پاکستان کا مطلب کیا
آج ایماندار لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے ایماندار ہونے سے کیا معاشرہ تبدیل ہو جائے گا۔
ہاں بھئی ہن دس رب کول اے کہ گھسن ؟
یہ جملہ میں نے آج سے تقریباً 25/30برس پہلے ویگن میں سفر کرتے ہوئے سنا ۔ اپنی کسی بات کے اختتام پر یہ جملہ ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ جب کہ دوسرے آدمی نے جواب میں پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا سر جھکا لیا۔ میں تب ویگن سے اپنے متعلقہ اسٹاپ پر اتر آیا لیکن اس جملے نے مجھے کسی آکاس بیل کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ذہن میں سوال گردش کرنے لگے کہ یہ کیا بات کہہ دی اس شخص نے ؟یہ کیا بات ہوئی اللہ تو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ آخر وہ کیا کہنا چاہتا تھا ۔
کئی ماہ و سال گزر گئے اسکول سے کالج ، کالج سے زندگی اور پھر زندگی کے نشیب و فراز ، عملی زندگی ، بال بچے ، غرضیکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا۔ لیکن اب زندگی میں جگہ جگہ پر مختلف مواقع پر آپ سے کہنے والا کہہ تو کچھ اور رہا ہوتا ہے۔ لیکن سنائی یہی دیتا ہے۔ کہ ہاں بھئی ہن دس رب کول اے کہ گھسن ؟....
بڑے بڑے ملک اور طاقتیں جب اپنی طاقت اور معیشت کے نشے میں چور کمزور ملکوں کو اپنی پسند کے Options دیتی ہیں تو یہی جملہ سنائی دینے لگتا ہے۔ بڑے بڑے بیورو کریٹ ، اعلی افسران اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے جب اپنے ہمعصر لیکن ایماندار افسران یا جونئیرز پر اپنی شاندار اور نام نہاد حکمت عملی اور وقتی کامیابی کا رعب ڈالتے ہیں تو شاید یہی کہتے ہیں ۔
بڑے بڑے لیڈران جو اپنے مداحوں ، جانثاروں اور فدائین کی ایک بڑی تعداد پر حکمرانی کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے نہ ماننے والوں یا مخالفین کو اپنی طاقت کے زور پر یہی کچھ کہتے ہیں کہ ہاں ''ہن دس رب کول اے کہ گھسن '' ؟
معزز خواتین اپنی اولاد اور اپنے پیارے سب کو پیارے ہوتے ہیں اولاد چاہے شاہ کی ہو یا گدا کی اس سے اگر کانٹا بھی چبھ جائے تو دل دہل کر رہ جاتا ہے سارے آدرش ، نظریات ، Convictionڈاواں ڈول ہونے لگتے ہیں۔ مجبوری کا نام مصلحت رکھ دیا جاتا ہے۔ بے بسی تدبر کا روپ دھار لیتی ہے۔ بس میرے لعل کو کچھ نہ ہو ، میرے جگڑ کے ٹکڑے کی جان بچ جائے ۔
تاریخ میں فرعونوں اور فلموں میں ولن نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر جب کمزور پر ظلم کیا تو نعوذ بااللہیہ بھی کہہ دیا کہ اب تو خدا بھی تمہاری مدد نہیں کر سکتا اور پھر آسمان اپنا رنگ بدلتا ہے قدرت اپنی شان دکھاتی ہے اور ظالم نیست و نابود ہوکر رہ جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی سوال یہ ہے کہ آپ کتنے ہی بڑے ملک کیوں نہ ہوں ، چاہے آپ کتنے ہی بڑے حکمران ، ڈان یا مافیا کنگ ہی کیوں نہ ہوں۔ آخر وہ ایک کونسی اسٹیج یا ذہنی کیفیت آتی ہے جب انسان اپنے آپ کو ''عقل کل ''ہی نہیں بلکہ ''کل ''سمجھنے لگتا ہے۔ یہ غلط فہمی کب پیدا ہوتی ہے؟ لگتا ہے یہ بڑے بول ہی نمرود ، شدّاد اور یزید پیدا کرتے ہیں۔ ان کے انجام سے بھی سب واقف ہیں لیکن ہر زمانہ اپنے عبرت کے سامان رکھتا ہے تا کہ آیندہ آنے والے چوکنے اور خبردار رہیں۔
آج ایماندار لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے ایماندار ہونے سے کیا معاشرہ تبدیل ہو جائے گا۔ غریب کا بچہ اپنے حقوق جاننے لگے تو اس کی کاوش کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ بڑے گھروں کے بچے اور بچیاں ملک کے لیے باہر نکلیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ ممی ڈیڈی بچے ہیں۔ نازوں کے پلے ہیں دیکھنا ایک دو دن میں انقلاب ، تبدیلی اورChangeکا بھوت اتر جائے گا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اسکول ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں جب جب اپنے اُجلے ، تازہ اور نئے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو ہم جیسے انھیں یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ بیٹا ہم بھی کالج میں ایسی بہت سی باتیں کرتے تھے۔ عملی زندگی میں آئو گے تو پتہ چلے گا۔ سارا جذبہ دہرا کا دہرا رہ جائے گا وغیرہ وغیرہ...سب پر نوجوانی میں ایسے Phaseآتے ہیں۔
بڑے بڑے تجزیہ نگار اور مبصر مختلف مباحثوں اور تحریروں میں پاکستان کے SecularیاNon Secularریاست ہونے پر بہت بحث کرتے ہیں ۔ بڑی بڑی شخصیات کے بیانات، اور اقوال اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جیسے پاکستان کا مطلب کیا ۔لا الہ الا اﷲ! کیا یہ صرف ایک نعرہ تھا یا کچھ اور !تو مان لیجیے کہ اس کے معنی ہیں '' کوئی نہیں ہے مالک /حاکم سوائے اللہ کے ''لیکن آج آپ اور میں اپنی مرضی کے کتنے ہی خدا بنا بیٹھے ہیں۔ جو مختلف دفتروں میں ، بڑی بڑی کرسیوں پر اپنی تنظیموں میں اپنی طاقت کے نشے میں چور جب ہمیں مختلف طرز کے نتائج کی دھمکی دیتے ہیں تو گویا ہم سے یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہن دس رب کول اے کہ گھسن ۔
معزز قارین ! ہمارے بزرگوں نے تو اس دیس کا خواب دیکھا تھا جہاں خوف خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہولیکن اب خوف ہی خوف ہے۔ کیونکہ خوف خدا نہیں ہے۔
آج سے تقریباً سات برس پہلے لاہور کے ایک چوک پر سیکیورٹی روٹ لگا ہوا تھا۔اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی سواری کو گزرنا تھا سو چاروں طرف کی ٹریفک کو روک دیا گیا ، ایک بوڑھے بابا جی اپنی سائیکل کے ساتھ بھی رکے ہوئے تھے ۔ سیکیورٹی پر موجود اہلکار کچھ شرمندہ سا تھا کہ ان بزرگ کو بھی انتظار کر نا پڑ رہا ہے۔ بابا جی نے جب ٹریفک رکنے کی وجہ دریافت کی تو سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ صدر مملکت نے گذرنا ہے۔ ان کی سیکیورٹی کے لیے روٹ لگا ہوا ہے۔ روٹ کھلنے پر سیکیورٹی اہلکار نے ان سے معذرت چاہی تو بابا جی کہنے لگے کوئی بات نہیں بیٹا جو اللہ سے نہیں ڈرتا وہ سب سے ڈرتا ہے۔ اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا، یہ کہتے ہوئے بابا جی نے پیڈل پر پیر رکھا اور خدا حافظ کہتے ہوئے نکل گئے ۔
سو میری اتنی گزارش ہے کہ ڈریں اس وقت سے جب آپ کے بچے آپ سے ڈر اور خوف کی وجہ دریافت کرنے لگیں۔ بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ اگر کلمہ حق کہنا ہو یا لکھنا ہو اس کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ یاد رہے بچوں کو ترجمے کے ساتھ پہلا کلمہ پڑھایا جاتا ہے اس لیے اگر ان سے کسی نے پوچھا کہ رب کول اے کہ گھسن ؟تو وہ یہی کہیں گے کہ رب کیونکہ وہ کلمے کے معنی بھی جانتے ہیں ۔ اور پاکستان کا مطلب بھی !