کرانہ پہاڑیاں فطرت تاریخ اور ثقافت کی امین

قدرتی نظاروں اور دیومالائی داستانوں کی مسکن، کرانہ پہاڑیوں کو کرشنگ مافیا نے تباہ و برباد کردیا ہے


سرگودھا سے چنیوٹ تک پھیلی یہ پہاڑیاں اور ان میں چھپے نظارے بے مثال حسن سے مالا مال ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

WASHINGTON DC: سرگودھا کو قدرت نے بلاشبہ فطری حسن اور تاریخی لحاظ سے بڑی فیاضی کے ساتھ نوازا ہے۔ خاص طور پر یہاں کی کرانہ پہاڑیاں فطرت اور تاریخ و ثقافت کا اہم سنگم ہیں۔ سرگودھا سے چنیوٹ تک پھیلی یہ پہاڑیاں اور ان میں چھپے نظارے بے مثال حسن سے مالا مال ہیں۔ چھوٹی بڑی پہاڑیوں کے گرد و نواح میں بڑی شان سے کھڑے پھلوں (کینو، مالٹا، موسمبی، فروٹر اور امرود) کے باغات، لہلہاتے کھیت کھلیان، سبزہ، فصلیں، چشمے، جھیلیں اور روایتی انداز میں بسے گاؤں قدرتی حسن میں اضافے کا باعث ہیں۔ ان پہاڑیوں سے وابستہ دیومالائی قصے کہانیاں ایسے ہیں جو ہر فرد کو انگشت بد نداں کردیں جبکہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہی پہاڑیوں میں واقع مصحف ایئربیس سے اڑان بھر کر ایم ایم عالم جیسے ہواباز شاہینوں نے بھارتی ایئرفورس کے ہوائی حملے کو نہ صرف بری طرح ناکام بنایا بلکہ انہیں ایسا سبق سکھایا کہ انہوں نے دوبارہ پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی غلطی نہیں دہرائی۔

اس پہاڑی سلسلے کے نام کے بارے میں بہت سے ابہام ہیں، اکثریت اس کو ''کڑانہ'' پہاڑیوں کے نام سے جانتی ہے تو کچھ کے نزدیک ''کیرانہ'' یا ''کرانہ'' پہاڑیاں صحیح لفظ ہے۔ تاہم سرگودھا کے معروف مؤرخ صاحبزادہ عبدالرسول سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ درست لفظ ''کرانہ'' پہاڑیاں ہی ہے کیونکہ یہ سلسلہ ''کرانہ بار'' کے جغرافیائی خطے میں واقع ہے۔ کرانہ بار میں سرگودھا سے جھنگ تک کا علاقہ شامل ہے۔ تاریخی کتب میں بھی اس سلسلے کو کرانہ پہاڑیاں ہی لکھا گیا ہے۔



افسوس ناک امر یہ ہے کہ کرانہ ہلز کو انسانی سفاکی کی وجہ سے معدومیت کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ سرگودھا میں اس وقت چار سو سے زائد اسٹون کرشنگ یونٹس کام کر رہے ہیں۔ بڑی تیز رفتاری سے کرانہ پہاڑیوں کو بجری کے ڈھیروں میں بدلا جا رہا ہے جس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ ایشیا کی سب سے بڑی پتھر مارکیٹ سرگودھا کی کرانہ ہلز میں ہے۔ جس بے رحمی سے کرانہ ہلز کو ختم کیا جا رہا ہے، آنے والی نسلوں کےلیے یہ پہاڑیاں قصہ پارینہ بن جائیں گی۔ یہ پہاڑ یاں دھماکوں سے گونجتی رہتی ہیں، حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز مزدور جاں بحق ہوتے رہتے ہیں مگر کرشنگ مافیا کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔



اسٹون کرشنگ انڈسٹری کی وجہ سے یہ پہاڑی سلسلہ تو ختم ہو ہی رہا ہے، لیکن جو سب سے بڑا نقصان ہورہا ہے وہ خطرناک حد تک بڑھتی ماحولیاتی آلودگی ہے۔ گرد و غبار کے مرغولے انسانی جانوں کو داؤ پر لگانے کے ساتھ ساتھ فصلوں کو بھی نقصان پہنچارہے ہیں۔

ان پہاڑیوں سے کئی دیومالائی قصے کہانیاں وابستہ ہیں جن کے بارے میں جاننا قارئین کےلیے یقیناً دلچسپی کا باعث ہوگا۔ یہ پہاڑیاں کیسے وجود میں آئیں؟ اس بارے میں ہندو مت کے پیروکاروں کا عقیدہ (ہندوؤں کے) دیوی دیوتاؤں، یودھاؤں اور اوتاروں سے جا ملتا ہے جن کے متعلق جان کر قارئین حیران ہوں گے۔



ہندو عقیدے کے مطابق ان پہاڑوں کا تعلق رام اور سیتا کی ''رامائن'' سے ہے۔ رام اور سیتا کہ جن کی دیومالائی داستان کو یہاں بیان کرنے لگ جاؤں تو تحریر کو سمیٹنا مشکل ہو جائے گا۔ زیر نظر تحریر کے مندرجات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہانی کو مختصر بیان کیے دیتا ہوں۔ اس موضوع پر میری اپنے دوست رانا محمد احمد سے مفصل گفتگو ہوئی، رانا محمد احمد کا ہندوستانی تاریخ و تقافت اور ہندو مت کے حوالے سے گہرا مشاہدہ ہے۔ باہمی مکالمے اور تحقیق سے جو معلومات سامنے آئیں وہ بہت دلچسپ ہیں۔ ہندو عقائد کے مطابق رام چندر ان کے بھگوان وشنو کا ساتواں اوتار تھا۔



اس دور کے ظالم و جابر اور بدقماش سمجھے جانے والے، لنکا کے راجا راون کی شکتی شالی (طاقتور) بہن 'شُرپناکھا (shurpanakha) رام کو چاہنے لگی اور رام کو اپنی، اپنے بھائی راون اور بھتیجے اندرجیت (راون اور اس کا بیٹا اندرجیت وقت کے بہت بڑے یودھا تھے) کی طاقت کے بل بوتے پر دباؤ میں لاکر شادی کےلیے راضی کرنا چاہا مگر رام نے انکار کر دیا کیونکہ وہ سیتا کی محبت میں سر سے پاؤں تک ڈوبا ہوا تھا اور بے وفائی کا مرتکب نہیں ہونا چاہتا تھا۔ رام نے سیتا سے شادی کرلی اور یہ باور کرا دیا کہ وہ ''سیتا کے علاوہ کسی کا نہیں ہوسکتا۔'' راون کی بہن سے یہ سب برداشت نہ ہوا اور اس نے سیتا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور رام سے بھی بدتمیزی کی، جس پر رام نے غصے میں آکر اس کی ناک کاٹ دی۔ وہ روتی چلاتی اپنے بھائی کے پاس گئی۔ راون اپنی بہن کی یہ حالت دیکھ کر سیخ پا ہوگیا اور رام سے بدلہ لینے کےلیے سیتا کو اٹھا کرلے گیا؛ اور سری لنکا کے قریب ایک محل میں قید کر دیا۔

رام ایک عرصہ تک اپنی پیاری بیوی کو ڈھونڈتا اور اس کی یاد میں آنسو بہاتا رہا۔ سیتا کی تلاش میں رام کے بھائی لکشمن نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ تلاش بسیار کے بعد بالآخر انہیں معلوم ہوا کہ راون نے سیتا کو سمندر پار لنکا کے ایک محل میں قید کر رکھا ہے اور وہاں تک پہنچنا ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ یہاں پر ہنومان کی اینٹری ہوتی ہے۔ ہنومان کی اس سے قبل رام سے ملاقات تو نہیں ہوئی تھی مگر وہ اس کا غائبانہ بھگت تھا۔ جب ہنومان کو راون کی حرکت کا علم ہوتا ہے تو وہ سیتا کو آزاد کروانے کےلیے رام کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ رام کےلیے اس وقت مزید آسانی پیدا ہوجاتی ہے جب راون کا بھائی وبھیشن (ببھیشن) اس کی جابرانہ فطرت اور غلط افعال سے تنگ آکر رام سے ملتا ہے اور ریاست لنکا کی خامیوں، محل کے اندرونی رازوں اور راون کی کمزوریوں کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ (یہیں سے ''گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے'' والی ضرب المثل وجود میں آئی۔) یوں رام، لکشمن اور ہنومان فوج تیار کرکے راون کی لنکا ڈھانے اور سیتا کو آزاد کروانے کےلیے بڑھتے ہیں۔



انہیں ایک طویل مسافت طے کرنے کے علاوہ سمندر بھی پار کرنا ہوتا ہے۔ فوج کو بہ آسانی سمندر پار کرانے کےلیے ضروری تھا کہ سمندر پر اتنا مضبوط پل بنایا جائے کہ جو بندروں کے راجا سکریو کی عظیم الجثہ، قوی ہیکل فوج کا وزن برداشت کرسکے (ہنومان اسی بندر نما مگر طاقتور فوج کا سپہ سالار تھا اور سیتا کی واپسی کےلیے رام کا ساتھ دے رہا تھا)۔ ہندوؤں کی مختلف کتابوں میں درج ہے کہ رام نے ہنومان کو حکم دیا کہ پتھروں کا پل بنایا جائے۔ ہنومان بہت طاقتور تھا جس کے پاس اڑنے، اپنے جسم کو ضرورت کے مطابق بڑھانے کی شکتی تھی اور ہنومان اپنی طاقت کے بل بوتے پر کوہِ ہمالیہ سے پہاڑ اُٹھا اُٹھا کر لا یا تاکہ لنکا اور بھارت کے درمیان موجود سمندر میں پہاڑ رکھ کر فوج کےلیے گزر گاہ بنائی جاسکے۔

وہ بار بار ہمالیائی پہاڑ اٹھا کر آتا اور اس دوران اس کے ہاتھ سے کچھ پہاڑیاں گرتی بھی رہیں۔ ہندوؤں کے نزدیک سرگودھا سے چنیوٹ تک پھیلی کرانہ پہاڑیاں دراصل وہی پہاڑیاں ہیں جو ہنومان جی ہمالیہ سے اٹھا کر لائے اور کچھ پہاڑیاں ان کے ہاتھ سے گرگئیں۔ ان پہاڑیوں کا تذکرہ ہندوؤں کی مشہور کتب میں ملتا ہے۔ یوں سیتا کی بازیابی اور راون کی سرکوبی کےلیے سمندری راستہ بنایا گیا۔ ہندو طبقات کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پتھروں سے بنایا گیا یہ پل دراصل سری لنکا اور بھارت کے درمیان واقع ''ایڈم برج'' ہے جسے رامائن کی نسبت سے ''رام سیتو'' بھی کہا جاتا ہے۔ ایک جریدے کے مطابق بھارت کے جنوبی حصے میں رامیشورم کے نزدیک پامبن جزیرے اور سری لنکا کے منار جزیرے کے درمیان واقع پچاس کلومیٹر طویل پل نما یہ ڈھانچہ سمندر میں واقع ہے۔ ہندوؤں کے ایک طبقے اور بالخصوص قوم پرست ہندو تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ وہی رام سیتو (پُل) ہے جس کا ذکر ان کی مذہبی کتاب رامائن میں ہے۔

رامائن کے مطابق، ''جب ہندوؤں کے بھگوان رام کی اہلیہ سیتا کو لنکا کے راجہ راون نے اغوا کرلیا تو وہ اپنی بیوی کو رہا کرانے کے لیے اسی پل کے ذریعے سری لنکا گئے تھے۔ رام نے ابتداء میں سمندروں کے دیوتا 'ساگر' سے لنکا جانے کےلیے راستہ دینے کی درخواست کی لیکن جب ساگر نے ان کی درخواست مسترد کردی تو رام نے اپنا طاقتور تیر چلا کر سمندر کو خشک کرنے کی دھمکی دی۔ ساگر رام کی بات مان گئے اور بتایا کہ 'نل' نامی ایک ایسا شخص ہے جو پل بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رام نے اپنے بندروں کی فوج اور ان کے سالار ہنومان کے ساتھ مل کر پل بنایا، لنکا گئے، راون کے ساتھ جنگ کی، اسے ہلاک کیا اور اپنی بیوی سیتا کو رہا کروا کر اجودھیا لے آئے۔'' کہا جاتا ہے کہ ان کرانہ پہاڑیوں کے دامن میں ایک قدیم تاریخی مندر ہے جو ''ہنومان کا مندر'' کہلاتا ہے۔ یہ مندر پہاڑیوں میں کس جگہ ہے؟ یہ مندر ہے بھی یا نہیں؟ اس حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد مجھے نہیں مل سکے۔

یہ وہ قصے کہانیاں ہیں جو کرانہ پہاڑیوں کے وجود میں آنے کے حوالے سے ہندو مت کے لوگ تصور کرتے ہیں۔ تاہم حقیقت کیا ہے؟ یہ اللہ بہتر جانتا ہے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات کے ذرے ذرے کا خالق و مالک اللہ ہے؛ خواہ وہ پہاڑ ہوں یا دریا، صحرا ہوں یا چٹیل میدان، الغرض ہر شئے کا خالق اللہ ہے اور اس مالک کائنات کے حکم کے بغیر تو ایک پتا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔

تاریخی، مذہبی اور ثقافتی حوالوں سے کرانہ پہاڑیاں ہندوؤں کےلیے معتبر تو ہیں ہی، مسلمانانِ برصغیر (پاک و ہند) کےلیے بھی اس لحاظ سے یہ پہاڑیاں اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ کہ ان پہاڑیوں کو بہت سے بڑے اولیائے کرام، اولیاء اللہ اور صوفی حضرات نے اپنا مسکن بنایا۔ قرب خداوندی حاصل کرنے کےلیے پہاڑیوں کے دامن آباد کرتے ہوئے عبادت و ریاضت میں وقت گزارا، چلّے کاٹے، مذہب اسلام کی تبلیغ کی اور اللہ کی نگاہوں میں تو معتبر ٹھہرے ہی عوام نے بھی ان بزرگان دین کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ کرانہ پہاڑیوں میں ان اولیائے کرام کی کرامتوں کے کئی انمٹ نقوش موجود ہیں جنہیں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بہت سے بزرگانِ دین کے مزارات اور ان سے منسوب چلّہ گاہیں، عبادت گاہیں اب بھی موجود ہیں جہاں مریدین کا ہجوم لگا رہتا ہے۔

افسوس ناک امر ہے کہ کرانہ سلسلے کی پہاڑیاں بتدریج ختم ہوتی جارہی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اسٹون کرشنگ کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہے جسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آنے والی چند دہائیوں میں کرانہ پہاڑیاں بقا کی جنگ مکمل ہار جائیں گی۔ تاہم سلسلہ کرانہ ہلز سے جڑی ایک پہاڑی ایسی بھی ہے جو فطرت کو مٹانے والے انسانی ذہنیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے۔ اس پہاڑی کو فتح کرنے کا خواب انسان کو کبھی راس نہیں آیا۔ یہ پہاڑی چک 102 جنوبی میں بڑے طمطراق اور جاہ و جلال سے اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ ''شرابن پہاڑی'' کے نام سے منسوب یہ پہاڑی، کرانہ ہلز سے جدا ہوچکی ہے۔ بقا کی جنگ لڑتی اس تنہا پہاڑی کی روداد میں کئی رنگ ہیں، کئی پیچ و خم ہیں۔ انسان کی سرد مہری، بے حسی کے نوحے بھی ہیں اور اس پہاڑی کی مہربانیوں، عنایتوں سے لبریز خوش کن نغمے بھی ہیں۔



یہ پہاڑی اپنی منفرد ساخت کی وجہ سے بہت انمول ہے۔ اس کا پتھر کہیں سیاہ ہے تو کہیں مٹیالہ، کہیں خاکستری تو کہیں سرخ اور ہلکا سفید۔ اس کی چار بڑی چوٹیاں ہیں اور اس کے چاروں طرف بہت سی چھوٹی چوٹیاں ہیں جو آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ اس کا ایک حصہ آبادی کے دوسری طرف بھی ہے۔ پرانے وقتوں میں شاید یہ دونوں حصے آپس میں ملے ہوئے تھے تاہم انسانی مداخلت کے بعد اس کا ایک بہت بڑا حصہ کرشنگ کے ذریعے ختم کردیا گیا اور یوں درمیان میں خلا بننے سے آبادی کا راستہ بن گیا۔ تاہم دور سے دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حصے ایک ہیں۔

اس پہاڑی کا نام ''شرابن'' کیسے پڑا؟ علاقے کے بزرگوں اور بوڑھوں کے مطابق اس سوال کا جواب کچھ یوں ہے کہ صدیوں قبل ایک ولی اللہ بابا ولایت شاہ یہاں آئے اور پہاڑی کے دامن میں اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ ان بزرگ نے اسی پہاڑی پر چلہ کاٹا تھا، وہ دن رات عبادت کرتے اور یاد خدا میں مشغول رہتے۔ وہ پانی پی کر مست ہوجاتے جس پر مقامی لوگوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ شراب پیتے ہیں۔ بزرگ کے انکار کے باوجود لوگوں نے ان کا اعتبار نہ کیا۔ ایک مرتبہ انہوں نے پانی کے مٹکے کو دودھ میں بدل کر کرامت کا اظہار بھی کیا لیکن لوگوں کی بدگمانی دور نہ ہوئی۔ خیر، بزرگ نے الزامات سے تنگ آ کر جواباً کہنا شروع کر دیا کہ ہاں! میں شرابی ہوں۔ اسی نسبت سے چک 102 جنوبی کی پہاڑی کو ''شرابن پہاڑی'' کہا جاتا ہے۔ مقامی آبادی نے بابا ولایت شاہ کے ٹھکانے کو دو بار تباہ کیا اور آخرکار انہوں نے یہ پہاڑی چھوڑ دی۔ ان کا مزار کرانہ پہاڑیوں میں ہی واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ جب بابا ولایت شاہ اس پہاڑی کو چھوڑ کر (موجودہ) پل 111 کے پاس واقع دیگر پہاڑیوں میں جاکر آباد ہوگئے تو بعد ازاں شرابن پہاڑی کے قریب آباد لوگوں کو احساس ہوا کہ انہوں نے غلط کیا ہے۔ تاہم بابا ولایت شاہ واپس نہیں آئے اور باقی کی ساری زندگی اس سلسلے کی دیگر پہاڑیوں میں بسر کردی۔



جب کبھی یہاں دوست احباب کے ساتھ یا اکیلے آنا ہوا، ہم نے وہ جگہ ضرور دیکھی کہ جہاں بابا ولایت شاہ نے سکونت اختیار کی تھی اور مقامی لوگوں نے ان کو یہاں سے نکالنا چاہا۔ پہاڑی کے دامن میں خلا سا بنا ہوا ہے، اس جگہ کی سب سے متاثر کن چیز پہاڑی چٹانوں پر قدرتی طور پر لکھا ہوا کلمہ طیبہ تھا۔ فولاد جیسے سخت پتھروں پر لکھے گئے کلمے کو اس طرح لکھنا کم ازکم انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ وہ چٹانوں کا ہی حصہ ہے اور بغور دیکھنے سے بھی اس کے لکھنے میں انسانی عمل دخل کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مقامی لوگ پہاڑی چٹان پر اس کلمے کا ظہور بابا ولایت شاہ کی کراماتی صلاحیتوں سے ہوا۔ لوگ بڑے دور دراز کے علاقوں سے اس چٹان پر لکھے گئے کلمے کو دیکھنے آتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس جگہ پر ایک مجاور 'بابا کلمے آلا' موجود رہتا ہے جو جگہ کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتا ہے، پانی کا گھڑا بھر کر رکھتا ہے اور دیا جلاتا ہے۔ اس مجاور کو علاقہ مکین سائیں بھی پکارتے ہیں جو روایتی سیاہ چوغہ پہنے موجود رہتا ہے اور آنے والے لوگوں کو اس پہاڑی، بابا ولایت شاہ سے منسوب روداد سناتا ہے۔

بابا ولایت شاہ کی رہائش گاہ سے منسوب جگہ سے چند قدم کے فاصلے پر پہاڑی کے اوپر چڑھنے کا راستہ ہے۔ میں اس جگہ کئی مرتبہ آیا اور ہر مرتبہ پہاڑی سر کرنے کی جستجو کی جو ایک مشکل کام ہے۔ اوپر جائیں تو درمیانی چوٹی سے قبل ایک خلاء دیکھنے کو ملتا ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں بیٹھ کر بابا ولایت شاہ عبادت کرتے اور چلہ کاٹتے تھے جس کی وجہ سے اس کو بابا جی کی بیٹھک یا چلّہ گاہ کہتے ہیں۔ پہاڑی کی سب سے اونچی چوٹی پر جاکر چاروں طرف نظر دوڑائیے تو منظر ہی نرالے ہوتے ہیں۔ چاروں طرف سرسبز کھیت کھلیان، ان میں چرتے جانور، کام کرتے کسان، ترتیب سے بنے کچے گھروں کو دیکھ کر آنکھوں کو سکون ملتا ہے۔ چک 120 جنوبی سے کچھ فاصلے پر مزید چکوک آباد ہیں (چک 39، 40 جنوبی وغیرہ)۔ ان تمام چکوک کے اندر متحرک زندگی کا ایک ہی نظر میں جائزہ لینا ہو تو اس پہاڑی کی چوٹی سے ممکن ہے۔ پہاڑی کے ایک طرف آبادی ہے اور دوسری جانب نظر دوڑائیں تو فیصل آباد روڈ پر کرانہ ہلز کی دیگر چوٹیاں اور مصحف ایئربیس کا ریڈار گھومتا نظر آتا ہے؛ جبکہ پہاڑی کی پشت پر نگاہ کریں تو بہت دور چنیوٹ کے قریب کرانہ ہلز کی پہاڑیاں نظر آتی ہیں؛ اور ان کے ساتھ ہی بہتے چناب کا منظر بہت بھلا لگتا ہے۔



بابا ولایت شاہ کے ایک مرید خاص بابا نور ملنگ کھوئی آلا بھی اسی پہاڑی کے قریب دفن ہیں۔ چک 102 جنوبی کے گھروں سے چند قدم کے فاصلے پر پہاڑی سلسلہ شروع ہونے سے قبل ڈھلوان پر ان کے مرید کا مدفن ہے۔ کئی نسلیں گزر چکیں مگر یہاں کے مکینوں کی بزرگ سے وابستہ عقیدت میں کمی نہیں آئی۔ شاید یہ اس غلطی کا مداوا ہے جو مقامی آبادی کے آبا و اجداد نے بابا ولایت شاہ کو تنگ کرکے کی۔



بابا ولایت شاہ کے مرید خاص کی قبر سے آگے جھاڑیوں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھیں تو ایک ٹیڑھا راستہ ہے جو پہاڑی کے ایک مخصوص حصے تک جانے کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ اوپر گئے تو معلوم ہوا کہ پہاڑی میں دراڑ کی وجہ سے یہاں ایک گہرا گڑھا سا بن گیا ہے جس میں بارش اور دراڑوں سے رسنے والا پانی جمع ہوجاتا ہے۔ مقامی لوگ اسے ''کھوئی'' کہتے ہیں اور اسی کھوئی کی وجہ سے بابا نورملنگ 'کھوئی آلا' کہلایا۔



میں یہ سن کر حیران ہوا کہ نہ صرف مقامی بلکہ دور دراز سے آئے ہوئے لوگ بھی اس پانی میں نہاتے ہیں۔ وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اس پانی میں نہانے سے بہت سی بیماریاں ختم ہوجاتی ہیں۔ شاید ایسا اس وجہ سے ہوتا ہو کہ پہاڑی دراڑوں سے جب پانی گزر کر اس کنویں نما گڑھے کی جانب بڑھتا ہوتو اس میں پہاڑی چٹانوں کے مختلف کیمیکلز مل جاتے ہوں جو بیماریوں کےلیے شفا کا باعث ہوں۔ تاہم مقامی آبادی اس کھوئی کے پانی میں نہانے سے بیماریوں کے خاتمہ کو بھی بابا ولایت شاہ کی کرامت سے جوڑتی ہے۔



میں جب اپنے دوست تنویر ہاشم کے ساتھ چک 102 جنوبی آیا تھا تو ہم اس علاقے کے رہن سہن، لوگوں کے رسوم و رواج اور عقائد دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ اس دن اس چک میں کسی گھر میں شادی تھی جس کی وجہ سے خاصی گہماگہمی تھی۔ جب ہم پہاڑی کی دراڑ میں بنے کنویں نما گڑھے (کھوئی) کو دیکھنے کےلیے اوپر جا رہے تھے تو وہاں دولہے میاں اور باراتیوں کا ٹولہ موجود تھا جو پہاڑی کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اور تصاویر بنوا کر ان یادوں کو کیمرے کی آنکھ میں قید کر رہے تھے۔



مقامی آبادی اس پہاڑی پر پائی جانے والی جڑی بوٹیوں کو بھی استعمال کرتی ہے کیونکہ ان بوٹیوں میں ایسے اجزاء موجود ہیں جو بہت سے امراض کے خلاف مدافعت رکھتے ہیں۔ کرانہ پہاڑیوں، بالخصوص چک 102 جنوبی کی پہاڑی پر اگنے والی جڑی بوٹیوں کا ذکر چھڑا ہے تو یہاں پر رامائن کے اختتامی حصے کا ذکر بھی لازم ہوجاتا ہے کیونکہ ان جڑی بوٹیوں کا تعلق اسی دیومالائی داستان سے جاملتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ رام چندر اپنی فوج کے ساتھ، ہنومان کے ہمالیائی پہاڑوں کے پتھروں سے بنائے پل پر سے گزرتے ہوئے، راون کی لنکا پر دھاوا بولتا ہے اور اس مقام پر مہا یدھ (بڑی اور تباہ کن لڑائی) ہوتا ہے۔ راون کا مقابلہ رام سے ہوتا ہے اور 14 دن تک جاری رہنے والے اس خوفناک مقابلے میں راون کو شکست ہوتی ہے۔ تاہم اس سے قبل راون کے بیٹے اندرجیت اور رام کے بھائی لکشمن کے درمیان بھی بڑا سخت مقابلہ ہوتا ہے۔ اندرجیت نے لکشمن پر انتہائی زہریلے سانپوں کے زہر والا تیر یعنی ''میگھ وار'' برسایا جسے روکنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ لکشمن اپنے پاس موجود بھرماستر (یعنی انتہائی تباہ کن ہتھیار) کا استعمال کرے لیکن لکشمن نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اگر وہ بھرماستر کا وار کرتا توبہت تباہی ہوتی اور چند شکتی شالی (طاقتور) لوگوں کے علاوہ سب مرجاتے۔ میگھ وار کا شکار ہوکر لکشمن بے ہوش ہوجاتا ہے۔



اسے ہوش میں لانے کا یہی طریقہ تھا کہ کوہ ہمالیہ میں پائی جانے والی مخصوص جڑی بُوٹی ''سنجیونی بُوٹی'' اس کےلیے لائی جائے۔ اس دیومالائی بُوٹی کی خاص بات یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس سے نہ صرف ہر قسم کی تکلیف اور زخم کا خاتمہ ہوجاتا ہے بلکہ مُردہ بھی زندہ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے یہ ''سنجیونی بُوٹی'' (جیون واپس لوٹانے والی جڑی بُوٹی) کہلاتی ہے۔ خیر، سنجیونی بُوٹی لانے کی ذمہ داری ہنومان قبول کرتا ہے اور اڑان بھر کر ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہمالیہ کے پہاڑوں میں پائی جانے والی یہ سنجیونی بُوٹی لے کر لنکا واپس پہنچتا ہے؛ اور یوں لکشمن کی جان بچ جاتی ہے۔ بعد ازاں وہ اندرجیت سے دوبارہ مقابلہ کرتا ہے اور اسے شکست سے دوچار کرتا ہے۔ یہ کہانی بیان کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ روز اول سے ہی انسان اس بات سے واقف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پہاڑی سلسلوں میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں میں شفا رکھی ہے۔

قارئین یہ جان کر مزید حیران ہوں گے کہ اس پہاڑی میں لوہے کے ذخائر ہیں۔ ان ذخائر کو نکالنے کی کوشش بھی کی گئی اور لوہا نکالا بھی گیا تاہم ناگہانی آفات اور کام میں حائل ہونے والی قدرتی رکاوٹوں کی وجہ سے کچھ ہی عرصے بعد کام بند کرنا پڑا۔ چک 102 جنوبی کی پہاڑیوں میں کئی اسرار چھپے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس پہاڑی کےلیے بابا ولایت شاہ نے خصوصی دعا کی تھی جس کی وجہ سے آج تک اس پہاڑی کو ختم کرنے کی جتنی کوششیں کی گئیں، وہ ناکام ہوئیں۔ سب سے پہلے اس پہاڑی سے پتھر اور لوہے کا ذخیرہ حاصل کرنے کےلیے برطانوی سرکار نے کوشش کی تاہم وہ اپنی کوششوں میں ناکام رہی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی کئی مرتبہ یہاں کرشنگ کا کام شروع کروایا گیا لیکن ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی ایسا سنگین مسئلہ سامنے آیا کہ ٹھیکیدار کام چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پھر بھی جتنا عرصہ کام ہوا، اس سے پہاڑی کو خاصا نقصان پہنچ چکا ہے۔



پہاڑ کی پشت پر جائیں اور 250 میٹر کی چڑھائی کریں تو وہ غار بھی نظر آجاتا ہے کہ جہاں سے مختلف ادوار میں لوہا نکالا گیا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ پہاڑی غار اتنا طویل ہے کہ اس کے کنارے تک پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے؛ اور اب جو بندہ بھی اس غار میں جاتا ہے، لوٹ کر واپس نہیں آتا۔ یہ باتیں سن کر مجھے اور میرے دوست تنویر ہاشم کو اشتیاق ہوا کہ ہم بھی یہ غار دیکھیں۔ چنانچہ ہم دونوں مشکل چڑھائی چڑھ کر غار کے دہانے پر پہنچے تو وہاں پر لکھا ہوا تھا کہ بغیر اجازت اندر داخل ہونا منع ہے۔ تاہم وہاں نہ تو کوئی بندہ تھا کہ جس سے اجازت لی جاتی اور دوسرا ہم ٹھہرے پاکستانی، بلا حیل و حجت اندر داخل ہو تو گئے مگر غار کا منظر دیکھ کر جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی کیونکہ اندر گھپ اندھیرا تھا اور غار میں عجیب و غریب آوازیں بھی سنائی دے رہیں تھیں۔ ہمت کرکے موبائل کی ٹارچ جلائی اور ایسا کرنا مزید مہنگا پڑا۔ جو آوازیں آ رہی تھیں وہ دراصل چمگادڑوں کی تھیں جو روشنی کی وجہ سے بوکھلا گئی تھیں۔ خدا کی پناہ! اتنی چمگادڑیں میں نے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ میں چند قدم ہی مزید چلا اور حوصلہ ہار کر واپس دوڑ لگا دی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مزید تھوڑا آگے بڑھا تو چمگادڑیں مجھے کچا چبا جائیں گی۔

آبادی والی سائیڈ پر جہاں سے پہاڑی شروع ہو رہی ہے، وہاں ٹیلہ نما پہاڑی چٹانیں اور ان چٹانوں پر دیوہیکل قدموں کے واضح نشانات ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آخر یہ کونسی مخلوق تھی جو اتنے بڑے قدموں والی تھی۔ اس جگہ مزید جانوروں، انسانوں اور بچوں کے قدموں بھی نقش تھے۔ ان قدموں کے نقوش کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ اس بارے میں کوئی ٹھوس جواب نہیں مل سکا۔ البتہ یہاں لوک داستانیں مشہور ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں طویل قامت و جسامت کے ملک آدم خور 'دیو' آباد تھے جو انسانوں کے سخت دشمن تھے، یہ انہی کے قدموں کے نشانات ہیں۔ اسی طرح بڑے بڑے جانوروں کے حوالے سے بھی کئی قصے کہانیاں مشہور ہیں۔ بعض لوگوں نے پتھروں پر قدموں کے نقوش تک کو بابا ولایت شاہ سے منسوب کیا ہوا ہے۔ ایسے مزید بڑے قدموں کے نشانات شاہین آباد کے پاس کرانہ پہاڑیوں میں بھی موجود ہیں۔



یہ قدموں کے نشانات سب کےلیے اسرار بھرے ہیں لیکن حقیقت تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ اس سے انکار نہیں کہ کروڑوں سال قبل دیوقامت جانور بھی ہوا کرتے تھے جبکہ قصے کہانیوں میں طویل قامت انسانوں کے تذکرے بھی بھرے پڑے ہیں۔ مگر زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ پہاڑی چٹانوں پر آخر یہ نشانات کیسے پڑے؟ ایک بھیڑ بکری، ایک اونٹ، یا بچہ اتنا بھاری تو نہیں ہوسکتا کہ پتھر پر پاؤں رکھے اور پاؤں نقش ہوجائیں۔ ہندو عقیدے کے مطابق تو یہ ان کے اوتاروں، دیویوں اور دیوتاؤں کے پاؤں ہوسکتے ہیں لیکن آج کا انسان ایسی دیومالائی کہانیوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں اور کوئی عقلی جواز فراہم کرنے سے بھی قاصر ہے۔



کرانہ پہاڑیاں ایسے خزانے کی مانند ہیں کہ جسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ یہ معدنیات کا ایسا ذخیرہ ہے جسے احتیاط سے نہ برتا گیا تو اسے ختم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں کا پتھر اور بجری پاکستان بھر میں تعمیرات اور سڑکوں کا جال بچھانے کےلیے استعمال ہو رہے ہیں۔ سیمنٹ بنانے کےلیے ان کا محدود استعمال ہوا، کہیں سے لوہا نکالا گیا تو کہیں سونا نکالنے کے دعوے سامنے آئے۔ الغرض ہم ہر طرح ان پہاڑیوں کے مقروض ہیں۔ ان پہاڑیوں پر انسان نے باردو برسایا اور بدلے میں انہوں نے خوشنما جھیلوں کا تحفہ دیا۔ ہمیں اس بات کا احساس کب ہو گا کہ یہ پہاڑیاں ختم ہونے سے وہ ہزارہا لوک داستانیں بھی دم توڑ جائیں گی کہ جو نسل در نسل، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی آ رہی ہیں؛ بالکل ماں کی لوری کی طرح۔

کرانہ پہاڑیوں کا یہ وسیع سلسلہ بتدریج ختم ہو رہا ہے۔ چک 102 جنوبی کی پہاڑی تو ایک بزرگ کی دعاؤں کی بدولت ابھی برقرار ہے تاہم شاہین آباد کی طرف جائیں تو راستے میں الگ تھلگ دو پہاڑیاں مزید ہیں جن میں سے ایک 100 والی پہاڑی کہلاتی ہے جبکہ دوسری پہاڑی پٹھان کالونی اور ڈیرہ خان محمد میں واقع گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول چرنالی ہلز کے قریب واقع ہے۔ اگلے چند سال میں ان دونوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔ یہ پہاڑیاں علاقائی تہذیب و ثقافت کی امین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شرابن پہاڑی اور 100 والی پہاڑی جیسی دیگر کرانہ پہاڑیاں آخر کب تک اپنے بقا کی جنگ لڑتی رہیں گی؟ کیا ہم یونہی خاموشی سے ان کا خاتمہ ہوتے دیکھتے رہیں گے؟



سرگودھا کی کرانہ پہاڑیاں اور ان میں چھپے قدرتی مناظر سیاحت کی راہداری ہیں۔ ان کی وجہ سے قرب و جوار میں آباد باشندوں کی ایک الگ ہی شناخت ہے۔ ان سے وابستہ ایسی داستانیں ہیں کہ جن میں کھیت کھلیانوں میں محنت مشقت کرتے کسان ہیں، رسوم و رواج کی لاج رکھتی مٹیارن ہے، یہاں کبھی پہاڑ نرم پڑجاتے ہیں تو کبھی لوگ پتھر دل ہو جاتے ہیں۔ یہاں کی فصلوں سے اٹھتی مہک بہت پرکشش ہے، یہاں کی لوک داستانوں میں پریاں ہیں، دیو ہیں، انسانوں کو ڈراتے جنات اور دیگر غیر مرئی مخلوقات ہیں۔ یہاں ٹوٹتی جڑتی، بکھرتی سمٹتی امنگوں کا عجب امتزاج ہے۔

ہاں! یہاں کے باسیوں کا الگ ہی مزاج ہے کہ جسے سمجھنے کےلیے برسوں کی ریاضت درکار ہے۔ اس خطے کی مٹی کے خمیر میں جہاں محبت کی داستانیں ہیں، وہیں اس مٹی کا خمیر ہرجائی بھی ہے۔ سرگودھا کے لوگوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ صدیوں سے جن پہاڑیوں کی گود میں پلے بڑھے ہیں، ان پہاڑیوں سے وفا کرتے ہوئے ان کی بقا کی جنگ لڑیں گے یا پھر خاموشی سے ان کی تباہی کا دردناک نوحہ سنتے رہیں گے۔



جب میں سلسلہ کرانہ ہلز میں گھومتا پھرتا شرابن پہاڑی پہنچا اور خاصا وقت گزارنے کے بعد شام گئے واپسی کےلیے پلٹا تو دل بوجھل تھا۔ اس پہاڑی کے حسن میں عجب سی اداسی تھی، اک سوز کہ جیسے کسی بچھڑے کی یاد میں نوحہ کناں ہو، آسمان بھی گویا اس سوگوار پہاڑی کے دکھ میں لال آنسو بہا رہا تھا۔ یہ پہاڑی مجھ سے سوال کر رہی تھی کہ آخر وہ کب تک انسانی یلغار کا سامنا کر پائے گی؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ پہاڑی سے آنکھیں چراتا، بوجھل دل کے ساتھ میں روبوٹ نما انسانی زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ لیکن جب بھی میں چک 102 جنوبی کی پہاڑی کے بارے میں سوچتا ہوں، سرگودھا کی کرانہ پہاڑیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو خود کلامی کے انداز میں سوال کرتا ہوں کہ کیا انسانی ترقی سے مراد قدرت کے ان شاہکاروں کو نیست و نابود کرنا ہے؟ میرے ضمیر نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ انسان کی بقا اسی میں ہے کہ ترقی کے نام پر قدرت کے بنائے نظام میں بگاڑ نہ لایا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں