’’کیا ڈیتھ سرٹیفکیٹ دکھا کر ہیلتھ کارڈ لیا جاسکتا ہے‘‘

عمران خان کے پہلے خطاب میں جب ہیلتھ کارڈ کا ذکر آیا تو میری آنکھوں کے سامنے مختاراں بی بی کا مایوس چہرہ گھوم گیا

مختاراں بی بی کے دنیا سے گزرجانے کے بعد اس کی بیٹی کے پاس اسلام آباد سے فون آیا کہ آپ کا ہیلتھ کارڈ بن گیا ہے، یونین کونسل دفتر میں شناختی کارڈ دکھا کر لے لیجیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

WASHINGTON:
''باجی آج کل میری طبیعت بہت خراب رہتی ہے۔ پتا نہیں کیا مسئلہ ہوگیا ہے۔ آپ کچھ پیسے دے دیں، مجھے ڈاکٹر سے چیک کروانا ہے۔''

مختاراں جو سالہاسال سے ملک صاحب کے گھر میں کام کر رہی تھی، اس نے اپنی مالکن سے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ مالکن سے ادھار لے کر مختاراں ڈاکٹر کے پاس گئی تو ڈاکٹر نے اسے کچھ ٹیسٹ لکھ دیئے جنہیں کروانے کا خرچہ ہزاروں میں تھا۔ مختاراں پھر پریشان ہوگئی کہ اب یہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اگلے دن پھر مالکن کے سامنے جھولی پھیلا دی۔ مالکن نے کہا کہ کل ہی میں نے ملک صاحب سے تمہاری بیماری کی بات کی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے وزیراعظم، میاں نواز شریف صاحب نے غریبوں کو صحت کی سہولیات دینے کےلیے ہیلتھ کارڈ بنانے کا سلسلہ شرو ع کیا ہے جس سے ان کا سارا علاج مفت ہوا کرے گا۔ اب تمہیں بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں! ملک صاحب تمہارا بھی کارڈ بنوا دیں گے۔

اگلے دن جب ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو اس میں ''ہیپاٹائٹس سی'' کی تشخیص ہوئی۔ یہ خبر مختاراں پر قیامت بن کر گزرتی ہے! لیکن ساتھ ہی مالکن کی کہی ہوئی بات سے ڈھارس بھی بندھتی ہے کہ اس کا علاج مفت ہوجائے گا۔

اگلے دن مختاراں روتی پیٹتی مالکن کے پاس پہنچ جاتی ہے کہ جلدی سے میرا کارڈ بنوا دیجیے تاکہ میں اپنا علاج شرو ع کروا دوں۔ مالکن ملک صاحب کو، جو کاروبار کے سلسلے میں شہر سے باہر ہوتے ھیں، فون کرکے یاد دہانی کرواتی ہیں کہ مختاراں کا کارڈ جلد از جلد بنوا دیں، اس کے ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص ہوئی ہے۔ ملک صاحب نے جواب دیا کہ اس کے کاغذات یونین کونسل کے دفتر میں جمع کروا دیئے تھے، بس کچھ دنوں میں کارڈ بن کر آجائے گا۔ مالکن یہی تسلی دے کر مختاراں کو گھر بھیج دیتی ہیں کہ تم فکر نہ کرو اور گھر جاکر آرام کرو۔ جیسے ہی کارڈ بن جائے گا وہ تمہیں فون کرلیں گے۔ اس دن کے بعد مختاراں روز اپنی یتیم بیٹی کو لے کر یونین کونسل کے چکر لگانا شروع کر دیتی ہے۔ یونین کونسل والے بھی ان ماں بیٹی سے تنگ آجاتے ہیں۔ مختاراں کو روز یہی سننے کو ملتا ہے ''اماں جی! آپ کا کیس اسلام آباد بھجوایا ہوا ہے۔ جیسے ہی وہاں سے کارڈ بن کر آجائے گا، ہم آپ کو فون کرکے بتادیں گے۔''


مختاراں نے بھی اپنا کارڈ حاصل کرنے کےلیے ہمت نہیں ہاری! اب تو یونین کونسل والے بھی اس کی بات نہیں سنتے تھے۔ دوسری طرف مختاراں کی صحت بھی روز بروز گرتی جا رہی تھی اور پھر ایک دن طبیعت زیادہ خراب ہونے پر مختاراں کو اسپتال میں داخل کروانا پڑا۔ اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں دو دن گزارنے کے بعد مختاراں کی ہمت جواب دے گئی اور مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی! مختاراں کی بیٹی کےلیے یہ دن کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ اس کا دنیا میں واحد سہارا چھن چکا تھا۔

ماں کے گزرنے کے کچھ دن بعد بیٹی کے موبائل پر اسلام آباد کے نمبر سے کال آتی ہے۔ دوسری طرف بولنے والا اسے بتاتا ہے کہ آپ کا ہیلتھ کارڈ بن گیا ہے۔ آپ کسی بھی وقت یونین کونسل کے دفتر سے اپنا شناختی کارڈ دکھا کر ہیلتھ کارڈ وصول کرسکتی ہیں۔ مختاراں کی بیٹی پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا اور دوسری طرف سے ہیلو ہیلو کی آواز سے وہ دوبارہ ہوش میں آئی اور پوچھا ''کیا ڈیتھ سرٹیفکیٹ دکھا کر بھی ہیلتھ کارڈ لیا جاسکتا ہے؟'' دوسری طرف سے بولنے والے کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

عمران خان کے قوم سے پہلے خطاب میں جب ہیلتھ کارڈ کا ذکر آیا تو میری آنکھوں کے سامنے مختاراں بی بی کا مایوسی سے بھرپور چہرہ گھوم گیا۔ میں سوچ میں پڑگیا کہ ان سب کاموں کا وعدہ تو نواز شریف نے بھی کیا تھا۔ ہیلتھ کارڈ، یوتھ لون جیسی سہولیات تو پچھلی حکومت میں بھی دستیاب تھیں لیکن ان سب سہولیات کو بروقت عوام تک پہنچانے کےلیے تیز ترین سسٹم کی ضرورت ہے تاکہ پھر کسی مختاراں کی بیٹی کو ڈیتھ سرٹیفکیٹ دکھا کر ہیلتھ کارڈ لینے کی ضرورت نہ پڑے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story