نوجوانوں کے بغیرنئے پاکستان کا خواب پورا نہیں ہوسکتا
ماضی کی حکومتوں نے نوجوانوں کو مایوس کیا مگر اب ان کی امیدیں عمران خان سے وابستہ ہیں
قوموں کی تاریخ میں نوجوان نسل کا کردار نہ صرف مثالی رہا ہے بلکہ ملکوں کی ترقی میں نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں اور یہی نوجوان اپنے عزم، جوش اور ولولے سے ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں 60فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور پاکستانی نوجوان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ نوجوان سیاست میں بھی پیش پیش ہیں۔
حال ہی میں تبدیلی کی جو لہر آئی جس کے تحت پاکستان تحریک انصاف نے کامیاب ہوکر اپنی حکومت بنائی ہے، اس میں بھی نوجوانوں کا کردار انتہائی اہم ہے کیونکہ عمران خان نے یوتھ پر خصوصی توجہ دی، انہیں متحرک کیا اور اب اسمبلیوں میں بھی انہیں نمائندگی دی ہے۔ نوجوانوں کے عالمی دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و سماجی نوجوان رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سمیرا احمد بخاری
(رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف )
سیاست نوجوانوں کا جمہوری حق ہے اور پی ٹی آئی نے انہیںپلیٹ فارم دیا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ''نئے پاکستان'' کا نعرہ یوتھ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ ماضی کی حکومتوں نے یوتھ کے مسائل کو حل نہیں کیا جس کی وجہ سے نوجوانوں میں غصہ پایا جاتا ہے مگر تحریک انصاف سے انہیں امید ہے۔اب ایک مثبت ہوا چلی ہے لہٰذا مجھے نوجوانوں کی تقدیر بدلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ میں گھریلو خاتون ہوں مگر تحریک انصاف نے میری حوصلہ افزائی کی۔
سیاست امراء کا نہیں محب وطن لوگوں کا کام ہے، ہمیں خود کو اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کیلئے رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔اس وقت سب سے اہم کردار نوجوانوں کا ہے لہٰذا انہیں آگے بھی مثبت سمت میں چلنا ہوگا۔ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں۔ ہم نظام میں اصلاحات کریں گے اور گلی، محلوں سے بچوں کو سکولوں میں لائیں گے اور نوجوانوں کو عزت دیں گے۔میرا کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں ہے، ہمیں حوصلہ ملا کے ہم بھی اپنے ملک کے لیے کچھ کرسکتے ہیں۔
نپولین نے کہا تھا تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔ ہمیں اپنے گھر سے تبدیلی کا آغاز کرنا ہوگا کیونکہ جب گھر کا ماحول اچھا ہوگا تو اس کے اثرات معاشرے پر پڑیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا لیڈر کمال انسان ہے، اس لیے ہمیں یقین ہے کہ تبدیلی آئے گی۔ جب گھر کے بڑے کی سوچ اچھی ہوتو کیا اس کے اثرات نیچے نہیں آئیں گے؟ ہم میں بھی خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن اللہ نے موقع دیا ہے تو ہم بہتر ڈیلور کرنے کی کوشش کریں گے۔
نوجوانوں کے حوالے سے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ میرے نزدیک نوجوانوں کی کونسلنگ بہت ضروری ہے۔ ایم پی ایز کو چاہیے کہ وہ کونسلرز کے ساتھ مل کر گلی محلوں میں نوجوانوں اور خواتین کی تربیت کے لیے پروگرامز منعقد کریں۔ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں کی زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، نیا پاکستان یوتھ کا ہوگا کیونکہ نوجوان ہی سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر سکتے ہیں۔
جواد احمد
( سربراہ برابری پارٹی پاکستان)
یوتھ میں صرف یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ہی نہیں ہیں بلکہ 20 سے 30 برس کی عمر کے وہ تمام افراد شامل ہیں جو دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں 3 کروڑ بچے آج بھی سکول نہیں جاتے۔ اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی لہٰذا ہماری یوتھ کی ایک بڑی تعداد پڑھی لکھی نہیں ہے۔ جس یوتھ کو ہم تعلیم یافتہ کہتے ہیں اس میں سے کروڑوں میٹرک پاس ہیں لیکن ان کے پاس بھی ایسا کوئی ٹیکنیکل ہنر نہیں ہے جس سے وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں میں انقلابی جذبہ نہیں ہوتا۔
وہ اپنے کیرئیر پر توجہ رکھتے ہیں،وہ ڈگری حاصل کرکے افسر بننا چاہتے ہیں اور سارا دن اپنے ملازمین کا استحصال کرتے ہیں، ان کے گھریلو ملازمین کو سرکار کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ سے بھی کم اجرت ملتی ہے لہٰذا انہیں غریب طبقے کی حالت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان میں سے بہت کم نوجوان سیاست میں آتے ہیں اور جو سیاست میں ہیں وہ بھی طبقاتی سیاست کے خاتمے کے لیے کام نہیں کررہے۔ اگر صحیح معنوں میں نوجوانوں کے مسائل حل کرنے ہیں تو طبقاتی نظام اور طبقاتی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ عام لوگوں کے لیے آگے آنے کی راہ ہموار ہوسکے۔ اس وقت موجود سیاسی جماعتیں جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور الیکٹیبلز کی جماعتیں ہیں۔
آج عمران خان وہی کام کررہے ہیں جو سب کرتے آئے ہیں۔ ان کی سیاست میں غریب اور محنت کش کی بات نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی سابق حکومت نے مزدور کی کم از کم اجرت 15 ہزار روپے دی، یہی اجرت سندھ اور پنجاب میں بھی ہے، تو انہوں نے کیا تبدیل کیا؟ عمران خان نے ٹریڈ یونینز کی کبھی بات نہیں کی بلکہ ان کی جماعت سے لیبر ونگ کا خاتمہ کردیا گیا اور ایسا اس لیے کیا گیا کہ کہیں یہ لیبر ونگ جماعت سے بڑا نہ ہوجائے کیونکہ محنت کش طبقے کی تعداد ملک میں زیادہ ہے۔ اس ملک میں سوشل سکیورٹی، پینشن، ای او بی آئی، اوور ٹائم ، کم از کم تنخواہ و دیگر عام آدمی کے مسائل ہیں مگر ان پر کسی نے بات نہیں کی۔
یوتھ کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے تعلیم، صحت، خوراک ، گھر و بہتر روزگار چاہیے۔ نوجوان جب تعلیم حاصل کرکے مارکیٹ میں جاتے ہیں تو ان کے پاس ملازمت کے مواقع نہیں ہوتے۔ افسوس ہے کہ آج بھی لاہور جیسے شہر میں نوجوان 8 سے 12 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔ تحریک انصاف کی نومنتخب حکومت نجکاری کی طرف جائے گی لہٰذا ایسی صورتحال میں نوجوانوں کے مسائل کیسے حل کیے جائیں گے۔
میرے نزدیک مسائل کے حل اور سسٹم کی بہتری کے لیے ریڈیکل ریفارمز کی ضرروت ہے۔ یہ ریفارمز جاگیردار، سرمایہ دار اور امراء کے خلاف ہونے ہیں اور یہ سب نہ صرف حکومتی جماعت بلکہ تمام جماعتوں میں موجود ہیں۔ اس ملک میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کی وجہ یہ ہے کہ غربت زیادہ ہے اور دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ امراء نے جاگیروں، صنعتوں اور اداروں پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے اورکوئی انہیں پکڑنے والا نہیں ہے۔ جس دن اس ملک میں نوجوانوں کی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہوئی، اس دن مسائل کافی حد تک حل ہوجائیں گے۔ ہمارے ہاں غیرمتوازی کام ہوتا ہے۔
انفراسٹرکچر بنائے بغیر تعلیم اور صحت کا کوئی فائدہ نہیں ہے، صرف تعلیم اور صحت دے دی جائے اور انفراسٹرکچر نہ بنایا جائے تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں گا۔ متوازی ڈویلپمنٹ کیلئے حکومت کو زیادہ پیسہ چاہیے۔ اس کا ایک طریقہ کار تو فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ ہے جو ماضی کی حکومتیںبھی لیتی رہیں اور اب یہ بھی ایسا ہی کریں گے جو نئی بات نہیں ہے۔ یہ اشیاء پر سبسڈی ختم کریں گے۔یہ ٹیکسیشن کے نظام کو اپنے طریقے سے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ میرے نزدیک مسئلہ ٹیکسیشن کے نظام کا نہیں بلکہ تسلط کا ہے۔ اس ملک میں جن لوگوں نے پیسہ لوٹا یا کمایا ہے ان کی اجارہ داری ہے۔
یہی لوگ سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں لہٰذا ان کے خلاف کریک ڈاؤن صرف وہی جماعت کرسکتی ہے جو مڈل کلاس، محنت کشوں اور نوجوانوں کی ہو۔ انسانوں کو ان کے حقوق بتانا اور موبلائز کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے مگر افسوس ہے کہ لوگوں کو آگاہی نہیں ہے۔ یہاں ووٹ برادری، جاگیرداری، پیسہ و دیگر بنیادوں پر ملتا ہے۔ جہاں ایک غریب شخص الیکشن لڑنے کیلئے 30 ہزار روپے رجسٹریشن فیس جمع نہ کروا سکے وہاں عام آدمی کیسے اوپر آسکتا ہے۔ 40لاکھ روپے الیکشن مہم پر خرچ کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 95 فیصد سے زائد آبادی کو الیکشن لڑنے کے عمل سے ہی محروم کردیا گیا کیونکہ ان کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہیں۔یہ نظام امیر کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔ ایک ہی حکمران طبقہ ہے جو تمام جماعتوں میں نظر آتا ہے جبکہ غریب سیاست میں آگے نہیں آسکتا۔
ذوہیب خان نیازی
( صوبائی رہنما نیشنل یوتھ اسمبلی )
نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری اور طبقاتی تعلیمی نظام ہے۔ بچوں کی اکثریت سکول نہیں جاتی جبکہ تعلیمی نظام امیر اور غریب کیلئے الگ الگ ہے۔ امیر کے بچوں کیلئے انٹرنیشنل تعلیمی نظام جبکہ غریب کا بچہ گورنمنٹ سکول میں پڑھنے پر مجبور ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی طبقات میں تقسیم ہے جس میں امیر مضبوط اور غریب کا استحصال ہورہا ہے جبکہ عام آدمی کے پاس آگے آنے کے مواقع بھی نہیں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ نومنتخب حکومت اس طبقاتی نظام کے خاتمے کیلئے بھرپور کردار ادا کرے گی۔نوجوانوں کو عمران خان سے بہت زیادہ توقعات ہیں کہ وہ ان کے مسائل کے حل کیلئے کام کریں گے۔
عمران خان نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی جو صرف مالی ہی نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی کرپشن بھی ہے، اس کے خاتمے سے ملک بہتر ہوسکتا ہے۔ اگر تمام معاملات شفافیت سے آگے بڑھیں ، کرپشن نہ ہو اور سب خلوص نیت کے ساتھ کام کریں تو ملک ترقی کر سکتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل باصلاحیت ہے اور آگے بڑھنے کی لگن رکھتی ہے مگر بہت کم لوگوں کو ترقی کے مواقع ملتے ہیں لہٰذا حکومت کو ان کیلئے نئے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ ہماری نوجوان نسل تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک چلی جاتی ہے جس کا فائدہ دیگر ممالک کو ہورہا ہے، اس ٹیلنٹ کو واپس ملک میں لایا جائے تاکہ ان کی جدید تعلیم اور سکلز سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
عمران خان کہتے ہیں کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان آنے کی دعوت دیں گے۔ میرے نزدیک اوورسیز پاکستانی بزنس کمیونٹی کو یہاں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جائیں، وہاں مقیم نوجوان نسل کو یہاں روزگار و چھوٹے کاروبار کے مواقع دیے جائیں، اس سے ملکی معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں منافع کی شرح بہت کم ہے جبکہ بزنس کے لیے رقم زیادہ درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ملازمت کرنے پر مجبور ہیں لیکن انہیں روزگار کے مواقع نہیں ملتے، حکومت کو چاہیے کہ کاروبارکیلئے آسانیاں پیدا کرے اس سے نہ صرف معیشت بہتر ہوگی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوجائیں گے۔
بدقسمتی سے آج بھی لوگ پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ملک نہیں سمجھتے۔ سی پیک منصوبے سے کچھ سرمایہ کاری تو آئی ہے مگر اس کا ابھی تک خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔ ملکی حالات کے پیش نظر آج بھی نوجوان ملازمتوں کے حصول کے لیے بیرون ملک جانے پر مجبور ہے، حکومت کے لیے نوجوانوں کے مسائل حل کرنا بڑا چیلنج ہوگا۔
گزشتہ دو دہائیوں میں کسی بھی سیاسی جماعت نے نوجوانوں کو اتنی پذیرائی نہیں دی جتنی تحریک انصاف میں ملی ہے۔ نوجوان پی ٹی آئی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور انہوں نے بعض معاملات میں اپنی قیادت کو بھی چیلنج کیا ہے۔ سب سے زیادہ متحرک نوجوان بھی اسی جماعت کے ہیں لہٰذا اب تحریک انصاف کی حکومت کو نوجوانوں کو کاروبار، روزگار اور آگے بڑھنے کے لاتعداد مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ امید ہے کہ نو منتخب حکومت تمام مسائل پر بخوبی قابوپالے گی۔
قرۃ العین
( وزیر خزانہ سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ )
نوجوان نسل کے مسائل کی بڑی وجہ کردار سازی کا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان بے راہ روی کا شکار ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ بے شمار نوجوان تعلیم کے زیور سے محروم ہیں لیکن جو تعلیم حاصل کرلیتے ہیں عملی زندگی میں انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے لیے روزگار اور آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہیں۔ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بیشتر نوجوانوں کے پاس باعزت روزگار نہیں ہے، ان کی تنخواہ سرکار کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ سے کم ہے، انہیں ملازمتوں کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ بیشتر کے پاس ڈگری تو ہے لیکن وہ ان سکلز سے محروم ہیں جو ملازمت کے لیے ضروری ہیں۔
معاشرتی برائیوں کی ایک بڑی وجہ پیسے کی کمی ہے جس کے حصول کیلئے لوگ شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں اور غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ میرے نزدیک نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچانے کیلئے ان کی کردار سازی پر زور دینا چاہیے کیونکہ جب انہیں اچھے برے کی تمیز ہوگی تو ملک کے بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے، اس ضمن میں تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی کردار سازی کیلئے خصوصی لیکچرز ہونے چاہئیں۔
نو منتخب حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی کونسلنگ کے حوالے سے لازمی پالیسی بنائی جائے۔ ہمارا تعلیمی نصاب طلبہ میں نکھار پیدا نہیں کررہا، اس میں بہت ساری خامیاں ہیں جو طلبہ کو کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں ہونے دیتی۔ دنیا بہت آگے جاچکی ہے، ان کا تعلیمی نظام طلبہ کی قابلیت میں اضافہ کررہا ہے اور انہیں بہترین علم فراہم کیا جارہا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔اس میں زندگی گزارنے کے اصول، کیرئیر کونسلگ، نظریہ پاکستان و دیگر اہم چیزیں شامل کی جائیں۔نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور پریکٹیکل تعلیم پر زیادہ توجہ دی جائے۔
طلبہ کو ہنر مند بنایا جائے تاکہ وہ اپنا روزگار بہتر طریقے سے کما سکیں۔ نوجوانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں کیونکہ جب انہیں باعزت روزگار ملے گا، ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا تو کرپشن و دیگر برائیوں کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا۔ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ ماؤں کی کونسلنگ بھی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے بچوں کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق، اچھے برے کی تمیز کے ساتھ، چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے قابل بنا سکیں۔ ہماری خواتین کی زیادہ تعداد گھروں میں رہتی ہے، انہیں دنیا کے چیلنجز کے بارے میں اس طرح سے علم نہیں ہے۔
جس طرح ایک پریکٹیکل خاتون یا مرد کو ہوتا ہے لہٰذا ماؤں کی کونسلنگ سے معاشرے میں نہ صرف سدھار پیدا کیا جاسکتا ہے بلکہ حقیقی معنوں میں ترقی کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ نواجون لڑکیوں کو بھی معاشرتی اقدارسامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا حوصلہ دینا چاہیے کیونکہ ان کی شمولیت کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان خصوصاََ نوجوان نسل کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ ہماری آبادی کا زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یورپ میں عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جبکہ ہم خوش قسمت ملک ہیں جس کی آبادی میں نوجوان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
نوجوانوں میں جوش، جذبہ اور انرجی زیادہ ہوتی ہے، وہ کچھ بھی کر دکھانے کی لگن رکھتے ہیں اور نئے نئے تجربات کرتے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس بڑھتی ہوئی نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے عملی طور پر ٹھوس اور ہنگامی اقدامات کرے جن کے اثرات دیر پا ہوں اور اس سے ملکی تعمیر و ترقی میں فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ہمیںتحریک انصاف کی نو منتخب حکومت سے امید ہے کہ جس طرح انہوں نے نوجوانوں کو متحرک کیا، انہیں سیاست میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے اور ایوانوں میں نمائندگی دی، اسی طرح وہ ملک کی تمام یوتھ کو تعلیم، روزگار اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے گی۔
ہمیں امید ہے کہ حکومت تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے کام کرے گی۔ جب سب کے پاس اچھی تعلیم ہوگی تو انہیں اپنا روزگار کمانے میں آسانی ہوگی اور ان کی معاشی حالت بہتر ہوجائے گی جس سے بیشتر مسائل کا خود ہی خاتمہ ہوجائے گا۔ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم گفتار کے غازی ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ ہم ملکی بہتری کی باتیں تو کرتے ہیں مگر اس میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، اپنی ذمہ داریاں اور فرائض خلوص نیت کے ساتھ ادا کرنا ہوں گے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ہماری نوجوان نسل متحرک ہوچکی ہے اور اس نے ملک تبدیل کرنے کا عزم کیا ہے لہٰذا اب تبدیلی ضرور آئے گی۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں 60فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور پاکستانی نوجوان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ نوجوان سیاست میں بھی پیش پیش ہیں۔
حال ہی میں تبدیلی کی جو لہر آئی جس کے تحت پاکستان تحریک انصاف نے کامیاب ہوکر اپنی حکومت بنائی ہے، اس میں بھی نوجوانوں کا کردار انتہائی اہم ہے کیونکہ عمران خان نے یوتھ پر خصوصی توجہ دی، انہیں متحرک کیا اور اب اسمبلیوں میں بھی انہیں نمائندگی دی ہے۔ نوجوانوں کے عالمی دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و سماجی نوجوان رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سمیرا احمد بخاری
(رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف )
سیاست نوجوانوں کا جمہوری حق ہے اور پی ٹی آئی نے انہیںپلیٹ فارم دیا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ''نئے پاکستان'' کا نعرہ یوتھ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ ماضی کی حکومتوں نے یوتھ کے مسائل کو حل نہیں کیا جس کی وجہ سے نوجوانوں میں غصہ پایا جاتا ہے مگر تحریک انصاف سے انہیں امید ہے۔اب ایک مثبت ہوا چلی ہے لہٰذا مجھے نوجوانوں کی تقدیر بدلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ میں گھریلو خاتون ہوں مگر تحریک انصاف نے میری حوصلہ افزائی کی۔
سیاست امراء کا نہیں محب وطن لوگوں کا کام ہے، ہمیں خود کو اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کیلئے رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔اس وقت سب سے اہم کردار نوجوانوں کا ہے لہٰذا انہیں آگے بھی مثبت سمت میں چلنا ہوگا۔ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں۔ ہم نظام میں اصلاحات کریں گے اور گلی، محلوں سے بچوں کو سکولوں میں لائیں گے اور نوجوانوں کو عزت دیں گے۔میرا کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں ہے، ہمیں حوصلہ ملا کے ہم بھی اپنے ملک کے لیے کچھ کرسکتے ہیں۔
نپولین نے کہا تھا تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔ ہمیں اپنے گھر سے تبدیلی کا آغاز کرنا ہوگا کیونکہ جب گھر کا ماحول اچھا ہوگا تو اس کے اثرات معاشرے پر پڑیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا لیڈر کمال انسان ہے، اس لیے ہمیں یقین ہے کہ تبدیلی آئے گی۔ جب گھر کے بڑے کی سوچ اچھی ہوتو کیا اس کے اثرات نیچے نہیں آئیں گے؟ ہم میں بھی خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن اللہ نے موقع دیا ہے تو ہم بہتر ڈیلور کرنے کی کوشش کریں گے۔
نوجوانوں کے حوالے سے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ میرے نزدیک نوجوانوں کی کونسلنگ بہت ضروری ہے۔ ایم پی ایز کو چاہیے کہ وہ کونسلرز کے ساتھ مل کر گلی محلوں میں نوجوانوں اور خواتین کی تربیت کے لیے پروگرامز منعقد کریں۔ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں کی زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، نیا پاکستان یوتھ کا ہوگا کیونکہ نوجوان ہی سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر سکتے ہیں۔
جواد احمد
( سربراہ برابری پارٹی پاکستان)
یوتھ میں صرف یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ہی نہیں ہیں بلکہ 20 سے 30 برس کی عمر کے وہ تمام افراد شامل ہیں جو دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں 3 کروڑ بچے آج بھی سکول نہیں جاتے۔ اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی لہٰذا ہماری یوتھ کی ایک بڑی تعداد پڑھی لکھی نہیں ہے۔ جس یوتھ کو ہم تعلیم یافتہ کہتے ہیں اس میں سے کروڑوں میٹرک پاس ہیں لیکن ان کے پاس بھی ایسا کوئی ٹیکنیکل ہنر نہیں ہے جس سے وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں میں انقلابی جذبہ نہیں ہوتا۔
وہ اپنے کیرئیر پر توجہ رکھتے ہیں،وہ ڈگری حاصل کرکے افسر بننا چاہتے ہیں اور سارا دن اپنے ملازمین کا استحصال کرتے ہیں، ان کے گھریلو ملازمین کو سرکار کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ سے بھی کم اجرت ملتی ہے لہٰذا انہیں غریب طبقے کی حالت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان میں سے بہت کم نوجوان سیاست میں آتے ہیں اور جو سیاست میں ہیں وہ بھی طبقاتی سیاست کے خاتمے کے لیے کام نہیں کررہے۔ اگر صحیح معنوں میں نوجوانوں کے مسائل حل کرنے ہیں تو طبقاتی نظام اور طبقاتی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ عام لوگوں کے لیے آگے آنے کی راہ ہموار ہوسکے۔ اس وقت موجود سیاسی جماعتیں جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور الیکٹیبلز کی جماعتیں ہیں۔
آج عمران خان وہی کام کررہے ہیں جو سب کرتے آئے ہیں۔ ان کی سیاست میں غریب اور محنت کش کی بات نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی سابق حکومت نے مزدور کی کم از کم اجرت 15 ہزار روپے دی، یہی اجرت سندھ اور پنجاب میں بھی ہے، تو انہوں نے کیا تبدیل کیا؟ عمران خان نے ٹریڈ یونینز کی کبھی بات نہیں کی بلکہ ان کی جماعت سے لیبر ونگ کا خاتمہ کردیا گیا اور ایسا اس لیے کیا گیا کہ کہیں یہ لیبر ونگ جماعت سے بڑا نہ ہوجائے کیونکہ محنت کش طبقے کی تعداد ملک میں زیادہ ہے۔ اس ملک میں سوشل سکیورٹی، پینشن، ای او بی آئی، اوور ٹائم ، کم از کم تنخواہ و دیگر عام آدمی کے مسائل ہیں مگر ان پر کسی نے بات نہیں کی۔
یوتھ کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے تعلیم، صحت، خوراک ، گھر و بہتر روزگار چاہیے۔ نوجوان جب تعلیم حاصل کرکے مارکیٹ میں جاتے ہیں تو ان کے پاس ملازمت کے مواقع نہیں ہوتے۔ افسوس ہے کہ آج بھی لاہور جیسے شہر میں نوجوان 8 سے 12 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔ تحریک انصاف کی نومنتخب حکومت نجکاری کی طرف جائے گی لہٰذا ایسی صورتحال میں نوجوانوں کے مسائل کیسے حل کیے جائیں گے۔
میرے نزدیک مسائل کے حل اور سسٹم کی بہتری کے لیے ریڈیکل ریفارمز کی ضرروت ہے۔ یہ ریفارمز جاگیردار، سرمایہ دار اور امراء کے خلاف ہونے ہیں اور یہ سب نہ صرف حکومتی جماعت بلکہ تمام جماعتوں میں موجود ہیں۔ اس ملک میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کی وجہ یہ ہے کہ غربت زیادہ ہے اور دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ امراء نے جاگیروں، صنعتوں اور اداروں پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے اورکوئی انہیں پکڑنے والا نہیں ہے۔ جس دن اس ملک میں نوجوانوں کی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہوئی، اس دن مسائل کافی حد تک حل ہوجائیں گے۔ ہمارے ہاں غیرمتوازی کام ہوتا ہے۔
انفراسٹرکچر بنائے بغیر تعلیم اور صحت کا کوئی فائدہ نہیں ہے، صرف تعلیم اور صحت دے دی جائے اور انفراسٹرکچر نہ بنایا جائے تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں گا۔ متوازی ڈویلپمنٹ کیلئے حکومت کو زیادہ پیسہ چاہیے۔ اس کا ایک طریقہ کار تو فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ ہے جو ماضی کی حکومتیںبھی لیتی رہیں اور اب یہ بھی ایسا ہی کریں گے جو نئی بات نہیں ہے۔ یہ اشیاء پر سبسڈی ختم کریں گے۔یہ ٹیکسیشن کے نظام کو اپنے طریقے سے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ میرے نزدیک مسئلہ ٹیکسیشن کے نظام کا نہیں بلکہ تسلط کا ہے۔ اس ملک میں جن لوگوں نے پیسہ لوٹا یا کمایا ہے ان کی اجارہ داری ہے۔
یہی لوگ سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں لہٰذا ان کے خلاف کریک ڈاؤن صرف وہی جماعت کرسکتی ہے جو مڈل کلاس، محنت کشوں اور نوجوانوں کی ہو۔ انسانوں کو ان کے حقوق بتانا اور موبلائز کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے مگر افسوس ہے کہ لوگوں کو آگاہی نہیں ہے۔ یہاں ووٹ برادری، جاگیرداری، پیسہ و دیگر بنیادوں پر ملتا ہے۔ جہاں ایک غریب شخص الیکشن لڑنے کیلئے 30 ہزار روپے رجسٹریشن فیس جمع نہ کروا سکے وہاں عام آدمی کیسے اوپر آسکتا ہے۔ 40لاکھ روپے الیکشن مہم پر خرچ کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 95 فیصد سے زائد آبادی کو الیکشن لڑنے کے عمل سے ہی محروم کردیا گیا کیونکہ ان کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہیں۔یہ نظام امیر کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔ ایک ہی حکمران طبقہ ہے جو تمام جماعتوں میں نظر آتا ہے جبکہ غریب سیاست میں آگے نہیں آسکتا۔
ذوہیب خان نیازی
( صوبائی رہنما نیشنل یوتھ اسمبلی )
نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری اور طبقاتی تعلیمی نظام ہے۔ بچوں کی اکثریت سکول نہیں جاتی جبکہ تعلیمی نظام امیر اور غریب کیلئے الگ الگ ہے۔ امیر کے بچوں کیلئے انٹرنیشنل تعلیمی نظام جبکہ غریب کا بچہ گورنمنٹ سکول میں پڑھنے پر مجبور ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی طبقات میں تقسیم ہے جس میں امیر مضبوط اور غریب کا استحصال ہورہا ہے جبکہ عام آدمی کے پاس آگے آنے کے مواقع بھی نہیں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ نومنتخب حکومت اس طبقاتی نظام کے خاتمے کیلئے بھرپور کردار ادا کرے گی۔نوجوانوں کو عمران خان سے بہت زیادہ توقعات ہیں کہ وہ ان کے مسائل کے حل کیلئے کام کریں گے۔
عمران خان نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی جو صرف مالی ہی نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی کرپشن بھی ہے، اس کے خاتمے سے ملک بہتر ہوسکتا ہے۔ اگر تمام معاملات شفافیت سے آگے بڑھیں ، کرپشن نہ ہو اور سب خلوص نیت کے ساتھ کام کریں تو ملک ترقی کر سکتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل باصلاحیت ہے اور آگے بڑھنے کی لگن رکھتی ہے مگر بہت کم لوگوں کو ترقی کے مواقع ملتے ہیں لہٰذا حکومت کو ان کیلئے نئے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ ہماری نوجوان نسل تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک چلی جاتی ہے جس کا فائدہ دیگر ممالک کو ہورہا ہے، اس ٹیلنٹ کو واپس ملک میں لایا جائے تاکہ ان کی جدید تعلیم اور سکلز سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
عمران خان کہتے ہیں کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان آنے کی دعوت دیں گے۔ میرے نزدیک اوورسیز پاکستانی بزنس کمیونٹی کو یہاں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جائیں، وہاں مقیم نوجوان نسل کو یہاں روزگار و چھوٹے کاروبار کے مواقع دیے جائیں، اس سے ملکی معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں منافع کی شرح بہت کم ہے جبکہ بزنس کے لیے رقم زیادہ درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ملازمت کرنے پر مجبور ہیں لیکن انہیں روزگار کے مواقع نہیں ملتے، حکومت کو چاہیے کہ کاروبارکیلئے آسانیاں پیدا کرے اس سے نہ صرف معیشت بہتر ہوگی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوجائیں گے۔
بدقسمتی سے آج بھی لوگ پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ملک نہیں سمجھتے۔ سی پیک منصوبے سے کچھ سرمایہ کاری تو آئی ہے مگر اس کا ابھی تک خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔ ملکی حالات کے پیش نظر آج بھی نوجوان ملازمتوں کے حصول کے لیے بیرون ملک جانے پر مجبور ہے، حکومت کے لیے نوجوانوں کے مسائل حل کرنا بڑا چیلنج ہوگا۔
گزشتہ دو دہائیوں میں کسی بھی سیاسی جماعت نے نوجوانوں کو اتنی پذیرائی نہیں دی جتنی تحریک انصاف میں ملی ہے۔ نوجوان پی ٹی آئی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور انہوں نے بعض معاملات میں اپنی قیادت کو بھی چیلنج کیا ہے۔ سب سے زیادہ متحرک نوجوان بھی اسی جماعت کے ہیں لہٰذا اب تحریک انصاف کی حکومت کو نوجوانوں کو کاروبار، روزگار اور آگے بڑھنے کے لاتعداد مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ امید ہے کہ نو منتخب حکومت تمام مسائل پر بخوبی قابوپالے گی۔
قرۃ العین
( وزیر خزانہ سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ )
نوجوان نسل کے مسائل کی بڑی وجہ کردار سازی کا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان بے راہ روی کا شکار ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ بے شمار نوجوان تعلیم کے زیور سے محروم ہیں لیکن جو تعلیم حاصل کرلیتے ہیں عملی زندگی میں انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے لیے روزگار اور آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہیں۔ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بیشتر نوجوانوں کے پاس باعزت روزگار نہیں ہے، ان کی تنخواہ سرکار کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ سے کم ہے، انہیں ملازمتوں کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے جبکہ بیشتر کے پاس ڈگری تو ہے لیکن وہ ان سکلز سے محروم ہیں جو ملازمت کے لیے ضروری ہیں۔
معاشرتی برائیوں کی ایک بڑی وجہ پیسے کی کمی ہے جس کے حصول کیلئے لوگ شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں اور غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ میرے نزدیک نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچانے کیلئے ان کی کردار سازی پر زور دینا چاہیے کیونکہ جب انہیں اچھے برے کی تمیز ہوگی تو ملک کے بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے، اس ضمن میں تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی کردار سازی کیلئے خصوصی لیکچرز ہونے چاہئیں۔
نو منتخب حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی کونسلنگ کے حوالے سے لازمی پالیسی بنائی جائے۔ ہمارا تعلیمی نصاب طلبہ میں نکھار پیدا نہیں کررہا، اس میں بہت ساری خامیاں ہیں جو طلبہ کو کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں ہونے دیتی۔ دنیا بہت آگے جاچکی ہے، ان کا تعلیمی نظام طلبہ کی قابلیت میں اضافہ کررہا ہے اور انہیں بہترین علم فراہم کیا جارہا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔اس میں زندگی گزارنے کے اصول، کیرئیر کونسلگ، نظریہ پاکستان و دیگر اہم چیزیں شامل کی جائیں۔نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور پریکٹیکل تعلیم پر زیادہ توجہ دی جائے۔
طلبہ کو ہنر مند بنایا جائے تاکہ وہ اپنا روزگار بہتر طریقے سے کما سکیں۔ نوجوانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں کیونکہ جب انہیں باعزت روزگار ملے گا، ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا تو کرپشن و دیگر برائیوں کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا۔ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ ماؤں کی کونسلنگ بھی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے بچوں کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق، اچھے برے کی تمیز کے ساتھ، چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے قابل بنا سکیں۔ ہماری خواتین کی زیادہ تعداد گھروں میں رہتی ہے، انہیں دنیا کے چیلنجز کے بارے میں اس طرح سے علم نہیں ہے۔
جس طرح ایک پریکٹیکل خاتون یا مرد کو ہوتا ہے لہٰذا ماؤں کی کونسلنگ سے معاشرے میں نہ صرف سدھار پیدا کیا جاسکتا ہے بلکہ حقیقی معنوں میں ترقی کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ نواجون لڑکیوں کو بھی معاشرتی اقدارسامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا حوصلہ دینا چاہیے کیونکہ ان کی شمولیت کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان خصوصاََ نوجوان نسل کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ ہماری آبادی کا زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یورپ میں عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جبکہ ہم خوش قسمت ملک ہیں جس کی آبادی میں نوجوان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
نوجوانوں میں جوش، جذبہ اور انرجی زیادہ ہوتی ہے، وہ کچھ بھی کر دکھانے کی لگن رکھتے ہیں اور نئے نئے تجربات کرتے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس بڑھتی ہوئی نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے عملی طور پر ٹھوس اور ہنگامی اقدامات کرے جن کے اثرات دیر پا ہوں اور اس سے ملکی تعمیر و ترقی میں فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ہمیںتحریک انصاف کی نو منتخب حکومت سے امید ہے کہ جس طرح انہوں نے نوجوانوں کو متحرک کیا، انہیں سیاست میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے اور ایوانوں میں نمائندگی دی، اسی طرح وہ ملک کی تمام یوتھ کو تعلیم، روزگار اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے گی۔
ہمیں امید ہے کہ حکومت تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے کام کرے گی۔ جب سب کے پاس اچھی تعلیم ہوگی تو انہیں اپنا روزگار کمانے میں آسانی ہوگی اور ان کی معاشی حالت بہتر ہوجائے گی جس سے بیشتر مسائل کا خود ہی خاتمہ ہوجائے گا۔ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم گفتار کے غازی ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ ہم ملکی بہتری کی باتیں تو کرتے ہیں مگر اس میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، اپنی ذمہ داریاں اور فرائض خلوص نیت کے ساتھ ادا کرنا ہوں گے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ہماری نوجوان نسل متحرک ہوچکی ہے اور اس نے ملک تبدیل کرنے کا عزم کیا ہے لہٰذا اب تبدیلی ضرور آئے گی۔