پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے ناگزیر… آخری حصہ
26 اپریل 1995 کے قومی اخبارات میں ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی، اس رپورٹ میں اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے...
KARACHI:
26 اپریل 1995 کے قومی اخبارات میں ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی، اس رپورٹ میں اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر بشیر اے ملک نے انکشاف کیا کہ مستقبل میں پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔ پانی کی قلت پاور اور کاشتکاری پر مضر اثرات مرتب کرے گی، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ پاکستان میں غذائی قلت وسیع پیمانے پر سر اٹھائے گی۔ لہٰذا تربیلا اور منگلا کی کم ہوتی ہوئی صلاحیت کے پیش نظر ہمارے پاس نئے ڈیم کی تعمیر کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں، تمام دنیا اس وقت ترقی کی طرف جارہی ہے، بھارت دریائے راوی پر کئی ڈیم تعمیر کررہا ہے، ادھر چین میں 45 سے زائد نئے ڈیم زیر تعمیر ہیں جب کہ ہم نے 40 سال کے لگ بھگ کے عرصے میں آبپاشی اور برقی توانائی کے حصول کے لیے کسی ایک ڈیم کی بھی پلاننگ نہیں کی، پنجاب ملک بھر میں پیدا ہونے والی گندم کا 75% حصہ پیدا کرتا ہے، پنجاب دوسرے صوبوں کو 2 ملین ٹن سے زیادہ گندم فراہم کرتا ہے، علاوہ ازیں پاکستان کو ہر سال بھاری زرمبادلہ خرچ کرکے بیرون ملک سے بھی گندم برآمد کرنا پڑتی ہے۔
1975 کے تخمینے کے حساب سے 10 ملین ہیکڑ سیراب ہونے والی زمین 20 سال میں 12 ہیکڑ ہوگئی ہے اور 94 میں اس میں 19.3% ایک ہی سال بعد پہلی مرتبہ کم ہوکر 11.51 ملین ہیکڑ ہوگئی، 23 فیصد کے حساب سے ہونے والی اس کمی کے نتیجے میں یہ مسلسل کمی ہمارے ڈیموں میں گاد بھرنے کے نتیجے میں ان کی صلاحیت کم ہونے کی وجہ ہے، نہروں سے سیراب ہونے والی اراضی کی مقدار ہر برس اسی تناسب سے کم ہوتی رہی تو ہر آدمی باآسانی حساب لگا سکتا ہے کہ آیندہ چند عشروں کے بعد ہمارا نظام آبپاشی بالکل ہی غائب ہوجائے گا، جب کہ ہماری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور خوراک کے ذرایع کم ہورہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ملک کے غریب عوام کو کھانے کے لیے کافی دشواریاں ہوں گی۔
بعض عناصر جو کالاباغ ڈیم کی مخالفت کررہے ہیں ان کو مثبت سوچ اپنا کر علاقائیت اور صوبائیت کے خول سے نکل کر اپنے آپ میں ملک کے متعلق سوچنے کی صلاحیت بیدار کرنی چاہیے، جب یہ لوگ اعلیٰ ظرفی اور قومی سوچ کا مظاہرہ کریں گے تو پھر ملکی ترقی کے منصوبوں کے متعلق خود بخود سوچ پیدا ہوگی۔
یہاں تو اصل حقائق سے چشم پوشی کرکے پینترے بدلنے والے سیاست دان کوئی ٹھوس اور جامع منصوبہ بنانے کے برعکس فارمولے بنانا شروع کردیتے ہیں اور کچھ متوقع حکمرانی کے دعویداروں کا کہنا ہے کہ ہم اقتدار سنبھالنے کے چند مہینوں بعد لوڈ شیڈنگ ختم کردیںگے، لیکن ڈیم بنانے پر ان کا موقف بھی واضح نہیں ہے۔ کہنے کو تو ہمارے ملک میں بجلی کی جتنی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ بجلی بنانے کی صلاحیت موجود ہے لیکن بعض حکومتوں نے اتنے غلط پلان بنائے کہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے تیل پر انحصار کیا گیا، حالانکہ اس کا زیادہ حصہ درآمد کرنا پڑتا ہے، شروع میں تو کام چل گیا لیکن جوں جوں تیل کی قیمت بڑھتی گئی توں توں معاملہ خراب ہونے لگا۔
آپ اس سے اندازہ کرلیں کہ 1990 کی دہائی میں فرنس آئل جس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے صرف 2 ہزار روپے ٹن کے حساب سے مل جاتا تھا اور اب یہ 70 ہزار روپے کی حد کو بھی پار کرچکا ہے، خصوصاً پرویز مشرف کی حکومت نے اپنا فیصلہ برقرار رکھنے کے لیے اپنے آخری سال میں نہ تو تیل کی قیمت میں اضافہ کیا اور نہ ہی بجلی کی۔ یوں حکومت نے سارا بوجھ خود اٹھا کر پوری قوم کی عیش کرادی، تیل مہنگا ہونے کی وجہ سے یا تو پلانٹ بند رہتے ہیں یا جزوی طور پر چلتے ہیں، اس لیے نو دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے، جو کہ کل مصرف کا نصف ہے تو اس صورتحال کے پیش نظر وہی ہوگا جو کبھی سر منڈھوا کر اور کبھی گدھوں پر بیٹھ کر لوڈ شیڈنگ اور بے روزگاری کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں اور کبھی ٹائر جلا کر، اور تو کچھ حاصل نہیں مگر ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کے اور جلے ٹائروں کا دھواں سونگھنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں۔ تیل کا متبادل پانی ہے لیکن اس سلسلے میں ہماری پروگریس بڑی کمال کی ہے، کالاباغ ڈیم کو سیاست دانوں نے صرف سیاسی مفاد کی خاطر متنازع بنادیا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے سیاسی زیروز کو سیاسی ہیروز کا درجہ دیا ہوا ہے، اگر سیاسی ہیروز سوچیں تو قدرتی آفات اور قحط سے بچنے کے لیے آبی ذخائر کی تعمیر اور ان سے سستی بجلی ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ ہم بجلی کی پیداوار کا 80 فیصد آئل اور گیس سے پیدا کرتے ہیں جس سے برآمدات کا 50 فیصد سے زیادہ خرچ ہورہا ہے، ادھر کپاس سے متعلق انڈسٹری بند ہوچکی ہے، فیصل آباد جیسے صنعتی شہر میں ٹیکسٹائل کا حشر نشر ہوچکا ہے اور لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں اور کالاباغ ڈیم پر حکومت کی خاموشی سے سالانہ 132 بلین کا نقصان ہورہا ہے، اس ڈیم سے سالانہ 12 بلین یونٹ بجلی انتہائی سستے ریٹ پر فی یونٹ حاصل کی جاسکتی ہے، اس کے برعکس بجلی کی پیداوار کے لیے 132 ملین سالانہ تیل پر خرچ کیے جارہے ہیں۔
بلاشبہ ہمارے ملک میں قدرت نے بے انتہا آبی وسائل عطا کیے ہیں، ان بے ضرر اور سستے ذرایع کو تیل، گیس اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر ترجیح دینی چاہیے۔ جس کے لیے قومی اتفاق رائے، باہمی اعتماد اور دور اندیشی بے حد ضروری ہے، اس وقت اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے قومی یکجہتی کی جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی اور اب جب پاکستان کو بجلی، خوراک اور بیروزگاری کے بحران کا سامنا ہے اور مستقبل میں اس بحران میں مزید شدت کا امکان ہے تو مقتدر قوتوں کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔