اچھی سوچ کے اضافی تقاضے
عملی طور پر پروگرام کی شیڈیولنگ کے بارے میں جو جو مشکلات درپیش ہوں گی وہ شاید شمار سے بھی باہر ہیں۔
بات تو کرنی ہے نئی حکومت اور اس کے سربراہ عمران خان کے ان اعلانات کی جو انھوں نے سادگی، کفایت، پروٹوکول اور خود احتسابی کے حوالے سے کیے ہیں کہ وہ اس چکر میں اپنے لیے خوامخواہ کے مسائل پیدا نہ کریں، فضول خرچی کو ضرور روکیں مگر وزیراعظم کے وقت کو بچانے اور اس کی آمد و رفت اور استعداد کار کو بڑھانے یا محفوظ رکھنے کے لیے جو طریقہ ہائے کار پوری دنیا میں رائج اور تسلیم شدہ ہیں ان میں جذباتیت کو غیر ضروری طور پر شامل کر کے ایسے اعلانات نہ کریں جو عملی طور پر صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیں۔
لیکن اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں بھارت کے دو ایسے شاندار انسانوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو حال ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ میری مراد اٹل بہاری واجپائی اور کلدیپ نیئر صاحبان سے ہے جو بلاشبہ اپنے میدان اور عہد کے اعلیٰ ترین لوگوں میں سے تھے۔
واجپائی جی کو پڑھنے، سننے اور دور سے دیکھنے کے مواقع تو ملے مگر ان سے کبھی براہ راست اور بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی۔ بھارت کے مضبوط سیاسی اور پارلیمانی نظام نے یوں تو بہت سے نامور لوگ پیدا کیے ہیں مگر میری ذاتی رائے میں پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد اٹل بہاری واجپائی وہ واحد لیڈر تھے جن کا احترام ان کے سیاسی مخالفین نے بھی کیا اور جن کی زندگی اس سیکولر ہندوستان کی عملی مثال تھی جو اب ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔
وہ کانگریس کے مقابلے میں بننے والی بے جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے سینئر ترین لیڈروں میں سے تھے لیکن وہ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے برعکس اس کا ایک Soft Image تھے۔ ان کی شاعری، انسان دوستی اور اقدار بنیاد سیاست اس بات کے زندہ ثبوت ہیں کہ وہ ایک نیک دل خیر طلب انسان تھے ایک ایسے اعتدال اور انصاف پسند انسان کہ جن کی کمی کی وجہ سے نہ صرف برصغیر تقسیم ہوا بلکہ اس تقسیم کے بعد بھی یہاں کے لوگ اچھے ہمسایوں اور پرانے دوستوں کی طرح مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کی ترقی میں خوش اور معاون ہونے کے بجائے مسلسل آپس میں لڑتے جھگڑتے چلے آ رہے ہیں۔
ان کا دوستی بس میں بیٹھ کر پاکستان آنا اور مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر پاکستان کے وجود اور سالمیت کو تسلیم کرنا ایک ایسا عمل تھا جس کا موازنہ گاندھی جی کے اس احتجاج سے کیا جا سکتا ہے جو انھوں نے تقسیم کے وقت پاکستان کے حصے کے اثاثوں کو اس تک پہنچانے کے لیے کیا تھا۔
یہ ایک امر واقعہ اور تاریخی صداقت ہے کہ کوئی ملک اس وقت تک بھر پور اور نتیجہ خیز ترقی نہیں کر سکتا۔ جب تک اس کی سرحدوں پر امن و امان اور ہمسایوں سے اچھے تعلقات نہ ہوں اس حوالے سے دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے بعض لیڈروں کی اس اصول کی خلاف ورزی نے ستر برس سے ہمیں نہ صرف ایک دوسرے سے دور کر رکھا ہے بلکہ ہم ان بے شمار مشترکہ فوائد سے بھی محروم ہوتے چلے آ رہے ہیں جو قدرت کی طرف سے ہمیں عطا کیے گئے تھے۔ دعا کرنی چاہیے کہ واجپائی جی کی سوچ ان کی رخصت کے بعد بھی بھارتی لیڈر شپ کے اندر موجود اور برسرعمل رہے کہ اچھے ہمسائے ایک دوسرے کے لیے باعث رحمت ہوتے ہیں۔
کلدیپ نیئر بھی صحافت کے میدان میں اپنی طرز کے واجپائی تھے۔ عمر، تجربے اور فطری انسان دوستی کے باعث وہ ساری زندگی دونوں ملکوں کے درمیان ایک پل کا کام کرتے رہے۔ وہ ایک روشن ضمیر اور وسیع الخیال انسان تھے اور ان کا قلم ہمیشہ محبت، حقائق اور دوستی کی زبان بولتا رہا۔ ان کو پڑھا اور سنا تو بہت تھا لیکن بالمشافہ ملاقات کا صرف ایک ہی موقع مل سکا۔ 2015ء کے ابتدائی حصے میں اوپر تلے دوبار بھارت جانے کا موقع ملا۔
پہلی وجہ سنجیو صراف بھائی کی ریختہ فائونڈیشن کی ادبی کانفرنس تھی اور دوسری اس کے فوراً بعد محترمہ کامنا پرساد کا جشن بہار مشاعرہ تھا جس کا اہتمام وہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہر برس کرتی ہیں۔ اس مشاعرے کے سامعین میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور مراری بابو بھی شامل تھے جب کہ کلدیپ نیئر جی اسٹیج پر ہم شاعروں کے ساتھ اپنی علالت کے باوجود خاصی دیر تک موجود رہے۔ جب کامنا جی نے ان سے میرا تعارف پاکستانی شاعر کے طور پر کرایا تو ان کی آنکھوں میں ایک دم چمک سی آ گئی۔ انھوں نے نہ صرف محبت سے میرا ہاتھ بار بار سہلایا بلکہ بہت سی باتیں بھی کیں اور جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میرے اجداد کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہے تو ان کے لہجے کی شفقت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
اپنے خطاب کے دوران بھی انھوں نے دونوں ملکوں کے درمیان موجود تاریخی، جغرافیائی، ادبی، لسانی اور دیگر باہمی رشتوں کا ذکر اتنی محبت سے کیا کہ ساری فضا میں محبت اوہر دوستی کی خوشبو پھیل گئی اور میں بہت دیر تک اس سوچ کے حصار میں رہا کہ جب تک بھارت میں کلدیپ نیئر جیسی مثبت اور تعمیری سوچ کے حامل لوگ موجود ہیں، ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہاں کی سیاسی لیڈر شب بھی جلد یا بدیر اس اس حقیقت کو ضرور سمجھ لے گی باہمی احترام اور برابری کا عملی اظہار ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر دونوں ملکوں کے عوام اپنے اپنے معیار زندگی کو بلند اور محبت کو عام کر سکتے ہیں۔
اپنی پہلی تقریر سے لے کر اب تک عمران خان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جس بالغ نظری اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے اس سے امید بندھی ہے کہ بھارتی قیادت بھی اب اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی کے بجائے واجپائی جی اور کلدیپ نیئر جیسے بے مثال لوگوں کے نقش قدم پر چلے گی اور بہت جلد ہم کشمیر سمیت تمام تنازعات کو انصاف کے ساتھ حل کرنے کے بعد امریکا اور کینیڈا جیسے ہمسائے بن جائیں گے۔
جہاں تک عمران خان کے سادگی اور کفایت شعاری سے متعلق بعض اعلانات کا تعلق ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے قریبی دوست اور مشیر ان کو اس بات سے بھی تفصیلی طور پر آگاہ کریں کہ اس ضمن میں کیا کیا پیچیدگیاں ممکن اور متوقع ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بیرون ملک سرکاری جہاز کے بجائے کسی عام پرواز سے سفر کرنا اپنی جگہ پر ایک مسائلستان ہے کہ اس کی وجہ سے اس متعلقہ پرواز کے تمام مسافروں کو سیکیورٹی کے کن کن مراحل سے گزرنا پڑے گا اور عملی طور پر پروگرام کی شیڈیولنگ کے بارے میں جو جو مشکلات درپیش ہوں گی وہ شاید شمار سے بھی باہر ہیں۔
وہ بے شک اپنے غیر ملکی دوروں کے درمیان وفود کو مختصر اور اخراجات کو محدود رکھیں لیکن اپنے اوپر اس طرح کی بے معنی پابندیاں عائد نہ کریں کہ الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں۔ اپنی اس بات کی مزید تشریح کے لیے تحریک آزادی کی ایک بڑی لیڈر سروجنی نائیڈو سے متعلق ایک بیان کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں گاندھی جی ٹرین کے تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سفر کیا کرتے تھے۔ ان کی سیکیورٹی کے پیش نظر متعلقہ ڈبے کے ساتھ ساتھ اس کے آگے پیچھے کے دونوں ڈبوں میں بھی سرکاری یا کانگریسی گارڈ سفر کرتے تھے اس پر سروجنی نائیڈو نے کچھ اس طرح سے تبصرہ کیا کہ:
''باپو آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کو غریب رکھنے کے لیے ہمیں کتنا خرچ کرنا پڑتا ہے۔''
لیکن اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں بھارت کے دو ایسے شاندار انسانوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو حال ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ میری مراد اٹل بہاری واجپائی اور کلدیپ نیئر صاحبان سے ہے جو بلاشبہ اپنے میدان اور عہد کے اعلیٰ ترین لوگوں میں سے تھے۔
واجپائی جی کو پڑھنے، سننے اور دور سے دیکھنے کے مواقع تو ملے مگر ان سے کبھی براہ راست اور بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی۔ بھارت کے مضبوط سیاسی اور پارلیمانی نظام نے یوں تو بہت سے نامور لوگ پیدا کیے ہیں مگر میری ذاتی رائے میں پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد اٹل بہاری واجپائی وہ واحد لیڈر تھے جن کا احترام ان کے سیاسی مخالفین نے بھی کیا اور جن کی زندگی اس سیکولر ہندوستان کی عملی مثال تھی جو اب ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔
وہ کانگریس کے مقابلے میں بننے والی بے جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے سینئر ترین لیڈروں میں سے تھے لیکن وہ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے برعکس اس کا ایک Soft Image تھے۔ ان کی شاعری، انسان دوستی اور اقدار بنیاد سیاست اس بات کے زندہ ثبوت ہیں کہ وہ ایک نیک دل خیر طلب انسان تھے ایک ایسے اعتدال اور انصاف پسند انسان کہ جن کی کمی کی وجہ سے نہ صرف برصغیر تقسیم ہوا بلکہ اس تقسیم کے بعد بھی یہاں کے لوگ اچھے ہمسایوں اور پرانے دوستوں کی طرح مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کی ترقی میں خوش اور معاون ہونے کے بجائے مسلسل آپس میں لڑتے جھگڑتے چلے آ رہے ہیں۔
ان کا دوستی بس میں بیٹھ کر پاکستان آنا اور مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر پاکستان کے وجود اور سالمیت کو تسلیم کرنا ایک ایسا عمل تھا جس کا موازنہ گاندھی جی کے اس احتجاج سے کیا جا سکتا ہے جو انھوں نے تقسیم کے وقت پاکستان کے حصے کے اثاثوں کو اس تک پہنچانے کے لیے کیا تھا۔
یہ ایک امر واقعہ اور تاریخی صداقت ہے کہ کوئی ملک اس وقت تک بھر پور اور نتیجہ خیز ترقی نہیں کر سکتا۔ جب تک اس کی سرحدوں پر امن و امان اور ہمسایوں سے اچھے تعلقات نہ ہوں اس حوالے سے دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے بعض لیڈروں کی اس اصول کی خلاف ورزی نے ستر برس سے ہمیں نہ صرف ایک دوسرے سے دور کر رکھا ہے بلکہ ہم ان بے شمار مشترکہ فوائد سے بھی محروم ہوتے چلے آ رہے ہیں جو قدرت کی طرف سے ہمیں عطا کیے گئے تھے۔ دعا کرنی چاہیے کہ واجپائی جی کی سوچ ان کی رخصت کے بعد بھی بھارتی لیڈر شپ کے اندر موجود اور برسرعمل رہے کہ اچھے ہمسائے ایک دوسرے کے لیے باعث رحمت ہوتے ہیں۔
کلدیپ نیئر بھی صحافت کے میدان میں اپنی طرز کے واجپائی تھے۔ عمر، تجربے اور فطری انسان دوستی کے باعث وہ ساری زندگی دونوں ملکوں کے درمیان ایک پل کا کام کرتے رہے۔ وہ ایک روشن ضمیر اور وسیع الخیال انسان تھے اور ان کا قلم ہمیشہ محبت، حقائق اور دوستی کی زبان بولتا رہا۔ ان کو پڑھا اور سنا تو بہت تھا لیکن بالمشافہ ملاقات کا صرف ایک ہی موقع مل سکا۔ 2015ء کے ابتدائی حصے میں اوپر تلے دوبار بھارت جانے کا موقع ملا۔
پہلی وجہ سنجیو صراف بھائی کی ریختہ فائونڈیشن کی ادبی کانفرنس تھی اور دوسری اس کے فوراً بعد محترمہ کامنا پرساد کا جشن بہار مشاعرہ تھا جس کا اہتمام وہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہر برس کرتی ہیں۔ اس مشاعرے کے سامعین میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور مراری بابو بھی شامل تھے جب کہ کلدیپ نیئر جی اسٹیج پر ہم شاعروں کے ساتھ اپنی علالت کے باوجود خاصی دیر تک موجود رہے۔ جب کامنا جی نے ان سے میرا تعارف پاکستانی شاعر کے طور پر کرایا تو ان کی آنکھوں میں ایک دم چمک سی آ گئی۔ انھوں نے نہ صرف محبت سے میرا ہاتھ بار بار سہلایا بلکہ بہت سی باتیں بھی کیں اور جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میرے اجداد کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہے تو ان کے لہجے کی شفقت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
اپنے خطاب کے دوران بھی انھوں نے دونوں ملکوں کے درمیان موجود تاریخی، جغرافیائی، ادبی، لسانی اور دیگر باہمی رشتوں کا ذکر اتنی محبت سے کیا کہ ساری فضا میں محبت اوہر دوستی کی خوشبو پھیل گئی اور میں بہت دیر تک اس سوچ کے حصار میں رہا کہ جب تک بھارت میں کلدیپ نیئر جیسی مثبت اور تعمیری سوچ کے حامل لوگ موجود ہیں، ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہاں کی سیاسی لیڈر شب بھی جلد یا بدیر اس اس حقیقت کو ضرور سمجھ لے گی باہمی احترام اور برابری کا عملی اظہار ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر دونوں ملکوں کے عوام اپنے اپنے معیار زندگی کو بلند اور محبت کو عام کر سکتے ہیں۔
اپنی پہلی تقریر سے لے کر اب تک عمران خان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جس بالغ نظری اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے اس سے امید بندھی ہے کہ بھارتی قیادت بھی اب اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی کے بجائے واجپائی جی اور کلدیپ نیئر جیسے بے مثال لوگوں کے نقش قدم پر چلے گی اور بہت جلد ہم کشمیر سمیت تمام تنازعات کو انصاف کے ساتھ حل کرنے کے بعد امریکا اور کینیڈا جیسے ہمسائے بن جائیں گے۔
جہاں تک عمران خان کے سادگی اور کفایت شعاری سے متعلق بعض اعلانات کا تعلق ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے قریبی دوست اور مشیر ان کو اس بات سے بھی تفصیلی طور پر آگاہ کریں کہ اس ضمن میں کیا کیا پیچیدگیاں ممکن اور متوقع ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بیرون ملک سرکاری جہاز کے بجائے کسی عام پرواز سے سفر کرنا اپنی جگہ پر ایک مسائلستان ہے کہ اس کی وجہ سے اس متعلقہ پرواز کے تمام مسافروں کو سیکیورٹی کے کن کن مراحل سے گزرنا پڑے گا اور عملی طور پر پروگرام کی شیڈیولنگ کے بارے میں جو جو مشکلات درپیش ہوں گی وہ شاید شمار سے بھی باہر ہیں۔
وہ بے شک اپنے غیر ملکی دوروں کے درمیان وفود کو مختصر اور اخراجات کو محدود رکھیں لیکن اپنے اوپر اس طرح کی بے معنی پابندیاں عائد نہ کریں کہ الٹا لینے کے دینے پڑ جائیں۔ اپنی اس بات کی مزید تشریح کے لیے تحریک آزادی کی ایک بڑی لیڈر سروجنی نائیڈو سے متعلق ایک بیان کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں گاندھی جی ٹرین کے تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سفر کیا کرتے تھے۔ ان کی سیکیورٹی کے پیش نظر متعلقہ ڈبے کے ساتھ ساتھ اس کے آگے پیچھے کے دونوں ڈبوں میں بھی سرکاری یا کانگریسی گارڈ سفر کرتے تھے اس پر سروجنی نائیڈو نے کچھ اس طرح سے تبصرہ کیا کہ:
''باپو آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کو غریب رکھنے کے لیے ہمیں کتنا خرچ کرنا پڑتا ہے۔''