صوفیاء شہروں کو کیوں چھوڑ جاتے تھے
ایسے ہی لوگوں نے ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کا ورد کرتے ہوئے انھیں 12 اکتوبر 1999ء تک پہنچایا تھا۔
صوفیائے کرام کے انسان دوست رویے اور روایات کے تمام تر احترام کے باوجود مجھے تصوف کے بنیادی تصورات، اصطلاحات اور مختلف سلسلوں کے بارے میں کوئی زیادہ علم نہیں۔ محض سرسری آگہی کے باوجود مجھے خوب احساس ہے کہ وہ اپنے دلوں میں سوز، رحم اور گداز پیدا کرنے کے لیے کڑی ریاضتوں سے گزرا کرتے تھے۔ ذرا سا غور کریں تو دلوں میں رحم اور عفو کے جذبات گہرا کرنے کے لیے کی جانے والی یہ مشقیں آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے۔ عام انسانوں کی اکثریت خود غرض ہوا کرتی ہے۔ ملامتیوں کا تو عقیدہ ہے کہ اپنی ذات کے خول میں بند انسان اگر بظاہر پابند صوم و صلوۃ ہو تو اس میں خود پرستانہ رعونت بڑھ جانے کے امکانات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔ وہ خلقِ خدا کو حقیر جان کر ان کے دُکھوں سے نہ صرف بیگانہ بلکہ ان کو مشکلوں میں گھرا دیکھ کر ظالمانہ حظ بھی اُٹھانا شروع کر دیتا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں میں انتخابی بخار میں مبتلا لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کو میں نے پشاور سے لے کر کراچی تک ایسی ہی کیفیتوں میں گرفتار دیکھا۔
11 مئی سے چند ہی روز پہلے میں نے چند گھنٹے پشاور کے ایک گنجان آباد محلے میں نوجوانوں کے ایک بہت بڑے گروہ میں گزارے۔ اس کے بعد کچھ وقت وہاں کے تاریخی بازاروں میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ گپ شپ لگائی۔ میرے ساتھ گفتگو کرنے والے لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی بلور خاندان کا اچھے الفاظ میں ذکر نہ کیا۔ 1980ء سے اس شہر کے سیاسی منظر پر چھائے اس طاقتور خاندان کے خلاف غصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو اپنے حکمرانوں سے ضرورت سے زیادہ توقعات ہوا کرتی ہیں۔ کوئی بھی سیاستدان ان سب کی ہر گز تشفی نہیں کر سکتا۔ مگر اسی خاندان کا ایک فرد بشیر احمد بلور مصیبت کی ہر گھڑی میں اپنے شہر والوں کے ساتھ کھڑا ہو کر کم از کم ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش تو کیا کرتا تھا۔ اسے بیدردی کے ساتھ دسمبر 2012ء میں قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کے بارے میں پشاور میں پھیلی عمومی بے حسی میں ہرگز سمجھ نہ پایا۔
یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو جب ملتان کے ایک جلسے سے اغواء کیا گیا تو میں کراچی میں تھا۔ اپنے ساتھ ملنے والے لوگوں کو میں نے اس واقعے کے بارے میں کوئی خاص فکر مند نہ پایا۔ اسلام آباد لوٹا تو بہت سارے ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے اور خوشحال لوگوں سے ڈرائنگ روموں میں چند ملاقاتیں ہوئیں۔ میں بالکل ششدر رہ گیا جب ان میں سے بہت سارے لوگوں نے مجھے بڑے اصرار کے ساتھ اس بات پر قائل کرنا چاہا کہ خدانخواستہ گیلانی خاندان نے انتخابات میں اپنی شکست کو واضح طور پر دیکھتے ہوئے ان کے انعقاد سے چند گھٹنے پہلے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے علی حیدر گیلانی کے ''اغواء کا ڈرامہ رچایا''۔
یوسف رضا گیلانی 1985ء سے مختلف اسمبلیوں کے رکن ہوتے ہوئے اسلام آباد آتے رہے ہیں۔ ایک سیاسی رپورٹر ہوتے ہوئے میں ان کی صورت سے واقف ہوں اور بس۔ میرا ان سے کبھی کوئی ذاتی تعلق نہیں رہا۔ ان سے تنہائی میں صرف ایک ملاقات ہوئی وہ بھی ان کے اقتدار سے نکالے جانے سے چند روز قبل۔ ان کی ذات اور خاندان کے بارے میں ہر طرح کی کہانیاں میں نے بھی سنی ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ تمام کہانیاں بالکل درست ہوں۔
مگر ایک سیاستدان کی اس سے بڑی سزا کیا ہو سکتی ہے کہ وہ وزیر اعظم کے اعلیٰ ترین عہدے تک جا پہنچے تو اسے ایک چٹھی نہ لکھنے کی وجہ سے یوں فارغ کر دیا جائے جیسے آپ گھریلو ملازموں کو چٹکی بجا کر گھر بھیج دیا کرتے ہیں۔ 11 مئی 2013ء کے دن اس خاندان کے تمام لوگوں نے جو کئی صدیوں سے ملتان کی اشرافیہ سمجھایا جاتا رہا ہے کو اپنی تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد تو ہمیں بھی اپنا دل ذرا کشادہ کر لینا چاہیے۔ زیادہ دُکھ تو مجھے اس بات پر ہوا کہ میرے جاننے والوں میں سے وہ لوگ جو آج کل گیلانی خاندان کی اذیتوں پر عجیب سی لذت محسوس کر رہے ہیں ان میں سے اکثر گیلانی کے اقتدار کے دنوں میں ان کے بڑے گن گایا کرتے تھے۔ چند ایک ایسے بھی ہیں جو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سیٹوں پر بیٹھا کرتے تھے۔
مگر ترقیاتی فنڈز کے نام پر انھوں نے حکمران جماعت کے اراکین سے کہیں زیادہ حصہ وصول کیا۔ اُن دنوں ان جیسے لوگوں کو تو بلکہ یہ دُکھ محسوس ہو رہا ہوتا تھا کہ صدر زرداری ''بیچارے گیلانی'' کو آزادی سے کام نہیں کرنے دے رہے۔ انھیں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد سے پہلے اور بعد میں آج کل نواز شریف کے دربار میں بھی ایسے کئی لوگوں کو کافی نمایاں دیکھ رہا ہوں جو چند مہینے قبل تک گھنٹوں میرے ساتھ بیٹھ کر میاں صاحب کی برائیاں گنوایا کرتے تھے اور مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ وہ اب کبھی اس ملک کے وزیر اعظم نہیں بن پائیں گے۔ 11 مئی کے بعد سے اچانک ان ہی لوگوں نے ان میں سے ایک جہاندیدہ، بردبار اور اپنے قول کا پکا اور سچا سیاستدان دریافت کر لیا ہے۔
یقیناً ایسے ہی لوگوں نے ''قدم بڑھاؤ نواز شریف۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں'' کا ورد کرتے ہوئے انھیں 12 اکتوبر 1999ء تک پہنچایا تھا۔ وہ ہتھکڑی لگا کر جیل اور پھر سعودی عرب بھیج دیے گئے تو ایسے لوگوں کو جنرل مشرف میں ایک مسیحا تلاش کر لینے میں کوئی دیر نہ لگی۔ آج کل میاں صاحب کی ذات سے ان کی وارفتگی دیکھتے ہوئے میرے دل سے صرف یہ دُعا نکلتی ہے تیسری بار وزیر اعظم ہاؤس پہنچ جانے کے بعد نواز شریف کی آنکھیں اور کان ایسے لوگوں کے لیے بند ہو جائیں۔ اقتدار کے کھیل کو 1985ء سے بہت قریب سے دیکھنے کے بعد میرا انسانی قدروں پر ایمان کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ سمجھ آنا شروع ہو گیا ہے کہ اپنے دلوں میں گداز پیدا کرنے کی مشقتوں سے گزرنے کے بعد صوفیاء ہنستے بستے شہروں کو چھوڑ کر ویرانوں میں کیوں چلے جایا کرتے تھے۔