شام کے بحران پر اردن میں عالمی کانفرنس

امریکا نے بشار الاسد سے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں قیام امن کی یقین دہانی کرائیں۔


Editorial May 23, 2013
برطانیہ‘ قطر‘ مصر‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ اردن‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ یو اے ای کے وزرائے خارجہ کے ساتھ امریکا اور روس کے نمایندے بھی عمان کے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

شام کے بحران کا ابھی تک کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا جب کہ اندرون ملک انسانی لاشیں مسلسل گرتی چلی جارہی ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق شام میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہونے والی ہے۔ شام کے اندر سرکاری فوجوں سے جن باغیوں کی خون آشام لڑائی جاری ہے انھیں مبینہ طور پر بعض بیرونی طاقتوں کی طرف سے نہ صرف اسلحہ بلکہ لاجسٹکس کی امداد بھی دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے لڑائی بند ہونے کے بجائے اس میں الٹا اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ شام کو اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ خطے میں وہ واحد ملک ہے جو کھلم کھلا ایران کا حامی ہے۔

اور ایران وہ ملک ہے جو دنیا کی اکلوتی سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے چنانچہ اس پر وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کے اراد ے کا الزام لگا کر اس کے خلاف صدام حسین کے عراق کا سا سلوک کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ دریں اثنا اردن میں شام کے مسئلے کے حل کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔ اس کانفرنس میں برطانیہ اور قطر نے شام کے صدر بشار الاسد پر زور دیا ہے کہ اب وہ اقتدار سے دستبردار ہوجائیں۔ اردن کے دارالحکومت عمان میں دنیا کی اہم طاقتیں اکٹھا ہو کر اس مسئلہ پر غور کر رہی ہیں۔

امریکا نے بشار الاسد سے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں قیام امن کی یقین دہانی کرائیں۔ واضح رہے شام میں دو سال سے جاری خانہ جنگی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 70 ہزار سے بڑھ کر 94 ہزار افراد تک جا پہنچی ہے اور جان بچانے کے لیے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے عمان اجلاس میں کہا کہ ان کا ملک تو شروع سے ہی بشار الاسد کو کہہ رہا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں کیونکہ ہمیں اس مسئلہ کا ایسا کوئی حل نظر نہیں آ رہا جو اس کی موجودگی میں بروئے کار لایا جا سکے۔

عمان میں ہی شام کے دوستوں کے نام سے بھی ایک اجلاس ہونے والا ہے جس میں امریکا اور روس کی طرف سے پیش کردہ امن تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ دریں اثناء قطر کے امیر شیخ حمد بن جاسم الثانی نے دارالحکومت دوحہ میں کہا ہے کہ شام کے بحران کو ختم کرنے کے لیے ایک سیاسی سمجھوتے تک پہنچنا ناگزیر ہے اور ہمیں ایک ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جو شامی عوام کی امنگوں اور آرزوؤں کی نمایندگی کرتا ہو۔ شیخ الثانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ بشار الاسد اپنے عوام کے بے دریغ قتل عام میں مصروف ہے اور اپنی اس روش پر اصرار بھی کر رہا ہے۔

برطانیہ' قطر' مصر' فرانس' جرمنی' اٹلی' اردن' سعودی عرب' ترکی' یو اے ای کے وزرائے خارجہ کے ساتھ امریکا اور روس کے نمایندے بھی عمان کے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی ایک عالمی کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں باغیوں اور شام حکومت کو مذاکرات کی ایک میز پر بٹھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ شام میں ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں آ جائے لیکن یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب بشار الاسد اقتدار سے سبکدوش ہو جائیں۔

ادھر اردن میں متعین شام کے سفیر بہجت سلیمان نے اس عالمی کانفرنس کو نام نہاد قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے یہ دراصل شام کے دشمنوں کا اجتماع ہے۔ شامی سفیر نے کہا ان کا ملک جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ محض اپنے دفاع میں کر رہا ہے۔ دریں اثناء روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے شامی وزیر خارجہ کو علیحدگی میں مل بیٹھ کر بات چیت کی دعوت دی ہے۔ دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ امریکا شام میں خون خرابے کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ عرب اور مسلم ممالک بھی شام کے حوالے سے کسی بات پر متفق نہیں ہیں' اس طرح بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں' اس ساری صورتحال میں نقصان شامی عوام کا ہو رہا ہے' ضرورت اس امر کی ہے کہ سارے فریق شام کے عوام کا سوچیں اور اس کا کوئی قابل قبول حل نکالا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں