توڑ کے اس کشکول کو آدھی کھا لو
ڈاکٹر عمران نے اعلان کیا ہے کہ ’’میں نے عمران خان کی بطور وزیراعظم تقریر سن کر فیصلہ کرلیا ہے
نومنتخب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حلف برداری کے بعد پہلا خطاب کیا، جسے ٹیلی ویژن، ریڈیو پر ملک اور بیرون ملک دیکھا اور سنا گیا۔ ایک گھنٹہ 9 منٹ جاری رہنے والا یہ خطاب تبدیل شدہ تھا۔ پہلے وزرائے اعظم کے خطاب کسی سکہ بند دانشور کے لکھے ہوئے ہوتے تھے، جسے نومنتخب وزیراعظم غریب عوام کے منہ پر مار کر لمبی تان کر سو جاتا تھا، جاگتا تھا تو کشکول اٹھا کر ملکوں ملکوں بھیک مانگنے نکل جاتا تھا تاکہ اپنا اور اپنے وزرا وغیرہ کی عیاشیوں کا سامان کرسکے۔
22 واں وزیراعظم جاگ رہا ہے، جو جو اعلانات اس نے کیے ہیں، غریبوں کے دل کی آواز ہیں۔ اس نے کہا ہے ''مجھے ملکوں ملکوں بھیک مانگتے شرم آئے گی، جو بھیک دیتا ہے وہ آزادی چھین لینے کی کوشش کرتا ہے۔ میں وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہوں گا، میں تین بیڈ روم والے مکان میں رہوں گا، جس کا رقبہ ایک کنال (500 گز) ہے۔ میں اپنے پاس صرف دو گاڑیاں رکھوں گا اور 88 میں سے 86 گاڑیاں نیلام کردوں گا۔ جن میں 33 بلٹ پروف گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کو اعلیٰ ٹیکنیکل ریسرچ سینٹر بنادیا جائے گا۔ جہاں دنیا بھر سے ماہرین بلائے جائیں گے۔ کوئی گورنر، گورنر ہاؤس میں نہیں رہے گا۔ گورنر ہاؤسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کیا جائے گا۔
وزرائے اعلیٰ ہاؤسز بھی عوامی فلاحی اداروں میں تبدیل ہوجائیں گے۔ صدارتی محل بھی صدارتی محل نہیں رہے گا۔ صدر، وزیراعظم، وزرا، سرکاری افسران سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کروانے نہیں جائیں گے۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے میں اپیل کروں گا کہ زرمبادلہ بذریعہ بینک پاکستان بھیجیں۔ اس آخری بات کے حوالے سے ذکر کرتا چلوں اب یہ خبر دنیا بھر کے نشریاتی اداروں پر نشر ہوچکی ہے۔ امریکا میں مقیم ڈاکٹر عمران جو امریکا میں بہت بڑے ڈاکٹر ہیں ان کی بیوی بھی ڈاکٹر ہیں ان کا گھر ایک خوبصورت جھیل کے کنارے پر ہے۔
ڈاکٹر عمران نے اعلان کیا ہے کہ ''میں نے عمران خان کی بطور وزیراعظم تقریر سن کر فیصلہ کرلیا ہے کہ میں بڑی بھاری تنخواہ چھوڑ کر اور اپنا گھر بیچ کر واپس پاکستان آرہا ہوں، میں نے اپنی بیوی کو بھی کہہ دیا ہے کہ وہ بھی نوکری چھوڑ دے۔ اب ہم واپس آکر اپنے وطن کو بنائیں گے۔'' ابھی ایسے ہی ڈاکٹر عمران اور بھی سامنے آئیں گے جو اپنا سب کچھ بیچ کر وطن کی محبت میں واپس وطن آجائیں گے۔ یہ جو باتیں عمران خان کر رہا ہے ایسی باتیں سننے کے لیے غریب ترس رہے تھے۔ وطن کے لیے دردمند دل رکھنے والے یہی کہتے سنے گئے ''ہمارے پاکستان میں کوئی مہاتیر محمد کب آئے گا، کوئی طیب اردگان کب آئے گا۔'' عمران خان کی باتیں اس کی حرکات و سکنات بتا رہی ہیں کہ شاید ہمارا نجات دہندہ آگیا ہے۔ میں نے شاید کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دھوکے بہت کھائے ہیں، مگر اس بار دل کہتا ہے کہ اس بار دھوکا نہیں ہوگا۔
دانشور حضرات عمران خان کی ٹیم میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ یہ دانشور خوب جانتے ہیں مگر کہتے نہیں اور نہ کبھی کہیں گے کہ ٹیم کا کپتان ٹھیک ہو تو وہ اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کردیتا ہے۔ یہ عمران خان ہی تھا جس نے 92 کے ورلڈ کپ میں اعجاز احمد (جو ریگولر بالر نہیں تھا، جو بیٹس مین تھا) سے دس دس اوور پھنکوائے۔ یہ عمران خان ہی تھا جو خود کو ون ڈاؤن پوزیشن پر لے آیا، اور کامیاب بیٹنگ کی۔ دراصل کپتان عمران خان پویلین میں بیٹھ کر ٹیم کے کھلاڑیوں کو کھیلتا اور آؤٹ ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
اسی لیے وہ ون ڈاؤن پوزیشن پر میدان میں اتر کر اپنے کھلاڑی سے محض 22 گز کے فاصلے پر رہنا چاہتا تھا تاکہ اپنے کھلاڑی پر قریب سے نظر رکھے کہ وہ ایک ایک گیند کو کیسے کھیل رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ 92 کا ورلڈ کپ ہم نے عمران خان کی دلیرانہ کپتانی کی وجہ سے جیتا تھا۔ میدان کوئی بھی ہو، میدان بہرحال میدان ہوتا ہے۔ فتح حاصل کرنے کے اصول یکساں ہوتے ہیں۔ مثلاً آج سیاسی میدان میں بھی ''ون ڈاؤن'' جیسی اہم پوزیشن کپتان نے سنبھال رکھی ہے۔ اور وہ ہے ''وزیر داخلہ''۔ باقی وزارت داخلہ کے مضمرات سے سب واقف ہیں۔ بات آخری یہی ہے کہ کپتان بلند نگاہ ہو۔ سخن دل نواز ہو اور جاں پرسوز ہو تو میر کاررواں اپنے قافلے کو صحیح سلامت منزل تک لے آتا ہے۔
اور یہ جو ''گفتگو گروپ'' والے ہیں ، جو شام ڈھلے گفتگو کرنے بیٹھ جاتے ہیں انھیں بولنے دو، کیونکہ یہی کام جانتے ہیں۔ عمران خان! تم اپنا یہی رنگ ڈھنگ رکھنا، اور اسی صورت چلنا۔ مجھے کچھ یاد آگیا ہے۔ ابھی ڈیڑھ سال پہلے میں لاہور کی ایک ادبی تقریب میں شامل تھا۔ یہ تقریب انجمن ترقی پسند مصنفین (جاوید گروپ) کے زیر اہتمام تھی۔ مجھے اس بات کا بڑا دکھ تھا کہ ترقی پسند مصنفین تقسیم کیوں ہیں۔ یہ تقریب کارل مارکس کی یاد میں تھی اور قائداعظم اکیڈمی باغ جناح میں ہورہی تھی جس کے عین سامنے سڑک کے پار پنجاب کا گورنر ہاؤس تھا اور آج بھی ابھی تک ہے۔
میں نے وہاں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ''یارو! تم لوگ تقسیم کیوں ہو، خدارا اس تقسیم کو ختم کرکے ایک ہوجاؤ۔'' پھر میں نے گورنر ہاؤس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ''میں نے اس گورنر ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے مگر میں قبضہ کیسے کرسکوں گا جبکہ میرے ساتھی میرے قافلے والے تقسیم ہیں۔'' اس وقت تو میری بات دیوانے مستانے کی بڑ ہی سمجھی گئی ہوگی مگر آج محض ڈیڑھ سال بعد ''دیوانے کی بڑ'' سچ ہوگئی ہے۔ اب میں نے بھی ارادہ کرلیا ہے کہ آیندہ سال 30 اپریل 2019 کا 20 واں یادگاری جلسہ گورنر ہاؤس پنجاب میں ہوگا۔ ہر سال کسی ایک شخصیت کو ''حبیب جالب امن ایوارڈ'' دیا جاتا ہے، اب تک 12 ایوارڈ 12 سال میں 12 شخصیات کو دیے جاچکے ہیں، اور 30 اپریل 2019 کے دن 13 واں ایوارڈ عاصمہ جہانگیر کو دیا جائے گا اور یہ تقریب گورنر ہاؤس لاہور میں ہوگی۔
عمران بحیثیت وزیراعظم عوام سے باتیں کر رہا تھا اور میں پچاس سال پیچھے جا پہنچا تھا۔ جہاں جالب بول رہا تھا:
پاکستان کی غیرت کے رکھوالو، بھیک نہ مانگو
توڑ کے اس کشکول کو آدھی کھالو، بھیک نہ مانگو
اپنے بل پر چلنا کب سیکھو گے
طوفانوں میں پلنا کب سیکھو گے
یہ کہنہ تقدیر کا شکوہ کب تک
اس کو آپ بدلنا کب سیکھو گے
خود اپنی تقدیر بنالو، بھیک نہ مانگو