ریٹرننگ افسروں سے صدر کا گلہ

توقع تو یہی ہے کہ صدر زرداری ستمبر تک صدارت پر فائز رہیں گے اور نواز شریف بھی انھیں مزید برداشت کرلیں گے۔

صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ اگر مجھے ان عام انتخابات کی طرح کے ریٹرننگ افسر مل گئے تو دوبارہ صدارتی انتخابات لڑوں گا اور اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت بننے کے بعد اپنی مدت پوری کروں گا اور استعفیٰ نہیں دوں گا۔ صدر زرداری نے کہا کہ مجھے پہلے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا تاکہ میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم خود چلاسکتا کیونکہ پی پی کی انتخابی مہم چلانے والا کوئی رہنما انتخابی میدان میں نہ ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی اپنی بعض نشستیں دوبارہ حاصل نہیں کرسکی، کیونکہ دونوں سابق وزیراعظم کہیں اور پھنسے ہوئے تھے اور چند مزید نشستوں کے لیے پیپلز پارٹی اپنے نوجوان چیئرمین کی جان کو خطرے میں ڈالنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔ صدر زرداری نے لاہور میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہنا بھی مناسب نہیں ہے کہ طالبان کی وجہ سے پیپلز پارٹی انتخابی مہم نہیں چلاسکی۔

پیپلزپارٹی کے ساتھ انتخابات میں جو کچھ ہونے والا تھا اس کی پیش گوئی حکومتی اتحادیوں کی مخالف تمام پارٹیاں، عوامی اور سماجی حلقے، ملک کی عمومی صورت حال، ملک کا میڈیا ہی نہیں بلکہ غیر ملکی میڈیا بھی کررہا تھا مگر صدر زرداری سمیت ان کا کوئی بھی رہنما اور اتحادی حقائق ماننے کو تیار نہیں تھے اور سب سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان عروج پر پہنچی ہوئی انتخابی لڑائی کا فائدہ ہر صورت پیپلزپارٹی کو ملے گا۔ ووٹ تقسیم ہوجائیں گے اور پیپلزپارٹی کو اتنی نشستیں آسانی سے مل جائیں گی کہ اتحادیوں سے مل کر دوبارہ باآسانی حکومت بنائی جاسکے۔

ملکی سیاست میں آثار بھی ایسے تھے اور پی پی حلقوں کی طرف سے کہا بھی جارہا تھا کہ ''اگلی باری پھر زرداری''۔ پنجاب میں (ن) لیگ اور تحریک انصاف ہر جگہ بڑے بڑے جلسے کر رہی تھیں اور قومی سطح پر صرف یہی دو جماعتیں نظر آرہی تھیں۔ دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار اے این پی اپنے قائد کے اسلام آباد میں ہونے کے باعث پیپلزپارٹی کی طرح خاموش ہوکر نہیں بیٹھی تھی اور محدود طور پر ہی اپنی انتخابی مہم چلا رہی تھی۔ متحدہ نے بھی سیالکوٹ اور جہانیاں میں پنجاب میں دو جلسے کیے مگر پورے ملک میں کہیں بھی پیپلز پارٹی نے اپنا کوئی جلسہ نہیں کیا تاکہ الطاف حسین کی طرح اس جلسے سے اپنے دبئی میں موجود نوجوان چیئرمین سے ٹیلیفونک خطاب ہی کراسکتی۔ طالبان کی دھمکی صرف پیپلز پارٹی کے لیے نہیں تھی۔

طالبان کی حامی جماعتیں بھی اپنے جلسوں کے دوران دہشت گردی کا نشانہ بنیں اور ملک میں کہیں بھی خصوصی طور پر اندرون سندھ بھی پیپلزپارٹی کے کسی بڑے جلسے پر تو کیا کسی کارنر میٹنگ یا ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم پر حملہ نہیں ہوا۔ لیاری کے بم دھماکے میں بھی طالبان ملوث نہیں تھے بلکہ وہ بھی لیاری کے گینگ وار کی لڑائی بتائی گئی تھی۔ جس پر پیپلزپارٹی نے اپنی انتخابی مہم بند نہیں کردی تھی۔ کراچی میں بھی بعض بم دھماکے ڈرامے تھے ۔صدر زرداری نے قوم کو اپنی پارٹی کے دو ایسے وزیراعظم دیے تھے جن کی حکومت کے خاتمے کے بعد کوئی قومی حیثیت نہیں تھی۔


مخدوم امین فہیم کرپشن میں ملوث ہونے سے قبل تک اچھی شہرت کے حامل سمجھے جاتے تھے مگر وہ اپنے ضلع میں اپنی آبائی نشستوں کو بچانے میں مصروف رہے۔ یوسف رضا گیلانی کا بیٹا ایک ماہ قبل نہیں بلکہ تین چار روز قبل اغواء ہوا تھا۔ راجہ پرویز اشرف صرف ایک بار سپریم کورٹ طلب کیے گئے اور بعد میں ان کے کاغذات بھی بحال ہوگئے تھے جس کی وجہ سے وہ بھی یوسف رضاگیلانی کی طرح اپنی نشست بچانے کے لیے اپنے حلقے تک محدود تھے جہاں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویز اشرف اور مخدوم امین فہیم کے علاوہ چوتھے پی پی پی رہنما رحمن ملک تھے جن کی ملک میں کوئی شناخت تھی مگر ان چاروں کی شہرت اچھی نہ تھی اور انھیں عوامی مقبولیت بھی حاصل نہیں تھی۔

صدر زرداری صدر بننے کے بعد بھی قومی رہنما نہیں سمجھے جاتے بلکہ ملک کا صدر اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا جانشین جانے جاتے ہیں، انھیں چاہیے تھا کہ عام انتخابات سے قبل صدارت سے مستعفی ہوجاتے اور پیپلزپارٹی کی انتخابی قیادت کرتے مگر انھوں نے اپنی حکومت کو بھی پورے 5 سال مکمل کرائے۔ اگر صدر زرداری چند ماہ قبل سردیوں میں عام انتخابات کرادیتے تو قوم کو مئی کی کڑی دھوپ اور لوڈشیڈنگ کے عذاب میں ووٹ دینے نہ نکلنا پڑتا تو ہوسکتا تھا وہ پیپلزپارٹی سے ایسا انتقام نہ لیتے۔ لوڈشیڈنگ کے معاملے میں پنجاب سے جو سلوک کیا گیا اسے مسلم لیگ ن نے خوب کیش کرایا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے دونوں وزرائے اعظم نے بھی گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اپنے صوبے سے ہونے والے امتیازی سلوک کو نہیں روکا۔

یوسف رضاگیلانی کے خاندان کی کرپشن کے تو ملک میں چرچے تھے ہی مگر ان کی نااہلی کے بعد باقی 9 ماہ کے لیے بھی ملک کو اچھی شہرت اور دیانتداری کا حامل وزیراعظم نہیں دیا گیا اور راجہ صاحب نے وزیراعظم بن کر بھی ملک و قوم کو کچھ نہیں دیا۔ لوگ حیران تھے کہ کیا پیپلز پارٹی کے پاس ایسا کوئی بھی رکن قومی اسمبلی نہیں جو باقی 9 ماہ کے اقتدار میں آکر ماضی کے سوا چار سالہ دور کی بدنامیوں کی تلافی کرا سکتا اور شہرت حاصل کرلیتا۔

دہشت گردی کے خوف سے خود صدر زرداری، دونوں وزیراعظم، وزرا اور پی پی رہنما حفاظتی حصار میں محفوظ ہوکر قوم تو کیا اپنی پارٹی تو کیا پی پی کے جیالوں سے بھی دور ہوچکے تھے۔ صدر زرداری نے ہر ماہ لاہور آنے کا وعدہ پورا کیا نہ ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے جس کاردعمل قوم نے 11 مئی کو پیپلزپارٹی کو دیدیا ہے۔ توقع تو یہی ہے کہ صدر زرداری ستمبر تک صدارت پر فائز رہیں گے اور نواز شریف بھی انھیں مزید برداشت کرلیں گے۔ صدر زرداری کے منصوبے ججز بحالی تحریک میں بھی ناکام رہے تھے اور اب شریف برادران کے خلاف اربوں روپے کی تشہیری مہم چلاکر بھی ناکام ہوچکے ہیں اور اب قوم شریف برادران پر اعتماد کا اظہار کرچکی ہے۔ اب (ن)لیگ، پی پی، تحریک انصاف کے عوامی مینڈیٹ کا تینوں پارٹیوں کو احترام کرنا ہوگا اور آپس کی مزاحمت کی بجائے ملک و قوم کے مفاد میں محاذ آرائی، انا، خود غرضی اور سیاسی مفاد کے حصول سے گریز کرکے بعض اہم قومی مسائل کے حل کے لیے مل کر بیٹھنا ہوگا اور موجودہ مسائل کا حل نکالنا ہوگا کیونکہ آیندہ انتخابات کے لیے بعد میں بھی آپس میں لڑاجاسکتا ہے۔
Load Next Story