پاک روس اکھ مٹکہ تیسرا حصہ

سوویت یونین کا اتحادی بنتے ہی وارسا معاہدہ کے رکن کیمونسٹ ممالک بھی بھارت کے آٹومیٹک اتحادی بن گئے۔

بیس دسمبر انیس سو اکہتر کو جب پہلے منتخب عوامی وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان عرف نئے پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو ملک اگرچہ ٹوٹ چکا تھا مگر اس دن سے لے کے چودہ اگست انیس سو تہتر کے ڈھائی برس تک پاکستان کو نہ پہلے اور نہ بعد میں اتنا طاقتور سویلین وزیرِ اعظم نصیب ہو پایا۔وہ الگ بات کہ اس ڈھائی برس کے دوران خارجہ سطح پر پاکستان کو ایسی بری تنہائی بھی کبھی درپیش نہ تھی۔

وجہ یہ تھی کہ پاکستانی حکمرانوں نے مشرقی پاکستان کے بارے میں نہ صرف خود کوئی نوشتہِ دیوار نہ پڑھا اور نہ ہی چین ، ایران ، ترکی جیسے دوستوں نے اس بحران سے سیاسی طور پر نمٹنے کے لیے نجی سطح پر جو مشورے دیے انھیں درخورِ اعتنا سمجھا گیا۔الٹا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا کے فرض کر لیا گیا کہ قومی چاردیواری میں ہم جو بھی کر لیں اس کا خارجہ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اور یہ کہ آڑے وقت میں چین اور امریکا پاکستان کو ٹوٹنے سے بچا لیں گے۔

پاکستانی قیادت اپنے ہی فرض کردہ اس افسانے پر اتنا یقین کر بیٹھی کہ اسے جیو پولٹیکل نقشے میں نہ تو اپنی حیثیت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو سکا اور نہ ہی یہ تجزیہ ہو سکا کہ دوست بھلے جتنے بھی مخلص ہوں ان کا اخلاص لامحدود نہیں ہوتا۔ان کے اپنے مفادات و سیاسی و جغرافیائی مجبوریاں ہوتی ہیں۔

انیس سو اکہتر کا چین ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہر اعتبار سے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں شامل تھا۔ ایران اور ترکی جتنے بھی قریبی دوست سہی مگر وہ امریکی ناراضی کے بغیر پاکستان کی خاطر کوئی عسکری جوا کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔امریکا یقیناً سب سے طاقتور سپر پاور تھا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ پاکستان کے معاملے پر سوویت یونین سے کھلم کھلا ٹکر لے سکے۔ کیونکہ پاکستان نہ تو اسرائیل تھا اور نہ ہی کیوبا۔

اگست انیس سو اکہتر میں سوویت یونین اور بھارت نے جس پچیس سالہ عسکری معاہدے پر دستخط کیے اس کی سب سے اہم شق یہ تھی کہ دونوں میں سے کسی ایک کے خلاف کسی تیسرے ملک کی فوجی کارروائی دونوں پر حملہ سمجھی جائے گی۔اس کے بعد پاکستان کو اپنے بین الاقوامی دوستوں کی ممکنہ سفارتی و عسکری مدد کی حدود و قیود کے بارے میں ہوش کے ناخن لے لینے چاہیے تھے۔

سوویت یونین کا اتحادی بنتے ہی وارسا معاہدہ کے رکن کیمونسٹ ممالک بھی بھارت کے آٹومیٹک اتحادی بن گئے۔جب نومبر میں مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی کارروائیاں تیز ہونے لگیں تو اس دوران مکتی باہنی کے جو سپاہی شدید زخمی ہوتے انھیں علاج کے لیے کلکتہ کے علاوہ سوویت اور مشرقی جرمنی کے اسپتالوں میں بھی بھیجا جانے لگا۔ اس ایک مثال سے پاکستان کو سوویت بھارت تعاون کی سنجیدگی و سنگینی کا احساس ہو جانا چاہیے تھا۔

مگر پاکستان نے ازخود فرض کر لیا کہ مشرقی پاکستان پر بھارتی حملے کی صورت میں چین اپنے فوجی مشرقی پاکستان میں اتار دے گا۔یہ بھی نہ سوچا گیا کہ چین اگر ایسا کچھ کرنا بھی چاہے تو میکموہن لائن کے دروں پر نومبر دسمبر میں جمنے والی ہمالیائی برف چینی پیشقدمی کے شدید آڑے آئے گی۔

اور یہ کہ ساتواں بحری بیڑہ اگر چٹاگانک کے بیرونی سمندر تک آیا بھی تو مشرقی پاکستان کو نہیں بلکہ علاقے میں پھنسے امریکی شہریوں کو بچانے کے لیے لنگر انداز ہوگا اور یہ بات امریکا پہلے ہی سوویت یونین کے علم میں لا چکا تھا۔مگر ہمارا خود ساختہ الیوڑن اس قدر گہرا تھا کہ جب جنگ کے آخری دنوں میں ڈھاکا کے مضافات میں بھارتی پیراشوٹ بٹالین اتری تو نیازی صاحب یہ سمجھے کہ چینی کمانڈوز اترے ہیں۔

چنانچہ جب بھٹو صاحب کٹے پھٹے پاکستان کے مکمل روحِ رواں بن گئے توسب سے بڑی ترجیح یہ تھی کہ سوویت یونین کو کیسے سمجھایا جائے کہ پاکستان کا وجود جنوبی ایشیا میں توازنِ طاقت برقرار رکھنے کے لیے سوویت یونین کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی بھی دوسری سپر پاور کے لیے۔


غالباً سوویت قیادت پہلے ہی سے بھارت اور سوویت وسطی ایشیا کے درمیان بفر ریاستوں کی ضرورت پر مبنی یہ نکتہ سمجھتی تھی۔ویسے بھی کریملن اور اسلام آباد کا کسی بھی سطح پر کوئی مقابلہ نہیں تھا۔پاکستان سرد جنگ کی بساط پر بہت سے مہروں میں سے محض ایک مہرہ تھا جسے پیٹ دیا گیا۔ کسی ایک مہرے کے گرنے یا آگے بڑھنے سے گیم ختم تھوڑی ہوتی ہے۔بس مہرہ پیٹ کر مدِمقابل شاطر کو اس کی کمزوری کا ہلکا سا احساس دلانا ہوتا ہے۔

چنانچہ مشرقی پاکستان کے سقوط سے سوویت یونین واشنگٹن پر جو ثابت کرنا چاہتا تھا وہ ثابت کرنے کے بعد اس نے پاکستان پر اپنا سخت ہاتھ ہلکا کرنا شروع کیا۔بھٹو صاحب نے پہلی فرصت میں ماسکو کا دورہ کیا۔حسبِ توقع کریملن کا رویہ طے شدہ سردمہری والا تھا۔ انیس سو اٹھاون میں سوویت یونین نے پاکستان کو اسٹیل مل کی تعمیر اور پن بجلی اور معدنیات کی تلاش کے شعبوں میں جس تعاون کی پیش کش کی تھی اور جسے ایوب خان کی فوجی حکومت نے امریکی دوستی کے نشے میں گھاس نہیں ڈالی تھی۔ سوویت یونین نے دوبارہ انھی خطوط پر بھٹو حکومت کو تعاون کی پیش کش کر کے واضح اشارہ دیا کہ جو ہوا سو ہوا اب آگے کا سوچا جائے۔

بھٹو نے نہ صرف یہ پیش کش قبول کر لی بلکہ مشرقی جرمنی ، شمالی کوریا اور شمالی ویتنام جیسے سوویت حلیفوں کو بھی سفارتی طور پر تسلیم کر لیا اور سوویت بلاک کے رکن رومانیہ ، بلغاریہ اور پولینڈ وغیرہ سے بھی تجارت بڑھانے کا عندیہ دیا۔سوویت یونین نے بیک چینلز کے ذریعے اندرا گاندھی اور شیخ محیب الرحمان کو پیغام بھیجا کہ پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹایا جائے اور جنگی جرائم کے سلسلے میں بنگلہ دیش جو خصوصی ٹریبونل بنانے کا سوچ رہا ہے اس سوچ کو ترک کیا جائے۔

فروری انیس سو چوہتر میں لاہور میں اسلامی کانفرنس کے موقع پر پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا۔اسی برس بھارت نے اپنا پہلا زیرِ زمین ایٹمی دھماکا '' سمائلنگ بدھا '' کے نام سے جڑ دیا۔پاکستان نے کہا کہ وہ ایک پرامن جوہری طاقت ضرور بنے گا بھلے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑیں یا گھاس کھانا پڑے۔

انیس سو چھہتر میں فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کی خریداری کا چار ارب ڈالر کا معاہدہ طے پایا۔مگر مغرب بالخصوص امریکا کو یہ بات ہضم کروانا مشکل تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محض توانائی کے حصول تک محدود رہے گا اور اس کا بھارت کے جوہری پروگرام سے کوئی لینا دینا نہیں۔امریکا نے فرانس پر شدید دباؤ ڈال کر یہ سودا منسوخ تو کروادیا مگر وہ پاکستان کی جوہری ضد نہ توڑ سکا۔ یہ تو طے نہیں کہ بھٹو حکومت کو جوہری گستاخی کی سزا ملی مگر یہ طے ہے کہ جب پانچ جولائی ستتر کو ضیا الحق نے اقتدار سنبھالااس وقت امریکا اور پاکستان کے تعلقات نقطہِ انجماد تک گر چکے تھے۔

عین ممکن ہے کہ یہ خیال انتہائی بودا ہو مگر میرا اپنا خیال ہے کہ اگر افغانستان میں پرچمی خلقی کیمونسٹوں کے ہاتھوں سردار داؤد کا تختہ اپریل انیس سو اٹھہتر کے بجائے اپریل انیس سو ستتر میں الٹ دیا جاتا تو بھٹو کا اقتدار برقرار رہتا بشرطیکہ بھٹو صاحب انھی پالیسی خطوط پر امریکا سے معاملہ طے کرنے کا عندیہ دیتے کہ جنھیں بعد ازاں ضیا الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے چابکدستی سے کیش کروا لیا۔لیکن بھٹو اگر علاقائی جئیو پالٹیکس کے تناظر میں افغانستان کی بابت کوئی فیصلہ اپنے قومی مفاد کے نقطہِ نظر سے کرنے کی کوشش کرتے تو ان کی حکومت پھر بھی جاتی۔

مگر بھٹو صاحب کی سیاسی نفسیات دیکھتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات کے ایک ادنی طالبِعلم کی حیثیت سے میرا گمان ہے کہ بھٹو کی وہی افغان پالیسی ہوتی جو ضیا الحق نے اپنائی۔دونوں صورتوں میں سوویت یونین کا پھر بھی سامنا کرنا پڑتا۔فرق صرف یہ تھا کہ سات برس قبل سوویت یونین پاکستان کی مشرقی سرحد پر بھارت کے ساتھ کھڑا تھا۔ اب وہ پاکستان کی مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ کھڑا تھا۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا ( جاری ہے )

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story