ایک نظر اس طرف بھی

ناقدانہ جائزہ لیتے وقت تنقید اورعیب جوئی کے فرق کو ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہوتا ہے


Muqtida Mansoor August 27, 2018
[email protected]

عمران خان نیازی حلف اٹھا کر ملک کے 22 ویں وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں۔ اگلے ماہ کے اوائل میں نئے صدر کے انتخاب کے بعد اگلے پانچ برس کے لیے حکومتی ڈھانچہ تکمیل پذیر ہوجائے گا۔ نومنتخب وزیراعظم نے پہلی نشری تقریر بھی کردی ہے۔ جس پر ان کے حامیوں کی داد وتحسین، جب کہ نکتہ دانوں کی جانب سے تنقیدی جائزہ لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ جمہوریت کی یہ خوبی ہے کہ وہ حکمرانوں کے دعوؤں اور اقدامات کا ہر پہلو سے ناقدانہ جائزہ لینے کی اجازت دیتی ہے۔

لیکن ناقدانہ جائزہ لیتے وقت تنقید اورعیب جوئی کے فرق کو ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہوتا ہے۔ تنقید کسی فرد کی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ ہوتی ہے۔ جب کہ عیب جوئی دراصل ذاتی کردار پر حملہ یا کردارکُشی ہوتی ہے۔ ایک حقیقی (Genuine) تجزیہ نگار کبھی عیب جوئی کا راستہ اختیار نہیں کرتا، بلکہ انگریزی ادب میں مستعمل اصطلاح Critical appreciation کی راہ اختیار کرتے ہوئے حکمرانوں کے اچھے اور برے اقدامات کا تفصیلاً جائزہ لے کر آیندہ کی بہتر حکمت عملی کی تیاری کے لیے اپنے علم و تجربہ کی روشنی میں مشورے دیتا ہے۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ فروعی باتوں سے نکل کر اصل ایشوز کی بنیاد پر حکومتی فیصلوں اور اقدامات کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے۔

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے نشری خطاب میں بہت سے موضوعات پر بات کی۔ تمام نکات پر گفتگو سے بہتر ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے بارے میں ان کے نکتہ نظر کا جائزہ لیا جائے۔ کیونکہ وطن عزیز میں روز اول سے ہی کرپشن کے بارے میں شور و غوغا ہے۔ ہر حکمران اور ہر دور میں کرپشن کے بارے میں واویلا مچتا ہے۔ بانی پاکستان نے بھی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں ریاست کے خدوخال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کرپشن سے بچنے کی ہدایت دی تھی۔ مگر 71 برس گزر گئے، اس عفریت سے آج تک جان نہیں چھوٹ سکی۔ اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کرپشن اصل میں کیا ہے؟ اس کے بارے میں جو آرا چلی آرہی ہیں، وہ کس حد تک درست ہیں؟ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کرپشن کوئی مجرد عمل ہے یا کسی دوسرے عمل سے پیوست کوئی ضمنی خرابی؟

کرپشن کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ ہے کہ کسی بھی بااختیار ادارے کے صاحبِ اختیار ذمے دار و اہلکار بددیانتی یا غیر قانونی دباؤ کے ذریعے جو مالی یا دیگر نوعیت کی منفعت حاصل کرتے ہیں، کرپشن ہوتی ہے۔ اسی طرح غیر قانونی طور پر کمیشنوں کا حصول، اختیارات کا ناجائز استعمال، متعین ذمے داریوں سے گریز اور ہڈحرامی بھی کرپشن ہے۔ چنانچہ وسیع تر تعریف کے مطابق ہر وہ عمل جو ماورائے آئین و قانون ہو، کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔

کرپشن ازخود جنم لینے والی برائی نہیں، بلکہ حکمرانی میں در آنے والی خامیوں، کمزوریوں اور خرابیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ حکمرانی میں خرابیاں اس وقت شروع ہوتی ہیں، جب اچھی حکمرانی کے اصول وضوابط کی نفی کی جاتی ہے۔ جمہوری اداروں کا استحکام، قانون کی بالادستی (Rule of Law)، میرٹ اور شفافیت (Merit & Transparency)، جوابدہی/ احتساب (Accountability) اور احساس ذمے داری (Responsiveness) اچھی حکمرانی کے جزولاینفک ہیں۔ ان نکات سے انحراف یا گریز حکمرانی میں خرابی بسیار کا سبب بنتا ہے، جو کرپشن جیسی خرابیوں کو جنم دینے کا باعث ہے۔

لہٰذا کرپشن یا بدعنوانی کا خاتمہ اچھی حکمرانی کے بغیر ممکن نہیں۔ مگر ہمارے یہاں کرپشن کو ایک مجرد خرابی یا خامی تصور کرتے ہوئے اسے حکمرانی سے الگ معاشرتی بیماری تصور کرلیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 71 برس سے ہر نئی قائم ہونے والی حکومت اس کے خاتمے کے بلند آہنگ دعوے تو کرتی ہے، مگر حکمرانی کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ جب اصل مرض کا علاج نہیں کیا جاتا تو ''مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی'' کے مصداق یہ بیماری پورے سماجی ڈھانچے کو اپنی لپیٹ میں لیتی چلی گئی۔ نتیجتاً اب یہ کینسر کی مانند پورے ملک میں سرتاپا پھیل چکی ہے۔ مگر پھر وہی راگنی کہ کرپشن کے خاتمے سے معاشرہ درست سمت اختیار کرلے گا، تو عرض ہے کہ محترم وزیراعظم، آپ صرف اچھی حکمرانی یعنی Good Governance قائم کردیں، کرپشن خودبخود دم توڑ دے گی۔

اچھی حکومت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے، جب نظم حکمرانی میں پائی جانے والی خامیاں اور خرابیاں واضح طور پر ہمارے سامنے ہوں اور ماضی اور حال کا تقابل جائزہ مدنظر ہو۔ 1960ء کے عشرے میں Harvard Advisory Group نے اپنی ایک اسٹڈی میں پاکستانیوں کو best performers in the developing world قرار دیا تھا۔ یہ کارکردگی کیوں روبہ زوال ہوئی، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آج بھی پاکستانی اپنی انفرادی حیثیت میں ہر شعبہ میں عمدہ کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن اجتماعی (یا ادارہ جاتی) حیثیت میں ان کی کارکردگی ناقص ہوچکی ہے۔

اس ملک کی سیاسی اور انتظامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بیوروکریسی اور فیوڈل سیاستدانوں کا جو گٹھ جوڑ (Nexus) قائم ہوگیا تھا، وہ آج بھی مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ مگر سیاسی شعور و بصیرت کے جو مظاہر انفرادی سطح پر موجود تھے، وہ سیاست کے Institutionalize نہ ہونے کے سبب بکھرتے چلے گئے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ بنگال سے ابھرنے والی حقیقی (Genuine) مڈل کلاس قیادت، جس کی وجہ سے مغربی پاکستان کے سیاستدان درست راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے تھے، وہ 1971ء کے بعد جدا ہوگئی۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے پورے سیاسی عمل کو ''بے نتھا بیل'' بنادیا۔ جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ چنانچہ 1965ء کے بعد سے پاکستان کی معیشت اور سماجی ڈھانچہ میں جو زوال آنا شروع ہوا تھا، اس کی رفتار مشرقی پاکستانی کی علیحدگی کے بعد تیز تر ہوگئی۔ نتیجتاً معیشت زبوں حالی اور سماجی ڈھانچہ انتشار و تباہی میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔

ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے، جہاں سماجی ڈھانچہ مختلف نوعیت کے تضادات کا شکار ہو، سیاست اور سیاسی افکار مبہم اور غیر واضح ہوں، نظم حکمرانی نوآبادیاتی طرز حکمرانی میں جکڑی ہو، منصوبہ سازی میں اندرونی کے ساتھ طاقتور بیرونی عوامل کی مداخلت کا سلسلہ جاری ہو۔ اقتدار و اختیار کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہوں، وہاں مثالی جمہوریت کی خواہش تو کی جاسکتی ہے، مگر توقع عبث ہے۔ ایسے معاشروں میں معروضی حالات کے تحت خرابی بسیار کا تمامتر ادراک ہونے کے باوجود جمہوری عمل کو اپنی راہیں متعین کرنے کا موقع فراہم کرنے دیا جانا چاہیے، تاکہ سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی خرابیوں پر قابو پاسکے۔ کیونکہ سیاسی عمل، مائع کی حرکیات (Fluid dynamics) کی مانند اپنا راستہ خود متعین کرتا ہے۔

نئی حکومت اگر واقعتاً کچھ کرنے کی خواہشمند ہے، تو اسے کرپشن کے خاتمے اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی جیسے گھسے پٹے نعروں میں وقت ضایع کرنے کے بجائے ان برائیوں کے اصل اسباب کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جب تک اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو دیا جانے والا ترقیاتی فنڈ فی الفور بند نہیں کردیا جاتا، ہر شعبہ اور محکمہ میں تقرریوں اور تعیناتیوں کے علاوہ سرکاری ٹھیکوں میں بھی میرٹ اور شفافیت کے اصولوں پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا، احتساب کے طریقہ کار اور میکنزم کو غیر جانبدار، آزاد اور فعال بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی، سب سے بڑھ کر ملک میں مقامی حکومتی نظام کو ریاستی انتظام کے تیسرے درجہ (Third tier) کے طور پر متعارف نہیں کرایا جاتا، کرپشن کے جن کو باآسانی بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں ہوسکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں