آپ سو سال زندہ رہیے

طویل عمر کا خواب حقیقت میں بدلنے والے صحت بخش مشورے

طویل عمر کا خواب حقیقت میں بدلنے والے صحت بخش مشورے۔ فوٹو: فائل

ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ، بہادر شاہ ظفر عالم کسمپرسی میں جب رنگون کی ٹوٹی پھوٹی جائے پناہ میں زندگی کے آخری دن گزار رہے تھے، تو انہوں نے بڑی حسرت سے کہا تھا:

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

اس زمانے میں علاج کی سہولیات ناکافی تھیں۔ انسان کسی موذی مرض کا نشانہ بنتا تو جلد اللہ کو پیارا ہوجاتا۔ آج علاج کا معیار بہت بہتر ہوچکا۔ لہٰذا ترقی یافتہ ملکوں میں تو مردوزن کا اسّی نوے سال تک زندہ رہنا معمول بن گیا ہے۔ گویا بہادر شاہ ظفر آج کے زمانے میں زندہ ہوتے، تو انہیں اپنے شعر میں شاید چار نہیں چھ دن لکھنا پڑتے۔

طویل عمر پانا قنوطیوں کو چھوڑ کر زمانہ قدیم سے ہر انسان کا خواب رہا ہے۔ زندگی میں کچھ کر دکھانے کا جوش و جذبہ رکھنے والے لوگ تو لمبی عمر پانے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ اب اکیسویں صدی میں سائنس و ٹیکنالوجی بھی ان کی مدد کو پہنچ چکی۔ اس ضمن میں پچھلے سترہ اٹھارہ سال کے دوران حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔

خلیوں کا طلسم ہوش ربا

سائنس دانوں کی رو سے انسان تیس تا چالیس کھرب خلیوں کا مجموعہ ہے۔ ان خلیوں کی دو بڑی اقسام ہیں: اول جو قدرتی طور پہ تقسیم ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دوم وہ جو تقسیم نہیں ہوپاتے۔ جب بچہ ماں کے پیٹ میں پل رہا ہو، تو دوسری قسم کے خلیے ہمارے اہم جسمانی عضو مثلاً دماغ، جگر، ریڑھ کی ہڈی، پتا وغیرہ تشکیل دیتے ہیں۔ جب بچہ پیدا ہوجائے، تو پھر ان خلیوں کی تقسیم کا عمل ختم ہوجاتا ہے... یعنی وہ خلیے پھر تقسیم ہوکر نئے خلیے پیدا نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے، جب ہمارے دل، دماغ، جگر وغیرہ کو ایک بار نقصان پہنچ جائے، تو پھر انہیں دوبارہ ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔

پہلی قسم کے خلیے ہمارے جسم میں نئے خلیوں کی افزائش جاری رکھتے ہیں۔ مثلاً ہماری جلد انہی خلیوں سے بنی ہے۔ لہٰذا جب ہمارے ہاتھ یا پاؤں پر زخم لگے، تو رفتہ رفتہ نئے خلیے پیدا ہوکر اسے منذمل کردیتے ہیں۔ یوں جلد دوبارہ ہموار ہوجاتی ہے۔ہمارے بال بھی اسی کلیے کے مطابق جھڑتے اور نکلتے ہیں۔

سائنس داں اب کوشش کررہے ہیں کہ ایسا سائنسی عمل دریافت ہوسکے جس کے ذریعے انسانی جسم میں دوسری قسم کے خلیے دوبارہ فعال ہوجائیں...یعنی وہ دماغ، دل، جگر وغیرہ کے نئے خلیے پیدا کرنے لگیں۔ جب بھی ایسا سائنسی عمل دریافت ہوا، تو یہ تاریخ ساز واقعہ ہوگا۔وجہ یہ کہ اگر دوسری قسم کے خلیے کسی انسان ساختہ طریق کار کی مدد سے ہمارے دل، دماغ و جگر وغیرہ کے نئے خلیے بنانے لگے، تو ان اہم انسانی اعضا کی مرمت ممکن ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ انہیںازسر نو نیا بھی بنالیا جائے۔ یوں نئے اعضا سامنے آنے سے آسان ہو جائے گا کہ انسان مزید کئی سال زندہ رہے۔ اس طرح خود بخود انسانی عمر کی طوالت بڑھ جائے گی۔

حال ہی میں امریکا کے مشہور تحقیقی ادارے، گلیڈسٹون انسٹی ٹیوٹس کے ماہرین نے انسان سمیت اکثر جان داروں میں ملنے والے چار ایسے جین دریافت کیے ہیں جو دوسری قسم کے خلیوں میں نئے خلیے پیدا کرنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔ یہ انوکھا عمل صرف چاروں جین کی یکجائی و شمولیت سے شروع ہوتا ہے۔ ماہرین ابھی یہ عمل جانوروں پر تجربات کرتے ہوئے آزمارہے ہیں۔ تجربات کی کامیابی کے بعد اسے انسان پر آزمایا جائے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان کے جسم میں دوسری قسم کے خلیے دوبارہ فعال ہوکر نئے خلیے بنانے لگے، تو شعبہ علاج میں انقلاب آجائے گا۔ آج دنیا بھر میں لاکھوں لوگ دل، جگر، دماغ کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر چل بستے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان تینوں اعضا کو دوبارہ ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن دوسری قسم کے خلیے دوبارہ اپنا کام کرنے لگیں، تو ان کی مدد سے دل، دماغ، جگر وغیرہ کے متاثرہ حصے کی درستگی و مرمت ممکن ہوجائے گی۔ یوں نہ صرف انسان کی قیمتی زندگی محفوظ ہوگی بلکہ اس کی طوالت عمر میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔

انسان کی بدقسمتی کہ پہلی قسم کے خلیے بھی سدا تقسیم ہونے کا عمل جاری نہیں رکھتے۔ دراصل ہر خلیے کے کناروں پر ایک مخصوص مواد پایا جاتا ہے جسے ''ٹیلومیرز ''(Telomeres) کہتے ہیں۔ہر نئے خلیے کی پیدائش کے وقت پرانے کا کچھ ٹیلومیرز اس میں منتقل ہوجاتا ہے۔ رفتہ رفتہ پرانا خلیہ اپنا سارا ٹیلیومیرز مواد کھو بیٹھتا اور مرجاتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ہر انسان میں پہلی قسم کے خلیوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے اور اسی لیے نئے خلیے بھی کم جنم لیتے ہیں۔ نئے خلیوں کی کمی سے مختلف انسانی اعضا میں انحطاط آنے لگتا ہے۔ اسی عمل کو عرف عام میں'' بڑھاپا ''کہتے ہیں۔

عمر بڑھانے کی کوششیں


دلچسپ بات یہ کہ ہر انسان مختلف عمر میں بوڑھا ہوتا ہے۔ بیشتر مردوزن ستر اسّی سال کے ہوکر بوڑھے کہلاتے ہیں جبکہ بعض سو سال کی حد پار کرکے بوڑھے بنتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ماضی میں انسانوں کی عمر یں کئی سو سال طویل ہوتی تھیں۔ تاہم دور جدید کی معمر ترین انسان جینی کالمنٹ ہے۔ یہ فرانسیسی خاتون 1997ء میں ''ایک سو بائیس سال'' عمر پاکر چل بسی تھی۔ فی الوقت جاپان کی ایک خاتون، کین تناکا کو دنیا کی زندہ معمر ترین انسان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی عمر ایک سو پندرہ سال ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید سائنس ثابت کرچکی، انسانی عمر کی کوئی معین حد نہیں... یعنی ایک انسان لامحدود وقت تک بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ بعض انوکھے سائنس داں یہی انہونی ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی سعی ہے کہ مشین اور انسان کے ادغام سے ایسی نئی مخلوق تخلیق کرلی جائے جو تاابد نہیں تو کئی صدیاں ضرور زندہ رہے۔ نظریاتی طور پر ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ایک انسان کا دماغ مسلسل زندہ رہے۔ جب تک انسان کا دماغ کام کرتا رہے، وہ بھی زندہ رہے گا۔

اسی لیے امریکا میں سائنس داں کمپیوٹر اور حساس آلات کی مدد سے ایسا ماحول تخلیق کرنے کی کوشش میں لگے ہیں جس میں انسانی دماغ کو زندہ اور صحت مند رکھا جاسکے۔ یعنی جب ایک انسان مرنے کے قریب ہو تو اس کا دماغ تخلیق شدہ کمپیوٹری ماحول میں منتقل کردیا جائے۔ یوں تکنیکی طور پر وہ زندہ رہے گا۔ بس اس کا دماغ قدرتی ہوگا، بقیہ جسم مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ مشینی ہوں گے۔ اس سعی سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کچھ مغربی سائنس داں شکل و صورت ہی نہیں طریق کار میں بھی انسانی دماغ سے ملتا جلتا عضو تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ جب بھی وہ اپنی تحقیق و تجربات میں کامیاب ہوئے، ایک مشینی انسان تخلیق کرلیں گے۔

بہت سے ماہرین طب کی کوشش یہ ہے کہ انسان میں بڑھاپے کا عمل روک دیا جائے۔ اس سلسلے میں ان کی توجہ ٹیلومیٹرز پر مرکوز ہے۔ یہ ماہرین ایسا طریق کار ڈھونڈنا چاہتے ہیں جس کی بدولت ہر خلیے میں درج بالا مواد کی مقدار بڑھ جائے۔ یوں ہر خلیہ لامحدود عرصے تک نئے خلیے پیدا کرتا رہے گا اور انسان کی طبعی عمر بڑھ جائے گی۔

درج بالا معلومات سے عیاں ہے کہ دنیائے مغرب میں ہزارہا سائنس داں انسان کی عمر بڑھانے اور اسے طویل عرصہ تندرست و توانا رکھنے کی خاطر تحقیق و تجربات پر جتے ہوئے ہیں۔ اپنی محنت کا پھل پانے میں ابھی انہیں کئی برس بلکہ عشرے لگ سکتے ہیں۔ تاہم جدید سائنس یہ بھی دریافت کرچکی کہ انسان مخصوص طرز زندگی اپنا کر بڑھاپا دور رکھ سکتا ہے... گویا یہ امر انسان کے اپنے ہاتھ میں بھی ہے کہ وہ اپنی عمر میں دس بیس برس کا اضافہ کرلے۔

اس کا مطلب ہے، طوالت عمر اور صحت و تندرستی کے تناظر میں انسان کے لیے طرز زندگی بھی بڑی اہمیت اختیار کرچکا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو انسان جلد سے جلد یہ طرز زندگی اختیار کرے، وہ اتنی ہی زیادہ اپنی عمر بڑھا سکتا ہے۔ گویا جس بیس سالہ نوجوان نے یہ صحت مند طرز زندگی اپنایا، وہ کم از کم ایک سو سال تک زندہ رہنے کے مواقع بڑھالے گا۔

صحت مند طرز زندگی کے عناصر

طوالت عمر کا سبب بننے والا انسانی طرز زندگی بعض عناصر یا حصوں پر مشتمل ہے۔ ماہرین طب کا دعویٰ ہے کہ اگر پچاس سالہ انسان بھی انہیں اپنالے، تو وہ اپنی عمر میں پندرہ تا بیس سال اضافہ کر سکتا ہے۔اس طرز زندگی کے اہم عناصر درج ذیل ہیں:

٭... سگریٹ نوشی مت کیجیے۔ یہ عمل ہمارے دل، جگر اور دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ یہ جگر کو کینسر کا نشانہ بناتا ہے۔ خون کی نالیاں تباہ کرتا ہے۔ وہ شریانیں خراب کردیتا ہے جو دماغ تک خون پہنچاتی ہیں۔ غرض سگریٹ نوشی کے کئی جسمانی نقصانات ہیں اور اس کا انجام جلد موت ہے۔

٭... موٹاپے سے بچیے: موٹاپا سو امراض کی ماں بن چکا۔ فربہ انسان جلد ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور امراض قلب جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ موٹاپا انسان کو جلد قبر تک پہنچانے کی بہت بڑی وجہ ہے، اس سے ہر صورت بچیے۔

٭... ورزش کیجیے: انسان کے لیے ورزش اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی قدرتی وا ہے۔ یہ انسانی جسم پر کئی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ مثلاً ہماری شریانوں میں خوں کی روانی بڑھاتی ہے۔ یوں دل کی بیماریاں چمٹنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ وزن کم رکھتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے چھٹکارا پانے میں مدد دیتی ہے۔ ہمارے عضلات صحت مند کرتی ہے۔ قوت برداشت بڑھاتی ہے۔ آکسیجن اور غذائیت بافتوں (ٹشوز) تک پہنچاتی ہے۔ دل اور جگر کو طاقتور بناتی ہے۔ یوں ہم بہ آسانی روزمرہ کام انجام دینے لگتے ہیں۔ ہڈیاں بھی طاقتور ہوتی ہیں۔ غرض ورزش کے بہت سے فوائد ہیں۔ یاد رہے، تیز چلنا بھی ورزش کی ایک قسم ہے۔ لہٰذا ورزش کیجیے اور گونا گوں فوائد پالیجیے۔

٭...شراب نوشی مت کیجیے: ہمارے دین نے شراب پینے سے منع کررکھا ہے۔ اب جدید سائنس بھی بتا رہی ہے کہ یہ مشروب انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ جگر اور دل کو خراب کرتی اور انسانی صحت تباہ کردیتی ہے۔ اس سے ہر قیمت پر دور رہے۔

٭...صحت مند غذا کھایے: انسان کو بڑھاپے سے محفوظ رکھنے میں غذا کا اہم کردار ہے۔ ماہرین غذائیات کہتے ہیں کہ انسان خصوصاً پچاس سال کی عمر کے بعد پھل اور سبزیاں زیادہ کھائے۔ گوشت اعتدال سے استعمال کرے اور پروسیس شدہ یعنی تیار شدہ غذائیں کم سے کم کھائے۔ اچھی غذائیں کھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان موٹاپے، امراض قلب، ذیابیطس، ہائپر ٹینشن اور کینسر جیسی موذی بیماریوں سے بچا رہتا ہے۔

٭... ذہنی پریشانیوں (Stress) سے دور رہیے، نفسیاتی طور پر انسانی صحت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی ذہنی پریشانیاں ہیں۔ لہٰذا روزمرہ کام کاج کرتے ہوئے حتیٰ الامکان ان سے دور رہیے۔ یوں آپ کی صحت اچھی رہے گی اور بڑھاپا جلد حملہ آور نہیں ہوگا۔ مثبت طرز فکر اختیار کرنا اور لوگوں کی غلطیاں معاف کردینا ذہنی پریشانیوں سے بچنے کے کارگر نسخے ہیں۔
Load Next Story