ایک اور قربانی
پیغمبر زادے کا اللہ کی راہ میں قربان ہونے کا عزم اللہ تعالی کی وحدانیت کا برملا اقرار ہے کہ بے شک وہ قادر مطلق ہے۔
ایک اور عید الاضحی یعنی ہماری پاکستانی زبان میں قربانی کی عید گزر گئی ۔قربانی کی ایک اور عید جو کسی دوسری عید کی پیش خیمہ ہو گی اور اپنی تاریخ کی لاتعداد عیدوں میں سے ایک ہو گی ۔یہ عید ایک پیغمبر اور پیغمبر زادے کی یاد دلاتی ہے اور ایک حیران کن انسانی اطاعت کی مثال پیش کرتی ہے جب ایک پیغمبر کے بیٹے نے اشارہ پاتے ہی اپنے آپ کو پیغمبر باپ کے حضور پیش کر دیا اور اپنے جلیل القدر باپ سے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کریں مجھے صابر و شاکر پائیں گے وقت ذبح ذراسی حرکت بھی نہیں ہو گی۔
لکھنے پڑھنے اوربیان کرنے والے نے بیان میں ایک پیغمبر اور پیغمبر زادے کے جس عزم کااظہار کیا اور اس کے لیے جن الفاظ کو استعمال کیا وہ انسانی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ بن گیا اور یہ الفاظ کسی انسان کی زبان سے ادا ہونے والے وہ الفاظ بن گئے جن کی یاد ایک پیغمبر کی ذات اور تاریخ کا حصہ بن گئی ۔''آپ اللہ تبارک کے حکم کی تعمیل کرگزریں اس ذبح کے وقت میرے جسم میں ذرا سی حرکت بھی نہیں ہو گی''۔ ایک پیغمبر اور پیغمبر زادے کا یہ اعلان انسانی عزم کی تاریخ بن گیا جس کی یاد ہم ہر سال منا رہے ہیں اور مناتے چلے جائیں گے۔ یہ حق سچ کی تاریخ کا ایک نمونہ ہے جو حیران کن انسانوں نے اداکیا اور انسانی تاریخ کے صبرو استقلال کا حیران کن نمونہ بن گیا۔
تاریخ نے اپنی امانت کے طور پر سنبھال لیا اورایک مثال کے طور پر بھی کہ انسان کی حیرت آخری دم تک حیران کن ہی رہے گی اور کبھی ختم نہ ہو گی۔ انسانی تاریخ میں پیغمبروں کا یہی کردار تھا جس نے انسانی تاریخ کو بقائے دوام عطا کیا لیکن قربانی کا یہ واقعہ انسانی تاریخ کو بقائے دوام دے گیا اور انسانی تاریخ کو نیا رنگ دے گیا۔ تاریخ بنانے اور بگاڑنے میں انسانوں نے حیران کن معجزے دکھائے اور اپنی تاریخ اپنے ہی ہاتھوں بناتے اور بگاڑتے بھی رہے ۔ یہ تاریخ ہم عید الاضحیٰ کے موقع پر بتاتے ہیں اور اپنے آپ کو سرفراز پاتے ہیں کہ پیغمبر کی تعمیل میں ہی زندگی کی بقاء ہے۔
ہر سال اسلامی کیلنڈر کے مخصوص دنوں میں جب حجاج کرام اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور اپنی عبادت سے زندگی بھر کی غلطیاں اور گناہ بخشوا رہے ہوتے ہیں اس عبادت کے بعد وہ اپنے آپ کو اللہ کے فرمان کے مطابق بالکل ایسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسے وہ ابھی ابھی ماں کے پیٹ سے برآمد ہوئے ہیں یعنی وہ معصوم ہیں اور معصومین گناہوں سے پاک اس دنیا میں آتے ہیں حج کا فرض ادا کرنے کے بعد انسان اپنے آپ کو ایسا ہی محسوس کرتا ہے جیسا کہ وہ اپنی زندگی کا آغاز کر رہا ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے مقبول حج کے بدلے میں اس کے گناہ بخش دیتے ہیں اور اس کو پاک صاف کر دیتے ہیں ۔
اللہ تعالی کا اپنی مخلوق پر اس سے بڑا احسان کیاہو سکتاہے کہ وہ اس کی عمر بھر کی غلطیوں کی تلافی کا اسے دنیا میں ہی موقع دے دیتا ہے اور پھر ان غلطیوں کو معاف بھی کر دیتا ہے وہ بڑا غفور و رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے حد درجہ پیار بھی کرتا ہے ایسا پیار جس کا کوئی دنیاوی پیمانہ ابھی تک ایجاد نہیں ہو سکا۔ حج جیسی عظیم عبادت جس میں دنیا بھر سے مسلمان یکجا ہو کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کے طلبگار ہوتے ہیں، اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کو حج کے مناسک میں شامل رکھا ۔ حج بیت اللہ کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک قربانی کا عمل مکمل نہ ہوجائے اور حجاج کرام اس وقت تک احرام کی پابندیوں سے آزاد نہیں ہو سکتے جب تک ان کی جانب سے قربانی کا عمل مکمل نہ ہوجائے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنی محبوب ترین چیز کو قربان کرنے کاحکم ملنے کے بعد جب اپنے پیارے بیٹے حضرت اسمٰعیل کو اس کے متعلق بتاتے ہیں تو وہ معصوم بیٹا کہتا ہے کہ ابا جان بسم اللہ کیجیے۔پیغمبر زادے کا اللہ کی راہ میں قربان ہونے کا عزم اللہ تعالی کی وحدانیت کا برملا اقرار ہے کہ بے شک وہ قادر مطلق ہے اور جو چاہے وہ ہوجاتا ہے دوسری طرف ایک باپ کے پیار کی آزمائش بھی ہے کہ اولاد سے زیادہ پیار کسی اور سے نہیں ہو سکتا اور فرمانبرداری کی بھی ایک لازوال مثال ہے کہ اولاد نے بھی باپ کی ایک آواز پر لبیک کہا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونا پسند کیا۔
یہ چند سطریں قربانی کی یاد میں لکھی گئی ہیں کیونکہ ہم نے آج کل قربانی کو خود نمائی کے اظہار کا ایک طریقہ بنا لیا ہے اور بڑے بڑے جانور قربان کر رہے ہیں یہ جانے بوجھے بغیر کہ اس قربانی کا اصل فلسفہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سنت ادا کرنے کی تلقین کیوں کی ہے ۔
لکھنے پڑھنے اوربیان کرنے والے نے بیان میں ایک پیغمبر اور پیغمبر زادے کے جس عزم کااظہار کیا اور اس کے لیے جن الفاظ کو استعمال کیا وہ انسانی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ بن گیا اور یہ الفاظ کسی انسان کی زبان سے ادا ہونے والے وہ الفاظ بن گئے جن کی یاد ایک پیغمبر کی ذات اور تاریخ کا حصہ بن گئی ۔''آپ اللہ تبارک کے حکم کی تعمیل کرگزریں اس ذبح کے وقت میرے جسم میں ذرا سی حرکت بھی نہیں ہو گی''۔ ایک پیغمبر اور پیغمبر زادے کا یہ اعلان انسانی عزم کی تاریخ بن گیا جس کی یاد ہم ہر سال منا رہے ہیں اور مناتے چلے جائیں گے۔ یہ حق سچ کی تاریخ کا ایک نمونہ ہے جو حیران کن انسانوں نے اداکیا اور انسانی تاریخ کے صبرو استقلال کا حیران کن نمونہ بن گیا۔
تاریخ نے اپنی امانت کے طور پر سنبھال لیا اورایک مثال کے طور پر بھی کہ انسان کی حیرت آخری دم تک حیران کن ہی رہے گی اور کبھی ختم نہ ہو گی۔ انسانی تاریخ میں پیغمبروں کا یہی کردار تھا جس نے انسانی تاریخ کو بقائے دوام عطا کیا لیکن قربانی کا یہ واقعہ انسانی تاریخ کو بقائے دوام دے گیا اور انسانی تاریخ کو نیا رنگ دے گیا۔ تاریخ بنانے اور بگاڑنے میں انسانوں نے حیران کن معجزے دکھائے اور اپنی تاریخ اپنے ہی ہاتھوں بناتے اور بگاڑتے بھی رہے ۔ یہ تاریخ ہم عید الاضحیٰ کے موقع پر بتاتے ہیں اور اپنے آپ کو سرفراز پاتے ہیں کہ پیغمبر کی تعمیل میں ہی زندگی کی بقاء ہے۔
ہر سال اسلامی کیلنڈر کے مخصوص دنوں میں جب حجاج کرام اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور اپنی عبادت سے زندگی بھر کی غلطیاں اور گناہ بخشوا رہے ہوتے ہیں اس عبادت کے بعد وہ اپنے آپ کو اللہ کے فرمان کے مطابق بالکل ایسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسے وہ ابھی ابھی ماں کے پیٹ سے برآمد ہوئے ہیں یعنی وہ معصوم ہیں اور معصومین گناہوں سے پاک اس دنیا میں آتے ہیں حج کا فرض ادا کرنے کے بعد انسان اپنے آپ کو ایسا ہی محسوس کرتا ہے جیسا کہ وہ اپنی زندگی کا آغاز کر رہا ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے مقبول حج کے بدلے میں اس کے گناہ بخش دیتے ہیں اور اس کو پاک صاف کر دیتے ہیں ۔
اللہ تعالی کا اپنی مخلوق پر اس سے بڑا احسان کیاہو سکتاہے کہ وہ اس کی عمر بھر کی غلطیوں کی تلافی کا اسے دنیا میں ہی موقع دے دیتا ہے اور پھر ان غلطیوں کو معاف بھی کر دیتا ہے وہ بڑا غفور و رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے حد درجہ پیار بھی کرتا ہے ایسا پیار جس کا کوئی دنیاوی پیمانہ ابھی تک ایجاد نہیں ہو سکا۔ حج جیسی عظیم عبادت جس میں دنیا بھر سے مسلمان یکجا ہو کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کے طلبگار ہوتے ہیں، اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کو حج کے مناسک میں شامل رکھا ۔ حج بیت اللہ کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک قربانی کا عمل مکمل نہ ہوجائے اور حجاج کرام اس وقت تک احرام کی پابندیوں سے آزاد نہیں ہو سکتے جب تک ان کی جانب سے قربانی کا عمل مکمل نہ ہوجائے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنی محبوب ترین چیز کو قربان کرنے کاحکم ملنے کے بعد جب اپنے پیارے بیٹے حضرت اسمٰعیل کو اس کے متعلق بتاتے ہیں تو وہ معصوم بیٹا کہتا ہے کہ ابا جان بسم اللہ کیجیے۔پیغمبر زادے کا اللہ کی راہ میں قربان ہونے کا عزم اللہ تعالی کی وحدانیت کا برملا اقرار ہے کہ بے شک وہ قادر مطلق ہے اور جو چاہے وہ ہوجاتا ہے دوسری طرف ایک باپ کے پیار کی آزمائش بھی ہے کہ اولاد سے زیادہ پیار کسی اور سے نہیں ہو سکتا اور فرمانبرداری کی بھی ایک لازوال مثال ہے کہ اولاد نے بھی باپ کی ایک آواز پر لبیک کہا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونا پسند کیا۔
یہ چند سطریں قربانی کی یاد میں لکھی گئی ہیں کیونکہ ہم نے آج کل قربانی کو خود نمائی کے اظہار کا ایک طریقہ بنا لیا ہے اور بڑے بڑے جانور قربان کر رہے ہیں یہ جانے بوجھے بغیر کہ اس قربانی کا اصل فلسفہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سنت ادا کرنے کی تلقین کیوں کی ہے ۔