توانائی کا بحران نئی حکومت کا کڑا امتحان
ایک طرف دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے تو دوسری طرف بجلی کی لامتناہی...
ایک طرف دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے تو دوسری طرف بجلی کی لامتناہی اور بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ عروس البلاد کراچی میں بجلی کی دس دس گھنٹے طویل لوڈشیڈنگ کے مارے عام شہریوں کا براحال ہے۔ ایک تو مئی کی قیامت خیز گرمی اور اوپر سے پے در پے بجلی کی لوڈشیڈنگ مرے پر سو درے کے مترادف ہے۔ غیرعلانیہ بار بار اور طویل المدت لوڈشیڈنگ نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ مسلسل لوڈشیڈنگ کے باعث جنریٹرز اور یو پی ایس نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
دوسری جانب اعلیٰ ثانوی بورڈ کراچی کے تحت ہونے والے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ اور امتحانی مراکز پر جنریٹرز کا نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے بے چارے طلبا کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ روز شدید احتجاج کرتے ہوئے سڑک بلاک کردی جس کے نتیجے میں ٹریفک جام ہوگیا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ نگراں وزیر برائے بجلی و پانی مصدق ملک کو نہ صرف اپنی ناکامی اور بے بسی کا اعتراف کرنا پڑا بلکہ یہ تک کہنے پر بھی مجبور ہونا پڑا کہ انھوں نے پانی اور بجلی جیسا کرپٹ محکمہ نہیں دیکھا۔
ایک پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے کہا کہ اس وزارت میں نہ صرف چور بازاری ہوتی ہے بلکہ سرکاری تھرمل پاور پلانٹس کا تیل چرایا جاتا ہے اور بجلی پوری کی جاتی ہے جس میں ان کے بقول تقسیم کار کمپنیاں بھی ملوث ہیں۔ دریں اثناء نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے ملک بھر میں جاری بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزارت خزانہ کو مطلوبہ فنڈز جاری کرنے کی فوری ہدایت کردی ہے تاکہ لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں مزید اضافے کو روکا جاسکے۔ انھوں نے کہا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو تیل کی فراہمی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر منظر خورشید نے حالیہ دنوں میں بجلی کی طویل اور غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف پرزور احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ لوڈشیڈنگ سے جہاں ایک جانب عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے وہاں دوسری جانب کاروباری سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہروں میں 12 سے 15 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ صنعت کو تباہ کر رہی ہے۔ کیسا المیہ ہے کہ اکیسویں صدی میں جب کہ دنیا کے بیشتر ممالک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں وطن عزیز تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے اور پتھر کے دور کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ اقوام عالم کی قابل رشک ترقی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ انھوں نے ترقی اور خوشحالی کے تمام منصوبوں میں توانائی کے وسائل کی فراہمی اور ذرایع کے بھرپور استعمال کو بنیادی اہمیت دی ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے موجودہ انقلابی دور میں بجلی کے وسیع تر استعمال کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور قومی ترجیحات میں اسے اولین درجہ دیا جاتا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک میں گزشتہ تین عشروں سے جاری بجلی کے روز افزوں سنگین بحران پر کسی بھی حکمراں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ غفلت اور مجرمانہ لاپرواہی کا عالم تو یہ ہے کہ آج تک یہ بھی طے نہیں ہوسکا کہ بجلی کے بحران کے بنیادی اسباب کیا ہیں اور بجلی کی پیداوار، تقسیم، لائن لاسز، بجلی کی چوری، انتظامی بے قاعدگیوں اور کرپشن کا اس میں کتنا عمل دخل ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب مرض کی تشخیص ہی نہ کی گئی ہو تو پھر اس کا علاج کیا خاک ہوگا۔
سچی اور کھری بات تو یہ ہے کہ ماضی کی تمام حکومتیں اس بحران کی برابر کی ذمے دار ہیں مگر ماضی قریب کی عوامی حکومت نے تو بجلی اور توانائی کے شعبے میں اس قدر بدعنوانی کی ہے کہ اس کے بجلی کے محکمے کے ایک وزیر جو بعد میں وزیراعظم کے منصب تک جا پہنچے، راجہ رینٹل کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ بجلی کے بحران کے معاملے میں پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی ناکامی کا اعتراف اس پارٹی کے نائب چیئرمین اور صدر مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ اتوار کی شب لاہور میں سیفما کے سینئر صحافیوں پر مشتمل وفد سے گفتگو کے دوران کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بجلی کا بحران ختم نہیں کرسکے جس کا الیکشن میں نقصان ہوا۔ ان کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ جب ہم آٹھ آٹھ گھنٹے بجلی نہ دے پا رہے ہوں تو پھر لوگ ہمیں کیوں ووٹ دیں گے۔ کاش! انھیں اپنی حکومت کی اس سب سے بڑی کوتاہی کا احساس بروقت ہوجاتا۔
دریں اثناء نگراں حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی بری خبر سنا کر عوام پر گویا بجلی گرادی ہے۔ غضب خدا کا ایک تو بجلی غائب اوپر سے اس کے نرخوں میں ہوش ربا اضافہ،جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوا۔ مرے کو مارے شاہ مدار اسی کو تو کہتے ہیں۔ نگراں حکومت نے جو محض چند دنوں کی مہمان ہے اس اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نگراں حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمت میں اضافے کے احکامات قابل قبول نہیں ہیں لہٰذا انھیں فوری طور پر واپس لیا جائے۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر احمد ملک کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے اور نئی حکومت پایہ تکمیل تک پہنچنے والی ہے، ایسی صورت حال میں نگراں حکومت کو بجلی کے نرخوں میں اضافے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
ہمارے خیال میں نگراں حکومت کا یہ فیصلہ بچہ سقہ کے حکومتی فیصلے کے مترادف ہے۔ انھوں نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں پانچ روپے سے زائد کے اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت توانائی کے بحران کے نتیجے میں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ یہ بات انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ بجلی کے بحران کی وجہ سے برآمداتی آرڈرز کی تکمیل بروقت نہیں ہورہی ہے، جس کی وجہ سے غیرملکی خریداروں نے اپنے آرڈرز منسوخ کرکے بھارت، بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں کو منتقل کرنا شروع کردیے ہیں۔
یہ امر انتہائی خوش آیند ہے کہ عنقریب قائم ہونے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت توانائی کے بحران کے سنگین مسئلے کو جنگی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے انتہائی سنجیدہ اور کمربستہ ہوگی جس کا عندیہ اس بات سے مل گیا ہے کہ (ن) لیگ نے اس سلسلے میں اپنی ابتدائی تجاویز مرتب کرلی ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ (ن) لیگ نے حال ہی میں بجلی کے بحران کے موضوع پر ایک خصوصی اجلاس بھی طلب کیا تھا جس میں (ن) لیگ کے سرکردہ رہنماؤں نے اپنے قائد میاں نواز شریف کی سربراہی میں ماہرین کے ساتھ مل کر اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لیا تھا۔ تیار شدہ ابتدائی تجاویز کے تحت بجلی کے واجبات کی ادائیگی سے متعلق زیرالتوا مقدمات کے فوری فیصلے کے لیے عدالتوں کو خطوط بھی تحریر کیے جائیں گے اور اس کے علاوہ لوڈشیڈنگ میں ممکنہ حد تک بتدریج کمی کے اقدامات بھی کیے جائیں گے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بجلی کی کمی کا مسئلہ ایک پرانا اور نہایت سنگین اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور مسلم لیگ (ن) کی نئی حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں ہوگا جس کے ذریعے اس مسئلے کو یکدم حل کرلیا جائے۔ اس کے لیے فوری نوعیت کی منصوبہ بندی کے علاوہ ایک جامع طویل المدت حکمت عملی درکار ہوگی جس میں پن بجلی اور تھرمل بجلی کے روایتی ذرایع کے علاوہ اس کے متبادل ذرایع کو بروئے کار لانا بھی شامل ہوگا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ کا حل تلاش کرنا (ن) لیگ کی نئی حکومت کا سب سے بڑا امتحان ہوگا۔
بعض تخمینوں کے مطابق بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے نئی حکومت کو تقریباً 10 بلین ڈالر کا سرمایہ درکار ہوگا اور اس سے تقریباً دگنا سرمایہ بجلی میں اضافے کے لیے ڈیم بنانے کے لیے درکار ہوگا۔ ہمارے قومی خزانے پر سرکلر قرضوں کی صورت میں پہلے ہی ایک بہت بڑا بوجھ موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ نئی حکومت کے پاس اتنا بڑا سرمایہ کہاں سے آئے گا۔ لامحالہ اس کے لیے اسے بیرونی ذرایع سے مدد حاصل کرنا پڑے گی۔ تاہم تھر کے کوئلے کے ذخائر بھی اس سنگین مسئلے کے حل کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں اس کے علاوہ بجلی کے متبادل ذرایع مثلاً ہوا اور شمسی توانائی بھی اچھے آپشنز میں شمار ہوں گے۔ اس کے علاوہ بجلی کی چوری اور لائن لاسز کی شکل میں بجلی کے ضیاع کا سدباب بھی آیندہ کی حکمت عملی کا ایک لازمی جزو ہونا چاہیے۔