اوستہ محمد سے ڈیرہ بگٹی کی گلیوں تک
اوستہ محمد جو بلوچستان کی ’’گرین بیلٹ‘‘ ہوا کرتا تھا، آج کل پانی کی کمی کی وجہ سے ’’ویران بیلٹ‘‘ بن گیا ہے
PARIS:
سنا تھا بلوچستان کے خوبصورت لوگ اور قیمتی چیزیں ڈیرہ بگٹی میں بہت ملتی ہیں۔ تو ہم نے بھی کمر باندھ لی اور ڈیرہ بگٹی کی طرف سفر شروع کیا۔ ہماری منزل ڈیرہ بگٹی تھا مگر راستے میں آنے والے شہروں کو بھی ہمیں دیکھنا تھا، ان کا حسن و جمال قلم بند کرنا تھا۔ ہم جس سڑک پر سفر کر رہے تھے وہ کچی پکی اور اونچی نیچی تھی جس پر بہت کم لوگ سفر کرتے ہیں کیونکہ اس سڑک پر کئی بار لوٹ مار اور قتل و غارت کے واقعات پیش آ چکے تھے۔ مگر آج کل اس سڑک پر صرف مقامی لوگ سفر کرتے ہیں۔ ہم صبح سات بجے اوستہ محمد سے کار پر نکلے۔
اوستہ محمد جو بلوچستان کی ''گرین بیلٹ'' ہوا کرتا تھا، آج کل پانی کی کمی کی وجہ سے ''ویران بیلٹ'' بن گیا ہے۔ جہاں پر ہریالی ہوتی تھی وہاں پر آج خشک سالی کا راج تھا۔ اس سڑک کنارے بچے بڑے مزدوری کی تلاش میں بھاگ رہے تھے، کسی کے ہاتھ میں کدال تھا تو کسی کے ہاتھ میں بیلچہ تھا؛ ان اوزاروں کے ساتھ انہیں کہیں نہ کہیں روزی روٹی مل جاتی تھی۔ اوستہ محمد کو ''گدھا گاڑیوں کا شہر'' بھی کہتے ہیں۔ ویسے بھی دنیا جتنی گھومنی ہے، گھوم لیجیے مگر پوری دنیا میں سب سے زیادہ گدھے آپ کو اور کہیں نہیں ملیں گے؛ البتہ اوستہ محمد شہر میں آنا ہو تو آپ کو یہاں ضرور مل جائیں گے کیونکہ اس شہر میں گدھوں کی کمی نہیں ہے۔ ہر دس قدم کے فاصلے پر آپ کو ایک گدھا ملے گا۔
ارے بھائی، اس شہر کی سب سے زیادہ خوبصورتی بھی ان گدھوں کے دم سے ہے جو گاڑیوں میں جتے ہوتے ہیں۔ یہ گدھے اس شہر کا ٹریفک جام کردینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور چند منٹوں میں پورے شہر کی سڑکیں بند کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ چند ٹریفک پولیس اہلکار بھی ان کا کچھ نہیں کرسکتے۔ گدھے بھلا کیسے قانون کو مانیں گے؟ اس شہر میں دھوپ، حبس، سردی، گرمی کا رواج بہت پرانے وقتوں سے چلا آرہا ہے اس لیے اس شہر کے لوگوں کے طور طریقے بہت عمدہ ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نوازی میں بھی بہت مشہور ہیں اور اپنی زمین سے بڑا پیار کرتے ہیں۔ وہ یوں کہ ریل کی پٹڑیاں اٹھا کر اپنے گھروں میں لے آتے ہیں، ریلوے کی اراضی پر بڑے بڑے بنگلے بنا لیتے ہیں جنہیں گرانا کسی کے بس میں نہیں۔
اوستہ محمد ضلع جعفرآباد کی ایک تحصیل ہے۔ یہ تحصیل سطح سمندر سے 134 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ اس شہر کا نام محمد خان اوستو کے نام پر رکھا گیا تھا۔ کاروباری اعتبار سے بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس شہر میں ایک سو کے لگ بھگ چاول کی ملیں موجود ہے۔ بجلی کا فقدان ان مل مالکان کےلیے مشکلات بنتا ہے۔ اس شہر کی چائے بھی بہت مشہور ہے اور اس کے ساتھ اس شہر کی اندر بھیک مانگتے فقیر بھی (جن کی آوازیں بہت عمدہ ہوتی ہیں) جا بجا ملیں گے۔ بازار میں جاتے ہوئے ایک ایسا گداگر بھی ملے گا جو لوگوں کے پاؤں پکڑ کر پیسے وصولتا ہے۔ جب تک اسے پیسے نہیں ملتے، تب تک پاؤں نہیں چھوڑتا۔ ہمیں بھی اس گداگر نے کئی مرتبہ پکڑا، دس بیس روپے دے کر اپنی جان چھڑائی۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اس شہر کی خوبصورتی یہاں موجود گدھا گاڑیوں کی وجہ سے ہے تو سن لیجیے کہ یہاں پانچ ہزار کے لگ بھگ گدھا گاڑیاں موجود ہیں جو پورے شہر میں آپ کو ہر وقت ہر گلی میں ملتی رہیں گی۔ یہ وہ گاڑیاں ہیں جو پورے شہر کا بوجھ اٹھا لیتی ہیں۔ اس شہر میں گدھوں کو دوڑایا بھی جاتا ہے جس پر لاکھوں روپے کا سٹہ بھی لگایا جاتا ہے۔ یہاں آپ کو ایسے ہیرو گدھے بھی ملیں گے جن کی قیمت دو لاکھ سے پانچ لاکھ ہے۔ پورے شہر کا بوجھ اٹھانے والا یہ جانور اینٹوں کے کاروبار میں بہت مشہور ہے۔ شہر کے سارے گھر بنانے کا بوجھ انہی گدھوں نے اٹھایا ہوا ہے کیونکہ گدھا گاڑی میں اینٹ نہیں ٹوٹتی اور ہر گلی، ہر محلے میں یہ جانور آسانی سے داخل ہو جاتا ہے۔ کبھی دکان کا سامان اٹھاتے، کبھی چاول کی فصل کی گھاس اٹھاتے، کبھی دواؤں کا بوجھ ڈھوتے۔ اگر گدھے نہ ملیں گے تو وہ صرف دکان کے اندر، ورنہ ساری سڑکیں ان گدھوں سے بھری ہوئی ملیں گی۔
اوستہ محمد کو چار یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان یونین کونسلوں میں ترقیاتی کام بہت کم ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بارش کی دو بوندیں بھی شہر کو کیچڑ بنا دیتی ہیں۔ اس شہر میں مختلف زبانیں بولی جاتی جن میں بلوچی، سندھی، سرائیکی اور دوسری چھوٹی موٹی زبانیں شامل ہیں۔ یہاں ہندو بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ 50 فیصد ہندو لوگ کاروباری ہیں۔ اس شہر کے بیچ سے نکلنے والی نہر گٹروں کے پانی کےلیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ شہر کی آدھی گندگی اس نہر سے بہتی ہے جس کی وجہ سے یہ شہر ہیپاٹائیس بی اور سی میں مبتلا، پاکستان کا سب سے بڑا شہر مانا جاتا ہے۔ ہر ایک سو میں سے تین چار افراد تو لازماً اس موذی مرض میں مبتلا ملیں گے۔
اوستہ محمد کی مشہور جگہیں پرانا ہائی اسکول، ڈگری کالج، ہسپتال، ریلوے نظام، گھنٹہ گھر، چوک اچھی مسجد (سفید مسجد) اور حق باہو کا مزار ہیں۔ ریل کا نظام تقریباً سو سالہ ہوگا مگر یہ نظام اب دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اس کی حالت زار اب کسی کھنڈر سے مختلف نہیں۔ اس شہر کو گرین بیلٹ کا خوبصورت شہر کہا جاتا ہے مگر صرف نام کی حد تک۔ گرین بیلٹ اب ویران بیلٹ بن رہی ہے۔ اگر کوئی دوست اس شہر میں کچھ دیکھنا چاہتا ہے تو اس شہر میں موجود پانچ ہزار گدھے اور گاڑیاں ہیں؛ ان کے علاوہ یہاں کچھ بھی خاص نہیں رہا۔ البتہ اس شہر میں الیکشن کے دوران بہت سے نعرے مشہور ہوئے، جیسے کہ:
یہ نعرے صرف الیکشن کے دوران ہی گونجتے ہیں باقی سارا سال گدھے ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے دس بجے اوستہ محمد شہر کو الوداع کہا اور ہم اپنی منزل کی طرف چل پڑے۔
ستر کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمارے سامنے جھٹ پٹ شہر تھا جس کا نام بعد میں جعفرآباد بھی رکھا گیا۔ جھٹ پٹ شہر تین تحصیلوں اوستہ محمد، گنداخہ اور جھٹ پٹ شہر ضلعی ہیڈ کوارٹر پر مشتمل ہے جہاں پر سرکاری عمارتوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ جب ہم جھٹ پٹ شہر سے گزرے تو اس وقت سرکاری عمارتوں کو تالے لگے ہوئے تھے۔ ہم نے مقامی ہوٹل پر اپنے ہم سفر جہانگیر اور ڈرائیور استاد پیرل کے ساتھ چائے کے تین کپ پیے اور کولر میں دس روپے کی برف بھی ڈالی تاکہ پیاس بجھائی جائے۔ جھٹ پٹ شہر ویسے تو بہت سی چیزوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے مگر یہاں کے لوگ ملنسار اور راستہ بتانے میں مدد کرنے والے ہیں۔ ہم جھٹ پٹ شہر سے نکلے اور ہمارا اگلا پڑاؤ صحبت پور شہر تھا۔
صحبت پور وہ شہر ہے جس سے نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسہ کا تعلق ہے۔ میر ہزار خان کھوسہ نے وزیراعظم بنتے ہی صحبت پور کو جعفرآباد سے الگ کرکے نیا ضلع بنایا تھا۔
اس ضلع میں بھی ترقیاتی کاموں کا بڑا جال ابھی تک نہیں بچھایا گیا۔ یہاں کے باسی محنت مزدوری کےلیے کراچی اور دیگر شہروں کا رخ کرتے ہیں جبکہ صحبت پور کی ایک تحصیل خیردین ہے۔ اس تحصیل کے مین روڈ پر اربوں روپے خرچ کرکے ایک مدرسہ بنایا گیا تھا جسے آج تک فعال نہیں کیا گیا۔ اس مدرسے کی زمین ایک سردار نے عطیہ کی ہے۔
ہم نے آدھے گھنٹے بعد پکی سڑک کو خیرباد کہا اور اب ہم ایک کچی سڑک پر سفر کر رہے تھے۔ یہ سڑک ہماری منزل میں ایک گھنٹے تک کمی کرتی ہے۔ اس سڑک کے کنارے پر کچھ بند اسکول اور کچھ لوگ گھاس کھودتے نظر آرہے تھے۔
اسی کچی سڑک کے ساتھ ساتھ ہم نے ایک چھوٹی سی نہر بھی پار کی جسے لوگ ''مانجھوٹی نہر'' کہتے ہیں۔ اس نہر کے ساتھ ہریالی ہی ہریالی تھی۔ نہر کے دونوں جانب چاول کی لہلہاتی فصلیں تھیں۔ ان فصلوں کے بیچ میں کچھ خواتین جانوروں کےلیے چارہ تلاش کررہی تھیں جبکہ ان کے بچے سڑک کنارے پر گوٹیاں کھیل رہے تھے۔ اسکولوں کے اوپر نئے نئے پاکستانی پرچم لہرا رہے تھے کیونکہ ایک دن پہلے ہی چودہ اگست یعنی پاکستان کی آزادی کا دن تھا جبکہ ہم پندرہ اگست کو سفر پر نکلے تھے۔
مسلسل آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ہمارے سامنے ایک بڑی نہر تھی جسے ''پٹ فیڈر کینال'' کہتے ہیں۔ یہ نہر سندھ کے گڈو بیراج سے نکلتی ہے جو بلوچستان کا سب سے زیادہ علاقہ سیراب کرتی ہے۔ اس نہر کے کنارے کچھ بچے پانی ڈال رہے تھے تاکہ دھول مٹی نہ اڑسکے۔ یہ بچے ہر آنے جانے والی گاڑی سے اپنی محنت کے دس روپے تک کا تقاضا بھی کرتے تھے۔ کچھ لوگ ان بچوں کو دس روپے تھما دیتے تھے جبکہ کچھ لوگ اپنی گاڑی کی دھول ان کے چہروں پر چھوڑ جاتے تھے۔ دراصل یہ بچے بھیڑ بکریوں کے چرواہے ہوتے ہیں جو پٹ فیڈر نہر کے کنارے اپنی روزی روٹی تلاش کرتے ہیں۔ اس نہر کے کنارے پر سیکڑوں ٹیوب ویل چل رہے تھے جو سب کے سب غیر قانونی تھے۔ ان کے ذریعے پانی چوری کیا جارہا تھا لیکن نہ کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ کوئی دیکھنے والا۔ حکمران طبقہ تو خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہا تھا؛ ہم نے بھی کوشش کی کہ سوجائیں مگر یہ کوشش بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔
کچھ اور آگے بڑھے تو سامنے ڈیرہ بگٹی ضلع کی پہلی چوکی تھی جو پٹ فیڈر کینال کے بیرون کی طرف تھی۔ اس وقت ہم نے پٹ فیڈر کینال کے اندرون کو الوداع کہا تھا۔ اس چوکی پر ہر آنے جانے والی کی اینٹری کی جاتی ہے چاہے کوئی بھی ہو۔ کون کون جارہے ہے اور کس جگہ جانا ہے، ان سب چیزوں کی اینٹری اسی چوکی پر کروانی پڑتی ہے۔ ہم نے بھی یہ چیزیں اینٹر کروائیں۔ تب اس جگہ پر کچھ ساربان (اونٹوں والے) بھی آگئے۔ ہم نے ان کے ساتھ کچھ سیلفیاں اور کچھ تصویریں کھنچوائیں۔ یہ لوگ سامان سے لدے اونٹ پٹ فیڈر کینال کے بیرون کی طرف لے جا رہے تھے۔
اسی دوران آدھے گھنٹے میں اینٹری مکمل کرنے کے بعد ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ اس وقت ہم نے کچی سڑکوں کو الوداع کہا تھا اور اب ہمارے سامنے پکی سڑک موجود تھی جس پر گاڑیاں دوڑ رہی تھیں۔ البتہ کچھ کچھ اسپیڈ بریکر ہماری گاڑی کی اسپیڈ میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ یہ سڑک بھی پٹ فیڈر کینال کے ساتھ ساتھ چلتی ہے جس کے ایک جانب اندرون میں چاول کی فصلیں ہوتی ہیں تو دوسری جانب بیرون کا بیل پٹ ویران علاقہ ہے جس پر ہریالی کہیں کہیں نظروں سے گزرتی ہے۔ کچھ بیرون کے لوگ پٹ فیڈر کینال سے پانی لفٹ کرکے چرا رہے تھے۔ بہرحال، وہاں کے مقامی لوگ خوشحال نہیں تھے۔ صرف کھاتے، پیتے اور سوجاتے تھے۔ شاید یہی ان کا اصول زندگی بنا ہوا تھا۔ ہمارا سفر ابھی جاری تھا، جس کا اگلا حصہ جلد ہی پیش کریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سنا تھا بلوچستان کے خوبصورت لوگ اور قیمتی چیزیں ڈیرہ بگٹی میں بہت ملتی ہیں۔ تو ہم نے بھی کمر باندھ لی اور ڈیرہ بگٹی کی طرف سفر شروع کیا۔ ہماری منزل ڈیرہ بگٹی تھا مگر راستے میں آنے والے شہروں کو بھی ہمیں دیکھنا تھا، ان کا حسن و جمال قلم بند کرنا تھا۔ ہم جس سڑک پر سفر کر رہے تھے وہ کچی پکی اور اونچی نیچی تھی جس پر بہت کم لوگ سفر کرتے ہیں کیونکہ اس سڑک پر کئی بار لوٹ مار اور قتل و غارت کے واقعات پیش آ چکے تھے۔ مگر آج کل اس سڑک پر صرف مقامی لوگ سفر کرتے ہیں۔ ہم صبح سات بجے اوستہ محمد سے کار پر نکلے۔
اوستہ محمد جو بلوچستان کی ''گرین بیلٹ'' ہوا کرتا تھا، آج کل پانی کی کمی کی وجہ سے ''ویران بیلٹ'' بن گیا ہے۔ جہاں پر ہریالی ہوتی تھی وہاں پر آج خشک سالی کا راج تھا۔ اس سڑک کنارے بچے بڑے مزدوری کی تلاش میں بھاگ رہے تھے، کسی کے ہاتھ میں کدال تھا تو کسی کے ہاتھ میں بیلچہ تھا؛ ان اوزاروں کے ساتھ انہیں کہیں نہ کہیں روزی روٹی مل جاتی تھی۔ اوستہ محمد کو ''گدھا گاڑیوں کا شہر'' بھی کہتے ہیں۔ ویسے بھی دنیا جتنی گھومنی ہے، گھوم لیجیے مگر پوری دنیا میں سب سے زیادہ گدھے آپ کو اور کہیں نہیں ملیں گے؛ البتہ اوستہ محمد شہر میں آنا ہو تو آپ کو یہاں ضرور مل جائیں گے کیونکہ اس شہر میں گدھوں کی کمی نہیں ہے۔ ہر دس قدم کے فاصلے پر آپ کو ایک گدھا ملے گا۔
ارے بھائی، اس شہر کی سب سے زیادہ خوبصورتی بھی ان گدھوں کے دم سے ہے جو گاڑیوں میں جتے ہوتے ہیں۔ یہ گدھے اس شہر کا ٹریفک جام کردینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور چند منٹوں میں پورے شہر کی سڑکیں بند کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ چند ٹریفک پولیس اہلکار بھی ان کا کچھ نہیں کرسکتے۔ گدھے بھلا کیسے قانون کو مانیں گے؟ اس شہر میں دھوپ، حبس، سردی، گرمی کا رواج بہت پرانے وقتوں سے چلا آرہا ہے اس لیے اس شہر کے لوگوں کے طور طریقے بہت عمدہ ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نوازی میں بھی بہت مشہور ہیں اور اپنی زمین سے بڑا پیار کرتے ہیں۔ وہ یوں کہ ریل کی پٹڑیاں اٹھا کر اپنے گھروں میں لے آتے ہیں، ریلوے کی اراضی پر بڑے بڑے بنگلے بنا لیتے ہیں جنہیں گرانا کسی کے بس میں نہیں۔
اوستہ محمد ضلع جعفرآباد کی ایک تحصیل ہے۔ یہ تحصیل سطح سمندر سے 134 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ اس شہر کا نام محمد خان اوستو کے نام پر رکھا گیا تھا۔ کاروباری اعتبار سے بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس شہر میں ایک سو کے لگ بھگ چاول کی ملیں موجود ہے۔ بجلی کا فقدان ان مل مالکان کےلیے مشکلات بنتا ہے۔ اس شہر کی چائے بھی بہت مشہور ہے اور اس کے ساتھ اس شہر کی اندر بھیک مانگتے فقیر بھی (جن کی آوازیں بہت عمدہ ہوتی ہیں) جا بجا ملیں گے۔ بازار میں جاتے ہوئے ایک ایسا گداگر بھی ملے گا جو لوگوں کے پاؤں پکڑ کر پیسے وصولتا ہے۔ جب تک اسے پیسے نہیں ملتے، تب تک پاؤں نہیں چھوڑتا۔ ہمیں بھی اس گداگر نے کئی مرتبہ پکڑا، دس بیس روپے دے کر اپنی جان چھڑائی۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اس شہر کی خوبصورتی یہاں موجود گدھا گاڑیوں کی وجہ سے ہے تو سن لیجیے کہ یہاں پانچ ہزار کے لگ بھگ گدھا گاڑیاں موجود ہیں جو پورے شہر میں آپ کو ہر وقت ہر گلی میں ملتی رہیں گی۔ یہ وہ گاڑیاں ہیں جو پورے شہر کا بوجھ اٹھا لیتی ہیں۔ اس شہر میں گدھوں کو دوڑایا بھی جاتا ہے جس پر لاکھوں روپے کا سٹہ بھی لگایا جاتا ہے۔ یہاں آپ کو ایسے ہیرو گدھے بھی ملیں گے جن کی قیمت دو لاکھ سے پانچ لاکھ ہے۔ پورے شہر کا بوجھ اٹھانے والا یہ جانور اینٹوں کے کاروبار میں بہت مشہور ہے۔ شہر کے سارے گھر بنانے کا بوجھ انہی گدھوں نے اٹھایا ہوا ہے کیونکہ گدھا گاڑی میں اینٹ نہیں ٹوٹتی اور ہر گلی، ہر محلے میں یہ جانور آسانی سے داخل ہو جاتا ہے۔ کبھی دکان کا سامان اٹھاتے، کبھی چاول کی فصل کی گھاس اٹھاتے، کبھی دواؤں کا بوجھ ڈھوتے۔ اگر گدھے نہ ملیں گے تو وہ صرف دکان کے اندر، ورنہ ساری سڑکیں ان گدھوں سے بھری ہوئی ملیں گی۔
اوستہ محمد کو چار یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان یونین کونسلوں میں ترقیاتی کام بہت کم ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بارش کی دو بوندیں بھی شہر کو کیچڑ بنا دیتی ہیں۔ اس شہر میں مختلف زبانیں بولی جاتی جن میں بلوچی، سندھی، سرائیکی اور دوسری چھوٹی موٹی زبانیں شامل ہیں۔ یہاں ہندو بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ 50 فیصد ہندو لوگ کاروباری ہیں۔ اس شہر کے بیچ سے نکلنے والی نہر گٹروں کے پانی کےلیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ شہر کی آدھی گندگی اس نہر سے بہتی ہے جس کی وجہ سے یہ شہر ہیپاٹائیس بی اور سی میں مبتلا، پاکستان کا سب سے بڑا شہر مانا جاتا ہے۔ ہر ایک سو میں سے تین چار افراد تو لازماً اس موذی مرض میں مبتلا ملیں گے۔
اوستہ محمد کی مشہور جگہیں پرانا ہائی اسکول، ڈگری کالج، ہسپتال، ریلوے نظام، گھنٹہ گھر، چوک اچھی مسجد (سفید مسجد) اور حق باہو کا مزار ہیں۔ ریل کا نظام تقریباً سو سالہ ہوگا مگر یہ نظام اب دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اس کی حالت زار اب کسی کھنڈر سے مختلف نہیں۔ اس شہر کو گرین بیلٹ کا خوبصورت شہر کہا جاتا ہے مگر صرف نام کی حد تک۔ گرین بیلٹ اب ویران بیلٹ بن رہی ہے۔ اگر کوئی دوست اس شہر میں کچھ دیکھنا چاہتا ہے تو اس شہر میں موجود پانچ ہزار گدھے اور گاڑیاں ہیں؛ ان کے علاوہ یہاں کچھ بھی خاص نہیں رہا۔ البتہ اس شہر میں الیکشن کے دوران بہت سے نعرے مشہور ہوئے، جیسے کہ:
دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا!
اگلی باری پھر زرداری
ایک زرداری سب پر بھاری
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے
ایک سونامی ایک طوفان، عمران خان عمران خان!
یہ نعرے صرف الیکشن کے دوران ہی گونجتے ہیں باقی سارا سال گدھے ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے دس بجے اوستہ محمد شہر کو الوداع کہا اور ہم اپنی منزل کی طرف چل پڑے۔
ستر کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمارے سامنے جھٹ پٹ شہر تھا جس کا نام بعد میں جعفرآباد بھی رکھا گیا۔ جھٹ پٹ شہر تین تحصیلوں اوستہ محمد، گنداخہ اور جھٹ پٹ شہر ضلعی ہیڈ کوارٹر پر مشتمل ہے جہاں پر سرکاری عمارتوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ جب ہم جھٹ پٹ شہر سے گزرے تو اس وقت سرکاری عمارتوں کو تالے لگے ہوئے تھے۔ ہم نے مقامی ہوٹل پر اپنے ہم سفر جہانگیر اور ڈرائیور استاد پیرل کے ساتھ چائے کے تین کپ پیے اور کولر میں دس روپے کی برف بھی ڈالی تاکہ پیاس بجھائی جائے۔ جھٹ پٹ شہر ویسے تو بہت سی چیزوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے مگر یہاں کے لوگ ملنسار اور راستہ بتانے میں مدد کرنے والے ہیں۔ ہم جھٹ پٹ شہر سے نکلے اور ہمارا اگلا پڑاؤ صحبت پور شہر تھا۔
صحبت پور وہ شہر ہے جس سے نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسہ کا تعلق ہے۔ میر ہزار خان کھوسہ نے وزیراعظم بنتے ہی صحبت پور کو جعفرآباد سے الگ کرکے نیا ضلع بنایا تھا۔
اس ضلع میں بھی ترقیاتی کاموں کا بڑا جال ابھی تک نہیں بچھایا گیا۔ یہاں کے باسی محنت مزدوری کےلیے کراچی اور دیگر شہروں کا رخ کرتے ہیں جبکہ صحبت پور کی ایک تحصیل خیردین ہے۔ اس تحصیل کے مین روڈ پر اربوں روپے خرچ کرکے ایک مدرسہ بنایا گیا تھا جسے آج تک فعال نہیں کیا گیا۔ اس مدرسے کی زمین ایک سردار نے عطیہ کی ہے۔
ہم نے آدھے گھنٹے بعد پکی سڑک کو خیرباد کہا اور اب ہم ایک کچی سڑک پر سفر کر رہے تھے۔ یہ سڑک ہماری منزل میں ایک گھنٹے تک کمی کرتی ہے۔ اس سڑک کے کنارے پر کچھ بند اسکول اور کچھ لوگ گھاس کھودتے نظر آرہے تھے۔
اسی کچی سڑک کے ساتھ ساتھ ہم نے ایک چھوٹی سی نہر بھی پار کی جسے لوگ ''مانجھوٹی نہر'' کہتے ہیں۔ اس نہر کے ساتھ ہریالی ہی ہریالی تھی۔ نہر کے دونوں جانب چاول کی لہلہاتی فصلیں تھیں۔ ان فصلوں کے بیچ میں کچھ خواتین جانوروں کےلیے چارہ تلاش کررہی تھیں جبکہ ان کے بچے سڑک کنارے پر گوٹیاں کھیل رہے تھے۔ اسکولوں کے اوپر نئے نئے پاکستانی پرچم لہرا رہے تھے کیونکہ ایک دن پہلے ہی چودہ اگست یعنی پاکستان کی آزادی کا دن تھا جبکہ ہم پندرہ اگست کو سفر پر نکلے تھے۔
مسلسل آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ہمارے سامنے ایک بڑی نہر تھی جسے ''پٹ فیڈر کینال'' کہتے ہیں۔ یہ نہر سندھ کے گڈو بیراج سے نکلتی ہے جو بلوچستان کا سب سے زیادہ علاقہ سیراب کرتی ہے۔ اس نہر کے کنارے کچھ بچے پانی ڈال رہے تھے تاکہ دھول مٹی نہ اڑسکے۔ یہ بچے ہر آنے جانے والی گاڑی سے اپنی محنت کے دس روپے تک کا تقاضا بھی کرتے تھے۔ کچھ لوگ ان بچوں کو دس روپے تھما دیتے تھے جبکہ کچھ لوگ اپنی گاڑی کی دھول ان کے چہروں پر چھوڑ جاتے تھے۔ دراصل یہ بچے بھیڑ بکریوں کے چرواہے ہوتے ہیں جو پٹ فیڈر نہر کے کنارے اپنی روزی روٹی تلاش کرتے ہیں۔ اس نہر کے کنارے پر سیکڑوں ٹیوب ویل چل رہے تھے جو سب کے سب غیر قانونی تھے۔ ان کے ذریعے پانی چوری کیا جارہا تھا لیکن نہ کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ کوئی دیکھنے والا۔ حکمران طبقہ تو خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہا تھا؛ ہم نے بھی کوشش کی کہ سوجائیں مگر یہ کوشش بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔
کچھ اور آگے بڑھے تو سامنے ڈیرہ بگٹی ضلع کی پہلی چوکی تھی جو پٹ فیڈر کینال کے بیرون کی طرف تھی۔ اس وقت ہم نے پٹ فیڈر کینال کے اندرون کو الوداع کہا تھا۔ اس چوکی پر ہر آنے جانے والی کی اینٹری کی جاتی ہے چاہے کوئی بھی ہو۔ کون کون جارہے ہے اور کس جگہ جانا ہے، ان سب چیزوں کی اینٹری اسی چوکی پر کروانی پڑتی ہے۔ ہم نے بھی یہ چیزیں اینٹر کروائیں۔ تب اس جگہ پر کچھ ساربان (اونٹوں والے) بھی آگئے۔ ہم نے ان کے ساتھ کچھ سیلفیاں اور کچھ تصویریں کھنچوائیں۔ یہ لوگ سامان سے لدے اونٹ پٹ فیڈر کینال کے بیرون کی طرف لے جا رہے تھے۔
اسی دوران آدھے گھنٹے میں اینٹری مکمل کرنے کے بعد ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ اس وقت ہم نے کچی سڑکوں کو الوداع کہا تھا اور اب ہمارے سامنے پکی سڑک موجود تھی جس پر گاڑیاں دوڑ رہی تھیں۔ البتہ کچھ کچھ اسپیڈ بریکر ہماری گاڑی کی اسپیڈ میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ یہ سڑک بھی پٹ فیڈر کینال کے ساتھ ساتھ چلتی ہے جس کے ایک جانب اندرون میں چاول کی فصلیں ہوتی ہیں تو دوسری جانب بیرون کا بیل پٹ ویران علاقہ ہے جس پر ہریالی کہیں کہیں نظروں سے گزرتی ہے۔ کچھ بیرون کے لوگ پٹ فیڈر کینال سے پانی لفٹ کرکے چرا رہے تھے۔ بہرحال، وہاں کے مقامی لوگ خوشحال نہیں تھے۔ صرف کھاتے، پیتے اور سوجاتے تھے۔ شاید یہی ان کا اصول زندگی بنا ہوا تھا۔ ہمارا سفر ابھی جاری تھا، جس کا اگلا حصہ جلد ہی پیش کریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔