نئے حکمرانوں کا استقبال

اٹھارہ بیس کروڑ پاکستانیوں کو نئی حکومت مبارک ہو۔ وہ اپنی اس حکومت کا پر جوش استقبال کرنے بیٹھے ہیں تو کھڑے ہوجائیں...


Abdul Qadir Hassan May 24, 2013
[email protected]

اٹھارہ بیس کروڑ پاکستانیوں کو نئی حکومت مبارک ہو۔ وہ اپنی اس حکومت کا پر جوش استقبال کرنے بیٹھے ہیں تو کھڑے ہو جائیں ،کھڑے ہیں تو نعرے لگانے شروع کر دیں تا کہ ان کے نئے حکمران ان کے وجود سے باخبر ہو جائیں اور گزشتہ حکومت کی طرح پورے پانچ برس تک یعنی اپنی آئینی عمر کے برابر ان کو مسلسل رگڑا نہ دیتے رہیں، اس حال میں کہ ان پورے پانچ برسوں میں اس حکومت کی کوئی اپوزیشن نہ ہو، مولوی مسٹر سب اس کے ساتھ ہوں اور اسے من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دے دیں۔

پاکستان کی ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں ایسا تماشا کسی نے نہیں دیکھا کہ حکمران اور حکومت سے باہر لوگ سب مل کر عوام کی ایسی تیسی کرتے رہیں اور اس کے خلاف سیاسی دنیا پر ایسا سکتہ طاری رہے کہ کوئی چوں تک نہ کرے۔ یہ تاریخی واقعہ پولیٹکل سائنس دانوں کا غور کے قابل ہے کہ کیا آج کی دنیا میں ایسا بھی ہو سکتا ہے اور جب ہوتا ہے تو پھر کیوں ہوتا ہے۔ اس شعبے کے طلبا کو اس موضوع پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھ کر آنے والی نسلوں کو اس تاریخی عجوبے سے آگاہ کرنا چاہیے کہ یوں بھی ہو سکتا ہے۔

بہر کیف یہ تو ہو گیا اور ببانگ دہل ہوتا رہا۔ تعجب ہے کہ یہ قوم اور اس کے لیڈر الیکشن پر کیوں راضی ہو گئے اور انھوں نے اقتدار کو آپس میں تقسیم کیوں نہ کر لیا، الیکشن کی زحمت اور بہت مہنگی مصروفیت میں کیوں پھنس گئے۔ میرے خیال میں یہ مظلوم عوام کے کسی گروہ کی فریاد تھی جو خدا نے سن لی اور حکمرانوں کو الیکشن میں پھنسا دیا لیکن یہ اس آزمائش سے صحیح و سلامت نکل آئے اور ایک بار پھر ''منتخب'' ہو کر ہمارے حکمران بن رہے ہیں۔

وہی پرانے لوگ ہیں یا ان کے نئے بھانجے بھتیجے وہی پرانی سیاست اور پرانے جال لے کر میدان میں ہیں اور لوگوں کو پھنسا رہے ہیں اور اقتدار ان کی حویلی میں کسی کھرلی پر باندھ دیا گیا ہے۔ جو ہونا تھا وہ تو مختصراً عرض کر دیا ہے اور میرا قلم بھی ان نئے حکمرانوں کے پرجوش استقبال کے لیے تیار ہے۔ عوام کے جلو میں نعرہ زن ہے۔ ہمارے گاؤں کے اسکول میں جب محکمہ تعلیم کے افسروں نے ایک بار آنا تھا تو اسکول کے اونچے برآمدے پر فارسی کا ایک شعر لکھا گیا جس کا ایک مصرع مجھے اب تک یاد ہے اور وہ تھا ع اے آمد نت باعث آبادیٔ ما۔ کہ آپ کی تشریف آوری ہمارے لیے آبادی و خوشحالی کا پیغام ہے۔

ہم سب پاکستانی اپنی پیشانیوں پر یہی مصرع لکھ کر حاضر ہیں۔ اس انتظار میں ہیں کہ ایک بار حکومت جم کر بیٹھ جائے تو ہم اپنی قوالی شروع کر دیں۔ ملک کے وزیر اعظم وزرائے اعلیٰ وغیرہ کی آمد میں اب صرف چند دن باقی ہیں اور ہم جہاں ہیں وہیں اپنا اپنا جشن منانے کی تیاری کر رہے ہیں، اس امید پر کہ آپ کی آمد ہماری آبادی و خوشحالی کا پیغام ہو گی ورنہ ہم صبر و شکر اور خاموشی میں اپنی مثال آپ ہیں، ہم نے اس کی تاریخ لکھ دی ہے البتہ مجھے متوقع وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے کچھ توقعات ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے موڈ میں رہتے ہیں جیسے موٹروے جس نے میرا تو زندگی کا راستہ ہی بدل دیا ہے۔

میں اب وادی سون میں کلر کلہار کے انٹر چینج راستے سے داخل ہوتا ہوں، پہاڑوں کے پر بیچ راستے اب رفتہ رفتہ خواب ہوتے جا رہے ہیں اور پہاڑی کا وہ چھوٹا سا راستہ جیسے کسی نے کبھی پہاڑ کاٹ کر بنایا تھا ایک چھوٹے سے پہاڑی سڑک کے موڑ پر آتا ہے اور دادا گولڑہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دادا گولڑہ ہم اعوانوں کے کوئی بزرگ تھے، راولپنڈی کے قریب گولڑہ شریف بھی انھی کے نام پر ہے اور اس قصبے میں بھی اعوان آباد ہیں جو ملک وغیرہ نہیں خان کہلواتے ہیں۔

اس موڑ سے جب بس گزرنے لگتی ہے تو کوئی نہ کوئی کہتا ہے کہ سر ڈھانپ لیں، اچانک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آئیں گے۔ یہ جھونکے وادی سون کے ہوتے ہیں لیکن میاں نواز شریف کے موٹروے نے راستہ بہت ہی کھلا کر کے ان جھونکوں کو تتر بتر کر دیا ہے، اب آپ وادی سون میں کسی پہاڑی گلے سے نہیں گزرتے، ایک بڑی کھلی سڑک پر سے گزرتے ہیں اور تھوڑی دور وادی سون کے سبزہ زار وادی پہاڑ سامنے آ جاتے ہیں۔

میاں نواز شریف جن کی وزارت عظمی اب پکی دکھائی دیتی ہے، ہم نے اپنے عزیز ترین دوستوں کو بھی بتا دیا ہے کہ آپ کا جانا پہچانا یہ پاکستانی سیاستدان ہمارے مستقبل کا وزیر اعظم ہو گا جیسے اپنے ملک کے آپ ہیں۔ میں میاں صاحب کی خدمت میں کچھ عرض کرنے کے لائق نہیں ہوں، ایک کمزور سا کالم نویس لیکن اتنی عرض کروں گا کہ وہ ان لوگوں سے خبردار رہیں جو ماضی میں آپ سے غلط فیصلے کراتے رہے اور اب پھر موجود ہیں۔ مثلاً یہی موٹروے خواہ مخوا ایک علاقے چکری سے موڑ کر لے جایا گیا۔

اس پر نہ جانے کتنا فالتو خرچ ہوا اور اب نہ جانے راستہ لمبا ہو جانے سے کتنا پٹرول زیادہ خرچ ہوتا ہو گا۔ اسی طرح ملک سنوارو کی قومی مہم میں ملک کے اندر اور باہر سے لمبی چوڑی رقم موصول ہوئی اس میں سے غیر ملکی کرنسی ضبط کر لی گئی، اس سے ایسی بد دلی پھیلی کہ اب کسی پاکستانی حکومت کو ایسی قومی فلاح کی جرات نہیں ہو گی۔ ایسے واقعے تو اور بھی بہت ہیں جو میاں صاحب کو خوب یاد ہیں، مہربانی کر کے وہ اپنی پیشانی پر نئی گرہیں ڈال لیں اور اپنی پرانی شرم و حیا والی پیشانی کو بدل دیں، بے رحم ہو کر اس ملک کا انتظام سنبھالیں اگرچہ افسوس کہ ان کی اسمبلی میں پرانا مال بہت ہے جو بے کار بھی ہے اور خطر ناک بھی۔

وہ اپنے کام کے لیے ماہرین ادھر ادھر سے لے لیں اور ان لوگوں کے مناسب وظیفے لگا دیں کہ ان کی زبانیں انھیں چاٹتی رہیں، میاں صاحب کو جو اسمبلی ملی ہے وہ شاید ان کا ساتھ نہ دے سکے اس لیے وہ محتاط رہیں۔ مجھے اب میاں شہباز یاد آ رہے ہیں جن کے پاس بہت سی وزارتیں تھیں اور ان کے مخالف اس کا بہت زیادہ گلہ کرتے تھے لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ ان کی اسمبلی میں ایسے لوگ شاذ و نادر تھے جو ان کی رفتار کا ساتھ دے سکتے، اس لیے انھوں نے سب کچھ اپنی جیب میں ڈال لیا۔ صورت حال جو بھی تھی اور جو بھی ہو گی اگر میاں صاحبان نے بے رحمی سے کام نہ لیا تو ان کی کامیابی پر حرف آئے گا۔

فی الوقت یہ بات کرنے کا موقع شاید نہیں ہے لیکن میاں صاحب واہگہ کی اس طرف پاکستان کی سمت زیادہ دیکھیں تو ان کی مہربانی ہو گی۔ ابھی جناب عمران خان کا ذکر باقی ہے جو ہماری نئی سیاست کا ایک بہت تعجب انگیز واقعہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں