جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی درخواستیں مسترد بائیکاٹ کرتے ہیں پھر دھاندلی کا کیس لے کر آجاتے ہیں سپر?
کیاپورے الیکشن کوختم کردیں،بائیکاٹ سیاسی گیم کیلیے کیاہوگا،آئین میں اسکاذکرنہیں
سپریم کورٹ نے 11 مئی کے الیکشن میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف دائردرخواستیں خارج کردیں۔
درخواستیں جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی اور تحریک انصاف کے ابرارالحق نے دائرکی تھیں۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے درخواستیں ابتدائی سماعت میںہی خارج کر دیں اور قراردیاکہ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت نہیں سنی جاسکتیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت اس کے لیے فورم موجودہے۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ اگردرخواست گزاروں کو کوئی شکایت ہے تو وہ اس کے لیے الیکشن ٹریبونلز سے رجوع کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو انتخابات میں دھاندلیوں کے بارے میں درخواستوں کی براہ راست سماعت کا اختیارنہیں۔
جماعت اسلامی کے محمدحسین محنتی کی جانب سے وکیل پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ابتدا میں ہی انھیں کہاکہ کیا184(3) میں پورے الیکشن کو ختم کردیں۔ اگر ایسا کراناہے تو ہائی کورٹس کھلی ہیں۔ ایک طرف آپ بائیکاٹ کرتے ہیں، دوسری طرف دھاندلی کا کیس لے کر آجاتے ہیں۔ بائیکاٹ کسی سیاسی گیم کے لیے کیا ہوگا۔ آئین میں الیکشن کے بائیکاٹ کا کہاں ذکرہے۔ جو امیدوار انتخابات کا بائیکاٹ کرتاہے اسکی عدالت کیا دادرسی کرسکتی ہے۔
ملک میں اتنا بڑا الیکشن ہواہے، اسے کیسے ختم کردیں۔ جبکہ دھاندلی کا الزام ایک عام الزام ہے۔ اگرآپ کو کسی مخصوص حلقے میں الیکشن پر اعتراض ہے اور دھاندلی کے ثبوت بھی ہیں توٹریبونل میں جائیں۔ بعدازاں آرڈر میں لکھوایاکہ دھاندلی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔ درخواست گزار آرٹیکل225 کے تحت متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ابرارالحق ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے اور کہاکہ دھاندلی کی وجہ سے پورا حلقہ سوگ کی کیفیت میں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ سوگ کا منظر بہت سی جگہوں پر ہوگا مگر ہمیں آئین اور قانون کے مطابق چلناہے۔ آپ ٹریبونل سے رجوع کریں۔ عدالت نے انکی درخواست بھی خارج کردی۔
درخواستیں جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی اور تحریک انصاف کے ابرارالحق نے دائرکی تھیں۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے درخواستیں ابتدائی سماعت میںہی خارج کر دیں اور قراردیاکہ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت نہیں سنی جاسکتیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت اس کے لیے فورم موجودہے۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ اگردرخواست گزاروں کو کوئی شکایت ہے تو وہ اس کے لیے الیکشن ٹریبونلز سے رجوع کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو انتخابات میں دھاندلیوں کے بارے میں درخواستوں کی براہ راست سماعت کا اختیارنہیں۔
جماعت اسلامی کے محمدحسین محنتی کی جانب سے وکیل پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ابتدا میں ہی انھیں کہاکہ کیا184(3) میں پورے الیکشن کو ختم کردیں۔ اگر ایسا کراناہے تو ہائی کورٹس کھلی ہیں۔ ایک طرف آپ بائیکاٹ کرتے ہیں، دوسری طرف دھاندلی کا کیس لے کر آجاتے ہیں۔ بائیکاٹ کسی سیاسی گیم کے لیے کیا ہوگا۔ آئین میں الیکشن کے بائیکاٹ کا کہاں ذکرہے۔ جو امیدوار انتخابات کا بائیکاٹ کرتاہے اسکی عدالت کیا دادرسی کرسکتی ہے۔
ملک میں اتنا بڑا الیکشن ہواہے، اسے کیسے ختم کردیں۔ جبکہ دھاندلی کا الزام ایک عام الزام ہے۔ اگرآپ کو کسی مخصوص حلقے میں الیکشن پر اعتراض ہے اور دھاندلی کے ثبوت بھی ہیں توٹریبونل میں جائیں۔ بعدازاں آرڈر میں لکھوایاکہ دھاندلی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔ درخواست گزار آرٹیکل225 کے تحت متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ابرارالحق ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے اور کہاکہ دھاندلی کی وجہ سے پورا حلقہ سوگ کی کیفیت میں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ سوگ کا منظر بہت سی جگہوں پر ہوگا مگر ہمیں آئین اور قانون کے مطابق چلناہے۔ آپ ٹریبونل سے رجوع کریں۔ عدالت نے انکی درخواست بھی خارج کردی۔