امریکا اور ہم
امریکا کو جب تک ہماری ضرورت رہی وہ ہمارا ہر طرح کے نخرے اٹھاتے رہے۔
ہماری نئی حکومت کے اقتدار کا نشہ ابھی دوآتشہ ہے کہ پہلی دفعہ کا اقتدارہے اور وہ بھی خود مختاراورکسی سہارے کے بغیر۔ ہماری نئی نویلی حکومت کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ ایک آدمی نیا نیا امیر ہوا تو روز وہ بکرے کا گوشت پکاتا اور خود ہی کھا جاتا ،کسی ملازم کو ایک بوٹی بھی نصیب نہ ہوتی، اس کے ملازموںمیں ایک میراثی بھی تھا۔ ایک دن نئے نویلے چوہدری صاحب نے میراثی کو بلایا اور کہا کہ میرا پیٹ خراب رہتا ہے حالانکہ میں روز بکرے کا تازہ گوشت کھاتا ہوں ۔
میراثی کو اس بات کا غصہ تھاکہ اس کو توکھانے میں دال ملتی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ چوہدری صاحب یہ کم بخت بکرے کا گوشت بھی جا کر تیسری نسل کو ہضم نصیب ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری نئی حکومت کا ہے۔ انھوں نے نیا نیا اقتدار سنبھالا ہے ، اس کام کے لیے تجربہ چاہیے جو کہ عمران خان کے کچھ ساتھیوں کے پاس تو ہے لیکن کچھ کی حالت اس چوہدری والی ہے جو نیا نیا امیر ہوا ہے ۔لہذا عمران خان کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا کیونکہ ان کے راستے میں روڑے اٹکانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے ۔
حکومت نے اپنی پہلی ہی انگڑائی میں امریکا بہادر کو یہ باور کر ادیا ہے کہ آیندہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پہلے والی نہیں ہو گی یعنی اب بات برابری کی سطح پر ہو گی ۔لیکن اگر دیکھا جائے تو انسانی تاریخ کا امریکا جتنا طاقتور ملک اور کوئی نہیں ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت اور سب سے بڑی فوجی طاقت ۔انسانوں نے اربوں برس میں جس قدر مادی ترقی کی ہے اس کا نچوڑ سب آج امریکا کے پاس ہے اور امریکا کا صدر اس طاقت کا سربراہ اور نمایندہ ہے ۔ اس حقیقت کو اگر مد نظر رکھا جائے تو امریکا اور پاکستان کا کسی بھی شعبے میں بھی کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا کجا کہ ہم برابری کی بات کریں۔
آج کی بے رحم دنیا میں امریکا جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے اور اس کی کئی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں ، اس کے قہر و جبر کا شکار مسلمان ہوئے ہیں اور ابھی آگے نہ جانے کس کی باری ہے ۔ اس لیے امریکا کے وزیر خارجہ کی بات کو جھٹلانا معنی رکھتاہے اور اس کی اندھی جرات ہماری نئی حکومت نے کی ہے حکومت کا کہنا ہے کہ جو بیان امریکا کی طرف سے دیا گیا ہے، وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے اور اس طرح کی گفتگو ہمارے وزیر اعظم اور امریکی وزیر خارجہ میں نہیں ہوئی۔ آج کے جدید دور میں ہر گفتگو کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور معاملہ جب پاکستان اور امریکا کا ہو تو یہ ریکارڈ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے جلد یا بدیر سب کچھ سامنے ضرور آئے گا۔
میرے اندازے کے مطابق امریکا پاکستان کو ایک ایسا دوست ملک دیکھنا چاہتا ہے جس کے دانت کھانے کو تو ہوں مگردکھانے کونہ ہوں اور یہ پاکستان ہی نہیں امریکا پوری دنیا کو ایسا ہی دیکھنا چاہتا ہے ۔ کسی ملک کی خوشحالی پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر کسی ملکی کی نافرمانی پر وہ شدید معترض ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ پہلی ہی ملاقات میں یعنی پہلے رابطے میں ہی ہماری حکومت نے امریکیوں کو ناراض کر دیا ہے جس کا ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب تو نہیں آیا لیکن وہ باتیں دل میں رکھتے ہیں اور مناسب موقع پر اس کا جواب دیتے ہیں ۔
یہ تو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ ہماری نئی نویلی حکومت کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی اور اس میں امریکا کا کردار کیا ہو گا لیکن یہ بات بہر حال بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے نئے وزیر اعظم عمران خان کسی غیر حقیقی دباؤ میں نہیں آئیں گے وہ سیدھے راستے پر چلنے والے ا نسان ہیں ان کو ابھی دنیا کے سیاسی جھمیلوں سے واسطہ نہیں پڑا وہ ملک کو درست سمت میں لے جانا چاہتے ہیں جس کے لیے ان کو اپنے اندر کے حالات درست کرنے سے بھی پہلے ہمسائیوں کے ساتھ ساتھ امریکا بہادر کی خوشنودی کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔
اس بات کا عندیہ عمران خان نے اپنی تقریر میں دیا تھا کہ وہ ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات میں آگے بڑھیں گے اور اگر وہ ایک قدم آگے چلیں گے تو پاکستان دو قدم اورآگے بڑھے گا۔ جہاں تک امریکا کی بات ہے وہ ہمارا ہمسایہ تو نہیں لیکن بقول فرانس کے ایک آنجہانی صدر چارلس ڈیگال کے امریکا ہر ملک کا ہمسایہ ہے اور اس ہمسائیگی کا حق وہ جانتا ہے اور کسی بھی دوسرے قریبی ہمسائے سے وہ پاکستان سے زیادہ قریب ہے۔
ماضی میں پاکستان امریکا تعلقات کی نوعیت ٹوم اینڈ جیری والی رہی یعنی ہم ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہی بھاگتے رہے اور آخر میں ہمیں حاصل وصول کچھ نہیں ہوا بلکہ معمول کے مطابق امریکا اپنا مطلب نکل جانے کے بعد ہمیں اکیلا چھوڑ گیا ۔امریکا کو جب تک ہماری ضرورت رہی وہ ہمارا ہر طرح کے نخرے اٹھاتے رہے، ہمارے بااثر لوگوں کی عیاشیوں کے لیے انھوںنے ڈالر پانی کی بہائے اور اپنے مفادات کا تحفظ کیا، ان مفادات نے ہماری عادتیں بگاڑ دیں مگر آج کے امریکا کے مفادات بدل چکے ہیں ۔ پاکستان دنیا کے جس حصے سے تعلق رکھتا ہے امریکا اس کو فوجی اعتبار سے طاقت ور دیکھنا نہیں چاہتا، اس کوصرف معاشی طور پر اس کی خوشحالی برداشت ہے تا کہ وہ اس کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہ بنے اور دنیا کے امن و امان میں خلل انداز نہ ہو۔
پاکستان کے حکمران اگر احساس کریں تو اس وقت ان کا ملک شدید مشکل میں ہے ۔ اسے خوشحالی بھی چاہیے اور اپنی ایٹمی طاقت کی برقراری بھی۔ یہ دونوں کا م پاکستان خود کر سکتا ہے، اس میںامریکا اس کی مدد پر تیار نہیں ہے اور ہمارا ایٹمی پروگرام تو اس کے لیے نہ پہلے قابل قبول تھا نہ اب ہے اور نہ آیندہ ہوگا۔ پاکستان دنیا کے اس بے رحم حکمران اورلیڈر سے کس طرح بچ سکتا ہے، اس کا بار حکمرانوں پر ہے، ان کی دانش اور برداشت پر کیونکہ امریکا کسی کا دوست نہیں ہے۔
میراثی کو اس بات کا غصہ تھاکہ اس کو توکھانے میں دال ملتی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ چوہدری صاحب یہ کم بخت بکرے کا گوشت بھی جا کر تیسری نسل کو ہضم نصیب ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ہماری نئی حکومت کا ہے۔ انھوں نے نیا نیا اقتدار سنبھالا ہے ، اس کام کے لیے تجربہ چاہیے جو کہ عمران خان کے کچھ ساتھیوں کے پاس تو ہے لیکن کچھ کی حالت اس چوہدری والی ہے جو نیا نیا امیر ہوا ہے ۔لہذا عمران خان کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا کیونکہ ان کے راستے میں روڑے اٹکانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے ۔
حکومت نے اپنی پہلی ہی انگڑائی میں امریکا بہادر کو یہ باور کر ادیا ہے کہ آیندہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پہلے والی نہیں ہو گی یعنی اب بات برابری کی سطح پر ہو گی ۔لیکن اگر دیکھا جائے تو انسانی تاریخ کا امریکا جتنا طاقتور ملک اور کوئی نہیں ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت اور سب سے بڑی فوجی طاقت ۔انسانوں نے اربوں برس میں جس قدر مادی ترقی کی ہے اس کا نچوڑ سب آج امریکا کے پاس ہے اور امریکا کا صدر اس طاقت کا سربراہ اور نمایندہ ہے ۔ اس حقیقت کو اگر مد نظر رکھا جائے تو امریکا اور پاکستان کا کسی بھی شعبے میں بھی کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا کجا کہ ہم برابری کی بات کریں۔
آج کی بے رحم دنیا میں امریکا جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے اور اس کی کئی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں ، اس کے قہر و جبر کا شکار مسلمان ہوئے ہیں اور ابھی آگے نہ جانے کس کی باری ہے ۔ اس لیے امریکا کے وزیر خارجہ کی بات کو جھٹلانا معنی رکھتاہے اور اس کی اندھی جرات ہماری نئی حکومت نے کی ہے حکومت کا کہنا ہے کہ جو بیان امریکا کی طرف سے دیا گیا ہے، وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے اور اس طرح کی گفتگو ہمارے وزیر اعظم اور امریکی وزیر خارجہ میں نہیں ہوئی۔ آج کے جدید دور میں ہر گفتگو کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور معاملہ جب پاکستان اور امریکا کا ہو تو یہ ریکارڈ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے جلد یا بدیر سب کچھ سامنے ضرور آئے گا۔
میرے اندازے کے مطابق امریکا پاکستان کو ایک ایسا دوست ملک دیکھنا چاہتا ہے جس کے دانت کھانے کو تو ہوں مگردکھانے کونہ ہوں اور یہ پاکستان ہی نہیں امریکا پوری دنیا کو ایسا ہی دیکھنا چاہتا ہے ۔ کسی ملک کی خوشحالی پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر کسی ملکی کی نافرمانی پر وہ شدید معترض ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ پہلی ہی ملاقات میں یعنی پہلے رابطے میں ہی ہماری حکومت نے امریکیوں کو ناراض کر دیا ہے جس کا ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب تو نہیں آیا لیکن وہ باتیں دل میں رکھتے ہیں اور مناسب موقع پر اس کا جواب دیتے ہیں ۔
یہ تو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ ہماری نئی نویلی حکومت کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی اور اس میں امریکا کا کردار کیا ہو گا لیکن یہ بات بہر حال بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے نئے وزیر اعظم عمران خان کسی غیر حقیقی دباؤ میں نہیں آئیں گے وہ سیدھے راستے پر چلنے والے ا نسان ہیں ان کو ابھی دنیا کے سیاسی جھمیلوں سے واسطہ نہیں پڑا وہ ملک کو درست سمت میں لے جانا چاہتے ہیں جس کے لیے ان کو اپنے اندر کے حالات درست کرنے سے بھی پہلے ہمسائیوں کے ساتھ ساتھ امریکا بہادر کی خوشنودی کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔
اس بات کا عندیہ عمران خان نے اپنی تقریر میں دیا تھا کہ وہ ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات میں آگے بڑھیں گے اور اگر وہ ایک قدم آگے چلیں گے تو پاکستان دو قدم اورآگے بڑھے گا۔ جہاں تک امریکا کی بات ہے وہ ہمارا ہمسایہ تو نہیں لیکن بقول فرانس کے ایک آنجہانی صدر چارلس ڈیگال کے امریکا ہر ملک کا ہمسایہ ہے اور اس ہمسائیگی کا حق وہ جانتا ہے اور کسی بھی دوسرے قریبی ہمسائے سے وہ پاکستان سے زیادہ قریب ہے۔
ماضی میں پاکستان امریکا تعلقات کی نوعیت ٹوم اینڈ جیری والی رہی یعنی ہم ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہی بھاگتے رہے اور آخر میں ہمیں حاصل وصول کچھ نہیں ہوا بلکہ معمول کے مطابق امریکا اپنا مطلب نکل جانے کے بعد ہمیں اکیلا چھوڑ گیا ۔امریکا کو جب تک ہماری ضرورت رہی وہ ہمارا ہر طرح کے نخرے اٹھاتے رہے، ہمارے بااثر لوگوں کی عیاشیوں کے لیے انھوںنے ڈالر پانی کی بہائے اور اپنے مفادات کا تحفظ کیا، ان مفادات نے ہماری عادتیں بگاڑ دیں مگر آج کے امریکا کے مفادات بدل چکے ہیں ۔ پاکستان دنیا کے جس حصے سے تعلق رکھتا ہے امریکا اس کو فوجی اعتبار سے طاقت ور دیکھنا نہیں چاہتا، اس کوصرف معاشی طور پر اس کی خوشحالی برداشت ہے تا کہ وہ اس کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہ بنے اور دنیا کے امن و امان میں خلل انداز نہ ہو۔
پاکستان کے حکمران اگر احساس کریں تو اس وقت ان کا ملک شدید مشکل میں ہے ۔ اسے خوشحالی بھی چاہیے اور اپنی ایٹمی طاقت کی برقراری بھی۔ یہ دونوں کا م پاکستان خود کر سکتا ہے، اس میںامریکا اس کی مدد پر تیار نہیں ہے اور ہمارا ایٹمی پروگرام تو اس کے لیے نہ پہلے قابل قبول تھا نہ اب ہے اور نہ آیندہ ہوگا۔ پاکستان دنیا کے اس بے رحم حکمران اورلیڈر سے کس طرح بچ سکتا ہے، اس کا بار حکمرانوں پر ہے، ان کی دانش اور برداشت پر کیونکہ امریکا کسی کا دوست نہیں ہے۔