عالِم کی موت عالَم کی موت

سائنس داں کسی ملک کی میراث نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک صدقہ جاریہ جاری کرتے ہیں۔


Anis Baqar May 23, 2013
[email protected]

یہ حدیث تو خاصی مشہور ہے کہ حصول علم کے لیے اگر چین جانا پڑے تو چلے جاؤ، یہ بات تو آنحضرتؐ نے اس وقت کی جب عرب دنیا نئی نئی اسلام سے واقف ہوئی تھی، یعنی علم کے لیے حدود و قیود کی ضرورت نہیں جہاں بھی ملے وہ تمہاری ہی کھوئی ہوئی دولت ہے۔یعنی حصول علم کی کس قدر ضرورت اور منزلت ہے مگر ہمارے ملک میں اہل دانش، علم و ہنر کے متوالے کس قدر پسماندہ اور نظرانداز کیے گئے ہیں۔ جدید دنیا میں ایک سائنسدان اور محقق کی کس قدر اہمیت ہے اور یہاں کس قدر ہمارے حکمرانوں نے علم وحکمت کو کس قدر نظرانداز کیا ہے کہ بجٹ میں ایک فیصد رقم بھی اس مد پر خرچ نہیں ہوتی۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا تقریباً 30 برس قبل سری لنکا کے لوگ پاکستان سے اس قدر پیچھے تھے کہ جو کوئی حصول علم یا حصول روزگار کے لیے پاکستان آجاتا تھا اس کو سری لنکا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر رفتہ رفتہ سری لنکا کی حکومت نے تعلیم کو اہم ضرورت اور ترقی کی اول سیڑھی سمجھا اور اس مد میں 15 فیصد سے زیادہ رقم سالانہ بجٹ میں مخصوص کی گئی تو آج وہاں تعلیم کی شرح 90 فیصد سے زائد ہے، اس کا اثر یہ ہوا کہ 1970 سے تامل اور سنہلالی تعصب ختم ہوا اور تامل ٹائیگر آزاد ریاست کی جنگ ہار گئے، سری لنکا کے تامل بولنے والوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی، نسلی امتیاز، اور تامل علاقوں کو ترقیاتی حصہ نہ ملا، غربت بے روزگاری نے تامل عوام کو پربھاکرن کی قیادت میںمنظم کردیا مگر نسلی امتیاز کے خاتمے، ترقیاتی اخراجات میں اضافے اور تعلیم کی شرح میں اضافے نے صورت حال کو یکسر تبدیل کردیا۔

محرومی، ناانصافی نے ہمارے پختون علاقے میں جدید تعلیم کا نہ ہونا، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور ناانصافی نے ان کو اپنے موقف میں یکجا کردیا، حالات کی بے رحمی نے ایک جنگ شروع کردی، یہ جنگ نہ دائیں بازو کی ہے اور نہ بائیں بازو کی۔ کیونکہ جو خود کو بائیں بازو کا کہتے ہیں وہ وڈیرہ شاہی، سرمایہ داری کے نمایندے ہیں جنہوں نے ایک ملک میں کئی اقسام کے نظام تعلیم وضع کررکھے ہیں، یہ وجوہات بغاوت کے پنپنے کے لیے کافی ہیں نہ یہ مسئلہ بزور شمشیر حل ہوا ہے اور نہ ہوگا، بلکہ عوامی مسائل کو حل کرکے اور تدبیر کے ذریعے ہی ہوگا۔

حیف 65 برس گزرنے کے باوجود عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور دعوے بلند بانگ۔ پاکستان میں نظری فکری سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے مفاد پرستی، مصلحت پرستی کو مفاہمت کا نام دے دیا ہے، عہد شکنی، گمراہ کن راستوں پر چل کر عوام کو بے وقوف بنانا سیاسی جمہوری کھیل کہلاتا ہے ، ہاری زندگی ہار گیا، عالم غربت اور افلاس میں مبتلا مگر وڈیرے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ نہ ان طبقات کو صاحب علم کی ضرورت ہے اور نہ ان کا خیال، جو نان شبینہ سے محتاج۔

اس موقع پر آنحضرتؐ کی ایک اور حدیث سناتا چلوں جس میں رسول کریم محمد مصطفیٰؐ نے فرمایا کہ عالم کی موت عالم کی موت، یعنی ایک عالم کی موت کے معنی یہ ہوئے گویا پوری دنیا کا عظیم نقصان ہوا ہے، اس میں کسی نسل، مذہب، ذات کی شرط نہیں مگر ہمارے یہاں صاحبان علم کو نظرانداز کیا گیا۔ سائنس داں، محققین، ادیب، لکھاری، سماجی سائنس کے اسکالر ، علم فلسفہ، حکمت، منطق، اسرار دنیا کی تلاش۔

سائنس داں کسی ملک کی میراث نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک صدقہ جاریہ جاری کرتے ہیں، وہ تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھتے ہیں، چراغ سے برقی توانائی کا سفر، غار سے خلا کا سفر کرنے والوں کو ہمارے نبی کی تائید حاصل ہے مگر علم دشمنی ہمارے ملک کے حاکموں کا شیوہ بن گیا ہے۔ موقع پرستی کو سیاست کا حصہ بنادیا گیا ہے، عوام کی فلاح وبہبود کو نظرانداز کرنا محلوں کی تعمیر پھر شکست پر سوال کرنا کہ اسباب کیا ہیں؟ بقول مرزا غالب کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

آج پیپلزپارٹی میں چند لیڈروں کے علاوہ کوئی اہم عہدوں پر فائز نہیں جو بھٹو دور کی اسمبلی میں موجود تھے، 1970 کے انتخابات کے بعد کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ نارتھ ناظم آباد اور فیڈرل بی ایریا کے درمیان پیپلز کالونی محترمہ صغریٰ شمیم بیگ اور راقم نے بسائی اور کسی نے بھی کوئی پلاٹ نہ لیا مگر اب پی پی پی بلڈرز کی جماعت بنتی جارہی ہے، پارٹی کی نظریاتی اساس ختم ہوکر رہ گئی ہے، صاحبان علم ودانش، مزدور اور پارٹی رہنماؤں کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں، وہ سرکش دانشور جنہوں نے کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی ہاری حقدار تحریک کے لیے کراچی سے نوابشاہ تک پیدل سفر کیا کسی کو بھی ان کی قربانی یاد نہیں،

ایوب خان کا مارشل لاء محض اس لیے لگایا گیا کہ ملک انقلاب کے دہانے پر تھا، سندھ میں ہاری منظم ہوچکے تھے، 1957 کا ابتدائی دور تھا کہ حیدربخش جتوئی کی آواز پر کراچی سے دانشوروں اور مزدوروں ادیبوں کا ایک قافلہ پیدل نوابشاہ تک پہنچا تھا، تقریباً 200 کلومیٹر چاکنگ کرتا، دیواروں پر لکھتا، گاؤں گاؤں کارنر میٹنگ کرتا نوابشاہ کے لیے نکلا، اس قافلے کے بیشتر سرفروش اب زندہ نہیں، اس قافلے میں کاوش رضوی، ہادی نقوی، الطاف آزاد اور دیگر افراد تھے، آج اس کارواں کے واحد سرفروش کامریڈ کاوش رضوی حیات ہیں۔

مگر پاؤں سے معذور، عزت و ناموس لیے سامان عسرت سمیٹے بیٹھے ہیں، جو دور ضیاء الحق میں ایک کوہ گراں تھے دور جوانی بھی نہ عشرت میں گزرا، سرفروشی کی تمنا لیے بائیں بازو کی قیادت کرتے رہے مگر ایسے لوگوں کو نہ نمود کی پرواہ نہ زمانے کے نظرانداز کیے جانے کا دکھ، وہ اب بھی یہ سوچ رہے تھے کہ کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی یاد میں جو جلسہ 21 مئی کو حیدرآباد سندھ میں ہوا اس میں شرکت کرتے مگر معذوری پاؤں کی ان کو مجبور کیے بیٹھی ہے، وہ اپنے ضمیر کی قید میں مگن ہیں اور پرامید بھی۔

کون ہے جو صاحبان علم کی پذیرائی کرے، تیسری دنیا کے ممالک اب چوتھی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں، نہ عالم کا رتبہ ہے نہ قلم کار کا، بس چلتا ہے اب زور ساہوکار کا۔ یہی ہمارے ملک کے ناظمین کا وطیرہ ہے مگر بے نظیربھٹو کے دور اول میں کچھ علم وادب، فنون اور سائنس پر توجہ دی گئی، ادبی کانفرنسوں کا انعقاد اردو اکادمی پر توجہ، پرورش لوح و قلم کا قدرے دھیان رہا، پارٹی کے لوگوں کے مشوروں پر توجہ، غلطی پر نادم ہونا، کارکنوں کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔ قائد کی آواز پر لبیک کون کہے گا، کون مرے گا، سرفروشی کے نعرے وہی لوگ تخلیق کرتے ہیں جن کے دلوں میں دکھ کے آتش فشاں جنم لیتے ہیں، یہ اہل ثروت نہیں اہل دانش ہوتے ہیں، جس پارٹی میں جنوں پیشہ لوگ نہیں ہوتے اشتہارات ان پارٹیوں کو نہیں چلا چلاسکتے۔ حال ہی میں پیپلزپارٹی کے ایک رکن قومی اسمبلی سے ملاقات ہوئی انھوں نے کہا برادر پارٹی کو ضیاء الحق ختم نہ کرسکا آمروں سے پارٹی ٹکراتی رہی مگر افسوس اب بھٹو قتل ہوگئے ان کے نظریات فروخت ہوگئے۔

دو احادیث نبوی آپ کو سنائی ہیں، اب آپ حضرت علی مرتضیٰؓ کا یہ قول سنیے جو نظریات اور دوستی کے موضوع پر ہے آپ فرماتے ہیں ''باشعور اور باضمیر لوگوں کے بیچ دوستی کا رشتہ خون کے رشتوں سے کہیں زیادہ قریب اور گہرا ہوتا ہے'' انقلابات اور جان کی قربانی دینے والے انھی نظریاتی بندھنوں سے جڑے ہوئے ہیں یہ آفاقی قول ہے، زر کے مسئلے پر ہوسکتا ہے آپ کا بھائی ایک مرتبہ اپنا کاروباری یا جائیداد کا حصہ تلخی سے مانگے گا مگر نظریاتی دوست کا رشتہ اس سے کہیں بلند ہے، علم، عالم اور عالم تمام اسی دائرے کے گرد رقص میں مصروف ہیں،

اسی لیے آنحضرتؐ ہمارے آقا نے عالم اور عالم کی فضیلت کو سمجھایا ہے کیونکہ ترقی اسی سے ممکن ہے مگر ملک میں دانشوروں اور کوہ کنوں کو نظرانداز کرکے کاروباری پہیہ چلانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ بجلی کی کمی، گیس کی کمی، انرجی اور معاشی بحران پر ہرگز قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، بحران دراصل جہالت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں، بڑا کاروبار علم کا محتاج ہے، لہٰذا اہل علم و دانش کو جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج کے حاکموں سے بہتر تو اکبر اعظم کی سوچ تھی کہ اس نے مختلف امور پر ماہر نو رتن رکھے تھے، اسی لیے باقی بادشاہ مغلیہ سلطنت ہیں مگر اکبر اسم کے سابقہ لفظ اعظم لگا ہوا ہے۔ آج فرسٹ ورلڈ(First World) اس لیے فرسٹ ورلڈ ہے کہ وہاں شاعر، ادیب، دانشور، صحافی، سائنسدان، مصور، عالم دین و دنیا کی قدروقیمت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں