آزاد کشمیر کے دارالحکومت کی منتقلی وقت کی اہم ضرورت

آزاد کشمیر کے دارالحکومت کی منتقلی خالص انتظامی بنیادوں پر کسی ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں غریب عوام آسانی سے پہنچ سکیں

ماضی میں بھی آزاد کشمیر کے دارالحکومت کو مظفرآباد سے میرپور منتقل کرنے کا خیال زیر بحث رہا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

1948 میں جب آزاد کشمیر آزاد ہوا تھا تو آزاد کشمیر کا پہلا دارالحکومت پلندری کے قریب جنجال ہل کے مقام پر قائم کیا گیا تھا۔ بعد میں دارالحکومت مظفرآباد منتقل کر دیا گیا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کے مظفرآباد کو عارضی طور دارالحکومت رہنا تھا۔ کشمیر کی مکمل آزادی کے ساتھ ہی مظفرآباد کی حیثیت بطور دارالحکومت ختم ہو جانا تھی کیونکہ سری نگر ہی ہمیشہ سے پوری ریاست جموں و کشمیر کا دارالحکومت رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کشمیر آزاد نہ ہو سکا اور عرصہ 70 سال سے مظفرآباد ہی آزاد کشمیر کا دارالحکومت چلا آ رہا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کب مکمل ریاست جموں و کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا اور تمام حکومتی معاملات سری نگر سے چلائے جائیں گے۔

مظفرآباد، سرینگر اور راولپنڈی کی تاریخی شاہراہ پر سرینگر سے 125 کلو میٹر اور راولپنڈی سے 95 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے جہلم اور دریائے نیلم کے سنگم پر چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ایک تنگ وادی میں واقع ہے۔ شہر کی آبادی اس وقت تقریباً پانچ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ مظفرآباد اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہے جس کی وجہ سے آزاد کشمیر کے دارالحکومت کو مظفرآباد سے آزاد کشمیر ہی کے اندر کسی دوسری جگہ پر منتقل کرنا انتہائی ضروری ہے۔

ان مسائل میں سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ جگہ کی قلت کا ہے۔ مظفرآباد کی وادی اتنی چھوٹی ہے کے یہاں کسی صورت میں بھی ایک بڑا شہر آباد نہیں ہو سکتا، جبکہ کسی بھی ریاست کی معاشی ترقی کےلیے کم از کم ایک بڑا شہر موجود ہونا ضروری ہے۔ چونکہ حکومت آزاد کشمیر میں ملازمتیں دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے اس لیے بڑی تعداد میں حکومتی ملازمین مظفرآباد میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ریاست بھر سے لوگ روزانہ اپنے سرکاری دفاتر سے متعلقہ امور نمٹانے کےلیے مظفرآباد آتے ہیں، ان وجوہ کی بنا مظفرآباد پر آبادی کا دباؤ بے انتہا بڑھ گیا ہے۔ مظفرآباد میں اب خالی جگہ تقریباً ناپید ہے۔ 2005 کے زلزلے میں مظفرآباد میں ہزاروں کی تعداد میں میں جو اموات ہوئی تھیں، اس کی ناقص تعمیرات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کے شہر میں خالی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کےلیے بھاگ کر محفوظ مقام پر جانا تقریباً ناممکن تھا۔ شہر کا مزید پھیلاؤ اب تقریباً ناممکن ہوچکا جس کی وجہ سے زمین اور پراپرٹی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور ایک عام آدمی کےلیے مظفرآباد میں گھر بنانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

اس کے علاوہ مظفرآباد زلزلے کی ایک انتہائی متحرک فالٹ لائن پر بھی واقع ہے جس کی وجہ سے ہر وقت 2005 جیسے سانحے کا خدشہ برقرار ہے جس سے خدانخواستہ بڑی تعداد میں اموات ہو سکتی ہیں۔

آبادی کے بے تحاشا دباؤ کی وجہ سے مظفرآباد شہر میں آلودگی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ دفتری کاموں کے سلسلے میں مظفرآباد آتے ہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں گاڑیاں روزانہ اس چھوٹی سی وادی کو شور اور دھوئیں سے بھر دیتی ہیں۔ رہی سہی کسر وہ سیاح پوری کر دیتے ہیں جو ہر سال لاکھوں کی تعداد میں وادی نیلم کا رخ کرتے ہیں اور ان کا پہلا پڑاؤ مظفرآباد ہوتا ہے۔ مظفرآباد شہر میں داخل ہونے پر جو چیز سب سے پہلے آپ کا استقبال کرتی ہے وہ دھوئیں کی بو اور بے ہنگم ٹریفک کے شور کی آواز ہے۔ ابھی تک دریائے جہلم اور نیلم مظفرآباد کے ماحول کو بڑی حد تک معتدل بنائے ہوئے ہیں، لیکن نیلم جہلم پروجیکٹ اور مستقبل کے کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی وجہ سے مظفرآباد ان دو دریاؤں سے بھی محروم ہو جائے گا جس کی وجہ سے شہر کے قدرتی ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے اور شہر موجودہ حالت سے بھی زیادہ گندگی اور آلودگی کا مرکز بن جائے گا۔

مظفرآباد ایک اور وجہ سے بھی دارالحکومت کےلیے موزوں نہیں ہے۔ مظفرآباد جغرافیائی لحاظ سے آزاد کشمیر کے درمیان واقع نہیں ہے بلکہ کافی شمال مغرب میں واقع ہے، جس کی وجہ سے دوسرے علاقوں کے لوگوں کو کافی لمبا سفر کر کے مظفرآباد آنا پڑتا ہے۔ آزاد کشمیر کے خستہ حال ٹرانسپورٹ سسٹم کی وجہ سے یہ عمل اور بھی تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کے آزاد کشمیر کے دارالحکومت کو مظفرآباد سے کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے تاکہ اوپر بیان کیے گئے مسائل حل ہو سکیں۔


ماضی میں بھی آزاد کشمیر کے دارالحکومت کو مظفرآباد سے میرپور منتقل کرنے کا خیال زیر بحث رہا ہے، لیکن کبھی زیادہ تقویت نہ پکڑ سکا جس کی وجہ اس خیال کے پیچھے سیاسی سوچ کارفرما تھی؛ اور جیسے مظفرآباد آزاد کشمیر کے باقی علاقوں سے خاصہ دور ہے اسی طرح میرپور بھی مخالف سمت میں بہت دور واقع ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کے ایک تو دارالحکومت کی منتقلی خالص انتظامی، معاشی اور ماحولیاتی بنیادوں پر ہونی چاہیے، دوسرا دارالحکومت کسی ایسی جگہ پر قائم ہونا چاہیے جہاں آزاد کشمیر کے غریب عوام آسانی سے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر کے پہنچ سکیں۔ اس کے علاوہ نئے دارالحکومت سے نہ صرف اوپر بیان کردہ مسائل حل ہوں بلکہ مزید ایسے فوائد حاصل ہوں جن سے آزاد کشمیر کے عوام کو فائدہ ہو۔ اس وجہ سے میرے خیال میں ضلع کوٹلی میں موجود دو وادیوں ، وادی سہنسہ یا وادی سرساوہ/پنجیڑا میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے بھی وادی سرساوہ/پنجیڑا میرے خیال میں زیادہ بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کے ایک تو وادی سرساوہ/پنجیڑا آزاد کشمیر کے شمالی اضلاع سے زیادہ قریب ہے، دوسرا وادی سرساوہ/پنجیڑا کو با آسانی دریائے پونچھ سے پانی فراہم کیا جا سکتا ہے۔

وادی سرساوہ/پنجیڑا ایک کم آبادی والا علاقہ ہے جس کی وجہ سے یہاں پائیدار ترقی کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر اسلام آباد کی طرز پر ایک بلکل نیا شہر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ وادی سرساوہ/پنجیڑا سے جنوب میں منگلا ڈیم تک نیم میدانی یا سطح مرتفائی علاقہ ہے جہاں پر بڑی رہائشی آبادیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح یہاں پر ایک نسبتاً بڑے شہر کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے جو مستقبل میں آزاد کشمیر کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نئے دارالحکومت کو ایک چھوٹی موٹروے تعمیر کرکے اور منگلا ڈیم پر پل بنا کر میرپور سے ملایا جا سکتا ہے جس سے اس علاقے میں تعمیرو ترقی کا نیا دور شروع ہو گا۔ ایک بڑا شہر جہاں تعلیم، صحت اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات میسر ہوں۔ آزاد کشمیر کے شمالی پہاڑی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی طرف راغب کرے گا جس کی وجہ سے شمالی پہاڑوں پر موجود جنگلات کی تباہی کم ہو جائے گی اور ماحول پر نہایت ہی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کو بھی دور دراز علاقوں میں بنیادی سہولیات مہیا کرنے میں جو بے تحاشا اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں ان میں کمی واقع ہوگی۔

سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کے بیرون ملک بڑی تعداد میں آباد کشمیری چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں میں سرمایا کاری کرسکیں گے، کیوںکہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی کامیابی کےلیے ایک مناسب حجم کی مقامی مارکیٹ کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو یہ نیا شہر اور اس کے قریب واقع دوسرے چھوٹے شہر جن میں پلندری، کوٹلی، ڈڈیال اور میرپور شامل ہیں، مل کے بنائیں گے۔ اس طرح آزاد کشمیر میں بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور بیروزگاری جو آزاد کشمیر میں اس وقت تقریباً سب سے بڑا مسئلہ ہے، کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ آزاد کشمیر کے پالیسی میکرز اور سول سوسائٹی کو اس سمت میں ایک صحتمندانہ بحث کا آغاز کرنا چاہیے اور قطع نظر سیاسی مفادات کے، خالص انتظامی، معاشی اور ماحولیاتی بنیادوں پر دارالحکومت کی مظفرآباد سے منتقلی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

 
Load Next Story