جناب وزیراعظم فرد نہ رہیں عوام بن جائیں

آپ موروثی سیاست کے اس دائرے کو توڑ سکتے ہیں، بہ شرطیکہ آپ مصائب کی پانچ گھاٹیاں عبور کر کے عوام کو یک جا کر دیں۔

جناب عمران خان!

عوام کو اس سے قطعی غرض نہیں کہ وزیراعظم کتنی بچت کررہا ہے۔ انھیں اس کی بھی پروا نہیں کہ زرداری اور نوازشریف کے اکائونٹس میں کتنی رقم پڑی ہے،انھیں فکر ہے لوڈشیڈنگ کی، پانی کی قلت اور گیس کی عدم فراہمی کی، بے روزگاری کی۔

آپ لاکھ سادگی اپنائیں، وزیراعظم ہائوس کی گاڑیاں نیلام کردیں، سارے ملازمین کو فارغ کردیں، مہمانوں کی پانی سے تواضع کریں، گورنر ہائوس کو زچہ بچہ سینٹر بنا دیں، ان دل پذیر اقدامات کی واہ واہ تو ہوگی، مگر ان سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

فرق تب پڑے گا ، جب آپ نوجوانوں کو ملازمتیں دیں گے، غربت کا خاتمہ ہوگا، ملک میں امن قائم کریں گے، غریب کو انصاف فراہم ہوگا ، صحت کی سہولیات ہوں گی۔

آپ ٹکڑوں میں بٹے اس معاشرے کو ایک کر دیجیے، پھر آپ کو نہ تو نوازشریف کے این آر او سے فرق پڑے گا، نہ ہی زرداری کی لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کی ضرورت رہے گا، نہ ہی سادگی کا درس دینے کی۔

عوام اپنے لیڈر کو ڈیلیور کرنے کے لیے منتخب کرتے ہیں، سادگی کے درس اور تقریروں کے لیے نہیں ۔ عوام کو آپ سے بڑی امیدیں ہیں، کرپشن کے خلاف نعروں سے نکل کر ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ کیونکہ کرپشن کے نعرے فقط التباس ہیں، آپ ایک سابق سیاستداں کا تو احتساب کرسکتے ہیں، مگر سابق جج، سابق جنرل کا نہیں۔

جس کٹہرے میں آپ زرداری اور نوازشریف کوکھڑا کرنے کے خواہش مند ہیں، کیا اسی میں آپ پرویزمشرف کوکھڑا کرسکتے ہیں، کیا حسن، حسین اور ڈار کی طرح آپ سابق ڈکٹیٹرکوگرفتار کر کے وطن واپس لانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟ قبلہ، ابھی ہم اس مرحلے پر نہیں آئے، جب آپ جناب کرپشن کے خلاف کامل انصاف کرسکیں، سب کو ایک کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے؟ گو یہ ناممکن نہیں ، مگر فی الحال دشوار ہے، یہ تب ہی ممکن ہوگا، جب عوام آپ کے ساتھ کھڑے ہوں، آپ کے قدم سے قدم ملا کر چلیں، آپ کی آواز پر لبیک کہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے، جب آپ مصائب کی وہ پانچ گھاٹیاں عبور کرلیں، جنھیں اب تک کوئی سیاست داں عبور نہ کر سکا، اورمارشل لا نافذ کرنے والے بھی ناکام رہے۔

یہ گھاٹیاں ہیں بے روزگاری، ناخواندگی، ناانصافی، عدم تحفظ اور شعبہ صحت کی ابتر صورت حال۔


آپ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار دیجیے، آپ ان کا وقار بن جائیں گے، غریب کے بچے کو تعلیم دیں، آپ اس کی دھڑکن ٹھہریں گے، مظلوم کو انصاف دیں، آپ اُس کی امید کہلائیں گے، آپ خوفزدہ کو تحفظ، بیمارکو صحت کی سہولیات دیں، آپ کروڑوں عوام کے لیے روشنی کا مینار بن جائیں گے اور جب یہ مرحلہ طے ہوجائے گا، تب آپ کے پاس وہ قوت ہوگی کہ آپ جسے چاہیں، احتساب کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں، جس سے چاہیں، سوال کریں، بلاتفریق انصاف کریں، بے خوف ہو کراحتساب کریں، مگر اس سے پہلے نہ تو یہ ممکن ہے، نہ ہی مناسب۔

جناب وزیراعظم ، آپ کے ساتھ وہی پرانے لوگ ہیں، جنھیں ہم پہلے بھی آزما چکے ، جو ماضی میں کوئی جادو جگانے میں ناکام رہے، مگر ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ کی قیادت، جس سے عوام کی امید اور خواب جڑے ہیں، یہ حضرات وہ معجزے کردکھائیں ، جو اس ملک کو صحیح ڈگر پر ڈال دیں ۔ ترقی کے ابتدائی آثارظاہر ہوں، بہتری کے اشارے ملیں ۔ اور یہ ضروری بھی ہے، کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوا، تو آپ کے ان وزیروں مشیروں کو توکوئی فرق نہیں پڑے گا، یہ اگلی بار کسی اور کی کشتی میں الیکشن میں اتر جائیں گے، مگر آپ اپنی ساکھ کھو دیں گے۔

حضرت علی کا قول ہے:'' کلام کرو، تاکہ تم پہچانے جائو ''اس دانائی بھرے قول کے دو پہلو ہیں۔ پہلا؛ کہ گفتگو کیجیے، تاکہ لوگ آپ کو پہچانیں، اور دوسرا؛ جب کوئی انسان گفتگو کرتا ہے، تو فوراً پہچانا جاتا ہے۔

تنقید مقصود نہیں، آپ ہماری امید ہیں، مگر آپ اور آپ کے وزراء نے الیکشن سے قبل مخالفین کے لیے جو زبان استعمال کی،اس کا تاثر خوش گوار نہ تھا ۔ البتہ یہ رعایت دی جاسکتی ہے کہ وہ الیکشن مہم تھی، وہ اُس کے تقاضے تھے۔ البتہ اب الیکشن ختم ہوچکا ، نہ تو کوئی کنٹینر رہا، نہ آپ اب اپوزیشن میں ہیں۔ اب باتوں سے اجتناب بہتر ۔ ساتھ ان دعوئوں اور وعدوں سے بھی اجتناب کرنا ہوگا، جو آپ اور آپ کے احباب اپوزیشن کے زمانے میں کرتے رہے، اب آپ اقتدار میں ہیں، ملکی خزانہ، قرضے، اقتصادی پابندیاں اور بین الاقوامی شرائط؛ سب آپ کے سامنے ۔ اب ایسے دیو مالائی دعوئوں وعدوں کی گنجائش نہیں۔

یاد آیا، آپ نے اپنی اولین تقریر میں انتقامی سیاست سے بے زاری ظاہر کی تھی، یہ خوش آیند تھا۔ اس منفی جذبے کی وجہ سے ملک کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا ۔ انتقامی سیاست کا سلسلہ تھم جانا چاہیے۔

ممکن ہے، نواز شریف اور اُن کے اہل خانہ کرپٹ ہوں، انھوں نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی ہو، ملک کو لوٹا ہو، مگر یاد رکھیں، وہ ایک عوامی لیڈر ہیں، ان کے پاس مینڈیٹ ہے، وہ جمہوری نظام میں اسٹیک ہولڈر ہیں، انھیں جیل میں ڈال دینے سے اُن کی حیثیت شاید کم ہوجائے، مگر ختم نہیں ہوتی ۔ آج نہیں توکل انھیں ضمانت مل جائے گی، وہ پھر اس سسٹم میں آجائیں گے اور تب چار اضافی ووٹوں پر منتخب ہونے والی آپ کی وزارت عظمیٰ کے مشکل ترین دورکا آغاز ہوگا ۔

بھٹو خاندان کے مانند شریف خاندان کی تین نسلیں بھی پاکستان کی حکمراں ہیں، نوازشریف کے بعد مریم نواز۔اور مریم نواز کے بعد جنید صفدر۔ آپ موروثی سیاست کے اس دائرے کو توڑ سکتے ہیں، بہ شرطیکہ آپ مصائب کی پانچ گھاٹیاں عبور کر کے عوام کو یک جا کر دیں۔

اور آپ نے ایسا کر دیا، تو پھر آپ تنہا نہیں رہیں، بائیس کروڑ بن جائیں گے، تب نہ تو بھٹوز آپ کو شکست دے سکیں گے، نہ ہی شریف، لیکن اگر ایسا نہیں ہوا، تو موروثی سیاست کا چکر پھر شروع ہوجائے گا اور آپ بھلا دیے جائیں گے۔

یہ سنہری موقع ہے وزیراعظم صاحب، فرد نہ رہیں، عوام بن جائیں۔
Load Next Story