احمد نواز کی کامیابی احمد خان کی شہادت۔ کلدیپ نیئر کی تعزیت
احمد خان کی شہادت نے اس کے بچوں کے لیے ایک لمبی لڑائی چھوڑ دی ہے۔
احمد نواز جیسے بچے پاکستان کی شان ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے۔احمد نواز نے ویسے تو برطانیہ میں جنرل سرٹیفکیٹ برائے سکینڈری ایجوکیشن میں اپنے آٹھوں مضامین میں آٹھ اے اسکور کر کے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ ان میں چھ اے پلس ہیں۔ جب کہ دو اے ہیں۔ احمد نواز کے اس شاندار اسکور کی وجہ سے اب اس کی آکسفورڈ میں داخلہ کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ پورے پاکستان کو احمد نواز پر فخر ہونا چاہیے۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے احمد نواز کو اس کی اس کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کی باقی قیادت اس وقت دیگر اہم امور میں اس قدر مصروف ہے کہ کسی کے پاس احمد نواز کو مبارک دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کے پاس ہر موضوع پر بیان دینے کی فرصت ہوتی ہے لیکن اپنی نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کرنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ جب پاک فوج کے ترجمان احمد نواز کو اس کے شاندر امتحانی نتائج پر مبارکباد دے رہے تھے، پاکستان کی سیاسی قیادت کلدیپ نیئر کی وفات پر تعزیتی بیانات دینے میں مصروف تھی۔
ہر کوئی کلدیپ نیئر کی وفات پر ایسے دکھ اور غم کا اظہار کر رہا تھا جیسے پاکستان کے کسی فرزند کی موت ہو گئی ہے۔ مجھے کلدیپ نیئر کے تعزیتی بیانات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن مجھے پاکستان کی سیاسی قیادت کے ایک عمومی رویہ سے شکایت ہے جس میں بھارت نوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہم نے تو نوجوت سدھو کا ایسے استقبال کیا ہے جیسے کسی بڑے اہم ملک کا سربراہ پاکستان آگیا ہے۔لوگ نواز شریف کی بھارت نوازی پر ناراض تھے۔ نئے حکمرانوں نے بھی وہی کام شروع کر دیے ہیں۔ انھیں بھی پوری دنیا سے سدھو کے سوا کوئی نہیں ملا۔ بھارتی مہمانوں پر ہی فوکس تھا۔ ایسے جیسے باقی دنیا کا وجود ہی نہیں ہے۔
حالانکہ جس دن کلدیپ نیئر کی وفات پر ہماری سیاسی قیادت کے تعزیتی بیانات کی بھر مار تھی ، سب ایسے بیان دے رہے تھے جیسے کوئی قومی سانحہ ہو گیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے ایک بہادر سپوت 38سالہ حوالدار احمد خان نے بھی ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی جدوجہد میں جام شہادت نوش کیا۔ وہ شمالی وزیرستان میںرد الفساد کے ایک اور شہید ہیں۔ لیکن احمد خان کی شہادت پر بھی مجھے کوئی تعزیتی بیان نظر نہیں آیا۔کوئی احمد خان کے گھر اس کے سوگواران سے تعزیت کے لیے نہیں گیا۔ کسی نے ان کے سر پر ہاتھ نہیں رکھا۔ میڈیا کے لیے بھی احمد خان کی شہادت کوئی خبر نہیں۔ ایسا تو روز ہوتاہے۔
ہم تو دیگر پروگراموں میں مصروف تھے۔ یہ فوجی تو ہوتے ہی ملک پر جانیں قربان کرنے کے لیے ہیں۔ کلدیپ نیئر کی موت بڑی خبر ہے۔ احمد خان کی موت کوئی خبر نہیں۔ شاید احمد خان کی شہادت کوئی اہم واقعہ نہیں تھا۔ قوم کے یہ سپوت تو روز ملک و قوم پر جانوں کا نذرانہ دیتے رہتے ہیں۔ بس آئی ایس پی آر سے ایک خبر آجاتی ہے۔ اور ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔شاید وزیر دفاع بھی عید منانے میں مصروف تھے ان کے پاس بھی احمد خان کے گھر جانے کا وقت نہیں تھا۔ اپوزیشن لیڈر بھی صدارتی انتخاب کی بندر بانٹ میں مصروف تھے۔ ان کے پاس بھی وقت نہیں تھا۔ وزیر اعظم تو آج کل بہت مصروف ہیں۔ انھوں نے نیا پاکستان بنانا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھارت میں سیلاب آنے پر مدد کا تو عید کی چھٹیوں میں ٹوئٹ کر دیا ہے ۔لیکن احمد خان کی شہادت پر فخر کا وقت نہیں تھا۔ بھارت کے ایک حصہ میں سیلاب یقینا احمد خان کی شہادت سے زیادہ اہم ہے۔ ایسے میں احمد خان کی شہادت کی کیا اہمیت ہے۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ کون احمد نواز ۔احمد نواز کوئی عام بچہ نہیں ہے۔ احمد نواز اے پی ایس اسکول میں دہشت گردوں کے حملہ کا نشانہ بننے والا ایک بہادر بچہ ہے۔ اسے بھی دہشت گردوں کی گولیاں لگی تھیں۔ اس نے بہت چھوٹی عمر میں زندگی اور موت کی لڑائی لڑی ہے۔ یہ درست ہے کہ ایک لمبے علاج اور کئی گھنٹوں کی تکلیف دہ سرجریز کے بعد احمد نواز کو رب ذوالجلال نے زندگی عطا کی۔ احمد نواز کو اس چھوٹی سے عمر میں زندگی کی قیمت کا اندازہ ہے۔احمد نواز کا چھوٹا بھائی حارث نواز اے پی ایس کے سانحہ میں شہید ہو گیا تھا۔ دہشت گردوں نے کلاشنکوف کی گولیاں اس کے چہرہ پر ایسی ماری تھیں کہ اس کی شکل پہچانی نہیں جا سکتی تھی۔ و ہ تو حارث نواز نے کلائی پر اپنی پسندیدہ کالی گھڑی پہنی ہوئی تھی جس سے اس کے والدین نے اس کی لاش کو پہچان لیا۔
علاج کے بعد کئی ماہ احمد نواز ایک خوف کا شکار رہا۔ وہ رات کو ڈر جاتا تھا کہ کھلی کھڑکیوں سے دہشت گرد کلاشنکوف پکڑے کمرے میں داخل ہو کر اسے پھر سے گولی مار دیں گے۔ وہ ایک انجانے خوف کا شکار تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی کے غم سے باہر نہیں نکل رہا تھا۔ لیکن قدرت نے احمد نواز کو ہمت دی۔ اس نے موت کے خوف کو شکست دی۔ ڈر کو شکست دی اوردوبارہ تعلیم شروع کی۔ اور اب دنیا میں نام پیدا کر دیا ہے۔ مجھے بھی احمد نواز پر فخر ہے۔
گزشتہ دنوں میرے دوست آئی جی موٹر وے عامر ذوالفقار نے موٹرو ے کے ملازمین کے ان بچوں کو انعامات دینے کی ایک تقریب منعقد کی جنہوں نے میٹرک کے امتحانات میں بہت اعلی نمبرحاصل کیے۔ مجھے دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ چھوٹے رینک کے ملازمین کے بچوں نے بہت اعلیٰ نمبر حاصل کیے۔ وہاں بھی موٹر وے کے شہدا کے بچوں نے بھی بہت اعلیٰ نمبر حاصل کیے۔ لیکن اس تقریب کی خاص بات یہ ہے کہ عامر ذوالفقار نے صرف بچوں کو انعامات نہیں دیے بلکہ ان کے والدین کو بھی انعامات دیے۔ عامر ذوالفقار کا موقف ٹھیک ہے کہ انعام کے اصل حقدار تو وہ والدین ہیں جو بچوں کو تعلیم کے زیور سے نوازتے ہیں۔
اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ تقریب میں عامر ذوالفقار کی آنکھیں اشکبار تھیں، وہ بچوں کو احساس دلوا رہے تھے کہ ان کی کامیابی صرف ان کی کامیابی نہیں ہے بلکہ ان کی کامیابی ان کے والدین کی مرہون منت ہے۔ تقریب میں، میں نے ایک معمولی سپاہی کے بچوں کواتنے اعلیٰ نمبر لیتے دیکھے تو میرا یقین پختہ ہو گیا کہ ہمارا مستقبل روشن ہے۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ عامر ذوالفقار کی بات میرے ذہن میں گونجتی رہتی ہے کہ بچوں کی کامیابی میں ان کے والدین کی ان گنت قربانیاں شامل ہوتی ہیں۔ والدین اپنا آج اپنے بچوں کے بہترکل پر قربان کر دیتے ہیں۔
میں نے اس تقریب میں ایک معذور بچہ بھی دیکھا جو ٹھیک سے چل نہیں سکتا تھا۔ اس کے والدین کے پاس اس کے علاج کے لیے پیسے نہیں تھے۔ لیکن وہ اسے پڑھا رہے تھے۔ عامر ذوالفقار نے اس کے علاج کی ذمے داری لے لی۔ لیکن یہ ایک واقعہ نہیں ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں واقعات ہیں لیکن ہماری توجہ ہی نہیں ہے۔ ہمیں بھارت میں آئے سیلاب کی فکر کھائے جا رہی ہے۔
بہر حال احمد نواز کے والدین بھی خصوصی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے ایک بیٹے کی شہادت کے غم کو پس پشت ڈال کر دوسرے بیٹے کو جینے کی امنگ دی ہے۔ احمد نواز کے والدمحمد نواز ایک کار ورکشاپ کے مالک ہیں۔ غریب آدمی ۔ محنت مزدوری سے بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ مجھے امید ہے کہ آج احمد نواز کی اس شاندار کامیابی نے محمد نواز کا سر بھی فخر سے بلند کیا ہوگا۔ لیکن حارث کا غم اب بھی موجود ہوگا۔
دوسری طرف احمد خان کی شہادت نے اس کے بچوں کے لیے ایک لمبی لڑائی چھوڑ دی ہے۔ قومی پرچم میں لپٹی والد کی لاش نے ایک طرف ان کے سر فخر سے بلند کر دیے ہونگے۔ دوسری طرف زندگی کے ان گنت امتحان ان کے لیے شروع ہو گئے ہیں۔ جس قوم کی قیادت کو آج احمد خان کی شہادت پر تعزیت کی فرصت نہیں وہ کل اس کے بچوں کے سر پر کیا ہاتھ رکھے گی۔ وہ کس کس کو بتائیں گے کہ ان کے والد نے قوم کے بہتر مستقبل کے لیے اپنے بچوں کے مستقبل کی قربانی دے دی تھی۔ یہ بے رحم معاشرہ ان کی کیا سنے گا۔ انھیں بھی اپنی لڑائی ایسے ہی لڑنی ہوگی جیسے ان کے والد دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔