آنجہانی کلدیپ نیئر
کلدیپ نیئر اپنے افکار کے تھے، جو سمجھتے تھے صحیح ہے سچ ہے اس کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔
کچھ لوگ اپنی اس شناخت سے بڑے ہوتے ہیں جو ان کے کارڈ پر چسپاں ہوتی ہے، وہ ان لکیروں سے بھی بڑے ہوتے ہیں جو تاریخ کی کرخت حقیقتوں نے سرحدوں میں عیاں کی ہوتی ہیں۔ ہاں مگر انھیں رہنے کے لیے ایک گھر چاہیے ہوتا ہے، اس گھر کو شہر اور اس شہر کو ایک ملک چاہیے ہوتا ہے۔ ہمارے فیضؔ اس احساس کو کچھ اس طرح سموتے ہیں:
''آج تو کہہ دے، آج تو کہہ دے آج علی الاعلان، میرا کوئی دیس نہیں ہے، میرا دیس جہاں دھرتی میری ماں ہے اور میں ہوں ایک انسان''۔ کلدیپ نیئر جن کا مورخہ 23 اگست 2018ء کو 95 برس کی عمر میں دیہانت ہوگیا، انھی چند لوگوں میں سے ایک تھے جن کے صفات فیضؔ نے مندرجہ بالا سطروں میں بیان کی ہیں۔ رہتے وہ دہلی میں تھے، ہوتے وہ ہندوستانی تھے، مگر اپنے افکار سے وہ برصغیر کے شہری تھے۔ وہ برصغیر جو 1947ء سے پہلے ایک تھا اور انگریز کے آنے سے پہلے ایک نہ تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دہلی پر جب مغلوں کا سکہ رائج الوقت تھا تو یہ برصغیر ایک تھا اور اس سے پہلے ایک نہ تھا۔ ہجرت کیا ہوتی ہے، اپنا شہر (سیالکوٹ) کیسے چھوڑا جاتا ہے، اتنی بڑی میراث، اتنا بڑا رقبہ، اتنی بڑی پہچان کیسے چھوڑی جاتی ہے؟ کلدیپ اس درد سے گزرا تھا، جب سرحدیں تقسیم ہو رہی تھیں۔ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہو رہی تھی۔ اور وہ صرف پنجاب تھا ۔
جہاں سے ستر لاکھ لوگ نقل مکانی کے لیے مجبور ہوئے، لاکھوں لوگوں کا خون بہا، ریل گاڑیوں کے ڈبوں کے ڈبے لاشوں سے بھرے ملے۔ ایک ایسی ہجرت جو بٹوارہ چاہنے والوں کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھی۔ کلدیپ نے پنجاب کو دو ہوتے دیکھا، جہاں خود برصغیر ایک بڑی ہجرت اور بٹوارے سے گزر رہا تھا۔ سب ایک ساتھ، ایک لمحے میں ہورہا تھا۔ خانہ جنگی کا عالم تھا، انسانیت سرنگوں ہوگئی اور نفرت کی آگ برپا تھی۔ ایک ایسی نفرت جو لیتی تو حقیقتوں سے جنم ہے مگر اتنی پھیلی کہ آج 72 سال گزرنے کے بعد وہ اپنے رنگ کو تبدیل کرگئی، لیکن اب بھی اتنی ہی شدت سے موجود ہے۔ نتیجتاً بھوک اور افلاس برصغیر کا مقدر بن کر اس کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔
میں نے چند ہی سوانح حیات پڑھی ہوں گی۔ جتنی بھی پڑھیں ان میں جو چند لبھا گئیں ان میں سے کلدیپ کی لکھی اپنی کتھا "Beyond the Lines" بھی ایک ہے۔
14 اگست 1923ء کو پیدا ہوئے ہیں اور باقی ساری زندگی اس بٹوارے کے گرد گھومتی رہی جو چودہ اور پندرہ اگست 1947ء کی درمیانی شب کو جنم لیتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ صحافی تھا، وہ کالم نگار تھا۔ اخبار کا ایڈیٹر بھی ہوا، ہندوستان کی پارلیمان کا ممبر بھی تو برطانیہ میں بطور ہائی کمشنر بھی تعینات ہوا۔ اس کی سب تحریروں میں بنیادی موضوع سخن امن ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ امن، برصغیر میں افلاس کا خاتمہ اور اس کے لیے سب سے پہلی کڑی امن ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جناح صاحب کے پاس علیحدہ وطن کا تصور نہیں تھا بلکہ وہ برصغیر میں کنفیڈریشن چاہتے تھے۔
انھوں نے علامہ اقبال کو اپنی آنکھوں سے سیالکوٹ میں کئی بار دیکھا۔ وہ اس وقت بھی ادھر تھے جب بطور کالج کے شاگرد لاہور میں رہا کرتے تھے، جب 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا تھا، جہاں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کی قرارداد منظور ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں اجلاس شروع ہونے سے پہلے خاکسار تحریک کے جتھوں نے صرف دو لیڈروں کو الگ الگ سلامی دی۔ ایک تھے محمد علی جناح اور دوسرے تھے فضل الحق جو شیر بنگال کے نام سے جانے جاتے تھے اور خود اجلاس کی صدارت بھی انھی دونوں لوگوں نے یکساں کی تھی اور جو بنیادی قرارداد تھی اس کا متن تھا کہ مسلمان ان ریاستوں کا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، ان کے درمیان کنفیڈریشن ہوگی۔
کلدیپ اس وقت بھی تاشقند میں تھے جب ایوب اور شاستری کے درمیان سوویت یونین کی مدد سے مذاکرات ہوئے تھے۔ وہ جنرل ایوب کو اچھے الفاظ میں رقم کرتے ہیں، جب کہ بھٹو کو منفی سوچ کا حامل دکھاتے ہیں اور پھر کس طرح اس تاشقند معاہدے سے بھٹو لیڈر بنا اور ایوب کا ڈاؤن فال شروع ہوا۔ شاستری معاہدے کے بعد والی رات انتقال کر گئے اور اندرا گاندھی شاستری کے جانے کے بعد کانگریس پر قابض ہوگئی اور اس طرح خود ہندوستان میں آمریت نما شکل رونما ہوئی، ایمرجنسی نافذ ہوئی، کلدیپ جیل چلے گئے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ چند چار پیارے پنجابی تھے جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن چاہتے تھے، ان میں سے ایک اے کے گجرال بھی تھا، جو دہلی میں بیٹھی اتنی بڑی شرفا کے سامنے برف پگھلنے کی بات کرتے تھے۔ جو کانگریس کو تو بھاتی تھی مگر بی جے پی کو بالکل ہی نہیں۔
ہماری سیاست اب بہت آگے نکل آئی ہے، کم ازکم اس حوالے سے کہ اب کوئی بھٹو کی طرح تاشقند معاہدے کی طرح اس کو exploit کر کے نفرتوں کی آگ بھڑکا کے ہیرو نہیں ہوسکتا۔ مگر ہندوستان میں ایسا نہیں ہے۔ ہم اگر تصور بھی کریں ایک لمحے کو کہ کشمیر ایک ریاست ہے، غور کیجیے صرف ایک مسلمان اکثریت رکھتی ہوئی ریاست اور وہاں کیا ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کے اعتبار سے اتنی ہی بھیانک جتنا فلسطین ہوسکتا ہے۔
کلدیپ نیئر اپنے افکار کے تھے، جو سمجھتے تھے صحیح ہے سچ ہے اس کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ بالآخر 1998ء میں وہ اس بس میں ہندوستان کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ تھے جو واہگہ بارڈر کے ذریعے آئی تھی۔ امن کے لیے ایک اور کوشش۔ مگر پھر کیا ہوا۔ کارگل ہوا، پھر ایٹمی دھماکے ہوئے اور ہماری معیشت اتنی وسیع اور ٹھوس نہ تھی، ہمیں اپنے ڈالر اکاؤنٹ منجمد کرنے پڑے۔
حال ہی میں ہندوستان سے کانگریس کے لیڈر اور میڈیا پرسن نوجوت سندھو، عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے۔ ان کی کشادہ دلی خود ان کو مہنگی پڑگئی، اور ہندوستان میں ان کے خلاف احتجاج ہونے لگے۔ ہمارے ہاں عاصمہ جہانگیر اس سے بھی کئی قدم اور جاکے بولتی تھیں۔ ان کو مخصوص حلقوں میں غدار کے خطاب ملے، مگر عاصمہ کے خلاف لوگ سڑکوں پہ نہ آئے۔ یہاں پر انتہا پرستی عروج پر ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت اتنی طویل نہیں چلی جتنی ہندوستان میں اور ہم سیکولر ریاست بھی نہیں جیسے کہ ہندوستان ہے، مگر جتنی انتہا پرستی آج کل ہندوستان میں ٹھاٹھیں مار رہی ہے وہ خود ہندوستان کے لیے باعث شرم ہے۔
آج سے پانچ سال پہلے امن کے سفیر بن کے کلدیپ نیئر کراچی آئے تھے۔ وہ جب ہائی کورٹ کے احاطے میں آئے تو میں نے ان کا استقبال کیا۔ ان کا ایک ہاتھ چلنے کی مدد کے لیے چھڑی میں تھا اور ان کا دوسرا ہاتھ میں نے اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا درد میرا درد ایک جیسا ہے۔ ہم نے ایک لفظ کے بغیر جیسے ایک دوسرے کو یہ کہہ دیا تھا، پھر جیسا پورا وقت وہ ہائی کورٹ میں تھے میں ان کے چلنے کے وقت ان کا ہاتھ تھام لیتا تھا۔ اب جب کہ وہ ہم میں نہیں ہیں مگر وہ جو میرے ہاتھوں میں امن کی مشعل دے گئے تھے میں اسے اپنے ساتھ ہی رکھوں گا، اس روشنی کو اور تیز رکھوں گا۔
عاصمہ جب انتقال کرگئی تھیں تو انھیں ہندوستان کی سول سوسائٹی نے عظیم خراج تحسین پیش کیا تھا۔ آج اس خراج تحسین کے لیے جو ہمیں دینا ہے وہ کلدیپ نیئر سے بڑا ہندوستان میں اور کون ہوگا۔ وہ واقعی سرحدوں سے بڑے تھے۔ ورنہ اگر سرحدوں کے بیچ میں ہوتے تو گلزار کی یہ سطریں پھر سے سننے کو ملتیں:
سرحد پر کل رات سنا ہے چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات سنا ہے کچھ خوابوں کا خون ہوا تھا
کلدیپ نیئر اپنے ہونے اور نہ ہونے میں گلزار تھے، وہ اتنی آبیاری کرگئے کہ ان کے کھیت و کھلیان جو انھوں نے اپنے افکار سے بوئے تھے وہ اور پروان چڑھیں گے، کیونکہ آگے جانے کے لیے اب صرف یہی راستہ ہے۔
''آج تو کہہ دے، آج تو کہہ دے آج علی الاعلان، میرا کوئی دیس نہیں ہے، میرا دیس جہاں دھرتی میری ماں ہے اور میں ہوں ایک انسان''۔ کلدیپ نیئر جن کا مورخہ 23 اگست 2018ء کو 95 برس کی عمر میں دیہانت ہوگیا، انھی چند لوگوں میں سے ایک تھے جن کے صفات فیضؔ نے مندرجہ بالا سطروں میں بیان کی ہیں۔ رہتے وہ دہلی میں تھے، ہوتے وہ ہندوستانی تھے، مگر اپنے افکار سے وہ برصغیر کے شہری تھے۔ وہ برصغیر جو 1947ء سے پہلے ایک تھا اور انگریز کے آنے سے پہلے ایک نہ تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دہلی پر جب مغلوں کا سکہ رائج الوقت تھا تو یہ برصغیر ایک تھا اور اس سے پہلے ایک نہ تھا۔ ہجرت کیا ہوتی ہے، اپنا شہر (سیالکوٹ) کیسے چھوڑا جاتا ہے، اتنی بڑی میراث، اتنا بڑا رقبہ، اتنی بڑی پہچان کیسے چھوڑی جاتی ہے؟ کلدیپ اس درد سے گزرا تھا، جب سرحدیں تقسیم ہو رہی تھیں۔ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہو رہی تھی۔ اور وہ صرف پنجاب تھا ۔
جہاں سے ستر لاکھ لوگ نقل مکانی کے لیے مجبور ہوئے، لاکھوں لوگوں کا خون بہا، ریل گاڑیوں کے ڈبوں کے ڈبے لاشوں سے بھرے ملے۔ ایک ایسی ہجرت جو بٹوارہ چاہنے والوں کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھی۔ کلدیپ نے پنجاب کو دو ہوتے دیکھا، جہاں خود برصغیر ایک بڑی ہجرت اور بٹوارے سے گزر رہا تھا۔ سب ایک ساتھ، ایک لمحے میں ہورہا تھا۔ خانہ جنگی کا عالم تھا، انسانیت سرنگوں ہوگئی اور نفرت کی آگ برپا تھی۔ ایک ایسی نفرت جو لیتی تو حقیقتوں سے جنم ہے مگر اتنی پھیلی کہ آج 72 سال گزرنے کے بعد وہ اپنے رنگ کو تبدیل کرگئی، لیکن اب بھی اتنی ہی شدت سے موجود ہے۔ نتیجتاً بھوک اور افلاس برصغیر کا مقدر بن کر اس کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔
میں نے چند ہی سوانح حیات پڑھی ہوں گی۔ جتنی بھی پڑھیں ان میں جو چند لبھا گئیں ان میں سے کلدیپ کی لکھی اپنی کتھا "Beyond the Lines" بھی ایک ہے۔
14 اگست 1923ء کو پیدا ہوئے ہیں اور باقی ساری زندگی اس بٹوارے کے گرد گھومتی رہی جو چودہ اور پندرہ اگست 1947ء کی درمیانی شب کو جنم لیتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ صحافی تھا، وہ کالم نگار تھا۔ اخبار کا ایڈیٹر بھی ہوا، ہندوستان کی پارلیمان کا ممبر بھی تو برطانیہ میں بطور ہائی کمشنر بھی تعینات ہوا۔ اس کی سب تحریروں میں بنیادی موضوع سخن امن ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ امن، برصغیر میں افلاس کا خاتمہ اور اس کے لیے سب سے پہلی کڑی امن ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جناح صاحب کے پاس علیحدہ وطن کا تصور نہیں تھا بلکہ وہ برصغیر میں کنفیڈریشن چاہتے تھے۔
انھوں نے علامہ اقبال کو اپنی آنکھوں سے سیالکوٹ میں کئی بار دیکھا۔ وہ اس وقت بھی ادھر تھے جب بطور کالج کے شاگرد لاہور میں رہا کرتے تھے، جب 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا تھا، جہاں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کی قرارداد منظور ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں اجلاس شروع ہونے سے پہلے خاکسار تحریک کے جتھوں نے صرف دو لیڈروں کو الگ الگ سلامی دی۔ ایک تھے محمد علی جناح اور دوسرے تھے فضل الحق جو شیر بنگال کے نام سے جانے جاتے تھے اور خود اجلاس کی صدارت بھی انھی دونوں لوگوں نے یکساں کی تھی اور جو بنیادی قرارداد تھی اس کا متن تھا کہ مسلمان ان ریاستوں کا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، ان کے درمیان کنفیڈریشن ہوگی۔
کلدیپ اس وقت بھی تاشقند میں تھے جب ایوب اور شاستری کے درمیان سوویت یونین کی مدد سے مذاکرات ہوئے تھے۔ وہ جنرل ایوب کو اچھے الفاظ میں رقم کرتے ہیں، جب کہ بھٹو کو منفی سوچ کا حامل دکھاتے ہیں اور پھر کس طرح اس تاشقند معاہدے سے بھٹو لیڈر بنا اور ایوب کا ڈاؤن فال شروع ہوا۔ شاستری معاہدے کے بعد والی رات انتقال کر گئے اور اندرا گاندھی شاستری کے جانے کے بعد کانگریس پر قابض ہوگئی اور اس طرح خود ہندوستان میں آمریت نما شکل رونما ہوئی، ایمرجنسی نافذ ہوئی، کلدیپ جیل چلے گئے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ چند چار پیارے پنجابی تھے جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن چاہتے تھے، ان میں سے ایک اے کے گجرال بھی تھا، جو دہلی میں بیٹھی اتنی بڑی شرفا کے سامنے برف پگھلنے کی بات کرتے تھے۔ جو کانگریس کو تو بھاتی تھی مگر بی جے پی کو بالکل ہی نہیں۔
ہماری سیاست اب بہت آگے نکل آئی ہے، کم ازکم اس حوالے سے کہ اب کوئی بھٹو کی طرح تاشقند معاہدے کی طرح اس کو exploit کر کے نفرتوں کی آگ بھڑکا کے ہیرو نہیں ہوسکتا۔ مگر ہندوستان میں ایسا نہیں ہے۔ ہم اگر تصور بھی کریں ایک لمحے کو کہ کشمیر ایک ریاست ہے، غور کیجیے صرف ایک مسلمان اکثریت رکھتی ہوئی ریاست اور وہاں کیا ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کے اعتبار سے اتنی ہی بھیانک جتنا فلسطین ہوسکتا ہے۔
کلدیپ نیئر اپنے افکار کے تھے، جو سمجھتے تھے صحیح ہے سچ ہے اس کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ بالآخر 1998ء میں وہ اس بس میں ہندوستان کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ تھے جو واہگہ بارڈر کے ذریعے آئی تھی۔ امن کے لیے ایک اور کوشش۔ مگر پھر کیا ہوا۔ کارگل ہوا، پھر ایٹمی دھماکے ہوئے اور ہماری معیشت اتنی وسیع اور ٹھوس نہ تھی، ہمیں اپنے ڈالر اکاؤنٹ منجمد کرنے پڑے۔
حال ہی میں ہندوستان سے کانگریس کے لیڈر اور میڈیا پرسن نوجوت سندھو، عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے۔ ان کی کشادہ دلی خود ان کو مہنگی پڑگئی، اور ہندوستان میں ان کے خلاف احتجاج ہونے لگے۔ ہمارے ہاں عاصمہ جہانگیر اس سے بھی کئی قدم اور جاکے بولتی تھیں۔ ان کو مخصوص حلقوں میں غدار کے خطاب ملے، مگر عاصمہ کے خلاف لوگ سڑکوں پہ نہ آئے۔ یہاں پر انتہا پرستی عروج پر ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت اتنی طویل نہیں چلی جتنی ہندوستان میں اور ہم سیکولر ریاست بھی نہیں جیسے کہ ہندوستان ہے، مگر جتنی انتہا پرستی آج کل ہندوستان میں ٹھاٹھیں مار رہی ہے وہ خود ہندوستان کے لیے باعث شرم ہے۔
آج سے پانچ سال پہلے امن کے سفیر بن کے کلدیپ نیئر کراچی آئے تھے۔ وہ جب ہائی کورٹ کے احاطے میں آئے تو میں نے ان کا استقبال کیا۔ ان کا ایک ہاتھ چلنے کی مدد کے لیے چھڑی میں تھا اور ان کا دوسرا ہاتھ میں نے اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا درد میرا درد ایک جیسا ہے۔ ہم نے ایک لفظ کے بغیر جیسے ایک دوسرے کو یہ کہہ دیا تھا، پھر جیسا پورا وقت وہ ہائی کورٹ میں تھے میں ان کے چلنے کے وقت ان کا ہاتھ تھام لیتا تھا۔ اب جب کہ وہ ہم میں نہیں ہیں مگر وہ جو میرے ہاتھوں میں امن کی مشعل دے گئے تھے میں اسے اپنے ساتھ ہی رکھوں گا، اس روشنی کو اور تیز رکھوں گا۔
عاصمہ جب انتقال کرگئی تھیں تو انھیں ہندوستان کی سول سوسائٹی نے عظیم خراج تحسین پیش کیا تھا۔ آج اس خراج تحسین کے لیے جو ہمیں دینا ہے وہ کلدیپ نیئر سے بڑا ہندوستان میں اور کون ہوگا۔ وہ واقعی سرحدوں سے بڑے تھے۔ ورنہ اگر سرحدوں کے بیچ میں ہوتے تو گلزار کی یہ سطریں پھر سے سننے کو ملتیں:
سرحد پر کل رات سنا ہے چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات سنا ہے کچھ خوابوں کا خون ہوا تھا
کلدیپ نیئر اپنے ہونے اور نہ ہونے میں گلزار تھے، وہ اتنی آبیاری کرگئے کہ ان کے کھیت و کھلیان جو انھوں نے اپنے افکار سے بوئے تھے وہ اور پروان چڑھیں گے، کیونکہ آگے جانے کے لیے اب صرف یہی راستہ ہے۔