جہاں گشت جنوں اور بدروحوں کے ایک گروہ نے اُن پر حملہ کردیا تھا

گھُپ اندھیرا، ہَوا سے جھومتے ہوئے درخت، سنّاٹا، میں اور شمشان گھاٹ

گھُپ اندھیرا، ہَوا سے جھومتے ہوئے درخت، سنّاٹا، میں اور شمشان گھاٹ۔ فوٹو: فائل

قسط نمبر 9

خوف، ایک ایسا زہر ہے جو رگوں میں سرایت نہیں کرتا، دوڑتا رہتا ہے۔ ہمیں پیدا ہوتے ہی خوف کے حوالے کردیا جاتا ہے، بل کہ یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ جب ہم شکم مادر میں ہوتے ہیں تو ہماری مائیں خوف زدہ رہتی ہیں، ماؤں کے خوف کے اسباب مختلف ضرور ہوسکتے ہیں، لیکن یہ تو اب ثابت شدہ حقیقت ہے کہ شکم مادر میں بچہ اپنے اردگرد کے حالات اور خاص طور پر ماں کے اثرات کو زیادہ قبول کرتا ہے۔

ہر طرح کا خوف آپ کا طواف کرتا رہتا ہے اور آپ خوف کے بھنور میں چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ خوف کیوں پیدا ہوتا ہے، مجھے بتایا گیا کہ اگر آپ لاعلم ہیں تو ضرور خائف رہیں گے۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے۔ علم آپ کو خوف سے نجات دیتا اور لاعلمی آپ کو تاریکی میں رکھتی اور خوف زدہ کیے رہتی ہے۔ لیکن کون سا علم، وہ جو آپ کے اندر کے سوالوں کا جواب دے سکے۔ صرف جوابات نہیں اطمینان بخش جوابات۔ اسی لیے صوفیاء بے خوف ہوتے ہیں کہ وہ حقیقت جانتے ہیں، اشیاء کی حقیقت۔ جب آپ صرف رب پر بھروسا کریں، بس اسی کو کارساز سمجھیں، بس اسی کو مالک و مختار سمجھیں تو آپ اس پر توکّل کرتے ہیں اور یہی توکّل آپ کو ہر شے سے بے خوف کردیتا ہے۔ چلیں یہ تو ایک علمی بحث ہے اور اہل علم کو ہی زیبا ہے کہ اس پر مکالمہ کریں۔

بچپن میں ہی مجھے سوالات نے گھیر لیا تھا، تجسس مجھے اپنے سنگ رکھتا اور میں اپنے سوالات کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں رہتا تھا۔

اس زمانے میں بجلی تو تھی لیکن ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا، لوگ عشاء کے بعد چوپال میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے تھے۔ ہمارے محلے میں بھی بزرگوں کے ساتھ نوجوان اور کچھ بچے بھی اس محفل کا حصہ ہوتے تھے، اور بڑے بوڑھوں کی باتیں دھیان سے سنتے تھے۔ اس محفل کی جان ممتازاﷲ صاحب تھے جو ابا جی کے دوست اور میونسپل کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے۔ بہت دانا، مخلص، ایثار کیش اور ہم درد انسان۔ ایک دن انہوں نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا بچو تم جانتے ہو ناں کہ پاور ہاؤس والی گلی میں سرکٹے رہتے ہیں۔ سب نے کہا، جی ہم جانتے ہیں اس لیے اس گلی میں نہیں جاتے۔ میں کھڑا ہوا تو ممتازاﷲ صاحب نے پوچھا، ہاں سلطان! تم کیوں کھڑے ہوگئے۔ آپ مجھے یہ بتائیے کہ پاور ہاؤس والی سڑک پر رہنے والے سرکٹوں سے کب اور کیسے ملاقات ہوسکتی ہے؟ میرا سوال ان کے سامنے تھا۔

کیوں، انہوں نے حیرت سے پوچھا۔ اس لیے کہ میں کئی مرتبہ وہاں گیا ہوں اور وہاں بیٹھا رہا ہوں اور ان سرکٹوں کو آوازیں دی ہیں، لیکن مجھے وہاں کوئی نہیں ملا، کیا آپ کی ملاقات کسی سرکٹے سے ہوئی ہے۔ میرا سوال سن کر ساری محفل کے شرکاء مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ تو تم وہاں گئے ہی کیوں تھے، ہمارے پڑوس میں رہنے والے راؤ مسعود نے پوچھا۔ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں ان سے ملنے گیا تھا، اور وہاں کوئی نہیں تھا، مجھے لگتا ہے کہ یہ سب کہانیاں ہیں، کوئی چڑیل وڑیل ، سرکٹا نہیں ہوتا ، اگر ہوتا تو میرے سامنے آجاتا۔ میری اس بات نے پوری مجلس پر سکتہ طاری کردیا اور وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے، ممتاز صاحب نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا، برخوردار یہ کہانیاں نہیں ہیں، ان کا وجود ہے اور ہمیں بڑے بزرگوں کی باتوں کو صحیح سمجھنا اور اس پر بلاچوں چرا عمل کرنا چاہیے۔

چاہے ان باتوں میں کوئی صداقت نہ ہو، میرا سوال پھر ان کے سامنے تھا۔ ٹھیک ہے میں خان صاحب سے بات کروں گا۔ انہوں نے مجھے اباجی سے بات کرکے ڈرانے کی کوشش کی۔ چچا آپ ضرور ابا جی سے بات کیجیے گا، لیکن سوال تو میں نے کیا ہے، وہاں جاکر میں خود کسی سرکٹے کو تلاش کرتا رہا ہوں لیکن مجھے وہاں کوئی نظر نہیں آیا۔ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے بس، اس وقت وہ سرکٹے شمشان گھاٹ پر ہوتے ہیں، کیا تم اس وقت جاسکتے ہو وہاں، ممتاز صاحب نے کہا۔ جی بالکل میں اسی وقت وہاں جاسکتا ہوں کہ کسی سرکٹے کو دیکھ سکوں اور اس سے بات کرسکوں۔

سب میرے جواب پر حیران تھے، ایک طرح سے میں نے ان کی باتوں سے اختلاف کرکے انہیں چیلینج کردیا تھا۔ ممتاز صاحب نے بھی میری بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا تھا۔ اچھا تو تم اس وقت شمشان گھاٹ جاسکتے ہو، لیکن تمہیں اکیلے جانا ہوگا۔ ٹھیک ہے میں اسی وقت جاؤں گا اور اکیلا، میرے جواب نے انہیں بُری طرح سے پسپا کردیا تھا۔ میں نے اپنی سائیکل نکالی اور پھر سب کے سامنے شمشان گھاٹ جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ تو تم تیار ہو، یاد رکھو یہ سب تم خود اپنی مرضی سے کررہے ہو، اپنے نقصان کے تم خود ذمے دار ہوگے۔ میں نے کہا جی میں سب کے سامنے یہ کہہ رہا ہوں۔ اس وقت اباجی اپنی زمینوں پر گئے ہوئے تھے، ورنہ میری شکایت کی جاتی اور نتیجہ میں جانتا ہی تھا، ابا جی کی غیرموجودگی نے مجھے اور بے خوف کردیا تھا۔

اچھا ٹھہرو! ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ تم وہاں گئے تھے، یہ لو میرا رومال شمشان گھاٹ کے ساتھ ہی جو پیپل کا درخت ہے، اسے اس پر باندھنا ہوگا، پھر صبح فجر کے بعد ہم سب وہاں جاکر دیکھیں گے اور تمہاری بات پر یقین کرلیں گے، لیکن یاد رکھو جو بڑوں کی بات نہیں مانتا وہ نقصان اٹھاتا اور ساری عمر پچھتاتا ہے۔ ممتاز صاحب نے مجھے ڈرانے کو اپنی آخری کوشش کی۔ میں آگے بڑھا اور ان سے ان کا رومال لے کر اپنی گردن کے گرد لپیٹا اور سائیکل پر سوا ہوکر شمشان گھاٹ جانے کے لیے نکل پڑا۔ پیچھے سے راؤ مسعود کی آواز آئی، برخوردار پھر سوچ لو۔ لیکن میں تہیہ کرچکا تھا۔

ہمارے محلے سے خاصا دور مدرسۂ فیض العلوم والی سڑک دن میں بھی ویران رہتی تھی، اس سڑک سے بائیں جانب ایک کچا راستہ تھا، اور یہیں ایک گندے پانی کا بڑا سا تالاب تھا جو جھاڑ جھنکاڑ سے اٹا ہوا تھا، اس کے ساتھ ہی ایک اجاڑ دھوبی گھاٹ تھا، اس کے آخر میں گھنے درختوں سے گھرا ہوا شمشان گھاٹ۔ سرد ہوا چل رہی تھی اور میں اس راستے پر سائیکل دوڑاتا ہوا چلا جارہا تھا۔ مدرسہ فیض العلوم کے قریب مجھے آوارہ کُتّوں نے گھیر لیا، لیکن میں ان سے نمٹنا جانتا تھا۔ مجھ پر ایک دُھن سوار تھی اور میں سائیکل کو ڈوراتا ہُوا جارہا تھا۔ آخر دھوبی گھاٹ آگیا، میں نے سائیکل ایک درخت کے ساتھ کھڑی کی، وہاں سے کچھ دور مجھے پیدل جانا تھا، گھپ اندھیرا، ہوا سے جھومتے ہوئے درخت، سنّانا اور میں۔ سچ بتاؤں تو میں ڈر رہا تھا کہ اندھیرے میں تو مجھے واقعی نہیں آنا چاہیے تھا، لیکن اب تو میں آہی گیا تھا، اب جو ہوگا دیکھا جائے گا کہہ کر میں نے خود کو تسلی دی۔

میں شمشان گھاٹ کی طرف مسلسل بڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک بلّی نے غرانا شروع کیا، وہ مسلسل غرّائے جارہی تھی، لیکن میں نے اسے نظرانداز کیا اور پھر میں شمشان گھاٹ پر تھا۔ یہ سچ ہے کہ مجھے خوف نے گھیرنا شروع کیا لیکن پھر میں زور سے چیخا، میں سلطان ہوں، آپ سے ملنے آیا ہوں، اگر آپ سرکٹے ہیں تو سامنے آئیے، میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ میرے چیخنے سے بلّی نے غُرّانا بند کردیا تھا۔ میں نے تین مرتبہ سرکٹے کو آواز دی لیکن، وہاں کوئی سرکٹا ہوتا تو سامنے آتا۔ اس کے بعد مجھ پر جُنون سوار ہوگیا تھا، میں خود سے باتیں کیے جارہا تھا، سب بکواس کوئی سرکٹا نہیں ہوتا، ویسے ہی کہانیاں ہیں یہ، میں جیت گیا، آج چچا ممتاز ہار گئے۔

میں نے وہ رومال شمشان گھاٹ کے ساتھ پیپل کے درخت سے کَس کے باندھا اور واپسی کے لیے روانہ ہوا، میں اپنی جیت پر خوش تھا، بہت خوش۔ واپسی میں اپنی سائیکل لی اور روانہ ہوا، راستے میں پھر آوارہ کتوں سے ملاقات ہوئی لیکن وہ میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھے۔


میں سڑک پر سائیکل دوڑاتا ہوا اپنے محلے کو جانے والی بڑی گلی میں داخل ہوا تو وہاں سب میرا انتظار کر رہے تھے، پورا محلہ جمع تھا، مجھے دیکھتے ہی سب چیخے وہ دیکھو سلطان آگیا اور میری طرف دوڑے۔ ابا جی کے منشی قاسم کو سارا واقعہ بتادیا گیا تھا، سب سے زیادہ پریشان وہی تھا، اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا، تم بالکل ٹھیک ہو ناں، قاسم ماما میں بالکل ٹھیک ہوں، اور جیت گیا ہوں، کچھ نہیں ہوا مجھے، کوئی سرکٹا نہیں ہے وہاں۔ ممتاز چچا آپ سب فجر کی نماز کے بعد میرے ساتھ چلیے گا، آپ کا رومال میں نے وہاں پیپل کے درخت کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ پھر سب چھٹنے لگے اور میں قاسم کے ساتھ واپس آگیا، صفیہ سوئی ہوئی تھی ورنہ قیامت برپا کردیتی۔

وہ واقعی مجھے بہت زیادہ عزیز رکھتی تھیں۔ دوسرے دن فجر کی نماز ہم نے مدینہ مسجد میں ادا کی۔ قاسم بھی میرے ساتھ تھا، پھر سب لوگ راؤ مسعود کی کار اور ہماری جیپ میں شمشان گھاٹ روانہ ہوئے، سب خاموش تھے، خاص کر ممتاز چچا، جب ہم وہاں پہنچے تو وہ رومال درخت کے ساتھ بندھا ہوا تھا، راؤ مسعود نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، واہ بھئی تم نے تو کمال کردیا، پھر وہ ممتاز چچا سے مخاطب ہوئے، لیجیے ممتاز صاحب، برخوردار نے تو اپنا کہا سچ ثابت کردیا ہے۔ انہوں نے بس ''ہُوں'' کیا۔ واپس آئے تو پورے محلے میں رات والی بات ہی موضوع گفت گُو تھی، اور پھر جتنے منہہ اتنی باتیں۔ خیر میں اس واقعے کے بعد اپنے محلے میں نڈر بچہ مشہور ہوگیا تھا، مزے اور حیرت کی بات یہ ہوئی کہ جب ابّا جی واپس آئے تو انہیں چچا ممتاز نے میری موجودگی میں یہ سب کچھ بتایا، اباجی ویسے بھی بہت کم گو تھے، انہوں نے ساری داستان سن کر میری طرف دیکھا اور ممتاز صاحب سے بس اتنا کہا، تو دیکھ لیا تم نے ممتاز کہ ہم جو کہتے ہیں اسے نبھاتے بھی ہیں۔ میرے لیے ابّا جی کا یہ کہنا ایک اعزاز تھا۔

بلا کا شرارتی اور خودسر تو میں پہلے ہی تھا اب تو میں نڈر بھی مشہور ہوگیا تھا۔ میں طرح طرح کی شرارتیں سوچتا اور پھر میں اس پر عمل بھی کرتا۔ ہمارے محلے میں ایک صاحب رہتے تھے، ان کا نام عبدالسلام تھا، لیکن وہ نہ جانے کیوں پاڈی کے نام سے مشہور تھے، بھاری بھر کم عبدالسلام پاڈی، ان کے نہ جانے کتنے ہی قصے مشہور تھے کہ وہ بہت طاقت ور ہیں، ان کا تعلق پُراسرار دنیا سے ہے، وہ جنوں بھوتوں سے بھی لڑ جاتے ہیں، اور نہ جانے کیا کیا، اور وہ خود بھی اپنے اسی طرح کے قصے سنایا کرتے تھے۔ محلے کے لوگ خاص کر خواتین ان کی ایسی باتوں پر یقین رکھتی تھیں۔ ایک دن وہ کچھ تاخیر سے چوپال میں پہنچے تو راؤ مسعود نے پوچھا، خیریت تو ہے آج آپ تاخیر سے پہنچے۔

انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، آپ تو جانتے ہی ہیں راؤ صاحب بندۂ ناچیز دوسری دنیا سے بھی تو تعلق رکھتا ہے، وہ جنوں کا کوئی تنازعہ ہوگیا تھا تو ایک بہت منہہ زور جِن کو سبق سکھانے میں تاخیر ہوگئی۔ میں نے حیرت سے یہ سب سنا لیکن خاموش رہا۔ میں انہیں سبق سکھانے کا تہیہ کرچکا تھا۔ پھر آخر وہ دن آہی گیا۔ عشاء کی نماز پڑھ کر میں چوپال میں بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا، لیکن آج پھر پاڈی صاحب غائب تھے، بس وہی موقع تھا، میں نے ان کے گھر جاکر دیکھا کہ وہ ابھی گھر نہیں آئے۔

پھر میں نے ایک لمبی چھڑی اور ایک کالی چادر لی اور جہاں سے وہ گھر آتے تھے وہاں جاکر کھڑا ہوگیا۔ عبدالقادر پارک کے ساتھ ہی وارڈ نمبر تین کا دفتر تھا، میں اس کی اوٹ میں کھڑا ہوکر ان کا انتظار کرنے لگا، سڑک سنسان تھی، حافظ سعید کے گھر کے سامنے لگے ہوئے کمبے پر ایک زرد بلب تاریکی سے لڑ رہا تھا۔ مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، وہ اپنی سائیکل پر دُور سے آتے ہوئے دکھائی دیے اور میں نے اس چھڑی پر کالی چادر ڈال کر بلند کی، چادر بڑی تھی جس نے مجھے بھی ڈھانپ لیا تھا، پھر وہ جیسے ہی میرے قریب آئے، میں چیختا ہوا ان کے سامنے آگیا، پھر کیا تھا پاڈی صاحب ڈر کر چیخے اور دھڑام سے اپنی سائیکل سے گرگئے، میں مسلسل ان کے سامنے ناچ رہا تھا، پھر وہ اٹھے اور تیزی سے بھاگے، گرے پھر اٹھے، پھر بھاگے۔

بس آج کے لیے اتنا ہی بہت تھا، میں نے چھڑی وہیں پھینکی اور دوسرے لمبے راستے سے اپنی گلی میں داخل ہوا، وہاں تو کہرام مچا ہوا تھا، پاڈی صاحب اپنے گھر کے سامنے سڑک پر بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔ میں نے چادر چُھپائی اور وہاں پہنچ گیا۔ ڈاکٹر خادم حسین ان کا معائنہ کر رہے تھے، پھر بہت مشکل سے انہیں چارپائی پر ڈال کر گھر کے اندر پہنچایا گیا، ڈاکٹر خادم حسین نے انہیں انجکشن لگایا اور دوائیں دیں، ''کوئی صدمہ پہنچا ہے انہیں، آرام کرنے دیں، جب ہوش میں آئیں گے تبھی معلوم ہوگا کہ کیا ہوا'' کہتے ہوئے ڈاکٹر خادم حسین اپنے گھر چلے گئے۔

پورا محلہ ان کے گھر کے سامنے اور خواتین ان کے گھر میں جمع تھیں، ایک بڑی بی نے کہا، بھئی پاڈی بھی کوئی معمولی انسان نہیں ہیں، پھر ہوگئی ہوگی جنوں سے لڑائی۔ یہ اور ایسی ہی باتیں۔ پھر مجمع چھٹنے لگا، فجر میں مسجد میں ان کے لیے دعا بھی کرائی گئی۔ نماز کے بعد میں ان کے گھر پہنچا، وہ ہوش میں تھے، میں نے پوچھا، چچا کیا پھر جنوں سے لڑائی ہوگئی تھی؟ لیکن وہ خاموش رہے، ان کی بیوی نے کہا، ابھی بات نہیں کر پارہے، تم دعا کرو پھر جب بات کریں گے تو بتا بھی دیں گے۔ میں واپس آکر اسکول جانے کی تیاری کرنے لگا۔

لیکن پاڈی والے واقعے نے ہمارے ہی نہیں ساتھ کے محلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ خاصے دن کے بعد وہ اپنے معمول کی طرف لوٹے۔ پھر انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا کچھ اس طرح تذکرہ کیا کہ وہ گھر واپس آرہے تھے کہ جنوں اور بدروحوں کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کردیا، کچھ کو تو پچھاڑ بھی چکے تھے، لیکن آخر وہ کیا کرتے اکیلا انسان ایک جنگ جُو لشکر کا کب تک مقابلہ کرتا، لیکن بعد میں بہ قول ان کے وہ انہیں اس کی سزا دے چکے تھے، اور وہ سب اب پابند سلاسل تھے۔ لیکن اس واقعے کے بعد وہ مغرب سے پہلے ہی اپنے گھر پائے جاتے تھے اور چوپال کے شرکاء کو بھی کبھی ان سے تاخیر کا شکوہ نہیں کرنا پڑا۔

لیکن اصل حقیقت تو میں جانتا تھا، اس لیے کہ وہ جنوں اور بدروحوں کا لشکر ایک اکیلا میں خود تھا۔ کچھ ماہ بعد ہمارے پڑوس میں رمضان صاحب کی بیٹی اور بیٹے کی شادی کی تقاریب منعقد ہونا شروع ہوئیں، وہ ایسا نفسانفسی کا دور نہیں تھا، سب ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک ہوتے تھے اور گانے بجانے کی محفل مہینوں جاری رہتی تھی۔ ایسی ہی محفلوں میں لڑکیاں مجھ سے بچ کر رہتی تھیں، اس لیے کہ جب وہ ڈھولک پر گیت گاتی تھیں تو میں خاموشی سے ان کے پراندے ایک دوسرے سے باندھ دیا کرتا تھا اور جب کوئی ایک اپنی جگہ سے اٹھتی تو وہ منظر دیکھنے کا ہوتا تھا، لیکن کوئی میری ایسی شرارتوں کا بُرا نہیں مناتا تھا، بس مجھے دیکھ کر کچھ زیادہ ہی احتیاط کی جاتی تھی۔

صبح رمضان صاحب کی بیٹی کی بارات آنی تھی تو رات کو کھانے پکنا شروع ہوئے، سب جمع تھے اور پاڈی صاحب چہک رہے تھے کہ میں نے انہیں مخاطب کیا، چچا پاڈی! ان جنوں اور بدروحوں نے تو آپ پر اچانک حملہ کردیا تھا ناں۔ انہوں نے میری جانب دیکھا اور کہا، تم فکر مت کرو میں نے انہیں ایسا سبق سکھایا ہے کہ ان کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ اچھا کیا آپ نے، میں نے کہا لیکن جیسے ہی وہ لشکر آپ کے سامنے آیا آپ تو گر پڑے تھے ناں اور چیختے ہوئے بھاگ نکلے تھے۔ لیکن یہ تمہیں کیسے پتا چلا، مجھ سے انہوں نے پوچھا، ان کے اس اچانک سوال سے سب متوجہ ہوئے، اور پھر کیا یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ وہ خاموش ہوکر باہر نکلے اور پھر میرے ایک دوست نے آکر مجھے کہا باہر پاڈی چچا تمہیں باہر بُلا رہے ہیں۔

میں باہر نکلا تو پاڈی صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا، دیکھو جو ہُوا سو ہُوا، تم نے یہ بات کسی اور کو تو نہیں بتائی؟ میں نے کہا، نہیں۔ تو پھر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ کسی کو بھی نہیں بتاؤ گے۔ میں نے ان سے وعدہ کیا اور وہ بس اس شرط پر کہ وہ اپنے ایسے بے سر وپا قصے سنانے سے احتراز کریں گے۔ وہ میرا اس لیے بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے کہ وہ میرے گھر والوں سے بہت اچھی طرح سے واقف تھے۔ اس کا ایک نقصان ضرور ہوا تھا کہ محلے کی چوپال ان کے لچھے دار مہمات کی روداد سننے سے محروم ہوگئی تھی، اور وہ اس لیے بھی کہ انہوں نے چوپال میں سب کے سامنے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پُراسرار دنیا کو خیرباد کہہ چکے ہیں، اس لیے اب کوئی ان سے ایسی کسی کہانی سنانے کا نہ کہے۔

عجب دنیا ہے یہ اور عجب تر ہیں اس کے باسی۔ سُنی سنائی باتوں پر بلاتحقیق ایمان لانے والے نادان لوگ۔ محلے کی کچھ خواتین تو اس کے باوجود ان کی معتقد رہیں۔
Load Next Story