کھویا ہوا چشمہ اور سفید انگوٹھی

ہر وقت دوسروں کو پرکھنا ان کی خامیوں پر نظر رکھنا اور خامیوں پر خوش ہونا یہ رویے زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔

shabnumg@yahoo.com

ہماری روایات منفرد ہیں۔ جنھیں جوکام سونپا جاتا ہے، اسے ہم صحیح طور پر سرانجام دے نہیں پاتے ۔کام کے وقت تفریح اور تفریح کے وقت کام کو سوچتے ہیں۔اس حد تک کہ سنجیدگی میں مزاح کی حس ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ چھوٹی غلطی کی نشاندہی کرنا اور ان کا مذاق اڑانا قومی مزاج بن چکا ہے۔ ہر وقت دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ ہر وقت دوسروں کو پرکھنا ان کی خامیوں پر نظر رکھنا اور خامیوں پر خوش ہونا یہ رویے زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔

بعض اوقات ہم جن باتوں پر ہنستے ہیں، مہذب دنیا ان پر افسردہ ہو جاتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ لوگ جن باتوں پر ہنستے ہیں، اس بات سے ان کا اخلاقی معیار پرکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر سیاسی حوالوں سے بھونڈے مذاق پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ غیر مہذب زبان عام طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ درحقیقت سیاسی عمل کی بہتری کے لیے تنقیدی عمل تعمیری ثابت ہوتا ہے، مگر تنقید کا اخلاقی معیار ہونا چاہیے، ناکہ تضحیک آمیز رویے جوناقدین کے پستہ ذہنی معیارکی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم نے کبھی معیاری سوچ،گفتگو اور رویوں کی ترویج نہیں کی۔ مثالی گفتگو ایک فن ہے۔ جب تک گفتگو میں مثبت انداز فکر شامل نہ ہو تو وہ الفاظ تاثیر مسیحائی سے بے اثر رہتے ہیں۔ زخموں کو مندمل نہیں کرتے، ٹوٹے دلوں کو جوڑ نہیں سکتے۔ ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں کر سکتے۔

سچ تو یہ ہے کہ ایک اچھا رہنما تھکی ہاری قوم کا سائبان ہوتا ہے۔ جس کے سائے میں روح کی تپش کو قرار آجائے، مگر ہر لیڈر رہنمائی کے ہنر سے بہرہ ور نہیں ہوتا۔ عوام نے ہر دور میں رہنمائی کے زخم کھائے ہیں۔ بے تعبیر خوابوں کا زہر پیا ہے، بے یقینی کے اندھیروں سے سمجھوتے کیے ہیں، مگر امیدکا دامن پھر بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔

حالانکہ ہر جمہوری حکومت میں عوام کی توقعات آسمان کو چھونے لگتیں،ان کے خون کا دورانیہ تیزگردش کرنے لگتا اور ان کی منتشر سانسیں بحال ہوجاتیں۔ خواب کیسے بکھرتے ہیں؟ یہ اس ملک کے عوام سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ہوگا، ریڑھی والے کی قسمت نہ بدلی، مزدورکی خوشحالی بیماری کھاگئی،کتنے ہوشیار طالبعلم پڑھائی ترک کرکے دکانوں پر لگ گئے کیونکہ گھرکا کفیل جو نہ رہا تھا۔

مگر ایک بار پھر آنکھیں خواب دیکھنے لگی ہیں۔

امید سے بھرپور خواب!

یہ امید ہی تھی ایک کروڑ نوکریوں کی۔ شفاف پانی کے ملنے کی۔ کالے یرقان سے بچنے کی،کرپشن سے چھٹکارا حاصل کرنے کی۔ اقربا پروری، استحصال اور بد امنی سے نجات پانے کی، لہذا انھوں نے تحریک انصاف کا دامن تھام لیا اور تاریخی کامیابی کے بعد، عمران خان نے بائیسویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔


وہ دن بھی عجیب تھا جب عمران خان کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ وہ آنسو پونچھتے بھی نظر آئے۔ شاید ماں کا چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے چھا گیا تھا۔ ماں بھی وہ جس کی محبت میں انھوں نے کینسر اسپتال بنوایا اور دکھی عوام کی خدمت کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ خدمت بھی حوصلے، ثابت قدمی، قربانی وبرداشت کی متقاضی ہے۔ عوام کے دکھ اور درد بانٹنے والا اندر سے نرم وشفاف ہوتا ہے۔

خاندانی سیاست سے برسر پیکار، بائیس سال کی جدوجہد کے بعدکامیابی کی خوشی جو ناقابل بیاں تھی، عمران کے چہرے کی تھکن سے نمایاں تھی اور لوگ ان کی کیفیت سمجھے بنا ان کی غلطیاں پکڑ رہے تھے جو ماضی کی سیاست سے کم پر خطر تھیں، یہ غلطیاں بے ضرر تھیں۔

عمران خان کی زندگی کے دو حوالے مربوط ہیں۔ ایک کرکٹ کے فاتح کے طور پر دوسرے فلاحی کارکن کے طور پر۔ اس ملک میں خدمت خلق کرنے والے برائے نام ہیں۔ جن میں ایدھی فاؤنڈیشن، شوکت خانم کینسر اسپتال، چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن، انصار برنی ٹرسٹ، شاہد آفریدی ٹرسٹ ،آغاخان فاؤنڈیشن و دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔ حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں فلاحی کاموں کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کے مطابق پاکستانی ہرسال 240 بلین رقم کے عطیات دیتے ہیں۔

نئے وزیراعظم کا خدمت خلق کے حوالے سے نمایاں خدمات ہیں لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس ملک کو فلاحی ریاست بنانے میں کامیاب ہوجائینگے لیکن وہ ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جو افواہوں اورگپ شپ کے منفی اثر قبل از وقت پیشنگوئی کرنے اور مغالطے کے خبط میں مبتلا ہے۔

اخبارات کو عمران کی سیاست سے زیادہ ان کی ذاتی زندگی کے اسکینڈلز سے دلچسپی ہے۔ گوسپ کالمزکا دور دورہ ہے۔ اسے ٹیبلائڈ جرنلزم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خبریں اداکاروں، کھلاڑیوں و مشہور شخصیات کے بارے میں ہوتی ہیں اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں وہ شیروانی کے اندر سے چشمہ تلاش کرتے رہے اور میڈیا نے یہ لمحے بار بار دکھائے۔ خبروں میں ان کے تلفظ کی غلطیاں، خاتون اول کا سفید لباس، نقاب اور سفید انگوٹھی زیر بحث رہے۔ہم نے محض جدت کا لبادہ اوڑہا ہے مگر جدت کی روح کو نہیں چھو پائے۔ ہم دوسروں کی زندگی میں مداخلت کو اپنا حق اولین سمجھتے ہیں۔ اسے کمتر اور خود کو بہتر قرار دیتے ہیں،اگر ایسا نہیں تو پھر تمخسرانہ رویے بار بار سرکیوں اٹھاتے ہیں؟

تمسخر، احساس برتری کا بھونڈ انداز ہے۔ اسے انگریز mockery کہتے ہیں۔ یہ بھی کتھارسس ہے کہ دوسروں کا مذاق اڑا کر اپنی محرومی سے انصاف کیا جائے۔ توقیر ذات کی کمی، احساس محرومی کا ازالہ کرتے ہم انسانیت کی آخری حدود تک پار کر جاتے ہیں اور ہمیں اپنے منفی رویوں کی بدصورتی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ لبرل ازم کو برقعے سے اتنا خطرہ نہیں جتنا سوڈو انٹیلکچوئلز سے ہے۔ ملک کو دیہاتی، کسان یا مزدور سے کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی جتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی غیر پیشہ ورانہ رویوں سے۔

ہم صحیح معنی میں تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت دیں۔ مفروضوں اور مغالطوں سے باہر نکل کر ہر تبدیلی کا خیر مقدم کھلے دل کے ساتھ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
Load Next Story