سرحد پرچین کی ہٹ دھرمی

مجھے پتہ نہیں کہ آیا سرحد کے دونوں طرف کے عوام بھارت چین سرحدی چپقلش سے کماحقہ آگاہ ہیں۔

''کیا تم اس سزا کو بھول گئے ہو جو ہم نے تمہیں 1962ء میں اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی پر دی تھی؟'' یہ وہ سوال ہے جو ایک چوٹی کے آرمی جنرل نے تقریباً دس سال قبل بیجنگ میں مجھ سے پوچھا تھا۔ مجھے اس کا یہ انتباہ اس وقت یاد آیا جب بھارت چین کی طرف سے اپنے علاقے میں سڑکوں کی تعمیر پر بوکھلایا ہوا ہے۔

وزیر اعظم منموہن سنگھ نے چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ کے اس ہفتہ دورۂ دہلی کے دوران ان سے اس موضوع پر مفصل بات چیت کی ہے لیکن چونکہ چین ایک مرتبہ فتح یاب ہو چکا ہے لہٰذا اس نے بھارت کے مؤقف پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ وہ بدستور ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔ چین کہتا ہے حالات معمول پر تب آئیں گے جب سرحدوں کا مسئلہ طے ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بدستور ہمارے علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے جو اس نے بزور قوت چھین لیے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کی یہ بات بھی بجا ہے کہ سرحد کا مسئلہ طے کیے بغیر امن و امان کا قیام ممکن ہی نہیں۔

مجھے پتہ نہیں کہ آیا سرحد کے دونوں طرف کے عوام بھارت چین سرحدی چپقلش سے کماحقہ آگاہ ہیں۔ جب 1962ء میں جنگ ختم ہوئی اور ہم شکست کھا گئے تو چین نے یکطرفہ طور پر فائر بندی کر دی اور پھر یہ اشارہ دیا کہ فائر بندی لائن ہی ممکنہ سرحد ہو گی۔ لیکن جو لائن بھارت نے تجویز کی وہ چین کو قابل قبول نہیں تھی۔

چنانچہ چین نے اپنا ذہن تبدیل کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کو ہی سرحد بنانے کا اعلان کر دیا اور اپنی فوجوں کو آگے بڑھاتا ہوا وہاں تک لے آیا۔ اس لائن سے لداخ اور ارونچل پردیش کی روائتی سرحدوں کی خلاف ورزی ہوئی۔ حتیٰ کہ بیجنگ نے ان سرحدوں کے تقدس کا بھی لحاظ نہ کیا۔ 1962ء کی جنگ کے بعد کولمبو (سری لنکا) نے مصالحت کراتے ہوئے بھارت اور چین دونوں سے کہا کہ وہ اس لائن سے جہاں پر کہ کھڑے ہیں اپنی فوجیں 26.5 میٹر پیچے لے جائیں۔ بھارت نے حسب ہدایت عمل کیا لیکن چین نے نہیں کیا حتیٰ کہ اس کی فوج نے آج جن لائنوں پر قبضہ کر رکھا ہے وہ بھی بے ترتیب ہیں اور یوں چین دوہرے فائدے اٹھا رہا ہے۔

بیجنگ کی مداخلت بے جا (ہمارے وزیراعظم چاہتے ہیں کہ چین کی جارحیت کے لیے کوئی نرم لفظ استعمال کیا جائے تا کہ کشیدگی میں اضافہ نہ ہو) لداخ میں دولت بیگ اولڈی سیکٹر وہ علاقہ ہے جس کی چین حد بندی کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ درحقیقت اس نے تمام کے تمام متنازعہ علاقے پر خود ہی قبضہ کر رکھا ہے۔ نئی دہلی سے کسی مذاکرات کے بغیر ہی اور نہ ہی اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ کون سا علاقہ اس کا ہے اور نہ ہی چین نے بھارتی سرزمین پر موجود رہنے کی کوئی وضاحت دی ہے۔ 23 دن تک چین نے وسپانگ کے بھارتی علاقے میں باقاعدہ خیمے لگائے رکھے، بیجنگ دراصل پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ کسی بھی وضاحت کے بغیر بھارت کے کسی بھی علاقے پر قبضہ کر سکتا ہے۔

چین نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ مضبوط سرحد کے حق میں ہی نہیں ہے کیونکہ جب سرحد کی نشاندہی نہ کی گئی ہو تو وہ جہاں تک چاہے بھارت کے اندر آ سکتا ہے حتیٰ کہ ارونچل پردیش میں بھی۔ مثال کے طور پر چین نے اس بات کی بھی کوئی وضاحت نہیں کی کہ آخر وہ ارونچل پردیش اور جموں اور کشمیر کے لوگوں کو علیحدہ قسم کا ویزہ کیوں جاری کرتا ہے۔ لیکن چین کے ساتھ اصل مسئلہ تبت کا ہے۔ بیجنگ بے شک یہ نہ کہے مگر اس نے سرحد کے مسئلہ کو تبت کے باشندوں کے مستقبل سے منسلک کر رکھا ہے جنہوں نے دلائی لامہ کی قیادت میں ہزاروں کی تعداد میں بھارت میں پناہ لے رکھی ہے۔


بیجنگ نے بھارت کے ساتھ چین کے بعض گھرے ہوئے علاقوں کا مسئلہ ضرور اٹھایا تھا لیکن جب اسے بتایا گیا کہ دلائی لامہ محض ایک مذہبی لیڈر ہیں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں تو چین خاموش ہو گیا۔ چین جو بھی چاہتا رہے مگر نئی دہلی تبت کے مسئلہ کو دوبارہ کھولنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بدھ مت ایسا مذہب ہے جسے ہندو بھی مانتے ہیں لہٰذا یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت چین کے ساتھ خیر سگالی کی خاطر ہندوؤں کے حساس معاملے کو فراموش کر دے جن کی تعداد 80 فیصد ہے۔

ویسے بھی بھارت اور چین دونوں بہت بڑے ملک ہیں جن کے مابین تصادم ہوا تو نہ صرف جنوب مشرقی ایشیاء کے تمام ممالک بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہو گی۔ 1962ء کی جارحیت کے بعد پہلے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے عالمی لیڈروں کو اپنے ذاتی خطوط لکھ کر خبردار کیا تھا کہ دونوں قوموں کی روایات مختلف ہیں جب کہ ان کے نظریات یکسر متضاد ہیں۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے مگر چین میں ڈکٹیٹر شپ ہے لہٰذا جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کو یہ جاننے میں فطری طور پر دلچسپی ہے کہ دونوں میں سے کون سا ملک کامیاب ہوتا ہے۔

اقتصادی نکتہ نظر سے چین نے بھارت کو مات دیدی ہے البتہ چین میں سیاسی مسائل آمریت کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں۔ لیکن کیا وہ حل پائیدار ہوتے ہیں۔ جب کہ بھارت کے بارے میں ایک آزاد معاشرہ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ایک بات البتہ واضح ہے وہ یہ کہ بھارت کو اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنا پڑے گی جو اس وقت صرف 4.6 فیصد شرح نمو رکھتی ہے حالانکہ تین سال قبل ہم 9 فیصد سے بھی تجاوز کر رہے تھے۔

مزید براں چین اور پاکستان کا ایک خاص تعلق ہے اور یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ چین پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور میانمار کے ساتھ بہت قریبی تعلقات قائم کر کے بھارت کا چاروں طرف سے گھیراؤ کرنا چاہتا ہے۔ جنگ کو بیشک خارج از امکان بھی کیوں نہ قرار دیدیا جائے لیکن بھارت کی مسلح افواج پر اس طرح جو دباؤ پڑے گا وہ ناقابل برداشت ہو گا۔ بھارت کو اپنی سرحد کے بارے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہونے کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے لیکن چین نے دیکھ لیا ہے کہ بھارت ایسا ہی کرتا ہے۔ یہ بھارت کی کمزوری ہے۔ اسے چین کے ساتھ تبت کے باشندوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے کیونکہ اس مسئلہ میں خود چین کی گردن بھی پھنسی ہوئی ہے۔ لیکن بیجنگ تبت کا نام بھی نہیں سننا چاہتا۔ حالانکہ فی الوقت تبت پر چین کا ہی قبضہ ہے لیکن وہاں کے عوام آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بھارت تبت کے مسئلے کو حقوق انسانی کے حوالے سے بھی اٹھا سکتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ دنیا بھر میں ان درجنوں تبتی باشندوں کا کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا جنہوں نے اپنے وطن کی آزادی کے لیے خود کو زندہ جلا لیا۔ بھارت نے چین کے ساتھ تجارت میں اضافہ کرنے کا جو عزم ظاہر کیا ہے وہ خوش آیند ہے لیکن اقتصادی تعاون عوام سے عوام کے رابطے کا متبادل نہیں جو کہ بھارت اور چین میں بالکل ہی نہیں ہے۔ اگر یہ مسئلہ دلائی لامہ کی زندگی میں ہی حل ہو سکے تو وہ چین کے اندر رہتے بھی تبت کی خود مختاری کو قبول کرنے پر تیار ہیں۔ تبت کے نوجوان دلائی لامہ کے فارمولے سے متفق نہیں لیکن وہ اس کی مخالفت بھی نہیں کر سکتے کیونکہ جب تک دلائی لامہ زندہ ہیں وہی تبت کے حقیقی نمایندے تصور ہوں گے۔

رہی یہ بات کہ دونوں ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے ویسی ہی ہے جس کی چینی وزیراعظم چو این لائی نے بھارتی وزیر اعظم نہرو کو یقین دہانی کرائی تھی مگر انھوں نے اپنے الفاظ کا پاس نہیں کیا۔ لہٰذا مستقبل میں بھی اس کی کوئی ضمانت نہیں ہو سکتی۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story