تنہائی کاجن

زندگی کے تجربات کویکسانیت کابھالابناکر روح میں اُتارلیتے ہیں۔تلخیوں کو کریدکریدکرزندہ رکھتے ہیں

raomanzar@hotmail.com

قریشی صاحب سے دوستی پرانی نہیں ہے۔صر ف دوڈھائی برس پہلے کاذکرہے۔قریشی صاحب ستربرس کے لگ بھگ ہیں لیکن پچاس برس سے زیادہ بالکل معلوم نہیں ہوتے۔ملاقات بھی عجیب طریقے سے ہوئی۔مجھے اسکول کے زمانے سے اب تک تیرنے کاشوق ہے۔گرمیوں میں مقامی کلب اورسردیوں میں سول افسروں کے میس میں گرم پانی کے سوئمنگ پول میں شوق پوراکرتاہوں۔بذات خود تیراکی ایک بہت بڑامضمون ہے۔اس پرکسی اوروقت لکھوں گا۔

دوبرس پہلے تیراکی سے فارغ ہوکر باہرکرسی پربیٹھا تھا۔ساتھ ہی صحت مند بزرگ تشریف فرماتھے۔انھیں کئی مہینوں سے دیکھ رہاتھامگرکبھی بات نہیں ہوئی تھی۔اس دن سلسلہ شروع ہوا۔مجھے قریشی کہتے ہیں۔ یوںابتدائی تعارف ہوا ۔خیرتھوڑے سے عرصے میں دوستی ہوگئی۔ پچاس منٹ تیرنے کے بعدقریشی صاحب،کافی کاایک کپ پیتے تھے۔ یہ بات چیت کابہترین وقت ہوتاتھا۔تعجب ہواجب انھوں نے اپنی اصلی عمربتائی۔تاریخ پیدائش ملک بننے سے پہلے کی تھی۔

بڑھاپے میں اتنی پھرتی،اتنی بھرپورصحت بہت عرصے بعددیکھنے کوملی تھی۔ایک دن ہم دونوں سوئمنگ پول کے باہربیٹھے ہوئے تھے۔کافی کاایک کپ پینے کے بعددوبارہ کافی منگوائی۔پہلی مرتبہ ہواتھاکہ انھوں نے کافی کے دوکپ منگوائے ہوں۔چہرے پرسوال دیکھ کرکہنے لگے،آج میری ''برتھ ڈے''ہے اور اسے صرف اپنے ساتھ منارہا ہوں۔ دوسری کافی میرابرتھ ڈے گفٹ ہے۔قریشی صاحب ترنگ میںتھے۔ان سے وہ سوال کیاجوتقریباًایک سال سے میرے دماغ میں تھا۔آپکی اچھی زندگی اورصحت کاکیا راز ہے۔کہنے لگے،ڈاکٹر!بڑی مشکل بات پوچھ لی ہے۔

اب جواب غورسے سنو۔پچاس برس کی عمرتک بہت اچھی زندگی گزاری۔کاروبارکیا۔ پیسے کمائے۔ہروقت ذہن میں یہی دھن سنواررہتی تھی کہ بچوں کوسیٹل کرناہے۔خیرانکوبھی کاروبارکرواکردیدیا۔وہ بھی دولت میں کھیلنے لگے۔پھر بڑے بیٹے کے ذہن میں بھوت سوارہواکہ بہترزندگی کے لیے کینیڈا منتقل ہوناہے۔کیونکہ اب تمام فیصلے خودکرتاتھا۔لہذامیں نے انکارنہیں کیا۔بیٹاصرف ایک ہے۔باقی بیٹیاں ہیں۔ خیراسے کینیڈامنتقل ہونے میں دوسال کاعرصہ لگا۔پراس دوسال میں مجھے یہ فکرلاحق ہوگئی کہ گھرتوخالی ہوجائیگا۔ بیٹیاں بیاہی جاچکی ہیں۔اب بیٹابھی چلاجائیگا تو پھر کیا ہوگا۔ہاں،ایک بات بتانابھول گیا۔بیوی کاانتقال اس وقت ہواجب سرمد چھوٹا سا تھا۔

سرمد،قریشی صاحب کے بیٹے کانام ہے۔دوسری شادی نہیں کی۔صرف اس لیے کہ مرد جب دوسری شادی کرتا ہے، تو وہ اپنی اولادکے لیے اجنبی سا تیسراانسان بن جاتا ہے۔ خیرسوچنے سے کیا ہوتا ہے۔ بیٹا بڑے آرام سے کینیڈا منتقل ہوگیا۔ گھرمیں اکیلارہ گیا۔اس وقت عمرتقریباً ساٹھ برس ہوچکی تھی۔گھر،اس قدرخالی ہوچکا تھاکہ ہول آتا تھا۔ روزفیکٹری جانابھی عجیب سالگتا تھا۔ بڑی مشکل سے اپنے آپ کوبسترسے خودہی زبردستی نکالتا تھا۔ پھرلاؤنج میں گھنٹوں بیٹھااخبارپڑھتارہتاتھا۔پرانے دوستوں سے کبھی کبھی ملاقات ہوتی تواکثرکہتے کہ چلوکسی عورت کو سہارا دینے کے لیے شادی کرلو۔کم ازکم کوئی بات کرنے والا توموجودہوگا۔مگرمجھے یہ تجویزپسندنہیں آتی تھی۔

اسی طرح پوراایک سال گزرگیا۔ایک دن،ٹی وی پر جانوروں کاچینلAnimal Planetدیکھ رہا تھا۔ دیکھاکہ ہاتھیوں کاایک جھنڈشدیدخشک سالی میں بھی اکٹھا رہتاہے۔کوئی بھی دوسرے جانورکواکیلانہیں چھوڑتا۔دماغ میں پتہ نہیں کیاخیال آیا۔تحقیق کرنے لگاکہ جنگلی جانوروںکی اکثریت کیسے رہتی ہے۔جواب بے حدآسان تھا۔ اکثر جانور،گروہ کی صورت میں رہتے ہیں۔ضمنی سوال اُٹھاکہ اگر اکیلے رہ جائیں توکیاہوتاہے۔تجزیے کانتیجہ خوفناک تھا۔ اکیلاجانوربہت تھوڑے سے عرصے کے بعدکسی نہ کسی وجہ سے مرجاتاہے۔جب اسی معاملے کوانسانوں میں دیکھا تو نتائج حیران کن حدتک یکساں تھے۔پختہ عمرکے اکثر لوگ، تنہائی کے بوجھ کوبرداشت نہیں کرسکتے۔


زندگی کے تجربات کویکسانیت کابھالابناکر روح میں اُتارلیتے ہیں۔تلخیوں کو کریدکریدکرزندہ رکھتے ہیں۔سوچ کواس قدرمنفی کرلیتے ہیں کہ اولاد،رشتہ داراوردوست ملنے سے بھی کتراتے ہیں۔ اپنی کامیابیوں کوبھول کر،صرف اورصرف زندگی کے حوادث کواوڑنابچھونابنادیتے ہیں۔چندسال میں ہی،کسی مہلک بیماری کوتمغے کی طرح سینے پرسجائے،قبرمیں اُترجاتے ہیں۔ایک چیزجوجانورہروقت یادرکھتے ہیں کہ جنگل میں گروہ کی صورت میں رہناہے۔ہرگزہرگزتنہانہیں رہنا۔یہ دانااوربزرگ لوگ یکسراس اہم نکتے کوبھول جاتے ہیں۔ قریشی نے کافی کی چسکی لگاتے ہوئے کہا،یہی نکتہ گرہ سے باندھ لیا۔ اپنے آپکولوگوں سے جوڑنے کانایاب فن سیکھ لیا۔

میراسوال تھا،مگرکیسے۔قریشی نے ہنسناشروع کردیا۔ کہنے لگا، دن میں ساری نمازیں دفتریااپنے کمرے میں بیٹھ کرپڑھتاتھا۔وجہ یہ کہ گھٹنوں کے بل بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ سب سے پہلے گاڑی کی ڈگی میں ایک فولڈنگ چیئر رکھوائی۔فجرکی نماز،نزدیک مسجدمیں پڑھنے چلاگیا۔کرسی نکال کرکونے میں رکھی اورجب جماعت ہوئی توصف کے آخرمیں کرسی پربیٹھ کرنمازپڑھنے لگ گیا۔ دن میں جتنی بھی نمازیں ہوتیں۔ نزدیک ترین مسجدمیں پڑھناشروع کر دیں۔ پہلی مثبت بات یہ ہوئی کہ اپنے علاقے کے لوگوں سے شناساہوگیا۔ڈیفینس میں محلہ کاکوئی وجودنہیں تھا۔مگرمیں نے نزدیک ترین لوگوں سے ملناشروع کردیا۔معلوم ہواکہ یہاں توہرکوئی اکیلا ہے۔

اپنی اس سوچ کولوگوں سے ''شیئر'' کرناشروع کردیا۔ صبح کا وقت بے حدخوش گوارگزرنے لگا، پھر ہفتے میں تین دن گھرکے نزدیک پارک میں جاناشروع کردیا۔پہلی بارپتہ چلاکہ اس پارک میں، ایک ''یوگا گروپ'' بناہواہے۔سترکے قریب مرد،بچے،بوڑھے،خواتین،ایک گروپ کی صورت میں ورزش کرتے ہیں۔ان کے لیے یوگا کا ایک ماہر،مفت ورزش کراتاہے۔میں بھی گروہ میں شامل ہوگیا۔ایک ماہ تک میں تقریباًساٹھ ستر دوست بنا چکا تھا۔

یوگامیں جب استادنے سرکے بل کھڑے ہونے کے لیے کہا، تو تقریباًبیہوش ہونے والاہوگیا۔کیسے کرونگا۔تین بارکوشش کی مگرہربارگرجاتا تھا۔ میری حالت دیکھ کرساتھ والا نوجوان اُٹھا۔ ٹانگوں کوسہارا دیا اورمیں تیس سیکنڈکے لیے سرکے بل کھڑا ہوگیا۔ اس مضحکہ خیز حالت میں،بے ساختہ ہنسناشروع کر دیا۔نوجوان نے میری طرف دیکھا۔وہ بھی سرکے بل کھڑا ہوکرقہقہے لگانے لگا۔ہمیں اس حالت میں دیکھ کرگروپ کے اکثرلوگوں نے مسکراناشروع کردیا۔خیراب میرے پاس فیکٹری جانے سے پہلے بھرپور مصروفیت تھی۔یوگاگروپ میں تجویزدی کہ ہفتہ میں ایک شام سارے لوگ اپنے اپنے گھرسے ایک کھانا بنواکرلائیں گے۔کاغذکی پلیٹوں میں سب ملکرکھاناکھائینگے اورمل کر دوگھنٹے بھرپور طریقے سے گزاریں گے۔عمرکی کوئی قید نہیں ہوگی۔طے ہوگیا کہ جمعہ کی شام کوہم سارے،یہاں ملکرکھانا کھایا کرینگے۔اب میرے پاس سات دنوں میں ایک مسکراہٹوں والی شام بھی آگئی، تین چارگھنٹے آرام سے گزرجاتے تھے۔

فیکٹری سے چھٹی کرناچھوڑدیا۔ساتھ ساتھ دفترمیں بھی بیٹھناتقریباًختم ہوگیا۔دن میں تین دفعہ پوری فیکٹری کاچکرلگاتا تھا۔ہرورکرکے پاس جاکرکام دیکھتا تھا۔ معیار جانچتا تھا۔سب سے بڑی بات،اپنے مزدورکی ہمت بڑھاتا تھا۔ ان کی مشکلات کواپنی مشکل بناناشروع کردیا۔یہ حالت ہوگئی کہ اسٹاف اورعملے نے کئی بار اتوارکوبھی چھٹی کرنے سے انکارکردیا۔فیکٹری اس درجہ بہترہوگئی کہ آرڈر آنے تقریباًدوگنے ہوگئے۔منافع کودوحصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ،پہلے کی طرح اپنے لیے اوردوسراحصہ،اپنے ورکروں کی بھلائی کے لیے۔ان کی اولادکی بہترتعلیم کے لیے،ان کی بیماریوں کے علاج کے لیے۔صرف دوسال میں میں نے دوسری فیکٹری لگالی۔صرف اسلیے کہ میرے ورکر،اب مجھے اپنا سمجھنے لگ گئے تھے۔بالواسطہ طورپرمنافع میں بھی شرکت دارتھے۔سیٹھ اورمزدورکاتعلق کب کاختم ہوگیا۔

سرمد،کینیڈاسے سالانہ چھٹیوں پروطن آیا۔تومیری روٹین دیکھ کرحیران ہوگیا۔فیکٹری گیاتوششدررہ گیا۔ جس طرح میراعملہ کام کرتاتھا اس لگن سے تویورپ میں بھی کام نہیں ہوتاتھا۔سرمد،میرے پاس آیا،بیٹھے بیٹھے کہنے لگا کہ بابا،آپ نے توکمال کردیا ہے۔ آپکو تو تنہائی "راس" آگئی ہے۔میراجواب تھاکہ تنہائی نہیں،مجھے دوستی اور شناسائی راس آچکی ہے۔خیرایک اورنکتہ، پانی سے ہمیشہ ڈرلگتا تھا۔ خواب میں بھی پانی نظرآتاتھاتوخوف سے اُٹھ بیٹھتاتھا۔ اپنے دیرینہ خوف کوفتح کرنے کافیصلہ کیا۔پینسٹھ برس کی عمرمیں ایک انسٹرکسٹرسے تیرناسیکھنے لگا۔پہلے لوگ میرے اوپرہنستے تھے،کہ یہ بابااس عمرمیں کیاکررہا ہے۔ مگر صرف دومہینے میں تیراک بن گیا۔اب میں ہفتہ میں تین چاردن، بھرپور سوئمنگ کرتاہوں۔پانی میرے لیے مذاق بن گیا ہے۔ میں نے اپنے بچپن کے خوف پربھی قابو پا لیا ہے۔

قریشی نے بڑے آرام سے اپنی زندگی کے اَن دیکھے گوشے بیان کیے۔پچھترسال کے بوڑھے کے چہرے پر، بچوں جیساسکون اورمسکراہٹ تھی۔اُٹھتے ہوئے کہنے لگا، ڈاکٹر،ہم لوگ اتنے کندذہن ہیں،کہ جانوروں تک سے سبق نہیں سیکھتے۔میں نے دوبارہ زندہ رہنا،انھی جانوروں سے سیکھاہے۔تنہائی کے جن کوبوتل میں بندکرکے زمین میں دفن کردیاہے۔اب لوگوں کے ساتھ جڑکر، زندہ رہنے کاقدرتی فن سیکھ چکاہوں۔ہم لوگ،اپنی بزرگی کے زعم میں،اچھے طریقے سے زندگی گزارنے کوفراموش کردیتے ہیں۔سمجھتے نہیں،کہ اصل قاتل توتنہائی اور اکیلاپن ہے۔ باقی توسب کچھ بہانے ہیں!
Load Next Story