وزیراعظم کی تقریر
عمران خان اکثر ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور ترکی کے اردگان کا حوالہ دیتے ہیں
''آٹا مہنگا بکے، کیے جاؤ تقریر... خون بہتا رہے، کیے جاؤ تقریر... کوئی سنے یا نہ سنے، بس کیے جاؤ تقریر''
عوام کو خوش کرنے، تسلی دینے اور بڑھک مارنے کے لیے یہ جامع اور قابل ذکر تقریر تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں سوئٹزرلینڈ سے بہتر پروجیکٹ بنانے کا بھی وعدہ کرلیا ہے۔ کیا انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ سوئٹزرلینڈ دنیا کے ڈاکوؤں کا ساہوکار ہے۔
آج سوئٹزرلینڈ کی 50 فیصد دولت کے مالک ایک فیصد لوگ ہیں، جبکہ باقی 50 فیصد دولت کے مالک 99 فیصد لوگ ہیں۔ یہ ہے جنت نظیر سوئٹزرلینڈ۔کیا وہ پاکستان میں طبقاتی تفریق کو ختم نہیں بلکہ نواز شریف کی طرح پروجیکٹ بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں محنت کشوں میں اکثریت کسانوں کی ہے، وہ تین سو روپے کی روزانہ دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اور جاگیردار دن کا کھانا کھلا کر احسان مندی جتاتا ہے، جبکہ چند جاگیردار اور سرمایہ دار ہماری زمینوں، معدنیات، صنعتوں اور وسائل پر قابض ہیں۔ سب سے پہلے ان لاکھوں ہیکڑ زمین کو کروڑوں بے زمین کسانوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بھلا وہ یہ کام کیسے کریں گے؟
جب آپ شروعات جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی قیادت میں کریں گے تو وہ کیونکر کسانوں اور مزدوروں کی بھلائی کریں گے۔ اب عمران خان کہتے ہیں کہ کرپشن کے پیسے ملک میں واپس لاکر قرضہ چکائیں گے۔ درحقیقت ہم جتنا قرضوں کا سود ادا کرچکے ہیں وہ قرضوں سے بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے انھیں چاہیے کہ بیرونی قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کرلیں اور اپنے ملک کی زرعی، معدنیات اور آبی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے صنعتوں کا جال بچھائیں، جس سے ملک بھی خودکفیل ہوگا اور بے روزگاری بھی دور ہوگی۔
ہمارے سب سے زیادہ غیر پیداواری اخراجات دفاعی اخراجات ہیں۔ اسلحہ سازی پر ہم جتنا خرچ کرتے ہیں اتنا گندم، دال اور چاول کی پیداوار پر خرچ نہیں کرتے اور صحت و تعلیم پر۔ فوراً کہا جائے گا کہ اگر دفاعی اخراجات کم کیے تو انڈیا حملہ کردے گا۔ اگر ایسا ہے تو انڈیا نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش اور سری لنکا پر کیوں حملہ نہیں کرتا۔ کیوبا اور سوشلسٹ کوریا امریکی سامراج کا قطعی کاسہ لیس نہیں ہیں، پھر ان پر امریکا کیوں حملہ نہیں کرتا۔ کیوبا کے پاس تو ایٹم بم بھی نہیں ہے، وہاں سو فیصد لوگ خواندہ ہیں، کینسر، ہیپاٹائٹس اور ایڈز کے امراض ناپید ہیں۔ 90 ترقی پذیر ملکوں میں کیوبا کے 36000 ہزار ڈاکٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہاں جاگیرداری اور سرمایہ داری ناپید ہے۔
عمران خان نے ہیلتھ کارڈ کے اجرا کی بات کی ہے۔ اس کے بجائے سندھ کے کارڈیو اسپتالوں میں جس طرح مفت، معقول اور بروقت علاج شروع ہو چکا ہے، اسی طرح ملک بھر میں تمام اسپتالوں میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک انھوں نے کرپشن کے خاتمے کی بات کی ہے تو احتساب ہر ادارے اور ہر شخص کا ہونا چاہیے۔ ہمارے جنرلوں، علما، سول نوکر شاہی، ججوں، وکیلوں، ڈاکٹروں، تاجروں، مل مالکان اور جاگیرداروں نے کھربوں ڈالر کی کرپشن کی ہے، ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ دفاعی اخراجات کا حساب کتاب پارلیمنٹ میں پیش ہونا چاہیے اور ججوں کی کرپشن کے معاملات بھی پارلیمنٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک مدینے کی ریاست اور نبی کریمؐ کی بار بار مثالیں دی ہیں تو حضورؐ کے پرانے کپڑوں پر کم ازکم 70 پیوند ہوتے تھے، لہٰذا عمران خان کے پرانے کپڑوں پر کم از کم 7 پیوند تو ہونے چاہیے تھے۔ جب عوام آپ کے ساتھ ہیں تو آپ کو فکر کس بات کی؟ کیا پیغمبر اسلامؐ اور خلفائے راشدین اپنے لیے سیکیورٹی رکھتے تھے؟ ہمارے پیغمبر اسلامؐ اور خلفائے راشدین تو چٹائی پر لیٹتے تھے، تو عمران خان کم از کم عوام کے ساتھ بسوں میں سفر تو کریں۔ انھوں نے کے پی کے کی پولیس کی اصلاحات کا نمونہ پیش کیا۔
کیا خوب ہے عمران صاحب کی مثال؟ اسما رانی، عاصمہ اور دو گلوکاراؤں اور سب سے زیادہ بہیمانہ طور پر قتل کیے جانے والے مشال خان کے قاتلوں کو ابھی تک کے پی کے کی پولیس نے کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایا۔ نقیب اﷲ محسود کا قاتل آزاد پھر رہا ہے۔ عمران خان کے وزیر خزانہ جب 200 اداروں کی نجکاری کی بات کرتے ہیں تو وہ کس کی خدمت کرنے کی بات کرتے ہیں، نیو ورلڈ آرڈر کے تحت عالمی مالیاتی اداروں کی یا پاکستان کے محنت کشوں کی؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں، اب وہ کیا تبدیلی لاتے ہیں دیکھیں گے، فرق اتنا ہوگا کہ امریکا کے ساتھ ساتھ چینی اور روسی سامراج کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔
عمران خان اکثر ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور ترکی کے اردگان کا حوالہ دیتے ہیں، تو چلیے ایک حد تک گزارا کرتے ہوئے ان کی جزوی عوامل کی ہی تقلید کریں۔ ملائیشیا کے سابق وزیراعظم تنگ عبدالرزاق کے دور میں چینی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدات مہاتیر محمد منسوخ کرنے جارہے ہیں، اس لیے کہ انھوں نے کرپشن کی تھی، مہاتیر محمد نے چینی ہم منصب کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی چینی کمپنیوں نے مقامی ٹھیکیداروں سے مل کر خوب لوٹا ہے، جس کا ثبوت سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نے اپنے مکالمے میں دیا ہے۔
دوسری طرف ترکی نے ڈالر کے ذریعے لین دین کرنے کے بجائے ترکی، ایرانی، روسی اور چینی کرنسیوں میں تجارت کرنا شروع کردیا ہے۔ اگر ہم بھی پاکستانی، روسی، چینی اور ترکی کی کرنسیوں میں تجارت شروع کردیں تو کیا بہتر نہیں رہے گا؟ وزیراعظم ہاؤس چھوڑنے سے یا یونیورسٹی بنانے سے مسئلے کا کوئی حل نہیں بلکہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خاتمے میں سارے مسائل کا حل ہے۔ اب یہ عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کا شکار ہے۔
جاپان کی شرح نمو منفی ہے، جرمنی کی آٹھ فیصد سے گھٹ کر دو فیصد پر آگئی ہے، امریکا کی تین فیصد کو آن پہنچی ہے۔ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک امریکا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو ڈاکٹر فیڈل کاسترو، چی گویرا، ہوچی منہ، ماؤژے تنگ اور ہیوگو شاویز کی طرح جرأت مندانہ اقدام کرنے ہوں گے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کریں اور دفاعی اخراجات میں پچاس فیصد کمی کریں۔ ہر چند کہ مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی یا کمیونسٹ سماج میں ہی ممکن ہے، باقی تمام راستے بند گلی میں جا گھستے ہیں۔