پانی کی بے قدری
پانی کی بے قدری میں ایک عام آدمی تمام ادارے اور ہر حکومت برابر کی شریک ہے۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اربوں روپے کا پانی ضایع ہو رہا ہے، اﷲ کی اس نعمت کی قدر نہیں کی جاتی اس لیے پانی پر بھی ٹیکس لگنا چاہیے۔ فاضل چیف جسٹس نے سو فیصد درست کہا ہے کیونکہ ملک میں پینے کے پانی سے زرعی استعمال کے پانی تک اس قدرتی نعمت کی کوئی قدر نہیں ہو رہی اور گھروں سے لے کر صنعتی اداروں اور کھیتوں تک پانی کی بے قدری عام ہونے کے بعد تشویش ناک ہوچکی ہے۔
پانی کی بے قدری میں ایک عام آدمی تمام ادارے اور ہر حکومت برابر کی شریک ہے۔ ہمارا مذہب بھی ہمیں پانی احتیاط سے استعمال کرنے کا درس دیتا ہے اور نماز کے لیے وضو کرتے ہوئے بھی ضرورت کے مطابق پانی خرچ کرنے اور پانی کے ضیاع سے روکا گیا ہے۔
گھروں میں استعمال کا پانی، نلکوں اور بورنگ کے ذریعے یا سرکاری نلوں کے ذریعے استعمال ہوتا ہے اور سرکاری ادارے پانی مختلف ذرایع سے حاصل کرکے فراہم کرتے ہیں، جو ماہانہ بنیاد پر شہریوں سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ہر بڑے چھوٹے شہر میں سرکاری طور پر کھلے ہوئے تالابوں یا ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی حاصل کرکے سپلائی کیا جاتا ہے جب کہ گھروں میں جہاں زمینی پانی موجود ہو وہاں بورنگ اور کنوؤں کے ذریعے پانی حاصل کیا جاتا ہے۔ شہروں میں جہاں گلیوں میں کنوئیں موجود تھے، اب زیادہ تر وہ کنوئیں بند کرا دیے گئے ہیں یا کنوؤں میں پائپوں اور موٹروں کے ذریعے پانی استعمال کیا جاتا ہے۔
گھریلو استعمال کے مسلسل بڑھنے سے زمین میں پانی خشک ہو رہا ہے، جس سے پانی تیزی سے گہرائی کی طرف چلے جانے سے بورنگ اور کنوئیں خشک ہو رہے ہیں۔ زمین سے پانی حاصل کرنے میں پانی کہیں قابل استعمال نکلتا ہے تو کہیں کھارا پانی نکل رہا ہے جو پینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔
سرکاری طور پر پانی مفت ملتا ہے یا کم رقم پر مگر لوگ اس سرکاری پانی پر عائد ٹیکس بھی باقاعدگی سے ادا نہیں کرتے۔ گھروں میں سرکاری اور زمینی پانی کو اکثر بے دردی سے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ گھروں کے اوپر بنے ٹینکوں میں پانی بھر کر باہر بہتا ہے مگر روکنے پر توجہ نہیں دی جاتی، جس سے نہ صرف پانی ضایع ہو رہا ہے بلکہ گلیوں اور راستوں کا اس پانی سے زیر آب ہونا معمول بنا ہوا ہے۔ پانی کا احتیاط سے استعمال گھروں میں نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ بجلی کے ذریعے پانی آسانی سے دستیاب ہے جب کہ تین چار عشروں پہلے یہ سہولت نہیں تھی اور باہر سے بھر کر پانی لایا جاتا تھا تو اس کی قدر بھی کی جاتی تھی، مگر اب پینے کے پانی کی بے قدری عام ہوچکی ہے، کیونکہ کہیں بورنگ کا پانی مفت مل رہا ہے کہیں سرکاری پانی کوئی کم خرچ کرے یا زیادہ ماہانہ بل ایک جیسا ہی آتا ہے، اضافی رقم ادا نہیں کرنا پڑتی۔
سرکاری یا ٹیوب ویل کے ذریعے حاصل ہونے والے پانی پر میٹر بہت ہی کم لگے ہیں یا مخصوص علاقوں میں لگے ہیں، جہاں میٹر کے مطابق بل آتا ہے تو پانی کی قدر ہوتی ہے۔ ملک بھر میں پینے کا صاف پانی ملک کے بہت کم علاقوں کو میسر ہے کیونکہ زمینی پانی میں آلودگی مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے منرل واٹر کے نام پر ہونے والا کاروبار تیزی سے فروغ پا چکا ہے جو اکثر مجبوری ہے اور نمائشی بھی۔ ملک بھر میں غیر معیاری پانی کی مہنگی فروخت عام ہے اور سرکاری طور پر اس پانی کے چیک کرنے پر سرکاری توجہ نہیں ہے بلکہ سرکاری چیکنگ بدعنوانوں کی کمائی کا ذریعہ ہے جنھیں عوام کی صحت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ فلٹر یا منرل پانی کی دکانیں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
ملک میں ایسے بے شمار علاقے ہیں جہاں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے جس کی ایک بڑی مثال ہمارا مستقبل کا دبئی گوادر ہے جہاں پینے کے پانی کی فراہمی بڑے لوگوں کی آمدنی بن چکی ہے، اور حکومت اپنے سیاسی مفاد کے لیے خاموش رہتی ہے اور ہر ماہ کروڑوں روپے کے اخراجات دکھائے جاتے ہیں مگر گوادر کے غریب پانی کے لیے ترس رہے ہیں جب کہ امیر تو اپنی پانی کی ضرورت پیسہ خرچ کرکے پوری کرلیتے ہیں اور گوادر کو دی جانے والی نام نہاد ترقی میں لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں۔ پانی کی قلت کے علاقوں میں خواتین کی یہ بھی ڈیوٹی ہے کہ وہ دور دراز علاقوں میں جاکر پانی لائیں اور گھروں کی ضرورت پر پانی کا درست استعمال کوئی ان سے سیکھے کہ یہ بڑی محنت سے پانی لاتی ہیں اور اس کی قدر کرتی ہیں۔
سابق حکمرانوں کی نااہلی اور بعض جماعتوں کے سیاسی مفادات کے باعث ملک میں نئے ڈیم نہیں بنائے گئے اور کالا باغ جیسے اہم ڈیم کو انتہائی متنازعہ بناکر یہاں تک کہا گیا کہ کسی کا باپ بھی کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکتا۔ ڈیم بنانا واقعی حکومت کا کام ہے اور اب تک کوئیغیر سیاسی یا سیاسی حکومت کئی عشروں میں سیاسی وجوہات کے باعث ڈیم نہ بنائے۔ دیہاتوں میں لوگ زرعی پانی کے لیے تڑپتے رہے اور حکومت کچھ نہ کرے تو کیا اقوام متحدہ یا بھارت یہاں آکر ڈیم بنائیں گے؟ آنے والے دنوں میں پانی کی شدید قلت کے آثار دیکھ کر مجبوراً سپریم کورٹ نے یہ قدم اٹھایا ہیسوائے ایک مخصوص ٹولے کی تنقید کے حمایت زیادہ کی جا رہی ہے اور ڈیم فنڈز میں لوگ عطیات بھی دے رہے ہیں۔
بااثر افراد زرعی پانی ضایع کراتے ہیں حق دار تک اس کا حصہ پہنچنے نہیں دیتے جس کی وجہ سے پانی کے حصول کے لیے جھگڑے بڑھ رہے ہیں مگر حکومتی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ پینے کے پانی پر ٹیکس لگا کر نہری پانی کی چوری اور ضیاع روک کر اور بارشوں کا پانی نئے ڈیمز میں محفوظ کرنے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو ہمارا دشمن بھارت ہمارا کچھ کم بگاڑے گا اور سیاسی مصلحتوں میں ہم اپنا مکمل بیڑا غرق خود کرلیں گے۔