کرکٹ کو خیرباد۔۔۔ اس کے بعد
پِچ چھوڑ کر کسی نے سیاست کی راہ لی، کوئی شوبز کے کوچے جاپہنچا
پاکستان کے لیے ورلڈ کپ لانے والے ''کپتان'' عمران خان اب پورے ملک کے کپتان بن چکے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں تو عمران خان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی کے لیے کیا کام کرتے ہیں۔
عمران خان کو عظیم ترین 'آل راوؤنڈر' مانا جاتا ہے۔ دنیا کے آٹھ کرکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے 'آل راؤنڈرز ٹرپل' کا اعزاز حاصل کیا، جن میں عمران خان کا نام بھی شامل ہے۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 3 ہزار رنز بنائے اور 300 وکٹیں حاصل کیں۔ اگر دیکھا جائے تو سیاست دانوں اور کھلاڑیوں میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک لمحے میں ہی دونوں ہیرو تو ایک ہی لمحے میں دونوں زیرو بن جاتے ہیں۔ عمران خان کی طرح میدان کرکٹ کے ایسے بہت سے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست اور دیگر شعبوں کو منتخب کیا، جن میں سے بعض نے بڑے منفرد پیشے چُنے۔ کچھ کو اپنے شعبے میں کرکٹ سے زیادہ شہرت ملی تو کچھ کھلاڑی گم نامی کی دلدل میں چلے گئے ۔ ایسے ہی کچھ کھلاڑیوں کا احوال یہاں بیان کیا گیا ہے۔
٭منصور علی خان پٹودی
منصور علی خان پٹودی کا شمار بھارت کے عظیم ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ وہ 1952سے1971تک ریاست پٹودی کے حکم راں کے طور پر وہ نواب آف پٹودی کے لقب سے جانے جاتے رہے۔ تاہم بھارتی آئین میں ہونے والے 26ویں ترمیم کے بعد ان کی یہ شناخت ختم کردی گئی۔ منصور علی خال کو دنیا کے بہترین فیلڈر کا لقب بھی دیا گیا۔ انہوں نے 1971 اور پھر 1991 میں عام انتخابات میں شرکت کی لیکن دونوں مرتبہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وہ اپنی وفات تک سیاست سے وابستہ رہے۔ کون نہیں جانتا کہ بولی وڈ کے معروف اداکار سیف علی خان اور سوہا علی خان منصور علی خان کی اولاد ہیں۔
٭محمد اظہرالدین
موجودہ سیاست داں اور بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد اظہرالدین کا شمار ہندوستان کے کام یاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ 47 ٹیسٹ میچوں میں بھارت کی قیادت کا اعزاز رکھنے والے محمد اظہر الدین کی کپتانی میں بھارتی کر کٹ ٹیم نے متعدد اہم فتوحات حاصل کیں۔ 2000 میں میچ فکسنگ اسکینڈل پر ان پر تاحیات پابندی عائد کی گئی جس کے ساتھ ہی ان کا انٹرنیشنل کر کٹ کیریئر اختتام پذیر ہوگیا اور انہوں نے سیاست میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ 2009 میں انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور اسی سال ہونے والے انتخابات میں مرادآباد سے سیٹ جیت کر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔
٭سنتھ جے سوریا
1996 میں سری لنکا کو کرکٹ ورلڈ کپ جتوانے والے اہم کھلاڑیوں کی بات کی جائے تو اروندا ڈی سلوا کے بعد دوسرا نام سنتھ جے سوریا کا ذہن میں آتا ہے، جنہوں نے عالمی کپ میں اپنی جارحانہ بیٹنگ سے دنیا کے تمام باؤلرز کے چھکے چھڑا دیے۔ جے سوریا نے بھی کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور پارلیمنٹ کا بھی حصہ بنے جہاں 2010 میں وہ اپنے آبائی علاقے متارا سے ایم پی بنے۔ سیاست کے بل بوتے پر جے سوریا نے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا اور 2011 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی سری لنکن ون ڈے ٹیم میں منتخب ہوگئے۔ تاہم ایک ون ڈے میچ کے بعد ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔
٭ جوگندرا شرما
2007کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کی کام یابی کا سہرا رائٹ ہینڈ بالر اور بلے باز جوگندرا شرما کے سر جاتا ہے جنہوں نے بالنگ کی اپنی جادوئی صلاحیت کی بدولت بھارت کو جتوایا۔ بھارت اور پاکستان کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے اس فائنل میچ میں جوگندرا کی خطرناک بالنگ نے پاکستان کھلاڑیوں کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ شرما نے اپنا پہلا ڈیبیو 2002 میں ہونے والی رانجی ٹرافی میں مدھیہ پردیش کے خلاف کیا اور ریاست ہریانہ کو 103رنز سے فتح دلوائی۔ ایک سال بعد انہیں دلیپ ٹرافی کے لیے شمالی ٹیم کی جانب سے منتخب کیا گیا اور انہوں نے امید پر پورا اترتے ہوئے اپنی ٹیم کو فتح یاب کروایا۔
قومی سطح پر وہ اس وقت نظروں میں آئے جب انہوں نے بنگلور میں قومی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوئے ٹیم اے کی جانب سے راہول ڈریوڈ، لکشمن اور یوراج سنگھ کو پچ پر آتے ہی آؤٹ کردیا۔ اُن کے شان دار کھیل کو دیکھتے ہوئے انہیں بنگلادیش کے ٹور کے لیے قومی ٹیم میں جگہ دی گئی۔ اس کے بعد ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ 2007 میں جنوبی افریقا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ان کی شان دار کارکردگی کی بنیاد پر ریاست ہریانہ کی حکومت نے جوگندرا کے لیے نقد انعام کے ساتھ ساتھ محکمۂ پولیس میں ڈی ایس پی کی ملازمت کی پیش کش کی، جسے انہوں نے خوش دلی سے قبول کرلیا اور اب وہ کرکٹ سے دست بردار ہوکر اپنی پولیس کی ملازمت سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
٭ سلیل انکولا
انڈیا کے سابق کرکٹر اور موجودہ اداکار سلیل انکولا نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز بیس سال کی عمر میں ریاست مہاراشٹرا سے کیا ۔ اپنے پہلے ہی میچ میں انہوں نے گجرات کے خلاف کھیلتے ہوئے ایک ہی اننگ میں چھے وکٹیں حاصل کیں۔ اپنے شان دار کھیل کی بدولت وہ جلد ہی سلیکٹرز کی نظروں میں آگئے اور انہیں 1989-90میں ہونے والے پاکستان ٹور کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ ڈیبیو کراچی میں سچن ٹنڈولکر اور وقار یونس کے ساتھ کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انکولا نے بالی وڈ میں ہندی فلم 'کرک شیترا' سے اپنے اداکاری کے کیریر کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے سنجے دت کے ساتھ ایک پولیس افسر کا کردار ادا کیا۔
بعدازاں انہوں نے فلموں پِتا، چُرا لیا ہے تم نے، سائلنس پلیز، دی ڈریسنگ روم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انکولا فلموں کے علاوہ ٹی وی پروگرام 'بگ باس سیزن ون، ٹی وی ڈرامے 'کرم اپنا اپنا'، 'کورا کاغذ'، 'شش کوئی ہے' سمیت متعدد ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ۔ ان کے ساتھ ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے کرکٹر سچن ٹنڈولکر اور وقار یونس کرکٹ کے میدان میں اپنا نام بنا چکے ہیں جب کہ انکولا اب چھوٹی اسکرین کا بڑا نام بن چکے ہیں۔ آج کل انہیں ارباز خان کے ٹی وی شو 'پاور کپل' میں دیکھا جاسکتا ہے۔
٭ شنتھا کمارن سری سانتھ
سابق بھارتی کرکٹر سری سانتھ نے اپنے کرکٹ کیریر کا آغاز ریاست کی سطح پر ہونے والے کرکٹ کے مقابلوں سے کیا۔ بلے بازی اور بالنگ دونوں میں مہارت رکھنے والے سری سانتھ دُلیپ ٹرافی میں اپنے شان دار کھیل کی وجہ سے سلیکٹرز کی نظروں میں آگئے اور انہیں فرسٹ کلاس کرکٹ میں راج کوٹ کی جانب سے نیوزی لینڈ جانے کا موقع دیا گیا۔ 2004 میں رانجی ٹرافی میں ہماچل پردیش کے خلاف ہیٹ ٹرک کرکے وہ ریکارڈ بُک میں داخل ہوئے اور یہ ہیٹ ٹرک آگے چل کر ان کی انڈین کرکٹ ٹیم میں شمولیت کا سبب بنی اور انہوں نے اپنے پہلے ون ڈے میچ میں سری لنکا کے خلاف کھیل کا مظاہرہ کیا۔
تاہم کارکردگی برقرار نہ رکھنے پر انہیں قومی ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ 2011 میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں انہیں پروین کمار کے زخمی پونے کی وجہ سے ورلڈ کپ اسکواڈ میں شامل کیا گیا ۔ تاہم وہ ورلڈ کپ میں بھی متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ بعدازاں انہیں انڈین پریمیئر لیگ کی ٹیم راجستھان رائلز میں شامل کرلیا گیا۔ سولہ مئی 2013کو دہلی پولیس نے آئی پی ایل سیزن چھے میں اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں سری سانتھ کو دیگر دو کھلاڑیوں اجیت چنڈیلا اور انکیت چھاون کے ساتھ گرفتار کرلیا۔ سٹے بازی کے الزام میں سری سانتھ کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ تاہم رقص میں مہارت کی وجہ سے اب وہ جنوب کی فلم انڈسٹری مولی وڈ کی ایک مشہور سیلے بریٹی بن چکے ہیں۔
٭ارشد خان
نوے کی دہائی میں ابھرتے ہوئے کرکٹ کے پاکستانی کھلاڑیوں میں ایک نام ارشد خان کا بھی تھا۔ ارشد خان نے 1997-98میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیل کر اپنے انٹرنیشنل کیریر کا آغاز کیا۔ وہ سری لنکا میں ہونے والی ایشین ٹیسٹ چیمپیئن شپ کی فاتح ٹیم کا حصہ بھی رہے۔ ارشد خان نے 1998میں کولالمپور میں ہونے والے دولت مشترکہ کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ۔ 2005 میں پاکستان کی جانب سے انڈیا میں ہونے والے میچوں میں بھی ارشدخان نے شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم قسمت کی دیوی ان پر زیادہ عرصے مہربان نہ رہی۔ انہیں قومی ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا اور وہ کرکٹ میں اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر آسٹریلیا چلے گئے جہاں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہ دارلحکومت سڈنی میں اوبر ٹیکسی چلا کر گزر بسر کر رہے ہیں۔
٭ دیباشش موہانتے
بھارتی ریاست اڑیسہ سے تعلق رکھنے والے فاسٹ بالر دیباشش موہانتے کا شمار انڈین کرکٹ ٹیم کے بہترین کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ 1997سے 2001 کے عرصے میں دو ٹیسٹ اور 45ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے والے دیباشش کا شمار ان چند کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نوے کی دہائی میں سہارا کپ میں پاکستان کے خلاف فتح حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دیبا شش ڈومیسٹک کرکٹ میں دس وکٹیں لینے کا ریکارڈ بنانے والے گنتی کے کچھ کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ تاہم بہترین کارکردگی کے باوجود انہیں قومی ٹیم سے نکال دیا گیا جس کے بعد انہوں نے اپنے کرکٹ کیریر سے مایوس ہوکر ریاست اُڑیسہ کی نیشنل ایلمونیم کمپنی میں ملازمت کرلی۔
٭ اینڈریو فلنٹوف
اینڈریو فلنٹوف کا شمار انٹرنیشنل کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے انٹرنیشنل کرکٹ کیریر کا آغاز 1996-97میں پاکستان میں ہونے والے انڈر نائٹین میچز میں زمبابوے کے خلاف کھیل سے کیا۔ فلنٹوف ایک طویل عرصے تک انگلش ٹیم کے اہم کھلاڑیوں میں شامل رہے۔ 2007 میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں زخمی ہونے کے بعد فلنٹوف نے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا ۔ بین الاقوامی کرکٹ اور قوم ٹیم سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے لیے یکسر مختلف شعبہ منتخب کیا۔ فلنٹوف پروفیشنل باکسر بن کر مکے بازی کے متعدد ملکی اور بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔
٭ ارجنا رانا ٹنگا
سری لنکن ٹیم کے سابق کپتان ارجنا رانا تنگا پچ پر طویل عرصے تک حکم رانی کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا۔ 1996میں سری لنکا کو ورلڈ جتوانے والے رانا ٹنگا چند سال بعد ہی چندریکا کماراٹنگا کی سربراہی میں چلنے والی سری لنکا فریڈم پارٹی میں شمولیت سے میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ 2001میں انہوں نے کولمبو ڈسٹرکٹ سے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔ 2004 میں انہوں نے یونائیٹڈ پیوپلز فریڈم الائنس کے پلیٹ فارم سے کام یابی حاصل کی۔
انہیں صنعت سیاحت اور ترغیبِ سرمایہ کاری کا ڈپٹی وزیر مقرر کیا گیا۔ 2010 میں انہوں نے یونائیٹڈ پیوپلز فریڈم الائنس چھوڑ کر ڈیموکریٹک نیشنل الائنس کی ڈیموکریٹک پارٹی میں بہ حیثیت ڈپٹی لیڈر شمولیت اختیار کرلی۔ دو سال بعد ہی انہوں نے اس عہدے سے استعفی دے دیا ۔ 2015 کے صدارتی انتخابات میں انہوں نے سری لنکا کے سنیئر سیاست داں اور موجودہ صدر میتھری پالا سری سینا کی حمایت کی۔ فتح یاب ہونے کے سری سینا نے رانا ٹنگا کو وزیر برائے ہائی ویز، پورٹس اینڈ شپنگ کا وزیر مقرر کردیا۔ کام یاب کپتان اور بلے باز رہنے کے ساتھ رانا ٹنگا کا سیاسی سفر بھی کام یابی سے جاری ہے۔
٭ویز لے ہال
سر ویزلے ہال 1960 میں بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب تصور کیے جاتے تھے انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 192وکٹیں حاصل کیں اور کھیل سے کنارہ کشی کے بعد سیاست میں قدم رکھا۔ ساٹھ کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی ویز لے ہال کا نام سن کر اچھے اچھے بلے بازوں کا پتا پانی ہوجاتا تھا۔ لانگ رن کے علاوہ لونگ اسپیل گیند کرانے کی صلاحیت بھی ان کی شناخت تھی۔ 1958سے 1969کے عرصے میں انہوں نے 48ٹیسٹ میچز میں حصہ لیا۔
آئی سی سی کرکٹ ہال آف فیم اور ویسٹ انڈیز کرکٹ ہال آف فیم کے رکن رہنے والے ویز نے اسی کی دہائی میں سیاست میں حصہ لیا۔ رکن ایوان بال اور ایوان زیریں کی خدمات سر انجام دینے کے بعد انہیں 1987 میں وزیر سیاحت مقرر کردیا گیا۔ بعدازاں انہیں پینٹے کوسٹل چرچ کے وزیر کی ذمے داریاں بھی تفویض کردی گئیں۔ 2001 سے 2003 تک انہوں نے ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے سلیکٹر، ٹیم مینیجر اور ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے صدر کے فرائض بھی سر انجام دیے۔
٭ چارلس برگس فرائے
چارلس برگس فرائے دنیا کے ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جن کا شمار انگلینڈ کے ایسے ہمہ جہت کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف کرکٹ بل کہ فٹ بال اور رگبی جیسے کھیلوں میں بھی اپنی قابلیت کا سکہ جمایا۔ سات ستمبر 1956کو چوراسی سال کی عمر میں انتقال کرجانے والے چارلس کا شمار تاریخ کے چند ایسے کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف کھیل کے میدان بل کہ سیاست، سفارت کاری، درس و تدریس اور صحافت جیسے یکسر مختلف شعبوں میں بھی اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا۔ دس جنوری 1920کو جب جینیوا میں پیرس امن کانفرنس کے بعد بین الحکومتی لیگ آف نیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو انہیں انڈیا کے نمائندے کے طور پر منتخب کیا گیا۔
یہ ان کی سفارت کاری کا پہلا سفر تھا۔ 1922میں وہ اپنے آبائی حلقے برائٹون سے رکن پارلیمنٹ کی نشست کے لیے انتخابات میں کھڑ ے ہوئے۔ انہوں نے اس وقت کی مشہور اوپرا گلوکارہ کلارا بٹ کے ساتھ مل کر بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلائی، تاہم الیکشن میں وہ ساڑھے چار ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔ 1923 میں انہوں نے بین بری کی نشست سے انتخابات میں حصہ لیا اور 219 ووٹوں سے فرق ہارے۔ چارلس نے اگلے سال ایک بار پھر آکسفورڈ کے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا اور شکست سے دوچار ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ مستقل مزاجی سے اپنی موت تک سیاست کرتے رہے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے نیول اکیڈمی چلانے کے ساتھ ساتھ کھیل کا جریدہ بھی نکالا، جس کے مدیر اور ناشر بھی خود ہی رہے۔
٭ٹیڈ ڈیکسٹر
پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں انگلینڈ کے انٹرنیشنل کرکٹر ٹیڈ ڈیکسٹر کا شمار جارح مڈل آڈر بلے بازوں میں کیا جاتا تھا۔ وہ بلے بازی کے ساتھ ساتھ رائٹ آرم میڈیم بالر بھی رہے۔ 1961 میں انہیں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا گیا، تاہم ایک سال بعد انہوں نے کپتانی چھوڑ کر سیاست کا آغاز کردیا۔ 1964میں انہوں نے عام انتخابات میں کارڈِف ساؤتھ ایسٹ کی نشست پر انتخابات لڑنے کے لیے جنوبی افریقا میں ہونے والے سیریز میں شمولیت سے معذرت کرلی اور اس کے ایک سال بعد ہی کار حادثے میں زخمی ہونے کے بعد انہوں نے کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ سیاست کو منتخب کرلیا۔
٭ایلک ڈگلس ہوم
ایلک ڈگلس ہوم برطانیہ کے واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے 1920 کی دہائی میں 6 مختلف ٹیموں سے 10 فرسٹ کلاس میچز کھیلے جب کہ ایم سی سی کے دورہ جنوبی امریکا کی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ انگلینڈ کے کپتان گبی ایلن انہیں ایک موثر سوئنگ باؤلر سمجھتے تھے۔ وزیر اعظم کا منصب چھوڑنے کے بعد 1966 میں ڈگلس ایم سی سی کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔
٭کمیسیسا مارا
کمیسیسا مارا نے نیوزی لینڈ میں دو فرسٹ کلاس میچوں کے لیے فیجی کی قیادت کی، انہوں نے 64 رنز بنائے اور آٹھ وکٹیں حاصل کیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے سیاست میں شمولیت اختیار کی اور سال 1970 سے 1992 تک فیجی کے وزیراعظم رہے۔ بعد ازاں وہ صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1993 سے 2000 تک صدر منتخب رہے۔
٭محسن حسن خان
محسن حسن خان نے 1977سے1986 کے عرصے میں پاکستان کی طرف سے اوپننگ بلے باز کی حیثیت سے 48 ٹیسٹ اور75 ایک روزہ میچوں میں حصہ لیا۔ بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے فلموں میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اپنے وقت کی مشہور بھارتی اداکارہ رینا رائے سے شادی کے بعد انہوں نے بولی وڈ فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ انہوں نے فلم گناہ گار، کون، لاٹ صاب ، پریتی کار، فتح، ساتھی سمیت کئی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
٭سرفراز نواز
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز نے اپنے کیریئر کا آغاز1969میں کراچی میں انگلینڈ کے خلاف میچ کھیل کر کیا۔ ناقص کارکردگی کی وجہ سے انہیں پہلے میچ کے بعد ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا اور تین سال بعد انہیں دوبارہ ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اپنے پندرہ سالہ کر کٹ کے سفر میں انہوں نے 55 ٹیسٹ اور45ایک روزہ میچوں میں حصہ لیا۔ سرفرازنواز کو ریورس سوئنگ کا خالق بھی کہا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل کر کٹ سے ریٹائر منٹ کے بعد انہوں نے سیاست کا رُخ کیا اور 1985میں ہونے والے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت کر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔
عمران خان کو عظیم ترین 'آل راوؤنڈر' مانا جاتا ہے۔ دنیا کے آٹھ کرکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے 'آل راؤنڈرز ٹرپل' کا اعزاز حاصل کیا، جن میں عمران خان کا نام بھی شامل ہے۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 3 ہزار رنز بنائے اور 300 وکٹیں حاصل کیں۔ اگر دیکھا جائے تو سیاست دانوں اور کھلاڑیوں میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک لمحے میں ہی دونوں ہیرو تو ایک ہی لمحے میں دونوں زیرو بن جاتے ہیں۔ عمران خان کی طرح میدان کرکٹ کے ایسے بہت سے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست اور دیگر شعبوں کو منتخب کیا، جن میں سے بعض نے بڑے منفرد پیشے چُنے۔ کچھ کو اپنے شعبے میں کرکٹ سے زیادہ شہرت ملی تو کچھ کھلاڑی گم نامی کی دلدل میں چلے گئے ۔ ایسے ہی کچھ کھلاڑیوں کا احوال یہاں بیان کیا گیا ہے۔
٭منصور علی خان پٹودی
منصور علی خان پٹودی کا شمار بھارت کے عظیم ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ وہ 1952سے1971تک ریاست پٹودی کے حکم راں کے طور پر وہ نواب آف پٹودی کے لقب سے جانے جاتے رہے۔ تاہم بھارتی آئین میں ہونے والے 26ویں ترمیم کے بعد ان کی یہ شناخت ختم کردی گئی۔ منصور علی خال کو دنیا کے بہترین فیلڈر کا لقب بھی دیا گیا۔ انہوں نے 1971 اور پھر 1991 میں عام انتخابات میں شرکت کی لیکن دونوں مرتبہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم وہ اپنی وفات تک سیاست سے وابستہ رہے۔ کون نہیں جانتا کہ بولی وڈ کے معروف اداکار سیف علی خان اور سوہا علی خان منصور علی خان کی اولاد ہیں۔
٭محمد اظہرالدین
موجودہ سیاست داں اور بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد اظہرالدین کا شمار ہندوستان کے کام یاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ 47 ٹیسٹ میچوں میں بھارت کی قیادت کا اعزاز رکھنے والے محمد اظہر الدین کی کپتانی میں بھارتی کر کٹ ٹیم نے متعدد اہم فتوحات حاصل کیں۔ 2000 میں میچ فکسنگ اسکینڈل پر ان پر تاحیات پابندی عائد کی گئی جس کے ساتھ ہی ان کا انٹرنیشنل کر کٹ کیریئر اختتام پذیر ہوگیا اور انہوں نے سیاست میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ 2009 میں انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور اسی سال ہونے والے انتخابات میں مرادآباد سے سیٹ جیت کر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔
٭سنتھ جے سوریا
1996 میں سری لنکا کو کرکٹ ورلڈ کپ جتوانے والے اہم کھلاڑیوں کی بات کی جائے تو اروندا ڈی سلوا کے بعد دوسرا نام سنتھ جے سوریا کا ذہن میں آتا ہے، جنہوں نے عالمی کپ میں اپنی جارحانہ بیٹنگ سے دنیا کے تمام باؤلرز کے چھکے چھڑا دیے۔ جے سوریا نے بھی کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور پارلیمنٹ کا بھی حصہ بنے جہاں 2010 میں وہ اپنے آبائی علاقے متارا سے ایم پی بنے۔ سیاست کے بل بوتے پر جے سوریا نے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا اور 2011 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی سری لنکن ون ڈے ٹیم میں منتخب ہوگئے۔ تاہم ایک ون ڈے میچ کے بعد ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔
٭ جوگندرا شرما
2007کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کی کام یابی کا سہرا رائٹ ہینڈ بالر اور بلے باز جوگندرا شرما کے سر جاتا ہے جنہوں نے بالنگ کی اپنی جادوئی صلاحیت کی بدولت بھارت کو جتوایا۔ بھارت اور پاکستان کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے اس فائنل میچ میں جوگندرا کی خطرناک بالنگ نے پاکستان کھلاڑیوں کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ شرما نے اپنا پہلا ڈیبیو 2002 میں ہونے والی رانجی ٹرافی میں مدھیہ پردیش کے خلاف کیا اور ریاست ہریانہ کو 103رنز سے فتح دلوائی۔ ایک سال بعد انہیں دلیپ ٹرافی کے لیے شمالی ٹیم کی جانب سے منتخب کیا گیا اور انہوں نے امید پر پورا اترتے ہوئے اپنی ٹیم کو فتح یاب کروایا۔
قومی سطح پر وہ اس وقت نظروں میں آئے جب انہوں نے بنگلور میں قومی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوئے ٹیم اے کی جانب سے راہول ڈریوڈ، لکشمن اور یوراج سنگھ کو پچ پر آتے ہی آؤٹ کردیا۔ اُن کے شان دار کھیل کو دیکھتے ہوئے انہیں بنگلادیش کے ٹور کے لیے قومی ٹیم میں جگہ دی گئی۔ اس کے بعد ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ 2007 میں جنوبی افریقا میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ان کی شان دار کارکردگی کی بنیاد پر ریاست ہریانہ کی حکومت نے جوگندرا کے لیے نقد انعام کے ساتھ ساتھ محکمۂ پولیس میں ڈی ایس پی کی ملازمت کی پیش کش کی، جسے انہوں نے خوش دلی سے قبول کرلیا اور اب وہ کرکٹ سے دست بردار ہوکر اپنی پولیس کی ملازمت سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
٭ سلیل انکولا
انڈیا کے سابق کرکٹر اور موجودہ اداکار سلیل انکولا نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز بیس سال کی عمر میں ریاست مہاراشٹرا سے کیا ۔ اپنے پہلے ہی میچ میں انہوں نے گجرات کے خلاف کھیلتے ہوئے ایک ہی اننگ میں چھے وکٹیں حاصل کیں۔ اپنے شان دار کھیل کی بدولت وہ جلد ہی سلیکٹرز کی نظروں میں آگئے اور انہیں 1989-90میں ہونے والے پاکستان ٹور کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ ڈیبیو کراچی میں سچن ٹنڈولکر اور وقار یونس کے ساتھ کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انکولا نے بالی وڈ میں ہندی فلم 'کرک شیترا' سے اپنے اداکاری کے کیریر کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے سنجے دت کے ساتھ ایک پولیس افسر کا کردار ادا کیا۔
بعدازاں انہوں نے فلموں پِتا، چُرا لیا ہے تم نے، سائلنس پلیز، دی ڈریسنگ روم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انکولا فلموں کے علاوہ ٹی وی پروگرام 'بگ باس سیزن ون، ٹی وی ڈرامے 'کرم اپنا اپنا'، 'کورا کاغذ'، 'شش کوئی ہے' سمیت متعدد ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ۔ ان کے ساتھ ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے کرکٹر سچن ٹنڈولکر اور وقار یونس کرکٹ کے میدان میں اپنا نام بنا چکے ہیں جب کہ انکولا اب چھوٹی اسکرین کا بڑا نام بن چکے ہیں۔ آج کل انہیں ارباز خان کے ٹی وی شو 'پاور کپل' میں دیکھا جاسکتا ہے۔
٭ شنتھا کمارن سری سانتھ
سابق بھارتی کرکٹر سری سانتھ نے اپنے کرکٹ کیریر کا آغاز ریاست کی سطح پر ہونے والے کرکٹ کے مقابلوں سے کیا۔ بلے بازی اور بالنگ دونوں میں مہارت رکھنے والے سری سانتھ دُلیپ ٹرافی میں اپنے شان دار کھیل کی وجہ سے سلیکٹرز کی نظروں میں آگئے اور انہیں فرسٹ کلاس کرکٹ میں راج کوٹ کی جانب سے نیوزی لینڈ جانے کا موقع دیا گیا۔ 2004 میں رانجی ٹرافی میں ہماچل پردیش کے خلاف ہیٹ ٹرک کرکے وہ ریکارڈ بُک میں داخل ہوئے اور یہ ہیٹ ٹرک آگے چل کر ان کی انڈین کرکٹ ٹیم میں شمولیت کا سبب بنی اور انہوں نے اپنے پہلے ون ڈے میچ میں سری لنکا کے خلاف کھیل کا مظاہرہ کیا۔
تاہم کارکردگی برقرار نہ رکھنے پر انہیں قومی ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ 2011 میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں انہیں پروین کمار کے زخمی پونے کی وجہ سے ورلڈ کپ اسکواڈ میں شامل کیا گیا ۔ تاہم وہ ورلڈ کپ میں بھی متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ بعدازاں انہیں انڈین پریمیئر لیگ کی ٹیم راجستھان رائلز میں شامل کرلیا گیا۔ سولہ مئی 2013کو دہلی پولیس نے آئی پی ایل سیزن چھے میں اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں سری سانتھ کو دیگر دو کھلاڑیوں اجیت چنڈیلا اور انکیت چھاون کے ساتھ گرفتار کرلیا۔ سٹے بازی کے الزام میں سری سانتھ کے کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ تاہم رقص میں مہارت کی وجہ سے اب وہ جنوب کی فلم انڈسٹری مولی وڈ کی ایک مشہور سیلے بریٹی بن چکے ہیں۔
٭ارشد خان
نوے کی دہائی میں ابھرتے ہوئے کرکٹ کے پاکستانی کھلاڑیوں میں ایک نام ارشد خان کا بھی تھا۔ ارشد خان نے 1997-98میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیل کر اپنے انٹرنیشنل کیریر کا آغاز کیا۔ وہ سری لنکا میں ہونے والی ایشین ٹیسٹ چیمپیئن شپ کی فاتح ٹیم کا حصہ بھی رہے۔ ارشد خان نے 1998میں کولالمپور میں ہونے والے دولت مشترکہ کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ۔ 2005 میں پاکستان کی جانب سے انڈیا میں ہونے والے میچوں میں بھی ارشدخان نے شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم قسمت کی دیوی ان پر زیادہ عرصے مہربان نہ رہی۔ انہیں قومی ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا اور وہ کرکٹ میں اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر آسٹریلیا چلے گئے جہاں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق وہ دارلحکومت سڈنی میں اوبر ٹیکسی چلا کر گزر بسر کر رہے ہیں۔
٭ دیباشش موہانتے
بھارتی ریاست اڑیسہ سے تعلق رکھنے والے فاسٹ بالر دیباشش موہانتے کا شمار انڈین کرکٹ ٹیم کے بہترین کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ 1997سے 2001 کے عرصے میں دو ٹیسٹ اور 45ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے والے دیباشش کا شمار ان چند کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نوے کی دہائی میں سہارا کپ میں پاکستان کے خلاف فتح حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دیبا شش ڈومیسٹک کرکٹ میں دس وکٹیں لینے کا ریکارڈ بنانے والے گنتی کے کچھ کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ تاہم بہترین کارکردگی کے باوجود انہیں قومی ٹیم سے نکال دیا گیا جس کے بعد انہوں نے اپنے کرکٹ کیریر سے مایوس ہوکر ریاست اُڑیسہ کی نیشنل ایلمونیم کمپنی میں ملازمت کرلی۔
٭ اینڈریو فلنٹوف
اینڈریو فلنٹوف کا شمار انٹرنیشنل کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے انٹرنیشنل کرکٹ کیریر کا آغاز 1996-97میں پاکستان میں ہونے والے انڈر نائٹین میچز میں زمبابوے کے خلاف کھیل سے کیا۔ فلنٹوف ایک طویل عرصے تک انگلش ٹیم کے اہم کھلاڑیوں میں شامل رہے۔ 2007 میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں زخمی ہونے کے بعد فلنٹوف نے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا ۔ بین الاقوامی کرکٹ اور قوم ٹیم سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے لیے یکسر مختلف شعبہ منتخب کیا۔ فلنٹوف پروفیشنل باکسر بن کر مکے بازی کے متعدد ملکی اور بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔
٭ ارجنا رانا ٹنگا
سری لنکن ٹیم کے سابق کپتان ارجنا رانا تنگا پچ پر طویل عرصے تک حکم رانی کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا۔ 1996میں سری لنکا کو ورلڈ جتوانے والے رانا ٹنگا چند سال بعد ہی چندریکا کماراٹنگا کی سربراہی میں چلنے والی سری لنکا فریڈم پارٹی میں شمولیت سے میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ 2001میں انہوں نے کولمبو ڈسٹرکٹ سے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔ 2004 میں انہوں نے یونائیٹڈ پیوپلز فریڈم الائنس کے پلیٹ فارم سے کام یابی حاصل کی۔
انہیں صنعت سیاحت اور ترغیبِ سرمایہ کاری کا ڈپٹی وزیر مقرر کیا گیا۔ 2010 میں انہوں نے یونائیٹڈ پیوپلز فریڈم الائنس چھوڑ کر ڈیموکریٹک نیشنل الائنس کی ڈیموکریٹک پارٹی میں بہ حیثیت ڈپٹی لیڈر شمولیت اختیار کرلی۔ دو سال بعد ہی انہوں نے اس عہدے سے استعفی دے دیا ۔ 2015 کے صدارتی انتخابات میں انہوں نے سری لنکا کے سنیئر سیاست داں اور موجودہ صدر میتھری پالا سری سینا کی حمایت کی۔ فتح یاب ہونے کے سری سینا نے رانا ٹنگا کو وزیر برائے ہائی ویز، پورٹس اینڈ شپنگ کا وزیر مقرر کردیا۔ کام یاب کپتان اور بلے باز رہنے کے ساتھ رانا ٹنگا کا سیاسی سفر بھی کام یابی سے جاری ہے۔
٭ویز لے ہال
سر ویزلے ہال 1960 میں بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب تصور کیے جاتے تھے انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 192وکٹیں حاصل کیں اور کھیل سے کنارہ کشی کے بعد سیاست میں قدم رکھا۔ ساٹھ کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی ویز لے ہال کا نام سن کر اچھے اچھے بلے بازوں کا پتا پانی ہوجاتا تھا۔ لانگ رن کے علاوہ لونگ اسپیل گیند کرانے کی صلاحیت بھی ان کی شناخت تھی۔ 1958سے 1969کے عرصے میں انہوں نے 48ٹیسٹ میچز میں حصہ لیا۔
آئی سی سی کرکٹ ہال آف فیم اور ویسٹ انڈیز کرکٹ ہال آف فیم کے رکن رہنے والے ویز نے اسی کی دہائی میں سیاست میں حصہ لیا۔ رکن ایوان بال اور ایوان زیریں کی خدمات سر انجام دینے کے بعد انہیں 1987 میں وزیر سیاحت مقرر کردیا گیا۔ بعدازاں انہیں پینٹے کوسٹل چرچ کے وزیر کی ذمے داریاں بھی تفویض کردی گئیں۔ 2001 سے 2003 تک انہوں نے ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے سلیکٹر، ٹیم مینیجر اور ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے صدر کے فرائض بھی سر انجام دیے۔
٭ چارلس برگس فرائے
چارلس برگس فرائے دنیا کے ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جن کا شمار انگلینڈ کے ایسے ہمہ جہت کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف کرکٹ بل کہ فٹ بال اور رگبی جیسے کھیلوں میں بھی اپنی قابلیت کا سکہ جمایا۔ سات ستمبر 1956کو چوراسی سال کی عمر میں انتقال کرجانے والے چارلس کا شمار تاریخ کے چند ایسے کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف کھیل کے میدان بل کہ سیاست، سفارت کاری، درس و تدریس اور صحافت جیسے یکسر مختلف شعبوں میں بھی اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا۔ دس جنوری 1920کو جب جینیوا میں پیرس امن کانفرنس کے بعد بین الحکومتی لیگ آف نیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو انہیں انڈیا کے نمائندے کے طور پر منتخب کیا گیا۔
یہ ان کی سفارت کاری کا پہلا سفر تھا۔ 1922میں وہ اپنے آبائی حلقے برائٹون سے رکن پارلیمنٹ کی نشست کے لیے انتخابات میں کھڑ ے ہوئے۔ انہوں نے اس وقت کی مشہور اوپرا گلوکارہ کلارا بٹ کے ساتھ مل کر بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلائی، تاہم الیکشن میں وہ ساڑھے چار ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔ 1923 میں انہوں نے بین بری کی نشست سے انتخابات میں حصہ لیا اور 219 ووٹوں سے فرق ہارے۔ چارلس نے اگلے سال ایک بار پھر آکسفورڈ کے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا اور شکست سے دوچار ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ مستقل مزاجی سے اپنی موت تک سیاست کرتے رہے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے نیول اکیڈمی چلانے کے ساتھ ساتھ کھیل کا جریدہ بھی نکالا، جس کے مدیر اور ناشر بھی خود ہی رہے۔
٭ٹیڈ ڈیکسٹر
پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں انگلینڈ کے انٹرنیشنل کرکٹر ٹیڈ ڈیکسٹر کا شمار جارح مڈل آڈر بلے بازوں میں کیا جاتا تھا۔ وہ بلے بازی کے ساتھ ساتھ رائٹ آرم میڈیم بالر بھی رہے۔ 1961 میں انہیں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا گیا، تاہم ایک سال بعد انہوں نے کپتانی چھوڑ کر سیاست کا آغاز کردیا۔ 1964میں انہوں نے عام انتخابات میں کارڈِف ساؤتھ ایسٹ کی نشست پر انتخابات لڑنے کے لیے جنوبی افریقا میں ہونے والے سیریز میں شمولیت سے معذرت کرلی اور اس کے ایک سال بعد ہی کار حادثے میں زخمی ہونے کے بعد انہوں نے کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ سیاست کو منتخب کرلیا۔
٭ایلک ڈگلس ہوم
ایلک ڈگلس ہوم برطانیہ کے واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے 1920 کی دہائی میں 6 مختلف ٹیموں سے 10 فرسٹ کلاس میچز کھیلے جب کہ ایم سی سی کے دورہ جنوبی امریکا کی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ انگلینڈ کے کپتان گبی ایلن انہیں ایک موثر سوئنگ باؤلر سمجھتے تھے۔ وزیر اعظم کا منصب چھوڑنے کے بعد 1966 میں ڈگلس ایم سی سی کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔
٭کمیسیسا مارا
کمیسیسا مارا نے نیوزی لینڈ میں دو فرسٹ کلاس میچوں کے لیے فیجی کی قیادت کی، انہوں نے 64 رنز بنائے اور آٹھ وکٹیں حاصل کیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے سیاست میں شمولیت اختیار کی اور سال 1970 سے 1992 تک فیجی کے وزیراعظم رہے۔ بعد ازاں وہ صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1993 سے 2000 تک صدر منتخب رہے۔
٭محسن حسن خان
محسن حسن خان نے 1977سے1986 کے عرصے میں پاکستان کی طرف سے اوپننگ بلے باز کی حیثیت سے 48 ٹیسٹ اور75 ایک روزہ میچوں میں حصہ لیا۔ بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے فلموں میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اپنے وقت کی مشہور بھارتی اداکارہ رینا رائے سے شادی کے بعد انہوں نے بولی وڈ فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ انہوں نے فلم گناہ گار، کون، لاٹ صاب ، پریتی کار، فتح، ساتھی سمیت کئی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
٭سرفراز نواز
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز نے اپنے کیریئر کا آغاز1969میں کراچی میں انگلینڈ کے خلاف میچ کھیل کر کیا۔ ناقص کارکردگی کی وجہ سے انہیں پہلے میچ کے بعد ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا اور تین سال بعد انہیں دوبارہ ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اپنے پندرہ سالہ کر کٹ کے سفر میں انہوں نے 55 ٹیسٹ اور45ایک روزہ میچوں میں حصہ لیا۔ سرفرازنواز کو ریورس سوئنگ کا خالق بھی کہا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل کر کٹ سے ریٹائر منٹ کے بعد انہوں نے سیاست کا رُخ کیا اور 1985میں ہونے والے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت کر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔