آرزو آشیاں کی

ذاتی مکانوں کا مسئلہ صرف کراچی کا نہیں بلکہ پورے ملک کے شہریوں کا ہے۔

anisbaqar@hotmail.com

HYDERABAD:
عرفِ عام میں جس چھوٹے پرندے کو چڑیا یااردو زبان میں گوریا اور انگریزی میں اسپیرو (Sparrow) کہتے ہیں۔ جب وہ اپنی فیملی کا آغاز کرتے ہیں توگھونسلے کا پہلا تنکا چڑیا اٹھاتی ہے اور بعد میں چڑا مسلسل تنکے ڈھونے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ ورنہ عام طور سے تو وہ آزادی سے گھنے درختوں کی نرم اور پتلی شاخوں پر بسیرا کرتی ہیں، گویا آشیاں کا شوق پرندوں سے لے کر انسان تک صنف نازک میں قدرتی طور پر ہوتا ہے۔

آشیاں چھوٹا ہو یا بڑا نازک ہوکہ مضبوط اس کو خوشنما بنانے میں عورت ہو یا بڑا نازک ہوکہ مضبوط اس کو خوشنما بنانے میں عورت ہی پیش پیش ہوتی ہے۔ اگر مجموعی طور پر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ 85 فی صد مکانوں کے بنانے میں عورتوں نے پہل کی اور یہ بوجھ عورتوں نے اپنے سر سے اتار کر مردوں کے سر پر ڈال دیا اور بعد میں مردوں کو عورتوں کی اس دور بینی کا احساس ہوا۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں خصوصاً شہری علاقوں میں 50 فی صد سے زائد بنت حوا اپنے اس حق سے محروم ہے۔ دنیا کے جدید ممالک میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ 50 فی صد سے زیادہ شہری کرائے دار ہوں۔ جدید سرمایہ دار ممالک میں بھی ایسا منظر نہیں جوکہ پاکستان میں ہے، کہ بینک لون ان لوگوں کے لیے ہے جن کے اکائونٹ کی صورتحال مالی اعتبار سے بینک کے مفاد میں ہے مگر سرمایہ دار ملکوں میں قرض کی صورت وہ نہیں جو پاکستان میں ہے ۔ یہاں با اثر سرمایہ دار حضرات ہر سال قرض معاف کرواتے ہیں۔

بہر صورت برطانیہ میں بڑی حد تک اورکینیڈا میں کرایہ دارکا وہ خستہ حال نہیں جو پاکستان کا ہے، جہاں نوکری کی شرح زیادہ تر لوگوں کی سیلری فکسڈ (Fixed) نہیں اورکچی نوکریاں یعنی تھرڈ پارٹی کے تحت ملازمت ہوتی ہے ۔

ایک زمانہ تھا جب روس سوویت یونین تھا تو وہاں شادی سے قبل ہی فلیٹ کے انتظامات ہوجاتے تھے اور فاقہ کشی اور بغیر نوکری کا کوئی تصور نہ تھا، جس حکومت کا خاتمہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کیا کہ یہ اشتراکیت ہے، جو اسلام کے خلاف ہے جب کہ اشتراکیت کے معنی مل جل کر وقت گزارنے کے ہیں بس سوار ہوکر سفرکرنا، مل جل کر شراکت داری کرنا تاکہ ایک آدمی پر بوجھ نہ پڑے، یہ سب اشتراکیت ہے۔ اس کلچر کے خاتمے کے بعد ہر ملک میں چور بازاری، لوٹ مار اور ناجائز طور پر پیسہ کمانا کلچر بن گیا ہے۔

اب اتنے حکمران عوام کی دولت کو لوٹ رہے ہیں جو پہلے کبھی نہ کرتے تھے۔ اب روپیہ، دولت، معیار زندگی کا ایک نمونہ بن گیا ہے۔ 52/ء1950ء تک اقتصادی حالات ابتر نہ تھی اور جب بھی قرض لیے گئے پاکستان کے حکمران عوام کو لوٹتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ڈالر جوکبھی 3 روپیہ کا تھا اب 125 کے آگے پیچھے ہو رہا ہے، یہ رقم عوام پر خرچ نہ ہوئی۔ اقتصادی حالات کی بہتری در اصل یہ مصنوعی زیور ہے جو عوام کو پہنایا گیا ہے۔

اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو یاد آجائے گا کہ 60 گز کے جھونپڑی نما مکانات یہ وہ گھر ہیں جو قائد اعظم کے مقبرے کے ارد گرد بنے تھے اور جٹ لائن، جیکب لائن اور المونیم کوارٹر، قیام پاکستان کے وقت یہ جگھیاں پڑی تھیں۔ لیاقت علی خاں ان دنوں حیات تھے تو پنڈت جواہر لعل نہرو کو انھوں نے تقریر کا موقع دیا تھا تو پنڈت جی نے اپنے خطاب میں کہاکہ خستہ حال باشندو، تم واپس چلو اپنے گھروں کو مگر اس پر ان خاک نشینوں نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا ۔


جٹ لائن کے چند مکانوں میں میرا گزر ہوا تو انھوں نے بتایا وہ نسل در نسل گورنمنٹ ملازمین ہیں مگر اب ان کے لیے حکومتی دروازے بند ہیں اور 60 گزکے یہ پلاٹ بھی ابھی تک لیز نہ ہوئے ان مکینوں اور خصوصاً ضعیف خواتین نے مجھ سے یہ کہاکہ ہم قبر کے قریب پہنچ چکے مگر اب تک یہ زمین ہماری نہ ہوئی اور شوہر اس ملک کی زمین میں ہمیشہ کے لیے سوگئے۔ باقی شہر میں لوگوں کے پاس خصوصاً غریبوں کے پاس کوئی زمین نہیں۔

عمران خان کوکراچی کے غریبوں نے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا اس میں کوئی شک نہیں اور ایوان میں عمران کی کرسی کو دوام بخشا جہاں عمران خان نے بہت سے وعدے کیے ہیں، وہاں مکان کا بھی وعدہ کیا ہے ۔ جیساکہ پہلی سطور میں یہ تحریر کیا گیا کہ آشیاں کا پہلا تنکا چڑیا اٹھاتی ہے تو پورے ملک کی خواتین کی یہی خواہش ہے کہ وہ اپنے آشیاں کا فیصلہ اپنی زندگی میں کریں۔

وزیراعظم سے میری یہ استدعا ہے کہ آپ جیسے جنوبی پنجاب پر مکان بنائیں سو بنائیں مگر آپ ان لوگوں کو بھی دیکھے جو لیاری ندی میں ٹیلے جیسی جگہ پر جھگیوں میں اورکراچی کے لاکھوں لوگ جو مکان کی تمنا دل ہی دل میں لیے ہیں آپ ان کو اپنا گھر دلادیں۔ کیونکہ لوگوں کی کمائی کا بڑا حصہ مکان کے کرایوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس راستے پر عمل کرنے کے لیے ایران کے سابق صدر احمدی نژاد نے تہران کے ہر فرد کو مکین بنادیا کیونکہ انھوں نے غریبوں پر یقین اور اعتماد اور پورے عمل میں کرپشن فری راہ کو اپنا منصب بنایا جو آپ کی راہ ہے کہ ہم تبدیلی لاکے رہیں گے۔

کٹوتی کی راہ اور کرپشن کی رقم کو واپس لے کر آپ غریب علاقوں کو اپنا ساتھی بنائیں۔ خصوصاً اولڈ کراچی لیاری بھی آپ کی نگاہوں کا منتظر ہے جہاں چھوٹی چھوٹی ایک منزلہ بستیاں آباد ہیں اور بعض تو صرف گنجان ترین بستیاں جو قدیم زمانے سے سمندر سے رزق پیدا کرتے ہیں۔ ویسے تو سرمایہ داروں نے تو انویسٹروں کے لیے سپرہائی وے پر بستیاں سجائی ہیں جہاں روشنی اور پانی کے فوارے بھی ہیں مگر رزق کے دروازے بند ہیں۔ ہاں اگر نوری آباد میں انڈسٹری مزید لگے تو پھر کہیں جاکر انویسٹروں کا منافع بخش پرسکوں رہائش گاہ قابل عمل ہوگی۔

ابھی تو انویسٹر رقم کو روک کر منافعے کی امید میں ہیں جس کا وقت طویل ہے کیونکہ مرکزی کراچی بلندیوں پرگامزن ہے جہاں مزید روشنیوں اور پانی کے علاوہ سینیٹری کے نظام کو وسعت دینے کی ضرورت ہے البتہ جیسا کہ روس نے اسٹیل مل کو از سر نو چلانے کی پیشکش کی ہے اگر یہ پراجیکٹ دوبارہ آباد ہوا تو اہل نظر ضرور ان علاقوں کو آباد کریںگے کیونکہ ذریعہ معاش بھی ان کے قرب میں ہوگا مگر فی الحال اہل کراچی نے عمران خان کی ذات پر بھروسا کرتے ہوئے ان کو ووٹ سے نوازا۔

اس میں بڑا عنصر مکانات اور زمینوں کا ہے لہٰذا عمران خان کو اس پہلو پر غورکرنے کی بہت ضرورت ہے، اگر تفکر سے کام لیا جائے توکراچی کے لوگوں کوکراچی میں رہتے ہوئے صاحب آشیاں بنایا جاسکتا ہے جو شخص جس مکان میں رہائش پذیر ہے اور اس کی مالیت 50،40 لاکھ سے کم ہے حکومت اس کو اپنی تحویل میں لے کر ان کو اپنا کرایہ دار بنادے اور اس کا ایک نیا محکمہ ہائوس بلڈنگ کے طرز پر قائم کرے اور برائے نام منافع رکھے تاکہ ادارہ چل سکے۔ اس کے علاوہ 1948/49ء میں جو کوارٹر جن جگہوں پر بنائے گئے ہیں وہاں 4 منزلہ فلیٹ تعمیر کیے جاسکتے ہیں اور رہائشی حضرات کو وہ جگہ مفت رہنے کو دی جائے کیونکہ ان کے اوپر 3 فیملیاں مزید رہ سکیں گی اس کے لیے موزوں ترین علاقہ پاکستان کوارٹر، مارٹن روڈ جہانگیر روڈ، جٹ لائن، جیکب لائن وغیرہ موجود ہیں۔ یہ کام حکومت اگر حوصلہ کرے تو پورا کیا جاسکتا ہے۔

حکومت کو اس میں کراچی کے کسی لیڈر سے مشورہ کی ضرورت نہیں کیونکہ کراچی نے آج سے پانچ سال قبل ہی عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا پرچم لہرایا تھا مگر جواب بے ایمانی کا شور مچارہے ہیں یہ خود ماضی کی بے ایمانی میں شراکت دار تھے۔ کراچی کے لوگوں نے تجربات سے گزرتے ہوئے خود فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ عمران خان کو ووٹ دیںگے بس ان کا کوئی نام لیوا کھڑا ہوجائے اس میں کسی لیڈرکا کوئی حصہ نہیں کیونکہ جس طرح اہل کراچی نے جشن کا جیت منایا بالکل ایسے کہ ان کے گھر کا کوئی آدمی الیکشن جیتا ہے لہٰذا کراچی کے بے گھر لوگوں کو صاحب جائیداد بنانا ان کا حق بنتا ہے ورنہ صدیوں ان کی مائیں آشیاں کی آرزو میں دنیا سے گزرتی جائیں گی۔

ذاتی مکانوں کا مسئلہ صرف کراچی کا نہیں بلکہ پورے ملک کے شہریوں کا ہے مگر کراچی کا اس لیے سنگین ہے کہ ان کے اجداد اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر نئے علاقے میں اپنا گھر بسانے آئے تھے۔
Load Next Story