اردو کی ظریفانہ شاعری میں مزاحمتی عناصر
ہر دور میں شاعروں نے اپنے حالات اور اردگرد کے حالات کو اپنی ظریفانہ شاعری کا موضوع بنایا ہے۔
''اردوکی ظریفانہ شاعری میں مزاحمتی عناصر ''ڈاکٹر طارق کلیم کی تحقیق کا عنوان ہے ۔ ہمارے ملک میں کالج کی سطح پر اساتذہ میں تحقیق کا رجحان بہت کم ہے مگر مصنف نے تدریس کے ساتھ تحقیق کو بھی اپنا شعار بنایا اور اپنی تحقیق کے لیے ایک مشکل موضوع کا انتخاب کیا۔ڈاکٹر طارق کلیم سرگودھا کے ایک سرکاری کالج میں اردو کے استاد ہیں۔
اردو میں ظریفانہ شاعری کی طویل تاریخ ہے۔ ہر دور میں شاعروں نے اپنے حالات اور اردگرد کے حالات کو اپنی ظریفانہ شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ 19ویں اور 20 ویں صدی میں شاعروں نے انگریز حکومت کی جدیدیت کی پالیسی کو ظریفانہ شاعری کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک زمانے میں سرسید کی انگریزی تعلیم کو مسلمانوں میں رائج کرنے اور نیچر کے فلسفہ کے خلاف پنچ اخبارات نے محاذ بنایا تھا پھر اکبر الہٰ آبادی تو اس تناظر میں پورے ہندوستان میں شہرت حاصل کرگئے تھے مگر ڈاکٹر طارق کلیم نے ظریفانہ شاعری میں مزاحمتی عناصر کی نشاندہی کا فریضہ انجام دے کر اردو ادب کے قارئین کو ایک نئے گوشہ سے روشناس کرایا۔ کتاب پانچ ابواب اور 389 صفحات پر مشتمل ہے۔
انجمن ترقی اردو کے مشیر، علمی و ادبی شخصیت اور معروف ادیب و دانشور پروفیسر سحر انصاری کی تحریر حرف چند سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مزاحمت اردو کا ایک عام لفظ ہے جس سے مقابلے اور معاونت کے پہلو نکلتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمن افواج نے یورپ کے متعدد علاقوں پر قبضہ کرلیا اور جرمن افواج کے خلاف علمی، سیاسی اور ادبی جدوجہد کو مزاحمت (Resistance) کا نام دیا تو یہ لفظ ایک اصطلاح بن گیا۔ اردو میں اب مزاحمت ان ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پروفیسر ابرار حسین دیباچے میں لکھتے ہیں کہ فاضل مصنف نے طنز ومزاح کے حوالے سے نظری مباحث کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی تعریفات کے ضمن میں جیسی ادبی بصیرت اور تنقیدی شعور سے کام لیا ہے، اس سے اس کتاب کی قدرو قیمت یقیناً بڑھ گئی ہے۔
ڈاکٹر طارق کلیم کتاب کے باب اول جس کا موضوع مزاح اور مزاحمت کے نظری مباحث ، میں لکھتے ہیں کہ ظرافت اور مزاح اگرچہ دو مختلف اصطلاحیں ہیں مگر دور حاضر میں دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتی ہیں۔ مزاج یا ظرافت اگرچہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے مگر یہ ایسی صلاحیت ہے جس کا اندازہ بادی النظر میں نہیں لگایا جاسکتا۔
ڈاکٹر طارق انسانی معاشروں کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرہ زیادہ منظم اور تہذیب یافتہ ہوا، شہر بنے اور نئے سماجی ادارے وجود میں آنے سے سماج کو بھی رہنے اور منظم زندگی بسر کرنے کے لیے ثقافتی اقدار کے ساتھ ساتھ قوانین کی بھی ضرورت پڑی۔ انسان کی ضروریات بڑھیں تو زبانوں کو بھی ترقی ملی، لکھنے کا عمل شروع ہوا اور آہستہ آہستہ انسان نے وہ لکھنا شروع کیا جسے ادب کہا جاتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ برصغیر کا معاشرہ بادشاہت کے زیر سایہ رہا، بادشاہت کے ساتھ جاگیردارانہ نظام بھی تھا۔ ایسی صورتحال میں غلامی کا تصور شدید ہو جاتا ہے اور غلام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قہقہہ لگا سکے۔شاید آج بھی ایسا ہی ہے۔ جو لوگ دوسرے کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر سکتے تھے انھیں مسخرہ کہا جاتا تھا۔ اس لیے شاید مزاحیہ اسلوب میں لکھنے والے کو بھی ایسا ہی تصورکرلیا گیا۔ وہ پروفیسر عنایت علی خان کی نظم ''گلوبل حمد'' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مغرب اور بالخصوص امریکا پر ضرورت سے زیادہ انحصار نے خودمختاری پر بہت سے سوالیہ نشان لگادیے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کہنے کو آزاد ہیں مگرکیا کہتے ہیں کہ وہ ملکی و غیر ملکی سطح پرکوئی پالیسی بنانے سے قاصر ہیں جو امریکا بہادرکو ناپسند ہو۔ وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے امریکا کے اشارے کی طرف دیکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ پروفیسر عنایت علی خان کی نظم ''اورکافری کیا ہے'' کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر ایسا نظام ہے جو محض سرمایہ داری نظام کو تحفظ دینے کے لیے متعارف کروایا جا رہا ہے۔ یہ موضوعی اصطلاح ہے اور کوئی اس کی پوری تعریف نہیں کرسکتا، یہ چند عالمی طاقتوں کو مزید طاقتورکرنے اور دنیا کو ان کی مرضی ومنشاء کے مطابق چلانے کی بھرپور خواہش ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر پچھلی دو دہائیوں سے دنیا میں گشت وخون کا بازار گرم ہے۔
کتاب کا تیسرا باب جعفر پر ہے۔ ڈاکٹر طارق لکھتے ہیں کہ اس شاعرکا نام محمد جعفر ہے جسے ادبی دنیا میں جعفر زٹلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جعفر کا تعلق سادات گھرانے سے بتاتے ہیں جب کہ بعض تذکرہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ دلی کا رہنے والا تھا۔ جعفر زٹلی نے ساری زندگی دلی میں بسر نہیں کی بلکہ زندگی کا تیسرا حصہ دکن میں بسر کیا جہاں وہ اورنگزیب کے بیٹے کی فوج میں ملازم تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جعفر اپنے دورکا مقبول شاعر تھا جس کا کلام لوگوں کی زبان پر جاری تھا۔ اس کی مقبولیت کا یہ بھی ثبوت ہے کہ اس کی وفات کے بعد اٹھارہویں صدی میں لکھے گئے بہت سے اہم تذکروں میں اس کا ذکر موجود ہے۔
تذکرہ نگار جعفر کو شاعر تسلیم کرتے اور مانتے تھے کہ اس میں شاعری کا جوہر موجود ہے مگر ساتھ میں فحش نگار قرار دے کر اس کی اہمیت کو کم کردیتے ہیں۔ مرتضیٰ میر '' نادرہ زبان'' اور عجوبہ روزگار قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ زبان گزیدہ داشت شیخ محمد قیام الدین قائم زٹل کو قرار دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر طارق کا کہنا ہے کہ جعفرکی اردو شاعری یہ ثابت کرتی ہے کہ اس سے پہلے بھی شمالی ہند میں اردوکا چلن تھا اور عوام اسی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔البتہ علمی، سرکاری اور خواص کی زبان فارسی ہی تھی۔ مغلوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ ان کے زیر سایہ اردوکی نشوونما ہوئی۔ رشید حسن خان نے جعفرکی جوکلیات مرتب کی ہیں اس میں 38 نظمیں ہیں۔
دوچار کو چھوڑ کر سب کی سب فحش ہیں مگر کسی نظم میں بھی لذت انگیزی محسوس نہیں ہوتی۔ فحش الفاظ کے استعمال سے نظمیں غیر شائستہ تو ہوسکتی ہیں مگر لذت انگیز نہیں۔ جعفرکی فن کاری کا ثبوت ہے کہ اس نے محض آوازوں کے ذریعے بہت مکمل ابلاغ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ مغلیہ دور میں تعلیم کی صورتحال قابل فخر نہیں تھی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تمام شاہان ہند تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے۔ غوری ہوں یا خلجی ہوں یا تغلق یا بعد میں آنے والے سادات، لودھی او مغل تعلیم کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ تعلیم کا مطلب کچھ زبانوں کا سیکھ لینا اور حساب کتاب میں شدبد حاصل کرنا ٹھہرا۔ جو ذرا ذہین ہوتے وہ منطق اور علم الکلام پڑھ لیتے یا مسلکی اور فقہ سے منسوب دینی تعلیم حاصل کرلی جاتی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا نام و نشان نہ تھا۔ مغل دور سے پہلے ہی یورپ بیدار ہوچکا تھا۔
جہاں جدید نظریات لوگوں کی توجہ حاصل کررہے تھے۔ برصغیر کی حکومتوں کے پاس وسائل کی کمی نہیں تھی، کمی تھی تو صرف بصیرت کی۔ ڈاکٹر طارق اکبر الہٰ آبادی کے بارے میں لکھتے ہیںکہ اکبرکی مزاحیہ شاعری یہ ثابت کرتی ہے کہ مزاحمت کا جذبہ ظریف شعراء کے یہاں زیادہ ہوتا ہے۔ مصنف نے حاجی لق لق ، سید محمد جعفری کی شاعری کا بھی تفصیلی جائزہ لیا اور ان شاعروں کے دور میں پاکستان میں جنرل ایوب کے قیام کے بعد سے لے کر ایوب خان اور یحییٰ خان کی حکومتوں کے حالات کا تجزیہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ حاجی لق لق نظمیں بہت معنی خیز لکھتے ہیں۔ اپنی نظموں میں وہ ایک مشرق پرست مسلمان نظر آتے ہیں۔ اپنی نظموں میں جدید تعلیم ،تقلید مغربی نوجوانوں کی بے مقصدیت سماجی تعلیم نسواں کے نتائج بے پردگی وغیرہ پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہیں۔
سید محمد جعفری کے یہاں موضوعات کا تنوع کے وہ مزاح پیدا کرنے کے لیے طنزکا سہارا بھی لیتے ہیں۔ ان کے یہاں لفظی مزاح کی مختلف صورتیں پائی جاتی ہیں۔ سید محمد جعفری کے یہاں شائستگی بہت زیادہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ظریف شاعروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو موضوع کے استعمال اور مزاح کے حربے سب کے سب وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔ جو چیز تبدیل نہیں ہوتی اور مستقل رہتی ہے وہ ان شاعروں کا مزاحمتی رویہ ہے۔
ڈاکٹر طارق کلیم نے انتہائی محنت کے ساتھ اپنے موضوع پر تحقیق کی ہے اور اپنی تحریر کو صرف شاعری تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہر شاعر کے دور کا تجزیہ کرکے قارئین کو بہت کچھ سوچنے کا مواد مہیا کیا ہے۔ اس کتاب کی اہم خصوصیت ہے کہ گزشتہ صدیوں کے ہندوستان کے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کا بہترین تجزیہ کیا گیا ہے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ملنے والی مالی معاونت سے یہ کتاب شایع کی جو اردو تحقیق میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔
اردو میں ظریفانہ شاعری کی طویل تاریخ ہے۔ ہر دور میں شاعروں نے اپنے حالات اور اردگرد کے حالات کو اپنی ظریفانہ شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ 19ویں اور 20 ویں صدی میں شاعروں نے انگریز حکومت کی جدیدیت کی پالیسی کو ظریفانہ شاعری کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک زمانے میں سرسید کی انگریزی تعلیم کو مسلمانوں میں رائج کرنے اور نیچر کے فلسفہ کے خلاف پنچ اخبارات نے محاذ بنایا تھا پھر اکبر الہٰ آبادی تو اس تناظر میں پورے ہندوستان میں شہرت حاصل کرگئے تھے مگر ڈاکٹر طارق کلیم نے ظریفانہ شاعری میں مزاحمتی عناصر کی نشاندہی کا فریضہ انجام دے کر اردو ادب کے قارئین کو ایک نئے گوشہ سے روشناس کرایا۔ کتاب پانچ ابواب اور 389 صفحات پر مشتمل ہے۔
انجمن ترقی اردو کے مشیر، علمی و ادبی شخصیت اور معروف ادیب و دانشور پروفیسر سحر انصاری کی تحریر حرف چند سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مزاحمت اردو کا ایک عام لفظ ہے جس سے مقابلے اور معاونت کے پہلو نکلتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمن افواج نے یورپ کے متعدد علاقوں پر قبضہ کرلیا اور جرمن افواج کے خلاف علمی، سیاسی اور ادبی جدوجہد کو مزاحمت (Resistance) کا نام دیا تو یہ لفظ ایک اصطلاح بن گیا۔ اردو میں اب مزاحمت ان ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پروفیسر ابرار حسین دیباچے میں لکھتے ہیں کہ فاضل مصنف نے طنز ومزاح کے حوالے سے نظری مباحث کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی تعریفات کے ضمن میں جیسی ادبی بصیرت اور تنقیدی شعور سے کام لیا ہے، اس سے اس کتاب کی قدرو قیمت یقیناً بڑھ گئی ہے۔
ڈاکٹر طارق کلیم کتاب کے باب اول جس کا موضوع مزاح اور مزاحمت کے نظری مباحث ، میں لکھتے ہیں کہ ظرافت اور مزاح اگرچہ دو مختلف اصطلاحیں ہیں مگر دور حاضر میں دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتی ہیں۔ مزاج یا ظرافت اگرچہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے مگر یہ ایسی صلاحیت ہے جس کا اندازہ بادی النظر میں نہیں لگایا جاسکتا۔
ڈاکٹر طارق انسانی معاشروں کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرہ زیادہ منظم اور تہذیب یافتہ ہوا، شہر بنے اور نئے سماجی ادارے وجود میں آنے سے سماج کو بھی رہنے اور منظم زندگی بسر کرنے کے لیے ثقافتی اقدار کے ساتھ ساتھ قوانین کی بھی ضرورت پڑی۔ انسان کی ضروریات بڑھیں تو زبانوں کو بھی ترقی ملی، لکھنے کا عمل شروع ہوا اور آہستہ آہستہ انسان نے وہ لکھنا شروع کیا جسے ادب کہا جاتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ برصغیر کا معاشرہ بادشاہت کے زیر سایہ رہا، بادشاہت کے ساتھ جاگیردارانہ نظام بھی تھا۔ ایسی صورتحال میں غلامی کا تصور شدید ہو جاتا ہے اور غلام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قہقہہ لگا سکے۔شاید آج بھی ایسا ہی ہے۔ جو لوگ دوسرے کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر سکتے تھے انھیں مسخرہ کہا جاتا تھا۔ اس لیے شاید مزاحیہ اسلوب میں لکھنے والے کو بھی ایسا ہی تصورکرلیا گیا۔ وہ پروفیسر عنایت علی خان کی نظم ''گلوبل حمد'' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مغرب اور بالخصوص امریکا پر ضرورت سے زیادہ انحصار نے خودمختاری پر بہت سے سوالیہ نشان لگادیے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کہنے کو آزاد ہیں مگرکیا کہتے ہیں کہ وہ ملکی و غیر ملکی سطح پرکوئی پالیسی بنانے سے قاصر ہیں جو امریکا بہادرکو ناپسند ہو۔ وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے امریکا کے اشارے کی طرف دیکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ پروفیسر عنایت علی خان کی نظم ''اورکافری کیا ہے'' کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر ایسا نظام ہے جو محض سرمایہ داری نظام کو تحفظ دینے کے لیے متعارف کروایا جا رہا ہے۔ یہ موضوعی اصطلاح ہے اور کوئی اس کی پوری تعریف نہیں کرسکتا، یہ چند عالمی طاقتوں کو مزید طاقتورکرنے اور دنیا کو ان کی مرضی ومنشاء کے مطابق چلانے کی بھرپور خواہش ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر پچھلی دو دہائیوں سے دنیا میں گشت وخون کا بازار گرم ہے۔
کتاب کا تیسرا باب جعفر پر ہے۔ ڈاکٹر طارق لکھتے ہیں کہ اس شاعرکا نام محمد جعفر ہے جسے ادبی دنیا میں جعفر زٹلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جعفر کا تعلق سادات گھرانے سے بتاتے ہیں جب کہ بعض تذکرہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ دلی کا رہنے والا تھا۔ جعفر زٹلی نے ساری زندگی دلی میں بسر نہیں کی بلکہ زندگی کا تیسرا حصہ دکن میں بسر کیا جہاں وہ اورنگزیب کے بیٹے کی فوج میں ملازم تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جعفر اپنے دورکا مقبول شاعر تھا جس کا کلام لوگوں کی زبان پر جاری تھا۔ اس کی مقبولیت کا یہ بھی ثبوت ہے کہ اس کی وفات کے بعد اٹھارہویں صدی میں لکھے گئے بہت سے اہم تذکروں میں اس کا ذکر موجود ہے۔
تذکرہ نگار جعفر کو شاعر تسلیم کرتے اور مانتے تھے کہ اس میں شاعری کا جوہر موجود ہے مگر ساتھ میں فحش نگار قرار دے کر اس کی اہمیت کو کم کردیتے ہیں۔ مرتضیٰ میر '' نادرہ زبان'' اور عجوبہ روزگار قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ زبان گزیدہ داشت شیخ محمد قیام الدین قائم زٹل کو قرار دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر طارق کا کہنا ہے کہ جعفرکی اردو شاعری یہ ثابت کرتی ہے کہ اس سے پہلے بھی شمالی ہند میں اردوکا چلن تھا اور عوام اسی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔البتہ علمی، سرکاری اور خواص کی زبان فارسی ہی تھی۔ مغلوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ ان کے زیر سایہ اردوکی نشوونما ہوئی۔ رشید حسن خان نے جعفرکی جوکلیات مرتب کی ہیں اس میں 38 نظمیں ہیں۔
دوچار کو چھوڑ کر سب کی سب فحش ہیں مگر کسی نظم میں بھی لذت انگیزی محسوس نہیں ہوتی۔ فحش الفاظ کے استعمال سے نظمیں غیر شائستہ تو ہوسکتی ہیں مگر لذت انگیز نہیں۔ جعفرکی فن کاری کا ثبوت ہے کہ اس نے محض آوازوں کے ذریعے بہت مکمل ابلاغ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ مغلیہ دور میں تعلیم کی صورتحال قابل فخر نہیں تھی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تمام شاہان ہند تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے۔ غوری ہوں یا خلجی ہوں یا تغلق یا بعد میں آنے والے سادات، لودھی او مغل تعلیم کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ تعلیم کا مطلب کچھ زبانوں کا سیکھ لینا اور حساب کتاب میں شدبد حاصل کرنا ٹھہرا۔ جو ذرا ذہین ہوتے وہ منطق اور علم الکلام پڑھ لیتے یا مسلکی اور فقہ سے منسوب دینی تعلیم حاصل کرلی جاتی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا نام و نشان نہ تھا۔ مغل دور سے پہلے ہی یورپ بیدار ہوچکا تھا۔
جہاں جدید نظریات لوگوں کی توجہ حاصل کررہے تھے۔ برصغیر کی حکومتوں کے پاس وسائل کی کمی نہیں تھی، کمی تھی تو صرف بصیرت کی۔ ڈاکٹر طارق اکبر الہٰ آبادی کے بارے میں لکھتے ہیںکہ اکبرکی مزاحیہ شاعری یہ ثابت کرتی ہے کہ مزاحمت کا جذبہ ظریف شعراء کے یہاں زیادہ ہوتا ہے۔ مصنف نے حاجی لق لق ، سید محمد جعفری کی شاعری کا بھی تفصیلی جائزہ لیا اور ان شاعروں کے دور میں پاکستان میں جنرل ایوب کے قیام کے بعد سے لے کر ایوب خان اور یحییٰ خان کی حکومتوں کے حالات کا تجزیہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ حاجی لق لق نظمیں بہت معنی خیز لکھتے ہیں۔ اپنی نظموں میں وہ ایک مشرق پرست مسلمان نظر آتے ہیں۔ اپنی نظموں میں جدید تعلیم ،تقلید مغربی نوجوانوں کی بے مقصدیت سماجی تعلیم نسواں کے نتائج بے پردگی وغیرہ پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہیں۔
سید محمد جعفری کے یہاں موضوعات کا تنوع کے وہ مزاح پیدا کرنے کے لیے طنزکا سہارا بھی لیتے ہیں۔ ان کے یہاں لفظی مزاح کی مختلف صورتیں پائی جاتی ہیں۔ سید محمد جعفری کے یہاں شائستگی بہت زیادہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ظریف شاعروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو موضوع کے استعمال اور مزاح کے حربے سب کے سب وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔ جو چیز تبدیل نہیں ہوتی اور مستقل رہتی ہے وہ ان شاعروں کا مزاحمتی رویہ ہے۔
ڈاکٹر طارق کلیم نے انتہائی محنت کے ساتھ اپنے موضوع پر تحقیق کی ہے اور اپنی تحریر کو صرف شاعری تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہر شاعر کے دور کا تجزیہ کرکے قارئین کو بہت کچھ سوچنے کا مواد مہیا کیا ہے۔ اس کتاب کی اہم خصوصیت ہے کہ گزشتہ صدیوں کے ہندوستان کے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کا بہترین تجزیہ کیا گیا ہے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ملنے والی مالی معاونت سے یہ کتاب شایع کی جو اردو تحقیق میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔