہی ہے یہ جنگ کبھی سرد سے گرم مائل بھی ہو جاتی ہے جو کوئی اچھنبے کی بات نہیں بلکہ انسانی فطرت کے عین مطابق اور زندگی کی علامت ہے، اسے سرد جنگ اس لیے کہا جاتا ہے کہ روزانہ کی تکرار ہوا کرتی ہے لیکن دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے، ڈیسک اسٹاف کے بغیر پروڈکشن کا تصور نہیں تو رپورٹنگ اسٹاف کی عدم موجودگی میڈیا کی عوامی میل جول کی علامت ہے جس کی وساطت سے اچھے رپورٹرز اچھی خبریں نکلواتے ہیں اس لحاظ سے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ڈیسک اسٹاف کے مقابلے میں رپورٹنگ اسٹاف زیادہ عوامی مقبولیت کا حامل ہوتا ہے لیکن صحافت کی دنیا میں ایسی بہت سی نادر شخصیات گزری ہیں اور موجود بھی ہیں جنہوں نے ڈیسک پر رہ کر اپنے فن کو اس اوج کمال تک پہنچایا کہ ہر خاص و عام کو ان سے آشنائی ہوگئی۔
جناب فیض احمد، جناب محمد علی خان صاحب ان چوٹی کے صحافیوں میں شامل تھے جو ادارتی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے صحافیوں کے لیے مشعل راہ اور ترغیب کا کارن بنے یہ قابل قدر حضرات اس اب دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں لیکن ان کا مقام آج بھی مسلمہ ہے، ادارتی قبیلے کے ایک اور سرخیل محترم عباس اطہر المعروف شاہ جی بھی اس فہرست میں ایک تازہ ترین نام ہے جو ہمیں 6 مئی کو داغ مفارفقت دے گئے شاہ جی کی صحافیانہ اپروچ غضب کی تھی انھیں جس انداز سے سرخی سازی پر ملکہ حاصل تھا اس کی وجہ سے وہ بے جان سے بے جان خبر کو بھی قاری کو پڑھنے پر مجبور کر دیا کرتے تھے، ان کی اس لیاقت سے میں بھی فاصلاتی دور کے باوجود فیض یاب ہوتا رہا۔
شاہ جی وہ صحافی تھے کہ جو خبر کی تہہ تک پہنچنے میں چند سکینڈ لگاتے تھے اور پھر خبر کے نچوڑ کو سرخی کی صورت میں جڑ دیا کرتے تھے گویا اگر یہ کہا جائے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا اگر ملکہ کسی کو حاصل تھا تو وہ شاہ جی تھے ان کی شہرہ آفاق سرخی ''ادھر ہم ادھر تم'' صرف ایک اخباری سرخی ہی نہیں رہی یہ چار حرف ایک پوری تاریخ بن کر رہ گئے، آج بہت کم لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ادھر ہم ادھر تم دراصل ایک ایسے شخص کے ذہن کی پیداوار تھی کہ جو واقعات کو اس محض پیش منظر میں نہیں دیکھتا تھا بلکہ پس منظر اور پیش منظر کے علاوہ مستقبل گوئی کو بھی اپنی سرخیوں میں سموتا تھا، مجھے یہ شرف ایک طویل عرصے تک حاصل رہا کہ روزانہ رات کو ٹیلی فونک کانفرنس میں شاہ جی کے ہم کلام ہوتا تھا، لگ بھگ 30 منٹ پر محیط اس کانفرنس میں خالصتاً پیشہ وارانہ بات چیت ہوتی تھی جس کے دوران یہ طے پایا جاتا تھا کہ کل کے اخبار میں کیا کچھ شامل اشاعت ہو گا،
میری خوش قسمتی یہ ہے کہ مجھ سمیت تمام دیگر سٹیشنز کے دوستوں کو شاہ جی کو سننے کا زیادہ موقع ملتا تھا میں ایک شخص بالکل کمپیوٹر کی طرح ہمارے شہروں سے دور بیٹھ کر تمام سٹیشنز کے اخباروں کی پلاننگ کر رہا ہوتا تھا اس میں دو باتیں بہت اہم تھیں ایک تو یہ کہ وہ حالات کو سمجھنے میں انتہائی مختصر وقت صرف کرتے تھے اور دوسری بات یہ کہ بروقت فیصلہ کرتے تھے ان کے فیصلے اکثر و بیشتر درست ہی ہوا کرتے تھے لیکن اگر کبھی کبھار کسی ساتھی کو اعتراض ہوتا تو وہ اختلاف کی جسارت کرتا لیکن شاہ جی دلیل کے ساتھ بات تسلیم کر لیتے تھے بلاوجہ ڈٹ جانا ان کا شیوہ نہیں تھا، ان کی یہی خوبی لاجواب تھی پھر اس پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہ قبول کرنا شاہ جی جیسے بڑے صحافی ہی کر سکتے تھے اور یہ دباؤ محض ادارے کے اندرونی دباؤ تک محدود نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ اس میں وہ سیاسی اور حکومتی دباؤ بھی بسا اوقات شامل ہوتے تھے کہ جن کے آگے بڑے بڑے جگادری گھٹنے ٹیک دیتے ہیں لیکن شاہ جی کی ڈکشنری میں یہ لفظ شاید سرے سے موجود ہی نہیں تھے اور اس کی وجہ بنیادی یہ تھی کہ وہ جب فیصلہ کیا کرتے تھے تو چند سیکنڈ میں کرتے اور میرٹ پر کرتے تھے۔
اپنے فیصلے کو خود ہی تولتے تھے اور اس کی سچائی اس قدر مضبوط اور مستحکم رکھتے کہ اختلاف کرنے والے تھک ہار کر ان کے آگے ہار تسلیم کر لیتے تھے، شاہ جی کا یہ کردار ایک ایسا وصف تھا کہ جو اس وقت کے صحافیوں میں تیزی سے ناپید ہو رہا ہے آج صحافت میں مؤقف برسات کے موسم کی طرح تبدیل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اہل صحافت کی وہ قدر نہیں جو کبھی ہوا کرتی تھی، شاہ جی بہترین استاد بھی تھے لیکن وہ روایتی استادی کے بجائے جو بھی کچھ سکھاتے وہ انتہائی دوستانہ انداز میں سکھاتے تھے وہ ہمیشہ کہتے تھے فیصلہ کرتے وقت تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر پوری سچائی سے ایک نتیجے پر پہنچو اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ، شاہ جی بالکل درست کہتے تھے کہ ڈٹ جاؤ، انھوں نے یہی طور طریقہ اپنی بیماری کے خلاف بھی اپنایا لیکن موت سے چھٹکارا حاصل نہیں اور آخر کار شاہ جی اس دار فانی سے کوچ کر گئے ان کی تدفین جب میری آنکھوں کے سامنے ہو رہی تھی تو بے اختیار ذہن میں یہ شعر دنیا کی بے ثباتی مجھ پر آشکار کر رہا تھا کہ
زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے
شاہ جی بھی ایک ایسا ہی آسمان تھا جو 6 مئی کی صبح زمین کھا گئی لیکن شاہ جی کا کردار ایک دبنگ صحافی اور شاعر کے روپ میں رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔
نوٹ: شاہ جی کے بارے میں کچھ لکھنے کی تاخیر کا سبب وہ ذہنی بے سکونی تھی کہ دل اب تک ماننے کو تیار نہیں کہ شاہ جی ہمیں داغ مفارقت دے گئے، اور ان جیسی شخصیت پر لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
جناب فیض احمد، جناب محمد علی خان صاحب ان چوٹی کے صحافیوں میں شامل تھے جو ادارتی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے صحافیوں کے لیے مشعل راہ اور ترغیب کا کارن بنے یہ قابل قدر حضرات اس اب دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں لیکن ان کا مقام آج بھی مسلمہ ہے، ادارتی قبیلے کے ایک اور سرخیل محترم عباس اطہر المعروف شاہ جی بھی اس فہرست میں ایک تازہ ترین نام ہے جو ہمیں 6 مئی کو داغ مفارفقت دے گئے شاہ جی کی صحافیانہ اپروچ غضب کی تھی انھیں جس انداز سے سرخی سازی پر ملکہ حاصل تھا اس کی وجہ سے وہ بے جان سے بے جان خبر کو بھی قاری کو پڑھنے پر مجبور کر دیا کرتے تھے، ان کی اس لیاقت سے میں بھی فاصلاتی دور کے باوجود فیض یاب ہوتا رہا۔
شاہ جی وہ صحافی تھے کہ جو خبر کی تہہ تک پہنچنے میں چند سکینڈ لگاتے تھے اور پھر خبر کے نچوڑ کو سرخی کی صورت میں جڑ دیا کرتے تھے گویا اگر یہ کہا جائے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا اگر ملکہ کسی کو حاصل تھا تو وہ شاہ جی تھے ان کی شہرہ آفاق سرخی ''ادھر ہم ادھر تم'' صرف ایک اخباری سرخی ہی نہیں رہی یہ چار حرف ایک پوری تاریخ بن کر رہ گئے، آج بہت کم لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ادھر ہم ادھر تم دراصل ایک ایسے شخص کے ذہن کی پیداوار تھی کہ جو واقعات کو اس محض پیش منظر میں نہیں دیکھتا تھا بلکہ پس منظر اور پیش منظر کے علاوہ مستقبل گوئی کو بھی اپنی سرخیوں میں سموتا تھا، مجھے یہ شرف ایک طویل عرصے تک حاصل رہا کہ روزانہ رات کو ٹیلی فونک کانفرنس میں شاہ جی کے ہم کلام ہوتا تھا، لگ بھگ 30 منٹ پر محیط اس کانفرنس میں خالصتاً پیشہ وارانہ بات چیت ہوتی تھی جس کے دوران یہ طے پایا جاتا تھا کہ کل کے اخبار میں کیا کچھ شامل اشاعت ہو گا،
میری خوش قسمتی یہ ہے کہ مجھ سمیت تمام دیگر سٹیشنز کے دوستوں کو شاہ جی کو سننے کا زیادہ موقع ملتا تھا میں ایک شخص بالکل کمپیوٹر کی طرح ہمارے شہروں سے دور بیٹھ کر تمام سٹیشنز کے اخباروں کی پلاننگ کر رہا ہوتا تھا اس میں دو باتیں بہت اہم تھیں ایک تو یہ کہ وہ حالات کو سمجھنے میں انتہائی مختصر وقت صرف کرتے تھے اور دوسری بات یہ کہ بروقت فیصلہ کرتے تھے ان کے فیصلے اکثر و بیشتر درست ہی ہوا کرتے تھے لیکن اگر کبھی کبھار کسی ساتھی کو اعتراض ہوتا تو وہ اختلاف کی جسارت کرتا لیکن شاہ جی دلیل کے ساتھ بات تسلیم کر لیتے تھے بلاوجہ ڈٹ جانا ان کا شیوہ نہیں تھا، ان کی یہی خوبی لاجواب تھی پھر اس پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہ قبول کرنا شاہ جی جیسے بڑے صحافی ہی کر سکتے تھے اور یہ دباؤ محض ادارے کے اندرونی دباؤ تک محدود نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ اس میں وہ سیاسی اور حکومتی دباؤ بھی بسا اوقات شامل ہوتے تھے کہ جن کے آگے بڑے بڑے جگادری گھٹنے ٹیک دیتے ہیں لیکن شاہ جی کی ڈکشنری میں یہ لفظ شاید سرے سے موجود ہی نہیں تھے اور اس کی وجہ بنیادی یہ تھی کہ وہ جب فیصلہ کیا کرتے تھے تو چند سیکنڈ میں کرتے اور میرٹ پر کرتے تھے۔
اپنے فیصلے کو خود ہی تولتے تھے اور اس کی سچائی اس قدر مضبوط اور مستحکم رکھتے کہ اختلاف کرنے والے تھک ہار کر ان کے آگے ہار تسلیم کر لیتے تھے، شاہ جی کا یہ کردار ایک ایسا وصف تھا کہ جو اس وقت کے صحافیوں میں تیزی سے ناپید ہو رہا ہے آج صحافت میں مؤقف برسات کے موسم کی طرح تبدیل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اہل صحافت کی وہ قدر نہیں جو کبھی ہوا کرتی تھی، شاہ جی بہترین استاد بھی تھے لیکن وہ روایتی استادی کے بجائے جو بھی کچھ سکھاتے وہ انتہائی دوستانہ انداز میں سکھاتے تھے وہ ہمیشہ کہتے تھے فیصلہ کرتے وقت تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر پوری سچائی سے ایک نتیجے پر پہنچو اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ، شاہ جی بالکل درست کہتے تھے کہ ڈٹ جاؤ، انھوں نے یہی طور طریقہ اپنی بیماری کے خلاف بھی اپنایا لیکن موت سے چھٹکارا حاصل نہیں اور آخر کار شاہ جی اس دار فانی سے کوچ کر گئے ان کی تدفین جب میری آنکھوں کے سامنے ہو رہی تھی تو بے اختیار ذہن میں یہ شعر دنیا کی بے ثباتی مجھ پر آشکار کر رہا تھا کہ
زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے
شاہ جی بھی ایک ایسا ہی آسمان تھا جو 6 مئی کی صبح زمین کھا گئی لیکن شاہ جی کا کردار ایک دبنگ صحافی اور شاعر کے روپ میں رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔
نوٹ: شاہ جی کے بارے میں کچھ لکھنے کی تاخیر کا سبب وہ ذہنی بے سکونی تھی کہ دل اب تک ماننے کو تیار نہیں کہ شاہ جی ہمیں داغ مفارقت دے گئے، اور ان جیسی شخصیت پر لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔