تحریک انصاف کی کامیابی
عمران خان کی کامیابیاں اپنی جگہ لیکن الیکشن نتائج سے ان کی کمزوریاں بھی سامنے آئی ہیں۔
عمران خان کی تحریک انصاف نے گیارہ مئی کے الیکشن میں ملک بھر سے 76 لاکھ سے زیادہ ووٹ اور قومی اسمبلی کی اٹھائیس نشستیں جیت کر قومی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2008ء کے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ (نواز) نے تقریباً 80 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے گو اس کی نشستیں 72تھیں۔ تحریک انصاف ملک میں دوسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے حالانکہ اس نے اپنا سفر صفر سے شروع کیا تھا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں اسے ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ووٹ اور قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست حاصل ہوئی تھی۔
2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے جس طرح 46 سال پرانی پیپلزپارٹی کو پچھاڑ کر اپنے لیے جگہ بنائی ہے وہ متاثرکُن ہے۔ الیکشن سے پہلے پیپلزپارٹی کے رہ نما تجزیے پیش کرتے تھے کہ عمران خان کی مقبولیت کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوگا اور یہ جماعت اس کے ووٹ توڑے گی۔ ان کا خیال تھا کہ ووٹوں کی اس تقسیم کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوگا جس کا ووٹ بینک اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ یہ تخمینہ غلط ثابت ہوا۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی کو ملک بھر سے ایک کروڑ چودہ لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن 11؍مئی کے انتخابات میں یہ ووٹ بینک کم ہو کر 68 لاکھ رہ گیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کی پانچ برس تک ناقص کارکردگی کے باعث اس کے کم سے کم آدھے حامیوں نے اس کا ساتھ چھوڑ کر تحریک انصاف کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا۔ خاص طور سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ صوبوں میں۔
پیپلزپارٹی کے بعد تحریک انصاف وہ جماعت ہے جو ملک کے تین بڑے صوبوں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں عوامی تائید اور حمایت حاصل کر سکی۔ پنجاب میں تحریک انصاف نے گو زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل نہیں کی لیکن جو سیٹیں مسلم لیگ (ن) نے جیتی ہیں ان میں سے زیادہ تر ایسی ہیں جہاں تحریک انصاف کے امیدوار دوسرے نمبر پر آتے ہیں اور انھوں نے 40 سے 70 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے امیدوار تو لاہور جیسے بڑے شہر میں قومی اسمبلی کے حلقوں میں تین سے سات ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔ خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے عوام نے مسلم لیگ (ن) کی متبادل جماعت کے طور پر تحریک انصاف کا انتخاب کیا اور پیپلزپارٹی کا پتّہ کاٹ دیا۔
تحریک انصاف کی کامیابی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ملک میں گزشتہ دو دہائیوں میں جنم لینے والے تعلیم یافتہ متوسط طبقہ کی نمایندہ جماعت بن کر سامنے آئی ہے جب کہ مسلم لیگ ن کو پنجاب کے دکانداروں اور کاروباری طبقہ کی بھاری حمایت حاصل ہے۔ تعلیم یافتہ متوسط طبقہ اپنے ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے اور یہاں قانون کی حکمرانی دیکھنا چاہتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی اکثریت ایسے روایتی سیاستدانوں پر مشتمل ہے جو جدید تصور حکمرانی اور قانون کی بالادستی ایسے تصورات سے گریزاں ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا اور نئی نسل کی تعداد بڑے گی، تحریک انصاف کی مقبولیت مزید بڑھے گی۔ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ تحریک انصاف کے حامی گیارہ مئی کو اسے ووٹ دینے کے لیے عرب ملکوں اور شمالی امریکا سے اپنا کام کاج چھوڑ کر پاکستان آئے۔ ملک کے اندر اور بیرون ملک مقیم متوسط طبقہ کا فعال سیاسی کردار ایک نئی چیز ہے اور جمہوری عمل کے استحکام کا باعث بنے گا۔
11؍مئی کے الیکشن کے سب سے حیران کُن نتائج کراچی میں نکلے جہاں تحریک انصاف کوئی بڑی الیکشن مہم چلائے بغیر دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ ایسے شہر میں جہاں مسلّح، نسلی و لسانی گروپوں میں خوں ریزی جاری ہے اور پُرامن سیاسی عمل کی راہ مسدود کر دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے امیدواروں نے چالیس سے پچاس ہزار ووٹ لے کر آشکار کر دیا کہ شہر کی خاموش اکثریت میں نیا رجحان پروان چڑھ چکا ہے۔ کراچی کے شہری خون خرابہ اور تشدد کی سیاست کی بجائے نئی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کراچی کے لوگ بوجوہ آج تک نوازشریف کو متبادل لیڈر کے طور پر قبول نہیں کر سکے اور نہ ماضی میں بینظیر بھٹو کو اپنا قائد تسلیم کر سکے لیکن انھوں نے عمران خان کو سندِ قبولیت دینے کا واضح پیغام دیا ہے۔ ملک کے وفاقی نظام اور قومی یکجہتی کے لیے یہ ایک نیک شگون ہے۔ عمران خان اسے قائم رکھنے اور توسیع دینے میں کامیاب ہو گئے تو اگلے عام الیکشن نسلی و لسانی قوتوں کے لیے بھاری ثابت ہوں گے۔
2013ء کے جنرل الیکشن کے بارے میں تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے لیے خاصا مشکل تھا کیونکہ عمران خان اپنے جلسے، جلوسوں کے ذریعے اپنی مقبولیت ثابت کر چکے تھے لیکن ان کے ووٹ بینک کا ماضی میں کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ تاہم اب تمام جماعتوں کی عددی طاقت سامنے آ چکی ہے۔ دھاندلی کے الزامات اگر تسلیم کر لیے جائیں تب بھی ووٹ ڈالنے کے رجحانات میں دس پندرہ فیصد سے زیادہ کی کمی بیشی ممکن نہیں۔ کراچی کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ وہاں بوگس ووٹنگ کی شرح ملک کے دوسرے حصّوں سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی سیاسی جماعت زوال کا شکار ہو تو اسے بحال ہوتے ہوتے بیس پچیس سال لگتے ہیں۔ 1970ء میں مسلم لیگ زوال پذیر ہوئی تھی اور 1990ء کی دہائی کے وسط میں جا کر دوبارہ طاقت پکڑ سکی۔ اب پیپلزپارٹی کا پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں جو انحطاط ہوا ہے اس کے اگلے پانچ دس برسوں میں بحال ہونے کی اُمید نظر نہیں آتی۔
عمران خان کی کامیابیاں اپنی جگہ لیکن الیکشن نتائج سے ان کی کمزوریاں بھی سامنے آئی ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدواروں نے پختون علاقوں اور پنجاب کے شہری متوسط طبقہ کے علاقوں میں جیسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ پنجاب کے دیہاتوں اور کم آمدن والے علاقوں میں ایسا نہیں کر سکے۔ مثلاً عمران خان کے امیدوار لاہور میں دیہی حلقہ این اے 130 اور کم آمدن کے علاقوں پر مشتمل حلقہ این اے 124 میں اتنے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر سکے جتنے دوسرے امیدواروں نے شہری اور متوسط آمدن کے علاقوں سے حاصل کیے۔ عمران خان کے سیاسی پروگرام اور نعروں میں ایک شدید کمی اس بات کی محسوس کی گئی کہ ان میں ملک کے 80 فیصد غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ٹھوس اور واضح اعلان شامل نہیں تھا۔
کرپشن سے نجات، نظام کی تبدیلی اور اچھی حکمرانی جیسے نعرے درمیانے طبقہ کے لیے تو کشش رکھتے ہیں لیکن جو غریب لوگ دو وقت کی روٹی اور اپنی بقا کی جنگ میں مشغول ہیں انھیں اس سے بڑھ کر کسی چیز کی ضرورت ہے۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا تھا لیکن اس پر عمل نہ کر سکی۔ عمران خان کو ملک کی غریب ترین آبادی تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اور انھیں اپنی طرف راغب کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنا پڑے گی۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت اور قومی سطح پر عمران خان کی اپوزیشن لیڈر کے طور پر کارکردگی بھی تحریک انصاف کے مستقبل کا تعین کرے گی۔
2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے جس طرح 46 سال پرانی پیپلزپارٹی کو پچھاڑ کر اپنے لیے جگہ بنائی ہے وہ متاثرکُن ہے۔ الیکشن سے پہلے پیپلزپارٹی کے رہ نما تجزیے پیش کرتے تھے کہ عمران خان کی مقبولیت کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوگا اور یہ جماعت اس کے ووٹ توڑے گی۔ ان کا خیال تھا کہ ووٹوں کی اس تقسیم کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوگا جس کا ووٹ بینک اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ یہ تخمینہ غلط ثابت ہوا۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی کو ملک بھر سے ایک کروڑ چودہ لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن 11؍مئی کے انتخابات میں یہ ووٹ بینک کم ہو کر 68 لاکھ رہ گیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کی پانچ برس تک ناقص کارکردگی کے باعث اس کے کم سے کم آدھے حامیوں نے اس کا ساتھ چھوڑ کر تحریک انصاف کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا۔ خاص طور سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ صوبوں میں۔
پیپلزپارٹی کے بعد تحریک انصاف وہ جماعت ہے جو ملک کے تین بڑے صوبوں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں عوامی تائید اور حمایت حاصل کر سکی۔ پنجاب میں تحریک انصاف نے گو زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل نہیں کی لیکن جو سیٹیں مسلم لیگ (ن) نے جیتی ہیں ان میں سے زیادہ تر ایسی ہیں جہاں تحریک انصاف کے امیدوار دوسرے نمبر پر آتے ہیں اور انھوں نے 40 سے 70 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے امیدوار تو لاہور جیسے بڑے شہر میں قومی اسمبلی کے حلقوں میں تین سے سات ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔ خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے عوام نے مسلم لیگ (ن) کی متبادل جماعت کے طور پر تحریک انصاف کا انتخاب کیا اور پیپلزپارٹی کا پتّہ کاٹ دیا۔
تحریک انصاف کی کامیابی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ملک میں گزشتہ دو دہائیوں میں جنم لینے والے تعلیم یافتہ متوسط طبقہ کی نمایندہ جماعت بن کر سامنے آئی ہے جب کہ مسلم لیگ ن کو پنجاب کے دکانداروں اور کاروباری طبقہ کی بھاری حمایت حاصل ہے۔ تعلیم یافتہ متوسط طبقہ اپنے ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے اور یہاں قانون کی حکمرانی دیکھنا چاہتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی اکثریت ایسے روایتی سیاستدانوں پر مشتمل ہے جو جدید تصور حکمرانی اور قانون کی بالادستی ایسے تصورات سے گریزاں ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا اور نئی نسل کی تعداد بڑے گی، تحریک انصاف کی مقبولیت مزید بڑھے گی۔ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ تحریک انصاف کے حامی گیارہ مئی کو اسے ووٹ دینے کے لیے عرب ملکوں اور شمالی امریکا سے اپنا کام کاج چھوڑ کر پاکستان آئے۔ ملک کے اندر اور بیرون ملک مقیم متوسط طبقہ کا فعال سیاسی کردار ایک نئی چیز ہے اور جمہوری عمل کے استحکام کا باعث بنے گا۔
11؍مئی کے الیکشن کے سب سے حیران کُن نتائج کراچی میں نکلے جہاں تحریک انصاف کوئی بڑی الیکشن مہم چلائے بغیر دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ ایسے شہر میں جہاں مسلّح، نسلی و لسانی گروپوں میں خوں ریزی جاری ہے اور پُرامن سیاسی عمل کی راہ مسدود کر دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے امیدواروں نے چالیس سے پچاس ہزار ووٹ لے کر آشکار کر دیا کہ شہر کی خاموش اکثریت میں نیا رجحان پروان چڑھ چکا ہے۔ کراچی کے شہری خون خرابہ اور تشدد کی سیاست کی بجائے نئی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کراچی کے لوگ بوجوہ آج تک نوازشریف کو متبادل لیڈر کے طور پر قبول نہیں کر سکے اور نہ ماضی میں بینظیر بھٹو کو اپنا قائد تسلیم کر سکے لیکن انھوں نے عمران خان کو سندِ قبولیت دینے کا واضح پیغام دیا ہے۔ ملک کے وفاقی نظام اور قومی یکجہتی کے لیے یہ ایک نیک شگون ہے۔ عمران خان اسے قائم رکھنے اور توسیع دینے میں کامیاب ہو گئے تو اگلے عام الیکشن نسلی و لسانی قوتوں کے لیے بھاری ثابت ہوں گے۔
2013ء کے جنرل الیکشن کے بارے میں تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے لیے خاصا مشکل تھا کیونکہ عمران خان اپنے جلسے، جلوسوں کے ذریعے اپنی مقبولیت ثابت کر چکے تھے لیکن ان کے ووٹ بینک کا ماضی میں کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ تاہم اب تمام جماعتوں کی عددی طاقت سامنے آ چکی ہے۔ دھاندلی کے الزامات اگر تسلیم کر لیے جائیں تب بھی ووٹ ڈالنے کے رجحانات میں دس پندرہ فیصد سے زیادہ کی کمی بیشی ممکن نہیں۔ کراچی کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ وہاں بوگس ووٹنگ کی شرح ملک کے دوسرے حصّوں سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی سیاسی جماعت زوال کا شکار ہو تو اسے بحال ہوتے ہوتے بیس پچیس سال لگتے ہیں۔ 1970ء میں مسلم لیگ زوال پذیر ہوئی تھی اور 1990ء کی دہائی کے وسط میں جا کر دوبارہ طاقت پکڑ سکی۔ اب پیپلزپارٹی کا پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں جو انحطاط ہوا ہے اس کے اگلے پانچ دس برسوں میں بحال ہونے کی اُمید نظر نہیں آتی۔
عمران خان کی کامیابیاں اپنی جگہ لیکن الیکشن نتائج سے ان کی کمزوریاں بھی سامنے آئی ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدواروں نے پختون علاقوں اور پنجاب کے شہری متوسط طبقہ کے علاقوں میں جیسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ پنجاب کے دیہاتوں اور کم آمدن والے علاقوں میں ایسا نہیں کر سکے۔ مثلاً عمران خان کے امیدوار لاہور میں دیہی حلقہ این اے 130 اور کم آمدن کے علاقوں پر مشتمل حلقہ این اے 124 میں اتنے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر سکے جتنے دوسرے امیدواروں نے شہری اور متوسط آمدن کے علاقوں سے حاصل کیے۔ عمران خان کے سیاسی پروگرام اور نعروں میں ایک شدید کمی اس بات کی محسوس کی گئی کہ ان میں ملک کے 80 فیصد غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ٹھوس اور واضح اعلان شامل نہیں تھا۔
کرپشن سے نجات، نظام کی تبدیلی اور اچھی حکمرانی جیسے نعرے درمیانے طبقہ کے لیے تو کشش رکھتے ہیں لیکن جو غریب لوگ دو وقت کی روٹی اور اپنی بقا کی جنگ میں مشغول ہیں انھیں اس سے بڑھ کر کسی چیز کی ضرورت ہے۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا تھا لیکن اس پر عمل نہ کر سکی۔ عمران خان کو ملک کی غریب ترین آبادی تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اور انھیں اپنی طرف راغب کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنا پڑے گی۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت اور قومی سطح پر عمران خان کی اپوزیشن لیڈر کے طور پر کارکردگی بھی تحریک انصاف کے مستقبل کا تعین کرے گی۔