عام آدمی کا غیر معمولی وزیر اعظم
عمران خان ملک کو درپیش چیلنجز کو اصلاح کے مواقع کے طورپردیکھتے ہیں۔
عمران خان نے بے ساختگی اور دیانت کے ساتھ قوم سے خطاب کرکے عوام کے دل جیت لیے۔ سادہ لفظوں میں دل کی بات کہی، تقریر کے لیے اپنے ہاتھ سے لکھے نکات سے مدد لی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ جو وہ کہہ رہے تھے اس کے مفہوم سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔
اس ملک کے غریب عوام گزشتہ 71برسوں سے اس بات کے منتظر رہے ہیں کہ ان کے لیڈروں میں سے کوئی تو امیرو غریب کی تقسیم پر بات کرے، ان کے حقیقی مسائل کو موضوعِ گفتگو بنائے۔ حزب مخالف کو آڑے ہاتھوں لینے کے بجائے وزیر اعظم نے صرف اتنا بتایا کہ ملکی قرضے 2008 میں6ٹریلین روپے تھے جو دس برس کی مدت میں 28ٹریلین روپے ہوگئے ہیں۔
عمران خان نے سرکاری اخراجات میں کٹوتی ، کرپشن کے خاتمے اور ملکی سرمائے کو وطن واپس لانے کا وعدہ کرکے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ساتھ ہی ، ہماری موجودہ اقتصادی دشواریوں کو دور کرنے کے لیے، انھیں قانونی ذرایع سے اپنی محنت سے کمائی رقوم کی ترسیل پاکستانی بینکوں کے ذریعے کرنے کی ترغیب دی ہے۔ پاکستانی میں انسانی ترقی اور صحت عامہ کے مسائل کاجائزہ پیش کیا اور مسائل کی شکارمعیشت اور بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے سادگی اپنانے کا بھی عہد کیا۔
وزیر اعظم نے شعبہ صحت میں اصلاحات اور بچوں کو مطلوبہ غذائیت کی فراہمی کے لیے عوام سے ساتھ دینے کی اپیل بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت اسکول نہ جانے والے دو کروڑ بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں میں بہتری لائے گی۔ مدارس کے نصاب میں بھی جدید مضامین شامل کیے جائیں گے تاکہ یہاں زیر تعلیم طلبہ بھی انجنیئر، ڈاکٹر بن کر عملی زندگی میں آگے بڑھیں۔
سادگی کی مثال قائم کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان ایوان وزیر اعظم میں ملٹری سیکریٹری کی تین کمروں کی رہائش گاہ میں رہیں گے اور 524میں سے صرف دو ملازمین رکھیں گے۔ وزیر اعظم ہاؤس کی 80میں سے صرف دو گاڑیاں ان کے زیر استعمال رہیں گی، ان میں سے 33انتہائی بیش قیمت بلٹ پروف گاڑیوں کو نیلام کرنے کا اعلان کیا اور نیلامی میں ان کی خریداری کے لیے کاروباری افراد کو دعوت دی۔ تمام گورنر ہاؤس کو عوامی مقامات اور وزیر اعظم ہاؤس کو عالمی معیار کی یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
عمران خان نے دولت مند افراد پر ٹیکس ادا کرنے کے لیے زور دیا، یہ ہمارا دیرینہ مسئلہ ہے کہ مجموعی آبادی کے ایک فی صد سے بھی کم لوگ آمدن پر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور پاکستان ٹیکس چوروں کی وجہ سے بدنام ہے۔ انھوں نے غیرملکی قرضوں کے ذریعے معیشت کی بحالی کے بجائے ، بدعنوانی کے باعث بے اعتبار ہوجانے والے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) میں تبدیلیوں کا وعدہ کیا۔عوام سے ملنے والے وسائل انھی پر صرف کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے انھوں نے عوام کو یہ بھی باور کروایا کہ ٹیکس کی ادائیگی سے نہ صرف عام آدمی کے معیارِزندگی میں بہتری آئے گی بلکہ اس کی مدد سے غربت کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔
عمران خان نے نیب کی کرپشن کے خلاف جاری مہم کو مزید شفاف اور مؤثر بنانے کے لیے چیئرمین نیب سے ملاقات کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ انھوں نے خیبر پختون خوا کی طرح پورے ملک میں ''وسل بلوؤر'' قانون بنانے کا اعلان بھی کیا، جس کے تحت کرپشن کی نشاندہی کرنے والے کو بازیاب ہونے والی رقم سے حصہ دیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے وزارت داخلہ اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایف آئی اے بھی انھی کے ماتحت ہوگی۔ ان کے مطابق ''میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کی ذاتی طور پر نگرانی کرنا چاہتا ہوں۔''
سول سروس بیوروکریسی کی ریڑھ ہے اور اس میں اصلاحات وزیر اعظم کی ترجیحات میں شامل ہے،ماضی کی طرح میرٹ پر سختی سے عمل کرکے اس کا معیار بلند کیا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ''1960کی دہائی میں ہمارا شمار دنیا کے بہترین ممالک میں ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے ہم پیچھے رہ گئے۔ اس کا بنیادی سبب بدعنوان افراد اور بے لگام سیاسی مداخلت ہے۔''سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت العباد کی سربراہی میں تشکیل پانے والی کمیٹی کو میرٹ پر عمل درآمد کا ہدف دیا گیا ہے۔ عمران خان نے انتباہ کیا کہ تقرریوں میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے بے لوث اور قابل افسران کے لیے بونس اور نااہل افراد کی سرزنش کا بھی اعلان کیا۔
عمران خان نے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے یا تو ناقص بلدیاتی نظام متعارف کروائے یا ان پر عمل درآمد میں رکاوٹیں حائل کیں، اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ''اختیارات بہرصورت نچلی سطح پر منتقل ہونے چاہییں۔''اضلاع کے لیے ناظمین کا براہ راست انتخاب ہوگا جب کہ ان کی نگرانی کا بھی نظام ہوگا۔بلدیاتی نظام کے نفاذ میں بیوروکریسی نے ہمیشہ مزاحمت کی ہے، بالخصوص ڈسٹرک مینیجمنٹ گروپ اور پولیس سروس آف پاکستان اس میں رکاوٹ رہے ہیں۔ یہ دونوں ادارے اپنے نوآبادیاتی پس منظر کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ میں اپنی بالادستی کے دعوے دار ہیں۔
وزیر اعظم نے صنعتوں کو درپیش مسائل کا حل کرکے پاکستانی برآمدات میں اضافے پر زور دیا۔ انھوں نے ملک میں سرمایہ کاری لانے اور اس کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ دنیا بھر میں قائم ہمارے سفارت خانے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور دیگر سے پاکستانی مصنوعات کے فروغ کے لیے رابطے کریں گے۔ کاروباری برادری کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ''بزنس ایڈوائزری کونسل'' معاونت فراہم کرے گی۔
وزیر اعظم نے اپنے وژن کی وضاحت کے لیے دورِ نبویﷺ کے طرز حکومت کی مثالیں دیں اور ریاست مدینہ کی روح کے مطابق پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا عزم ظاہر کیا۔ قرآن حکیم کی راہنمائی کی بنیاد پر ملک میں نظام استوار کرنے کے لیے انھوں نے پانچ نکاتی ایجنڈا بیان کیا۔ یہ نکات ہیں؛1) قانون کی حکمرانی اور بلاامتیاز نفاذ 2) نظام زکوۃ، جس میں امیر غریبوں کی اعانت کے لیے زیادہ دیتا ہے 3) رحم دلی، جس پر آج مغرب میں زیادہ عمل کیا جاتا ہے اور جانوروں کے حقوق کا بھی تحفظ کیا جاتا ہے 4) میرٹ، حکمران صادق و امین ہونا چاہیے، اسے راست گو ہونا چاہیے اور ریاستی امور سے اس کے مفادات کا تصادم نہیں ہونا چاہیے5) تعلیم، نبی کریمﷺ نے سب سے بڑھ کر اسے اہم اور حصول علم کو سب کے لیے یکساں فرض قرار دیا۔
عمران خان ملک کو درپیش چیلنجز کو اصلاح کے مواقع کے طورپردیکھتے ہیں، انھوں نے عدلیہ میں جامع اصلاحات، پنجاپ پولیس میں کے پی ماڈل کا نفاذ ، پاکستانی جیلوں کے معیار میں بہتری، شہروں میں شجر کاری، پانی کی قلت، نئے ڈیموں کی تعمیر، ماحولیاتی مسائل، بچوں کے استحصال جیسے سبھی اہم ترین موضوعات کا احاطہ کیا۔
بنیادی طور پر ان تمام اصلاحات کا محور یہی ہے کہ پاکستان کے وسائل ثروت مندوں سے پس ماندہ طبقات تک منتقل کیے جائیں۔ عمران خان کے لہجے میںایسا اخلاص اور عزم تھا کہ ان کے شدید مخالفین بھی ان کے پیغام کے منفی پہلو تلاش کرنے میں ناکام رہے، زیادہ سے زیادہ وہ یہی کرسکے کہ عمران خان کے اٹھائے گئے نکات پر تنقید کی یا ان عزائم پر عمل میں ان کی ناکامی کے خدشات ظاہر کیے۔
''نئے پاکستان'' کی جانب جانے والا راستہ خدشات اور چیلنجوں سے پُر ہے، جو درحقیقت امکانات ہیں۔ ان وعدوں پر عمل کرکے ایک نئے دور کا آغاز کیا جاسکتا ہے کیوں کہ عام آدمی بہت پُریقین ہے اور ملک کا وزیر اعظم پہلی مرتبہ ان سے ایسے لہجے میں مخاطب ہوا جس کے وہ برسوں سے خواہاں تھے۔ یہ غیر معمولی انسان ، عمران خان، جو اپنے عزائم کے بدلے میں کسی شے کا طالب نہیں اب ایک ''غیر معمولی'' وزیراعظم بننے کی راہ پر گام زن ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
اس ملک کے غریب عوام گزشتہ 71برسوں سے اس بات کے منتظر رہے ہیں کہ ان کے لیڈروں میں سے کوئی تو امیرو غریب کی تقسیم پر بات کرے، ان کے حقیقی مسائل کو موضوعِ گفتگو بنائے۔ حزب مخالف کو آڑے ہاتھوں لینے کے بجائے وزیر اعظم نے صرف اتنا بتایا کہ ملکی قرضے 2008 میں6ٹریلین روپے تھے جو دس برس کی مدت میں 28ٹریلین روپے ہوگئے ہیں۔
عمران خان نے سرکاری اخراجات میں کٹوتی ، کرپشن کے خاتمے اور ملکی سرمائے کو وطن واپس لانے کا وعدہ کرکے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ساتھ ہی ، ہماری موجودہ اقتصادی دشواریوں کو دور کرنے کے لیے، انھیں قانونی ذرایع سے اپنی محنت سے کمائی رقوم کی ترسیل پاکستانی بینکوں کے ذریعے کرنے کی ترغیب دی ہے۔ پاکستانی میں انسانی ترقی اور صحت عامہ کے مسائل کاجائزہ پیش کیا اور مسائل کی شکارمعیشت اور بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے سادگی اپنانے کا بھی عہد کیا۔
وزیر اعظم نے شعبہ صحت میں اصلاحات اور بچوں کو مطلوبہ غذائیت کی فراہمی کے لیے عوام سے ساتھ دینے کی اپیل بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت اسکول نہ جانے والے دو کروڑ بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں میں بہتری لائے گی۔ مدارس کے نصاب میں بھی جدید مضامین شامل کیے جائیں گے تاکہ یہاں زیر تعلیم طلبہ بھی انجنیئر، ڈاکٹر بن کر عملی زندگی میں آگے بڑھیں۔
سادگی کی مثال قائم کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان ایوان وزیر اعظم میں ملٹری سیکریٹری کی تین کمروں کی رہائش گاہ میں رہیں گے اور 524میں سے صرف دو ملازمین رکھیں گے۔ وزیر اعظم ہاؤس کی 80میں سے صرف دو گاڑیاں ان کے زیر استعمال رہیں گی، ان میں سے 33انتہائی بیش قیمت بلٹ پروف گاڑیوں کو نیلام کرنے کا اعلان کیا اور نیلامی میں ان کی خریداری کے لیے کاروباری افراد کو دعوت دی۔ تمام گورنر ہاؤس کو عوامی مقامات اور وزیر اعظم ہاؤس کو عالمی معیار کی یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
عمران خان نے دولت مند افراد پر ٹیکس ادا کرنے کے لیے زور دیا، یہ ہمارا دیرینہ مسئلہ ہے کہ مجموعی آبادی کے ایک فی صد سے بھی کم لوگ آمدن پر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور پاکستان ٹیکس چوروں کی وجہ سے بدنام ہے۔ انھوں نے غیرملکی قرضوں کے ذریعے معیشت کی بحالی کے بجائے ، بدعنوانی کے باعث بے اعتبار ہوجانے والے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) میں تبدیلیوں کا وعدہ کیا۔عوام سے ملنے والے وسائل انھی پر صرف کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے انھوں نے عوام کو یہ بھی باور کروایا کہ ٹیکس کی ادائیگی سے نہ صرف عام آدمی کے معیارِزندگی میں بہتری آئے گی بلکہ اس کی مدد سے غربت کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔
عمران خان نے نیب کی کرپشن کے خلاف جاری مہم کو مزید شفاف اور مؤثر بنانے کے لیے چیئرمین نیب سے ملاقات کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ انھوں نے خیبر پختون خوا کی طرح پورے ملک میں ''وسل بلوؤر'' قانون بنانے کا اعلان بھی کیا، جس کے تحت کرپشن کی نشاندہی کرنے والے کو بازیاب ہونے والی رقم سے حصہ دیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے وزارت داخلہ اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایف آئی اے بھی انھی کے ماتحت ہوگی۔ ان کے مطابق ''میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کی ذاتی طور پر نگرانی کرنا چاہتا ہوں۔''
سول سروس بیوروکریسی کی ریڑھ ہے اور اس میں اصلاحات وزیر اعظم کی ترجیحات میں شامل ہے،ماضی کی طرح میرٹ پر سختی سے عمل کرکے اس کا معیار بلند کیا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ''1960کی دہائی میں ہمارا شمار دنیا کے بہترین ممالک میں ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے ہم پیچھے رہ گئے۔ اس کا بنیادی سبب بدعنوان افراد اور بے لگام سیاسی مداخلت ہے۔''سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت العباد کی سربراہی میں تشکیل پانے والی کمیٹی کو میرٹ پر عمل درآمد کا ہدف دیا گیا ہے۔ عمران خان نے انتباہ کیا کہ تقرریوں میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے بے لوث اور قابل افسران کے لیے بونس اور نااہل افراد کی سرزنش کا بھی اعلان کیا۔
عمران خان نے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے یا تو ناقص بلدیاتی نظام متعارف کروائے یا ان پر عمل درآمد میں رکاوٹیں حائل کیں، اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ''اختیارات بہرصورت نچلی سطح پر منتقل ہونے چاہییں۔''اضلاع کے لیے ناظمین کا براہ راست انتخاب ہوگا جب کہ ان کی نگرانی کا بھی نظام ہوگا۔بلدیاتی نظام کے نفاذ میں بیوروکریسی نے ہمیشہ مزاحمت کی ہے، بالخصوص ڈسٹرک مینیجمنٹ گروپ اور پولیس سروس آف پاکستان اس میں رکاوٹ رہے ہیں۔ یہ دونوں ادارے اپنے نوآبادیاتی پس منظر کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ میں اپنی بالادستی کے دعوے دار ہیں۔
وزیر اعظم نے صنعتوں کو درپیش مسائل کا حل کرکے پاکستانی برآمدات میں اضافے پر زور دیا۔ انھوں نے ملک میں سرمایہ کاری لانے اور اس کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ دنیا بھر میں قائم ہمارے سفارت خانے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور دیگر سے پاکستانی مصنوعات کے فروغ کے لیے رابطے کریں گے۔ کاروباری برادری کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ''بزنس ایڈوائزری کونسل'' معاونت فراہم کرے گی۔
وزیر اعظم نے اپنے وژن کی وضاحت کے لیے دورِ نبویﷺ کے طرز حکومت کی مثالیں دیں اور ریاست مدینہ کی روح کے مطابق پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا عزم ظاہر کیا۔ قرآن حکیم کی راہنمائی کی بنیاد پر ملک میں نظام استوار کرنے کے لیے انھوں نے پانچ نکاتی ایجنڈا بیان کیا۔ یہ نکات ہیں؛1) قانون کی حکمرانی اور بلاامتیاز نفاذ 2) نظام زکوۃ، جس میں امیر غریبوں کی اعانت کے لیے زیادہ دیتا ہے 3) رحم دلی، جس پر آج مغرب میں زیادہ عمل کیا جاتا ہے اور جانوروں کے حقوق کا بھی تحفظ کیا جاتا ہے 4) میرٹ، حکمران صادق و امین ہونا چاہیے، اسے راست گو ہونا چاہیے اور ریاستی امور سے اس کے مفادات کا تصادم نہیں ہونا چاہیے5) تعلیم، نبی کریمﷺ نے سب سے بڑھ کر اسے اہم اور حصول علم کو سب کے لیے یکساں فرض قرار دیا۔
عمران خان ملک کو درپیش چیلنجز کو اصلاح کے مواقع کے طورپردیکھتے ہیں، انھوں نے عدلیہ میں جامع اصلاحات، پنجاپ پولیس میں کے پی ماڈل کا نفاذ ، پاکستانی جیلوں کے معیار میں بہتری، شہروں میں شجر کاری، پانی کی قلت، نئے ڈیموں کی تعمیر، ماحولیاتی مسائل، بچوں کے استحصال جیسے سبھی اہم ترین موضوعات کا احاطہ کیا۔
بنیادی طور پر ان تمام اصلاحات کا محور یہی ہے کہ پاکستان کے وسائل ثروت مندوں سے پس ماندہ طبقات تک منتقل کیے جائیں۔ عمران خان کے لہجے میںایسا اخلاص اور عزم تھا کہ ان کے شدید مخالفین بھی ان کے پیغام کے منفی پہلو تلاش کرنے میں ناکام رہے، زیادہ سے زیادہ وہ یہی کرسکے کہ عمران خان کے اٹھائے گئے نکات پر تنقید کی یا ان عزائم پر عمل میں ان کی ناکامی کے خدشات ظاہر کیے۔
''نئے پاکستان'' کی جانب جانے والا راستہ خدشات اور چیلنجوں سے پُر ہے، جو درحقیقت امکانات ہیں۔ ان وعدوں پر عمل کرکے ایک نئے دور کا آغاز کیا جاسکتا ہے کیوں کہ عام آدمی بہت پُریقین ہے اور ملک کا وزیر اعظم پہلی مرتبہ ان سے ایسے لہجے میں مخاطب ہوا جس کے وہ برسوں سے خواہاں تھے۔ یہ غیر معمولی انسان ، عمران خان، جو اپنے عزائم کے بدلے میں کسی شے کا طالب نہیں اب ایک ''غیر معمولی'' وزیراعظم بننے کی راہ پر گام زن ہے۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)