کرپشن اور سیاسی دبائو… پولیس کا تفتیشی نظام کب درست ہوگا

نااہل تفتیشی کا بگاڑا کیس دیانت دار اور تجربہ کار افسر سے بھی سُلجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔


اعجاز انصاری August 26, 2018
نااہل تفتیشی کا بگاڑا کیس دیانت دار اور تجربہ کار افسر سے بھی سُلجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

فرائض کی انجام دہی میں غفلت اور لاپرواہی برتے جانے کے رجحان کے باعث محکمہ پولیس میں ناقص تفتیش کی شکایات بھی عام ہو چکی ہیں۔

حکام کی غیرموثرنگرانی کے سبب اختیارات سے تجاوزکرنے والے تفتیشی افسران ''مال پانی'' بنانے کے چکر میں جسے چاہیں ملزم سے مجرم اورجسے چاہیں بے گناہ قرار دے دیں، یہی وجہ ہے کہ سفارش یارشوت کاسہارانہ لینے والے بیشترسائل اپنے مقدمات میں حصول انصاف کے لئے دربدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں، ایسے میں جدوجہد جاری رکھنے والوں کی شکایات پرناقص تفتیش کے مرتکب تفتیشی افسران کو محکمانہ سزائیں مل بھی جائیں تو ان کے بگاڑے گئے مقدمات سلجھانا بسا اوقات تجربہ کار افسران کے لئے بھی آسان نہیں ہوتا۔

سینئرپولیس افسران تفتیشی عملہ کی ایسی کارگزاریوںسے اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں، لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ اس کے باوجودبھی وہ انصاف اورمیرٹ کی دھجیاںاڑانے والی کالی بھیڑوں کو محکمہ سے نکال باہر کرکے ان کی جگہ اچھی شہرت اور پیشہ وارانہ کارکردگی کے حامل تفتیشی افسران کی تعیناتی کوترجیح کیوں نہیں دیتے؟

یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ کریمنیل جسٹس کوارڈینیشن کمیٹی فیصل آبادکے ہر ماہانہ اجلاس میں چیئرپرسن اور دیگر اراکین تفتیشی پولیس افسران کی ناقص تفتیش اوردیگرشکایات کاحوالہ دیتے ہوئے صورت حال کی بہتری کی ہدایات جاری کرتے ہیں، لیکن افسوس! سے کہنا پڑ رہا ہے کہ محکمہ کی نمائندگی کرنے والے پولیس افسران ہراجلاس میں گزرے ماہ کی تفصیلات کاذکرکرتے ہوئے ناقص تفتیش کے ذمہ دارپائے جانے والے تفتیشی افسران کے خلاف ڈسپلنری ایکشن عمل میں لائے جانے کی رپورٹ تو دے دیتے ہیں، لیکن متعلقہ پولیس افسران یہ واضح نہیں کرتے کہ نااہل تفتیشی افسران کی بھینٹ چڑھنے والے مقدمات کی ازسرنوتفتیش کے لئے محکمہ کی جانب سے کیااقدامات کئے گئے؟ یہ ذمہ داری شائد پولیس حکام کاکام نہیں؟

تفتیشی عملہ کی طمع ہی نہیں بلکہ اعلیٰ پولیس افسران کی بے جا مداخلت اورسیاسی دباوبھی مقدمات کی تفتیش پر اثرانداز ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ میرٹ پسند کوئی افسردیانتداری سے تفتیش آگے بڑھانے کی کوشش میںہو تو محکمہ کے سینئر افسران کے بلاوے اس کے لیے دردسربن جاتے ہیں، اس دوران کیس فائل سمیت اسے سرکل ڈی ایس پی،ڈویژنل ایس پی،ایس ایس پی انوسٹی گیشن ،سی پی اوبلکہ آرپی اوعہدہ تک اعلیٰ افسرکے روبروپیش ہوکرپراگرس رپورٹ بیان کرناپڑتی ہے، اس دوران سینئر افسران کاجی چاہے تو ان کی زبانی ہدایات پراکثرمقدمات کی تفتیش کے رخ بدل دیا جاتا ہے، چناں چہ اعلیٰ افسروں کی جی حضوری کے ساتھ ساتھ تفتیشی عملہ کو ٹرانسفرپوسٹنگ کے مراحل میںکام آنیوالے سیاستدانوں کی ''تابعداری ''کے طورپربھی کسی فریق کوریلیف دینا پڑتا ہے۔

محکمہ کے ذمہ داران اس حقیقت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں کہ مقدمات کی تفتیش کابیڑاغرق کرنے میںشعبہ تفتیش کے نااہل اورنالائق افسران بھی برابرکے شریک ہیں، پیشہ وارانہ تربیت کے فقدان کے سبب فیصل آبادپولیس کے بہت سے مڈل،میٹرک پاس تفتیشی افسرملازمت کاایک حصہ گزارنے کے باوجود تفتیشی امورکے بنیادی اصولوں سے ناآشنا ہیں، ایسے بیشترافسران ناقص کارکردگی پر اپنے سینئرزکی طرف سے لعنت ملامت کے بعد واچ اینڈوارڈ سے فارغ کئے گئے۔ شعبہ تفتیش میںتعیناتی اگرچہ ان کی ''چوائس ''نہیں بھی تھی تو اپنے آپ میں بہتری لانے کے لئے انہیںکچھ توکرناچاہیئے تھا؟

اس امر پر افسوس ہی کیاجاسکتاہے کہ شعبہ تفتیش میں پڑائو ڈالنے والے ایسے بہت سے افسران بھی موجود ہیں، جواپنے حصے کے مقدمات دوسروں کوسونپ کرسکون کرتے ہیں ۔ اے ایس آئی سے انسپکٹرعہدہ کے ایسے تفتیشی افسران آئی جی کے واضح انتباہ کے باوجود تفتیشی امورپردسترس رکھنے والے کانسٹیبلان اورمحکمہ کے ریٹائر ملازمین سے ''لکھاری'' کا کام لے رہے ہیں، معاونت کاکردار ادا کرنے والے لکھاری موقع ملنے پر مقدمات سے وابستہ کھاتی پیتی پارٹیوں سے معاملات طے کرکے مرضی کی ضمنیاں تحریرکرکے ربڑسٹیمپ کی حیثیت رکھنے والے تفتیشی افسران کو بے وقوف بھی بناتے ہیں۔

پولیس ڈیپارٹمنٹ میں نااہل تفتیشی افسران تواپنی جگہ،اعلیٰ تعلیم یافتہ انوسٹی گیشن آفیسربھی پیشہ وارانہ صلاحیتیں بروئے کارلانے کے بجائے تمام کام جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کرانے کی جستجومیں رہتے ہیں۔انہیںکسی قاتل،ڈکیت کاسراغ لگانا مقصود ہو یا خطرناک اشتہاری کے روابط کا پتہ چلانا درکارہو،فیلڈ میں جانے کی زحمت کرنے کے بجائے وہ یہ کام موبائل ڈیٹا سے بیٹھے بٹھائے ہی کرانے کے عادی ہورہے ہیں، ایسے افسران مطلوب ملزمان کی موجودگی کاپتہ چلانے کے لئے اس کی سم لوکیشن پر انحصارکرتے ہیں، پولیس کے ایسے حربوں سے آگاہی رکھنے والے چالاک ملزمان بھی اسے چکر دینے کے لئے نت نئے اندازاپنارہے ہیں، ایسے میں وہ اپنے موبائل فون ساتھ رکھنے کے بجائے کسی خاص مقام پرمنتقل کردیتے ہیں،تفتیشی عملہ جہاں ان کی واپسی کا منتظر رہتا ہے توجرائم پیشہ عناصر جدیدمانیٹرنگ کے باوجوداپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں۔

نشاط آباد پولیس کے دو اہلکاروں کاخون کرنے اوراس کے کچھ عرصہ بعد لاری اڈہ میں ایس ایچ اومدینہ ٹاون مہر ندیم انجم کوگن مین سمیت شہید کرنے والے خطرناک اشتہاری حافظ سلمان رندھاواکی طرف سے بھی ایسے ہی حربے استعمال کئے جانے کی اطلاعات ہیں کہ جس کے موبائل کی واضح لوکیشن کے باوجود اس کی گرفتاری کے لئے مارئے گئے کئی ایک چھاپے ناکام رہے ہیں۔ یہی نہیں فیصل آباد پولیس کو قتل ڈکیتی، دہشت گردی اور مقابلوں سنگین نوعیت کے ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ ہائی پروفائل کیسز کے کئی ایک کیس ٹریس کرنے میں بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ جدید ڈیوائسز پولیس ڈیپارٹمنٹ کی دسترس میں نہ ہونے کے سبب متعلقہ افسران کوموبائل ڈیٹااورسم لوکیشن کے حصول کے لئے ایجنسیوں کی خدمات لیناپڑتی ہیں،پولیس والوں کے مطابق رپورٹس موصول ہونے تک مطلوب کریمینلزکہیں سے کہیں جاچکے ہوتے ہیں۔

پولیس افسران کی خواہش ہے کہ موبائل ڈیٹا اور سم لوکیشن ٹریس کرنے کی حامل ڈیوائسز ان کے ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہونی چاہیئں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی ہاتھ میں لینے کی جستجورکھنے والے پولیس افسران کو جرائم پیشہ عناصرسے روابط رکھنے والوں سے آگاہی فراہم کرنے کے لئے چند برس قبل آسان مواقع دیئے گئے لیکن چند کالی بھیڑوںنے اس سہولت کو نہ صرف کمائی بلکہ معززگھرانوں کی خواتین کی ذاتی معلومات افشاں کرکے بلیک میلنگ کاذریعہ بنالیاجس پر متعلقہ حکام کوموبائل ڈیٹاکی شیئرنگ کے لئے سخت شرائط مقررکرناپڑیں۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں نیچے سے اوپرتک سب ہی غیر ذمہ داریاکرپٹ ہیں۔

دیگر سرکاری اداروں کی طرح محکمہ پولیس میںبھی اچھے برے لوگ ہوسکتے ہیں لیکن انصاف کے حصول کے لئے چوکی تھانوں اور پولیس دفاترکے چکر کاٹتے ہوئے خوارہونے والوں میں زیادہ تعداد عام شہریوں کی ہوتی ہے، اسی لئے ان کے زیادہ گلے شکوے بھی محکمہ پولیس اوراس کے افسران سے ہیں۔ دیکھا جائے تو پولیس کے شعبہ تفتیش کی ناقص کارکردگی فیصل آباد تک ہی محدود نہیں پنجاب کے دیگر شہروں میںڈیوٹی کرنے والے تفتیشی افسران بھی ایسے ہی گل کھلارہے ہیں، جس بنا پر ضرورت اس امر کی ہے کہ ناقص تفتیش کی شکایات کاسبب بننے والے تفتیشی افسران کومحکمہ پولیس سے نہیں توکم ازکم شعبہ تفتیش سے واچ اینڈ وارڈ میں تبدیل کرکے انہیں ناکہ بندی سمیت جنرل گشت ڈیوٹی پرمامورکیاجائے تاکہ سنگین اورعام نوعیت کے مقدمات کی تفتیش میں عام شہریوں سے ہونے والی ناانصافیوں کاخاتمہ ممکن ہوسکے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔