تبدیلی اور ذہنی غلامی سے نجات
پاکستانی قوم کو درحقیقت پہلی بار کسی وزیراعظم نے ڈائریکٹ مخاطب کیا ہے، ایک دوست کی طرح، ایک خاندان کے سربراہ کی طرح۔
مصنوعی طرز زندگی کے ہم لوگ اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب ہمیں سادہ اور حقیقی زندگی کی باتیں آئیڈیلزم لگتی ہیں، مگر کاش کہ ہمارے لوگ اس بات کو سمجھ سکیں کہ زندگی میں خواب کتنے ضروری ہیں۔ خواب وہ محرک ہوتا ہے جو ہر پل انسان کو عمل پر اکساتا ہے اور اپنی منزل کے حصول کے لیے درکار قوت بخشتا ہے۔
خواب تو پہلی حکومتیں بھی دکھاتی رہی ہیں ، مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی رہنما نے خود بڑے بڑے کام کرکے دکھانے کے خواب عوام کی آنکھوں میں رکھنے کے بجائے، ان کی خالی جیب میں بہت سے خواب کے سکے اس وعدے کے ساتھ رکھے ہیں کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ مل کر ان خوابوں کی تعبیر ممکن بنائے گا۔ بے شک وزیراعظم پاکستان کی تقریر دلوں کو چھو لینے والی تھی۔
اس لیے کہ پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلے وزیراعظم ہیں جنھوں نے پاکستان کی معاشی، اقتصادی، تعلیمی شعبوں کی، عوام کی اور حکومتی ارکان کی صورتحال کو اس طرح عوام کے سامنے رکھا ہے۔ پہلی بار کسی وزیراعظم نے عوام کے ساتھ حقیقی معنوں میں خطاب کیا ہے۔ ہمیں نہ صرف ہمارے مسائل بتائے ہیں، بلکہ ان کوحل کرنے کے لیے کی جانے والی حکمت عملی بھی سامنے رکھی ہے، جس کے لیے انھوں نے بہت ہی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے عوام کا ساتھ مانگا ہے۔
ہمیں ہمارے وسائل سے بھی متعارف کراتے ہوئے ان سے مستقبل قریب میں حاصل کیے جانے والے ممکنہ مفادات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ غرض پاکستان کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے ہر موضوع کو انھوں نے اپنے خطاب میں موضوع گفتگو بنایا ہے۔
اس تقریر کے فوراً بعد ہی منفی اپروچ اور سوچ کے افراد نے منفی باتیں کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ نجانے ہم کیوں مثبت سوچ ہی نہیں سکتے۔ پرائم منسٹر عمران خان کو ہم ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ رکھ کر تقابلی جائزہ نہیں لے سکتے، جیسا کہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ وعدے تو ہر حکمران اور آنے والی حکومتوں نے ماضی میں بھی ایسے ایسے کیے کہ لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ یہ سچ ہے کہ ہر آنے والا حکمران ماضی میں بہت بڑے بڑے وعدے کرتا رہا، مگر پرائم منسٹر عمران خان نے جو اپنے خطاب میں کیا، وہ کبھی کسی پہلے حکمران نے نہیں کیا۔
ماضی میں حکمران آتے ہی ہمیں بتایا کرتے تھے کہ خزانہ خالی ہے، لہٰذا ہمیں قرضے لینے پڑیں گے اور کشکول اٹھا کر جہاز بھر بھر کر بیرون ملک دورں کا آغاز کردیا جاتا تھا۔ یہ بھی ایک تبدیلی ہے کہ کبھی کسی حکمران نے ہمیں یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم پہلے سے کتنے مقروض ہیں اور قرض کن فلاحی کاموں پر لگایا جاتا ہے۔ مگر اس خطاب میں جو ہمارے وزیراعظم عمران خان نے کیا اس سے پہلی بار ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہم پر بطور ایک قوم ہمارے حکمرانوں نے کتنا قرض چڑھا رکھا ہے اور کس دور حکومت میں کتنا قرض تھا اور کتنا زیادہ ہوا۔ قرض کے اس پیسے کو عوام پر استعال کیا گیا یا اپنی عیاشیوں پر خرچ کیا گیا۔ اس حوالے سے بھی ہمیں امید ہے کہ حقائق جلد سامنے لائے جائیں گے تاکہ ان لوگوں کی آنکھیں اور دماغ کھل سکیں جو ابھی بھی ذہنی غلامی کی زنجیر کو توڑنا نہیں چاہتے۔
پہلی بار حقیقتاً محسوس ہوا ہے کہ پاکستان کے عوام کے ساتھ سماجی و سیاسی، اقتصادی و معاشی ہر موضوع پر ہمارے وزیراعظم نے بات کی ہے۔ پاکستانی قوم کو درحقیقت پہلی بار کسی وزیراعظم نے ڈائریکٹ مخاطب کیا ہے، ایک دوست کی طرح، ایک خاندان کے سربراہ کی طرح، ایک حقیقی رہنما کی طرح، کیونکہ پہلی بار ہمارے سامنے معیشت کی صورتحال کو رکھتے ہوئے بالکل اسی طرح پریشان نہ ہونے کی تلقین کی گئی جیسے ایک خاندان کا سربراہ اپنے بچوں کو مسائل بتاتے ہوئے ساتھ پریشان نہ ہونے کی ہدایت یہ کہہ کر کرتا ہے کہ میں ہوں ان مسائل کو حل کرنے والا ۔مگر افسوس، صد افسوس کہ اس تقریر کو سن کر دکھاوے کی زندگی جینے والے اور اسٹیٹس کو سے متاثرہ افراد کا بہت ہی برا حال ہوا ہے۔ ہر وہ شخص صدمے سے دوچار ہے جس کو عادت تھی دکھاوے کی زندگی جینے کی۔
میں حیران ہوں کہ ایسے افراد بھی تکلیف سے بلبلا اٹھے ہیں جو اپنے دکھاوے کے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے بہت سی کٹھنائیوں سے گزرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دکھاوے کی زندگی جینا، اسٹیٹس کے نام پر فضول خرچی کرنا اور اس فضول اخراجات کو ممکن بنانے کے لیے کرپشن کرنا، اپنوں اور غیروں کو دھوکا دینا عام اور معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہم لوگ خواہشوں کے اتنے غلام ہوچکے ہیں کہ ہمیں آزادی کی باتیں اب اچھی نہیں لگتی۔ ایسے میں یہ بات بھی یاد رہے کہ ہمارے بے لوث پرائم منسٹر کے لیے ان ذہنی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا بھی ایک کٹھن مرحلہ طے کرنا باقی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی اس تقریر میں کہا گیا اس کو پورا کرنا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے، کیونکہ بہت سے ممکنہ اور ان دیکھی رکاوٹیں قدم قدم پر ہوں گی، جن کو دور کرتے ہٹاتے ہوئے وقت بھی ضایع ہوگا اور بہت سی مالی و افرادی قوتیں بھی۔
مخالف اور بدعنوان جماعتیں اور انھی کے زیر اثر سوچ رکھنے والے افراد اس خطاب کے فوراً بعد تبدیلی لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ عمران خان فوراً دنوں میں تبدیلی لے آئیں، کیا یہ بدعنوان جونکیں بتا سکتی ہیں کہ جنھوں نے اکہتر برسوں سے خود بھی غلامی کا طوق پہن کر کشکول اٹھائے رکھے اور عوام کو بھی غلام بنائے رکھا کہ جب انھوں نے ایک موٹر وے بنانا ہوتا تھا تو کتنے برس لگتے تھے، اس موٹروے میں جب کہ ان کا ذاتی کاروباری مفاد بھی پنہاں ہوتا تھا۔
اب ان کی اکہتر برسوں کے بدعنوانیوں کے نتیجے میں پڑنے والا گند دنوں میں صاف ہونے والا نہیں، جب کہ وہ بد عنوان خود اور ان کے غلام ذہن پیروکار ابھی بھی بدعنوانیوں کی حمایت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کچھ تنقید نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ خارجہ پالیسیوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی، جب کہ ہمارے سامنے خارجی سطح پر بہت بڑے بڑے چیلنجز ہیں، ان کے لیے عرض ہے کہ پہلے اندرونی بیماریوں کو تو ختم کرلو، جو اکہتر برس سے پالی ہوئی ہیں پھر خارجی ناسوروں کو ختم کرنے کے لیے بھی ضرور پالیسی سازی ہوگی۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہی یہ رہی ہے کہ کسی نے اس کو اپنا وطن نہیں سمجھا، اپنا گھر نہیں سمجھا۔ ابھی تک حکمرانوں کے نام پر ہمیں غلام ملتے رہے جو اپنی خواہشوں کے بھی غلام تھے، اپنی جھوٹی اناؤں کے بھی قیدی ہیں۔
بہت سے پاکستانی غلام ذہن اب بھی اس بات کی سوشل میڈیا پر حزب اختلاف ہی کی طرح رٹ لگا رہے ہیں کہ ہم تو عمل دیکھنا چاہتے ہیں، مگر وہ اپنی اخلاقی اور سماجی ڈیوٹی ادا کرنے سے گریزاں ہیں، یہ بھول رہے ہیں کہ ان کو بھی اپنے ملک کو از سرِ نو سنوارنے کے لیے گند سے پاک کرنے کے لیے عملی سطح پر تمام پروگریسو سرگرمیوں میں عملاً شریک ہونا چاہیے۔ اقتصادی غلامی سے نکلنے کے لیے پہلے ہماری ذہنی غلامی سے نجات بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ملک کی ترقی میں باہر والوں سے زیادہ ہمارے اپنے عوام خود رکاوٹ ہیں جن کی سوچ کو تبدیل کرنے میں ہمارے وزیراعظم اور ہر مخلص پاکستانی کو بہت سی کٹھنائیوں سے گزرنا پڑے گا۔ ایسے میں حکومت کے مثبت کاموں کو اجاگر کرکے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا مثبت کردار واضح اثرات مرتب کرسکتا ہے۔