سرمایہ داری کی حقیقی شکل

بورژوا دانشور حضرات کہتے ہیں کہ ’’یہی تو ہے جمہوریت کی خوبی، شکست کو تسلیم کرتی ہے اور جہاں...


Zuber Rehman May 24, 2013
[email protected]

بورژوا دانشور حضرات کہتے ہیں کہ ''یہی تو ہے جمہوریت کی خوبی، شکست کو تسلیم کرتی ہے اور جہاں اعتراض ہے وہاں اپنے جمہوری حق کو استعمال بھی کیا جاتا ہے''۔ ن اور ق لیگ کا ایسا جھگڑا چل رہا ہے جیسا کہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں جب کہ بلوچستان میں ق لیگ نے ن لیگ کی حکومت سازی کی حمایت کی ہے۔ ایک جانب مذہبی جماعت، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی سے مل کر حکومت بنانے جارہی ہے جب کہ پختونخوا میں اس کی کوشش شروع ہوتے ہی وزارت پر شدید اختلاف شدت اختیار کرگیا ہے۔

دوسری جانب ایک اور مذہبی جماعت جے یو آئی نے پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ تحریک انصاف پنجاب اور کراچی میں جدید تبدیلی جب کہ خیبر پختونخوا میں مذہبی حکومت اور لوئر دیر، شانگلہ، شام وغیرہ میں پی ٹی آئی، اے این پی اور پی پی پی سمیت 10 جماعتوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ معاہدہ کیا کہ خواتین ووٹ نہیں ڈالیں گی جب کہ دوسرے صوبوں اور علاقوں میں پی ٹی آئی کی خواتین لبرل کہلواتی ہیں اور پختونخوا کی خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے پر پی ٹی آئی کوئی احتجاج کرتی ہے اور نہ کوئی مظاہرہ، یعنی کہ پشتون خواتین پر ہونے والے جبر کو تسلیم کرلیتی ہے۔ اس عمل میں پی پی پی، اے این پی اور پی ٹی آئی کا زیادہ منافقانہ کردار ہے۔ اسی کو کہتے ہیں ''سرمایہ دارانہ موقع پرستی''۔ بیگم نسیم ولی خان، فریال تالپور اور شیریں مزاری ووٹ ڈال سکتی ہیں لیکن یہی پارٹیاں لوئر دیر، شانگلہ اور بشام وغیرہ میں خواتین کو ووٹ نہ ڈالنے کا حکم نامہ جاری کرتی ہیں۔

ادھر لیاری کے انتخابات پر ایم کیو ایم کا پی پی پر اعتراض اور ان کے خلاف پریس کانفرنس جب کہ دوسری جانب سندھ میں اسی پی پی پی کے ساتھ حکومت میں شریک ہونے جارہی ہے۔ ادھر پنجاب میں دھاندلی کے خلاف پی ایم ایل این کے خلاف پی ٹی آئی کا احتجاج اور دوسری جانب پختونخوا میں پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی کھلی چھوٹ، ایک جانب مسلم لیگ (ن) کا جے یو آئی سے کے پی کے میں حکومت تشکیل دینے سے گریز تو دوسری جانب جے یو آئی کو مرکزی حکومت میں شرکت کی دعوت۔ یعنی ساری جماعتیں ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں، جو بالکل درست ہے جو جہاں زور آور ہے اس نے وہاں دھاندلی کی ہے۔ بلوچستان میں بمشکل 5 فیصد ووٹ پڑے جب کہ گزشتہ تین انتخابات کے اوسط ووٹ 41.6 فیصد تھے (سرکاری حساب سے) جب کہ حقیقت میں 10 سے 15 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں پڑے۔ باقی ٹھپہ ووٹ ڈالے گئے ۔ اس بار تو ٹھپہ ووٹوں کے تمام ریکارڈز توڑ دیے گئے۔

200، 250 اور 325 فیصد ووٹ پڑنے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی ایک ایک آدمی دو دو اور تین تین ووٹ ڈالے۔ جنرل ضیا الحق 90 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، مگر ووٹ پڑے تھے 22 فیصد (سرکاری حساب سے)۔ کل ڈالے جانے والے ووٹوں میں سے اگر 90 فیصد ووٹ لے بھی لیے تو 88 فیصد لوگوں نے ووٹ ہی نہیں ڈالا۔ اسی طرح اس بار پاکستان میں 15 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں پڑے جب کہ باقی ووٹ 45 فیصد فرشتوں نے ڈالا۔ یعنی 85 فیصد شہریوں نے ووٹ ہی نہیں ڈالا۔ ایک ووٹر کو دو ووٹ ڈالنے پڑتے ہیں۔ اس عمل میں کم ازکم 10 منٹ درکار ہوتے ہیں جب کہ کراچی میں کل ڈالے جانے والے ووٹ کو اوقات کار سے تقسیم کردیا جائے تو 30 سیکنڈ میں ایک ووٹ پڑا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیادہ ووٹ ڈلوانے کی خواہش کیوں؟ اس لیے کہ یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ نظام (سرمایہ داری) ابھی ناکام نہیں ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی سرمایہ داری کو قائم رکھنے کا واحد ذریعہ ہے یا پھر فوجی آمریت۔

آج عالمی سرمایہ داری کی انحطاط پذیری کے دور میں آمریت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی اور اسمبلی سب سے اچھا تجارتی مرکز ہے۔ پتیلی چور جیلوں میں ہوتے ہیں اور اربوں روپے ہڑپ کرنے والے اسمبلی میں۔ ایم اے پاس کرکے نوکری نہیں ملتی تو دوسری جانب جعلی سندوں سے اسمبلی میں پہنچ کر ارب پتی بن جاتے ہیں۔ تو پھر ایسی تجارت کیوں نہ کی جائے جہاں منافع زیادہ ہو۔ امریکا میں بھی جس صدر کو زیادہ تعداد میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حمایت اور معاونت حاصل ہوتی ہے وہی نامزد ہوتا ہے اور منتخب بھی۔ میکسیکو کا بائیں بازو کا صدارتی امیدوار جیت کر بھی ہار جاتا ہے۔

اس کی حمایت میں تاریخ ساز 50 لاکھ کے احتجاجی مظاہرے کی شنوائی نہیں ہوتی جب کہ جہاں چند حلقوں اور اسٹیشنوں کی دھاندلی پر ازسر نو انتخابات کی منظوری ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ یہاں ''لو اینڈ ہیٹ'' والے فارمولے پر عمل ہوتا ہے۔ یہاں سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کہیں اسلامی، کہیں قوم پرستی، کہیں جمہوریت، کہیں سوشل ڈیموکریسی، کہیں لبرل، کہیں سیکولر، کہیں خلافت تو کہیں شریعت وغیرہ کے نعرے دیے جاتے ہیں۔ مگر عالمی سرمایہ داری کے خلاف غیر طبقاتی نظام اور نسل انسانی کی برابری کے معاشرے کی تشکیل کا نعرہ کوئی نہیں دیتا ہے۔ ہر ایک آئین، قانون اور جمہوریت کی بات کرتا ہے لیکن آٹا سستا کرنے کی بات کوئی نہیں کرتا ہے۔ جالب نے خوب کہا ہے کہ ''آٹا مہنگا بکے کیے جاؤ تقریر، خون بہتا رہے کیے جاؤ تقریر۔۔۔۔۔ کوئی سنے یا نہ سنے کیے جاؤ تقریر''۔

افغانستان میں 1978 میں 28 اپریل کو سامراج مخالف انقلاب آیا۔ جہاں جاگیرداری ختم کرکے زمینیں کسانوں میں بانٹ دی گئیں، سود کے نظام اور ولور (بردہ فروشی) کو جرم قرار دیا گیا، تعلیم کی شرح 40 فیصد تک جا پہنچی مگر یہ تبدیلی سامراج کو نہیں بھائی، وہ ملاؤں کی مدد سے ردانقلاب لایا اور اب افغانستان میں غیرملکی افواج افغان عوام کا قتل عام کر رہی ہیں ۔ افغانستان میں غیرملکی سامراج کی افواج کی موجودگی کے خلاف نیٹو فوج پر، سرکاری اہلکاروں پر اور اسلحے کے کنٹینرز پر حملے کرنا غیرملکی قابضین کے خلاف نفرت کا برملا اظہار ہے۔ اس میں تقریباً 43 تنظیمیں شامل ہیں جس میں انقلابی، مذہبی، قوم پرست، کمیونسٹ، سوشلسٹ اور انارکسسٹ سبھی ہیں، لیکن طالبان کی جانب سے افغانستان اور پاکستان میں لڑکیوں کے سیکڑوں اسکولوں اور کالجوں کو تباہ کرنا، لڑکیوں کے اسکول میں پینے کے پانی میں زہر ملانا، خواتین کو ووٹ ڈالنے اور ریلی نکالنے کی اجازت نہ دینا، عورتوں کو غلام، جاہل اور بے بس بنانے اور ان کے ساتھ حیوانیت سوز بھیڑیوں کے برتاؤ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

یہ عمل پہلے ساری دنیا میں ، امریکا، یورپ، افریقہ اور ایشیا میں ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ چند ملکوں تک محدود رہ گیا ہے جن میں افغانستان، پاکستان کے پختون بولنے والے علاقوں اور عرب بادشاہتوں میں یہ مظالم موجود ہیں۔ Love & Hate کی کچھ اور کہانی سنیں! گزشتہ دنوں جے یو آئی کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ''ہم نے امریکا کو بتا دیا کہ کے پی کے میں پی ٹی آئی مینڈیٹ کو میں نہیں مانتا''۔ آخر یہ بات امریکا کو ہی کیوں بتائی؟ یہ بات وینزویلا، بولیویا، کوریا، کیوبا، ارجنٹینا، ایکواڈور، پیراگوئے، بیلاروس اور نیپال کو کیوں نہیں بتائی؟ اس لیے کہ یہ ممالک سامراج مخالف ہیں اور امریکا ان سے بات کرنے پر مولانا سے ناراض ہوجائے گا۔ انتخابات سے قبل نواز شریف، فضل الرحمن اور عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف بہت تقریریں کی ہیں۔ گزشتہ دنوں پینٹا گون نے واضح کردیا ہے کہ ''ہماری پالیسی تبدیل نہیں ہوگی'' ڈرون حملے جاری رکھیں گے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق خصوصی فوجی آپریشن کے بارے میں نائب وزیر دفاع مائیکل شی ہان نے سینیٹ کی کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ ''القاعدہ کے خلاف جنگ مزید 20 سال جاری رکھی جاسکتی ہے، امریکا دنیا کے کسی بھی حصے میں دہشت گردوں کو ہدف بناسکتا ہے، چاہے وہ شام میں ہی کیوں نہ ہو''۔ حکومت بدلنے سے ریاستی اداروں کے سربراہان اور اکابرین بھی بدلتے ہیں۔ ابھی تو بجٹ آنا ہے، اس سے قبل ہی آٹے کی قیمت میں اوسطاً 2.7 روپے فی کلو کا اضافہ کردیا گیا ہے جب کہ بجلی کے نرخوں میں یکم جون سے 1.55 روپے فی یونٹ اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سال بھر کا افراط زر 4.57 روپے ہوا ہے۔ سرمایہ داری کی اس انحطاط پذیری کو روکنا ان حکمرانوں کے بس میں نہیں۔ یہ جو 85 فیصد لوگ ووٹ نہیں ڈالتے یا جو ووٹ ڈال ڈال کر تنگ ہوگئے ہیں وہی اصل اکثریت ہیں اور ان ہی کو اس ملک میں اور دنیا بھر میں غیرطبقاتی معاشرے کے قیام کے لیے انقلاب لانا ہوگا اور امداد باہمی اور غیر ریاستی عوامی راج قائم کرکے ہی عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ باقی سارے راستے دھوکے، فراڈ اور سراب ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔