کیا حقیقی تبدیلی آئے گی

اگر عمران خان نے اپنی کہی ہوئی بات پر عمل کرلیا تو یہ ان کا بہت بڑا قدم ہوگا، اس وجہ سے ان کی توقیر میں اضافہ ہوگا۔

fnakvi@yahoo.com

الیکشن ہوگئے، چاروں صوبوں میں حکومت بن گئی، حلف برداری ہوگئی اور عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد پیہم مسلسل کا نتیجہ سامنے آگیا کہ عمران خان وزیراعظم کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوگئے۔ صحیح کہا بشریٰ بی بی نے کہ یہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو کہ دل میں قوم کا درد رکھتے ہیں۔ (ن) لیگ کا بستر ہر جگہ سے گول ہوگیا، کافی عرصے کے بعد پنجاب ان کے ہاتھوں سے نکلا ہے مگر اس میں زیادہ قصور (ن) لیگ کا ہے۔

(ن) لیگ نے اقتدار کو گھر کی لونڈی سمجھ کر اس سے بے رحمانہ سلوک شروع کردیا تھا۔ جتنا عوام اور ملک کو ان جمہوری حکومتوں نے ہر بار تباہ حال کیا اتنا تو مشرف دور میں بھی نہ ہوا تھا۔ عوام اس دور میں خوشحالی کے سفر پر تھے، مگر ماضی کو دہرانے سے کیا فائدہ، اب نئی سمتوں کی طرف سفر شروع ہوگیا ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ پاک پاکستان اور پاکستانی قوم کو بھی اقوام عالم میں عزت و مرتبہ عطا فرمائے۔ ویسے 22 ویں وزیراعظم نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں قوم کو نئی امید دلا دی ہے، ہر اندھیرے کے بعد ایک نئی صبح طلوع ہوتی ہے، قوم بھی مایوسی کے اندھیرے سے روشنی کی طرف قدم بڑھا رہی ہے۔

اس لیے عمران خان کا خطاب نہیں سچی اور کھری باتیں تھیں، جس نے عوام کے دلوں کو چھو لیا، ہر سچے پاکستانی کی خواہش ہے کہ ملک کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد کروایا جائے، قرضہ ختم ہوگا تو وہ پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر لگے گا، سادگی پر قائم رہنے کا عزم بہت خوش آیند بات ہے، غریب ملک کے وزیراعظم کو زیب بھی نہیں دیتا کہ وہ عالی شان گھروں میں رہیں اور ان کی خدمت میں 500 سے زائد ملازمین ہوں، 80 سے زیادہ مہنگی ترین شاہانہ گاڑیاں ہوں۔ اسی لیے عمران خان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ صرف دو گاڑیاں اور دو ملازم ہی رکھے گا۔

اگر عمران خان نے اپنی کہی ہوئی بات پر عمل کرلیا تو یہ ان کا بہت بڑا قدم ہوگا، اس وجہ سے ان کی توقیر میں اضافہ ہوگا کیونکہ عمران کی تمام الیکشن کیمپین ہی کرپشن کے خلاف تھی۔ وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کو پبلک کے مفاد میں مختص کرنے کی تجویز بھی سادگی کی طرف ایک اچھا قدم ہے، کیونکہ جتنے بھی ایم پی اے، ایم این اے اور کابینہ کے لوگ ہیں، ان کے اپنے گھر بھی شاہانہ ہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ ان کو مزید محلات مہیا کیے جائیں۔ اس کا بہترین مصرف یہی ہے کہ ان تمام ہاؤسز کو علمی درسگاہ میں تبدیل کردیا جائے۔


عمران خان نے جس دل سوزی سے ان بچوں کا تذکرہ کیا جو غذائی قلت کی وجہ سے یا تو مرجاتے ہیں پھر ذہنی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں، اس نے ہر تقریر سننے والے کے دل کو جھنجھوڑ دیا ہوگا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تھر میں غذائی قلت کے سبب لوگوں کے بچے سیکڑوں کی تعداد میں دن بہ دن مر رہے تھے اور حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی تھی، ان کے اپنے دسترخوانوں پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوئے تھے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں پاکستان کے حقیقی مسائل کی نشان دہی کی ہے، جب مسائل اور ان کی حقیقی وجوہات کا علم ہوجاتا ہے تو پھر مشکلات کا حل بھی فوراً نکل آتا ہے، مگر یاد رکھیں وزیراعظم کی اصل مشکلات کا اب آغاز ہوگیا ہے کیونکہ بڑے بڑے وعدے کرنا آسان ہے مگر ان کو پورا کرنے میں وقت لگتا ہے، لیکن اگر شروعات درست سمت میں ہو تو پھر راہ بھٹکنے کا احتمال ذرا کم رہتا ہے۔

کابینہ میں شامل چہرے تقریباً نئے ہیں لیکن اگر سب مل کر اس عزم کا عہد کرلیں کہ اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہے تو اللہ پاک کی مدد بھی شامل حال ضرور ہوگی مگر دنیا کی کوئی طاقت کچھ نہیں بگاڑ سکتی، آج پنجاب کا بڑا صوبہ ان کے ہاتھ میں ہے، کے پی کے میں دوبارہ تحریک انصاف برسر اقتدار ہے، بلوچستان میں بھی تحریک انصاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ برسر اقتدار ہے، تو قانون سازی آسان ہوگی، عوام کے حق میں فیصلے کرنا آسان ہوگا۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ عوام کے مفاد میں کیے گئے فیصلوں میں ساتھ دیں گے، پیپلز پارٹی کے موجودہ رویوں کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔

بلاول بھٹو کی پہلی تقریر جوکہ نیشنل اسمبلی میں کی گئی ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی تقریر تھی، انھوں نے کچھ باتوں کی صرف نشان دہی کی، ان پر غور کرنا اب تحریک انصاف کا کام ہے۔ نواز لیگ نے پھر وہی اپنے پرانے رویے کا اظہار کیا جوکہ ان کا وتیرہ بن گیا ہے، اگر بڑا دل کرکے تحریک انصاف کو موقع دیتے تو اس میں ان کی بڑائی ہوتی، مگر تحریک انصاف کو بھی اب پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے، اگر وہ (ن) لیگ کی اشتعال انگیزی کا اسی طرح جواب دیتے رہے تو پھر اسی میں الجھے رہیں گے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اشتعال دلانے والی باتوں پر کسی بھی طرح غصے میں نہ آئیں کیونکہ وہ اس قسم کی باتیں آیندہ بھی کرتے رہیں گے۔

تحریک انصاف کے عہدیداروں بشمول گورنرز، اسپیکر، ارکان اسمبلی کو چاہیے کہ وہ تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، اب زیادہ شائستگی، مزاج میں ٹھنڈک، وسعت قلبی اور اپنے کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس طرح سے ہی تحریک انصاف اپنے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ورنہ تو اسمبلی میں روز ہی یہ ہنگامہ ہوگا کہ عمران کی پہلی تقریر کو ہی شور شرابے نے بدل کر رکھ دیا اور عمران خان غصے میں آکر تحمل کا مظاہرہ نہ کرسکے اور جو (ن) لیگ والے چاہتے تھے اس پر عملدرآمد کر بیٹھے۔ جو ہونا تھا وہ ہوگیا، مگر اب بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک اچھی مثال جو موجودہ حکومت نے کی وہ بھی ایک نئی طرز ہے کیونکہ اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی حلف برداری کی تقریب میں لاکھوں کروڑوں کے اخراجات ہوئے مگر موجودہ حکومت نے صرف پچاس ہزار کی قلیل رقم میں اس پروقار تقریب کا انعقاد کیا، اگر اسی طرح سے موجودہ حکومت اپنے وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی رہی تو امید ہے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا اور یہی حقیقی ترقی ہوگی۔
Load Next Story