وزیراعظم کا پہلا خطاب اورمسئلہ کشمیر
پاکستان کے لیے موت اور زندگی سے تعلق رکھنے والے مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیارکرنا کشمیریوں کو اداس کرگیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں مزید 28 وعدے کر ڈالے ہیں ۔ وہ دو اہم وعدے یعنی 50 لاکھ نئے مکان عوام کو دینے اور ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کے وعدے تو پہلے ہی اپنی انتخابی مہم کے دوران کر چکے ہیں۔ اس طرح اب ان کے وعدوں کی کل تعداد 30 ہوگئی ہے ۔ قوم تو ابھی ان کے پہلے دو وعدوں پر ہی اٹکی ہوئی تھی کہ اب مزید وعدے کردیے گئے ہیں۔
وعدے تو پہلے وزرائے اعظم بھی کرتے رہے ہیں ۔ بھٹو نے بڑے وثوق سے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے اور نیا پاکستان بنانے کے وعدے کیے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے قوم سے پہلے خطاب نے ضیا الحق اور پرویز مشرف کے وعدوں کی یاد تازہ کردی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ وعدے کرنا آسان ہے مگر انھیں پورا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تاہم اگر عمران خان نے اپنے صرف دس فی صد وعدوں کو بھی پورا کردیا تو قوم انھیں ہوسکتا ہے دوسری باری بھی دے دے۔ وزیراعظم کے خطاب میں اگرچہ مسائل کی بھرمار تھی مگرکچھ اہم ترین مسائل پھر بھی نظر انداز ہوگئے جیسے کہ مسئلہ کشمیر ، سی پیک ، این ایف سی ایوارڈ اور خود ان کی اپنی تنخواہ ۔
بہر حال سب سے اہم ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے موت اور زندگی سے تعلق رکھنے والے مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیارکرنا کشمیریوں کو اداس کرگیا جب کہ وہاں سری نگر میں پوری حریت کانفرنس کے ارکان ہی کیا ، تمام کشمیری بے چینی سے اپنے پسندیدہ ہیرو اور اب وزیراعظم پاکستان سے یہ سننے کا انتظار ہی کرتے رہے کہ وہ کشمیرکے بارے میں بھارت کوکیا پیغام دیتے ہیں ۔ ان کے مسئلے کو حل کرانے کی کیا بات کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور پاکستان کے تمام ہی مسائل کا حل مسئلہ کشمیرکے حل ہونے میں پنہا ہے۔ پاکستان کیوں معاشی طور پرکمزور ہے ، ملک کیوں پانی کی تنگی سے بے حال ہے اور ملک سے کیوں دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔ یہ تمام مسائل مسئلہ کشمیرکی ہی تو دین ہیں افسوس کہ ایسے وقت میں جب کہ کشمیری نوجوان روز ہی پاکستان کے لیے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں، تڑتڑاتی گولیوں میں پاکستانی پرچم کو لہرانے سے باز نہیں آرہے اور پاکستانی پرچم کے کفن میں لپٹا قبر میں جانا پسند کر رہے ہیں۔
کشمیریوں کی تسلی کے لیے کاش کہ دو لفظ ہی بول دیے جاتے۔ وزیراعظم کی اس بھول کا بھارت نے پورا پورا فائدہ اٹھایا ۔ اس کے پاکستان دشمن میڈیا نے طنزکرتے ہوئے کشمیریوں کو یہ خبر سنائی کہ تم جس پاکستان پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہو اس کے نئے وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں تمہارا کوئی ذکر تک کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔ وہ تمہارے مسئلے کوکیا اہمیت دیتے کشمیر سے کہیں زیادہ گمبھیر ان کے اپنے گھریلو مسائل ہیں۔ وہ اپنے مسائل حل کریں یا آپ کے مسائل کے لیے بھاگ دوڑکریں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت شروع سے ہی کشمیریوں کو یہ باورکرانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ خوامخواہ اپنی جانیں گنوارہے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کو ان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ تو صرف دریائوں کے پانی کے حصول کے لیے کشمیرکا مسئلہ زندہ کیے ہوئے ہیں۔
بھارتی حکومت کشمیریوں کو پاکستان کے جنون سے باہر نکالنے کے لیے 1948 سے ہی سر توڑ کوششیں ضرور کررہی ہے،انھیں رام کرنے کے لیے طرح طرح کی لالچ بھی دیتی رہتی ہے اور انھیں ڈرانے دھمکانے کے لیے ان کی نسل کشی بھی کررہی ہے مگر کشمیریوں کی پاکستان سے والہانہ محبت و عقیدت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے بلکہ اب تو بھارتی فوج کو ان کے خون کو ٹھنڈا کرنا مشکل ہی نظر آرہا ہے اور شاید اسی لیے بھارتی آرمی چیف نے مودی حکومت سے دست بدستہ گزارش کی ہے کہ اب کشمیر میں فوجی حل ممکن نہیں ہے، چنانچہ سیاسی حل کی جانب توجہ دی جائے چنانچہ مودی نے 15 اگست کو لال قلعے سے اپنے بھاشن میں کشمیریوں کو گلے لگانے اورگولی کے بجائے محبت سے مسئلہ حل کرنے کی بات کہی ہے۔
ادھر وزیراعظم عمران خان کو بھی اپنے پہلے خطاب میں کشمیریوں کو ذکر نہ کرنے کا احساس ہوگیا اور شاید اسی لیے شاہ محمود قریشی نے وزیرخارجہ کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد ایک پریس کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر اپنی حکومت کے مؤقف کو آشکارکیا ہے۔ انھوں نے بھارتی حکومت پر واضح کردیا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو نہرو سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک تمام ہی بھارتی وزرائے اعظم نے تسلیم کیا ہے پھر ان تمام میں اٹل بہاری واجپائی کا مسئلہ کشمیرکو ایک حل طلب مسئلہ تسلیم کرنا نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان کا تعلق بے جی پی اور آر ایس ایس سے تھا۔
مودی جو خود کو واجپائی کا پیروکار کہتے ہیں اور ان کے اصولوں پر عمل کرنے کی بات کرتے ہیں انھیں بھی اس مسئلے کو ایک حقیقت ہی سمجھنا چاہیے اور اسے طاقت کے ذریعے دبانے کی طفلانہ کوششوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس وقت وہ کشمیریوں کو اپنا غلام بنانے کے لیے بھارتی آئین کی شقوں 35-A اور 370 کو ختم کرانے کی بھرپورکوششیں کررہے ہیں لیکن وہ ان دو شقوں کے خاتمے سے کشمیر میں پیدا ہونے والی خطرناک صورتحال کا ادراک نہیں کر رہے۔
کشمیری حریت پسند لیڈروں کے علاوہ بھارت نوازکشمیری لیڈر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی مودی پر واضح کرچکے ہیں کہ اگر انھوں نے اپنی من مانی کی تو وہ ایک حریت کانفرنس کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک کو انجام تک پہنچا کر دم لیںگے ۔ اب اس کے باوجود بھی اگر مودی آر ایس ایس کے حکم پر چلتے رہیں توکشمیری مزید احتجاج کرنے کے سوا کیا کرسکتے ہیں۔
اب اس ضمن میں پاکستان کی نئی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کا حقوق انسانی کا ادارہ پہلے ہی اپنی رپورٹ کے ذریعے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم سے دنیا کو آگاہ کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ایک عالمی تحقیقاتی کمیشن بنانے کی سفارش کرچکا ہے۔
اب ہمارے نئے قابل فخر وزیرخارجہ جو حقیقتاً خارجہ امور میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور کشمیریوں کی آزادی کے ایک بڑے علمبردار بھی ہیں، دیکھتے ہیں کیا کرتے ہیں؟ قوی امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان ستمبر میں ہونے والے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں مسئلہ کشمیرکو ایسے موثر انداز میں اٹھائیںگے کہ عالمی برادری کی توجہ اس دیرینہ اور سلگتے مسئلے کے حل کی جانب مائل کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے۔
وعدے تو پہلے وزرائے اعظم بھی کرتے رہے ہیں ۔ بھٹو نے بڑے وثوق سے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے اور نیا پاکستان بنانے کے وعدے کیے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے قوم سے پہلے خطاب نے ضیا الحق اور پرویز مشرف کے وعدوں کی یاد تازہ کردی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ وعدے کرنا آسان ہے مگر انھیں پورا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تاہم اگر عمران خان نے اپنے صرف دس فی صد وعدوں کو بھی پورا کردیا تو قوم انھیں ہوسکتا ہے دوسری باری بھی دے دے۔ وزیراعظم کے خطاب میں اگرچہ مسائل کی بھرمار تھی مگرکچھ اہم ترین مسائل پھر بھی نظر انداز ہوگئے جیسے کہ مسئلہ کشمیر ، سی پیک ، این ایف سی ایوارڈ اور خود ان کی اپنی تنخواہ ۔
بہر حال سب سے اہم ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے موت اور زندگی سے تعلق رکھنے والے مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیارکرنا کشمیریوں کو اداس کرگیا جب کہ وہاں سری نگر میں پوری حریت کانفرنس کے ارکان ہی کیا ، تمام کشمیری بے چینی سے اپنے پسندیدہ ہیرو اور اب وزیراعظم پاکستان سے یہ سننے کا انتظار ہی کرتے رہے کہ وہ کشمیرکے بارے میں بھارت کوکیا پیغام دیتے ہیں ۔ ان کے مسئلے کو حل کرانے کی کیا بات کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور پاکستان کے تمام ہی مسائل کا حل مسئلہ کشمیرکے حل ہونے میں پنہا ہے۔ پاکستان کیوں معاشی طور پرکمزور ہے ، ملک کیوں پانی کی تنگی سے بے حال ہے اور ملک سے کیوں دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔ یہ تمام مسائل مسئلہ کشمیرکی ہی تو دین ہیں افسوس کہ ایسے وقت میں جب کہ کشمیری نوجوان روز ہی پاکستان کے لیے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں، تڑتڑاتی گولیوں میں پاکستانی پرچم کو لہرانے سے باز نہیں آرہے اور پاکستانی پرچم کے کفن میں لپٹا قبر میں جانا پسند کر رہے ہیں۔
کشمیریوں کی تسلی کے لیے کاش کہ دو لفظ ہی بول دیے جاتے۔ وزیراعظم کی اس بھول کا بھارت نے پورا پورا فائدہ اٹھایا ۔ اس کے پاکستان دشمن میڈیا نے طنزکرتے ہوئے کشمیریوں کو یہ خبر سنائی کہ تم جس پاکستان پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہو اس کے نئے وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں تمہارا کوئی ذکر تک کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔ وہ تمہارے مسئلے کوکیا اہمیت دیتے کشمیر سے کہیں زیادہ گمبھیر ان کے اپنے گھریلو مسائل ہیں۔ وہ اپنے مسائل حل کریں یا آپ کے مسائل کے لیے بھاگ دوڑکریں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت شروع سے ہی کشمیریوں کو یہ باورکرانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ خوامخواہ اپنی جانیں گنوارہے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کو ان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ تو صرف دریائوں کے پانی کے حصول کے لیے کشمیرکا مسئلہ زندہ کیے ہوئے ہیں۔
بھارتی حکومت کشمیریوں کو پاکستان کے جنون سے باہر نکالنے کے لیے 1948 سے ہی سر توڑ کوششیں ضرور کررہی ہے،انھیں رام کرنے کے لیے طرح طرح کی لالچ بھی دیتی رہتی ہے اور انھیں ڈرانے دھمکانے کے لیے ان کی نسل کشی بھی کررہی ہے مگر کشمیریوں کی پاکستان سے والہانہ محبت و عقیدت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے بلکہ اب تو بھارتی فوج کو ان کے خون کو ٹھنڈا کرنا مشکل ہی نظر آرہا ہے اور شاید اسی لیے بھارتی آرمی چیف نے مودی حکومت سے دست بدستہ گزارش کی ہے کہ اب کشمیر میں فوجی حل ممکن نہیں ہے، چنانچہ سیاسی حل کی جانب توجہ دی جائے چنانچہ مودی نے 15 اگست کو لال قلعے سے اپنے بھاشن میں کشمیریوں کو گلے لگانے اورگولی کے بجائے محبت سے مسئلہ حل کرنے کی بات کہی ہے۔
ادھر وزیراعظم عمران خان کو بھی اپنے پہلے خطاب میں کشمیریوں کو ذکر نہ کرنے کا احساس ہوگیا اور شاید اسی لیے شاہ محمود قریشی نے وزیرخارجہ کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد ایک پریس کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر اپنی حکومت کے مؤقف کو آشکارکیا ہے۔ انھوں نے بھارتی حکومت پر واضح کردیا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو نہرو سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک تمام ہی بھارتی وزرائے اعظم نے تسلیم کیا ہے پھر ان تمام میں اٹل بہاری واجپائی کا مسئلہ کشمیرکو ایک حل طلب مسئلہ تسلیم کرنا نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان کا تعلق بے جی پی اور آر ایس ایس سے تھا۔
مودی جو خود کو واجپائی کا پیروکار کہتے ہیں اور ان کے اصولوں پر عمل کرنے کی بات کرتے ہیں انھیں بھی اس مسئلے کو ایک حقیقت ہی سمجھنا چاہیے اور اسے طاقت کے ذریعے دبانے کی طفلانہ کوششوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس وقت وہ کشمیریوں کو اپنا غلام بنانے کے لیے بھارتی آئین کی شقوں 35-A اور 370 کو ختم کرانے کی بھرپورکوششیں کررہے ہیں لیکن وہ ان دو شقوں کے خاتمے سے کشمیر میں پیدا ہونے والی خطرناک صورتحال کا ادراک نہیں کر رہے۔
کشمیری حریت پسند لیڈروں کے علاوہ بھارت نوازکشمیری لیڈر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی مودی پر واضح کرچکے ہیں کہ اگر انھوں نے اپنی من مانی کی تو وہ ایک حریت کانفرنس کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک کو انجام تک پہنچا کر دم لیںگے ۔ اب اس کے باوجود بھی اگر مودی آر ایس ایس کے حکم پر چلتے رہیں توکشمیری مزید احتجاج کرنے کے سوا کیا کرسکتے ہیں۔
اب اس ضمن میں پاکستان کی نئی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کا حقوق انسانی کا ادارہ پہلے ہی اپنی رپورٹ کے ذریعے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم سے دنیا کو آگاہ کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ایک عالمی تحقیقاتی کمیشن بنانے کی سفارش کرچکا ہے۔
اب ہمارے نئے قابل فخر وزیرخارجہ جو حقیقتاً خارجہ امور میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور کشمیریوں کی آزادی کے ایک بڑے علمبردار بھی ہیں، دیکھتے ہیں کیا کرتے ہیں؟ قوی امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان ستمبر میں ہونے والے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں مسئلہ کشمیرکو ایسے موثر انداز میں اٹھائیںگے کہ عالمی برادری کی توجہ اس دیرینہ اور سلگتے مسئلے کے حل کی جانب مائل کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے۔